وہ جب بھی اب جوان ہوتی اس بچی کو دیکھتا اور اس سے باتیں کرتا تو اُس افسوس اور پچھتاوے کی انتہا کا سوچ کر ہی خوف زدہ ہو جاتا تھا جو یہ فیصلہ نہ کرنے کی صورت میں اس کا مقدر بن جاتے ۔ بااختیار ہونے کے باوجود اپنے ہی خون کوکہیں رلتا چھوڑ کر وہ کبھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا تھا ۔اگر وہ ایسا کرتا تو مہیب ملال ایک آسیب کی طرح عمر بھر اس کا پیچھا کرتا ۔
وہ بہت پیاری بچی تھی۔ اس کے موہنی چہرے کے خدوخال اور گفتگو کے انداز میں دوسروں کی بھی شباہتیں عیاں تھیں۔ اس نے اپنا گھر دوست کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر لیا تھا ۔ اب بچی کی زندگی کا حصہ بننا اس کے لیے بے حد آسان ہو گیا تھا ۔ وہ اکثر ان کے گھر آ جاتی اور اپنے اسکول کی اور دوستوں کی کہانیاں اسے اور اس کی بیوی کو سناتی ۔ وہ اپنے اسائنمنٹس اور کلاس پراجیکٹس میں بھی اس کی مدد لیتی تھی ۔ بچی کے نزدیک وہ اس کے ماں باپ کا ایک بڑا قابلِ اعتبار اور معتبر فیملی فرینڈ تھا جس کی رائے پر اسے اعتماد تھا ۔ عمر کے ساتھ بچی کی دانش مندی اور مستقبل سے متعلق عزائم میں اضافہ ہوا تھا۔ اپنے شان دار گریڈز اور overall اکیڈمک پرفارمنس کی بنا پر اس کا داخلہ بہت اچھی یونیورسٹی میں ہو گیا تھا۔ کچھ اور عرصے میں اچھے گھرانوں سے اس کے لیے پیغامات بھی آنے لگے ۔ اس کے دوست نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کے مشورے کے بغیر وہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ اس بات کے لیے وہ اپنے دوست کا بے حد ممنون تھا۔
بچی کی اعلیٰ تربیت اور بہترین تعلیمی ریکارڈ دیکھ کر اس کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے تھے ۔ ماضی میں جو ہوا تھا سو ہوا لیکن نیو آرلینز میں کیے جانے والے ایک واحد فیصلے نے ان پچھتا ووں کی زہریلی کڑواہٹ کا کافی حد تک ازالہ کر دیا تھا ۔
٭….٭….٭
2 Comments
.Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.
its now fixed