ورثہ

امریکا کے شہر نیو آرلینز سے وہ ایک بے حد ضروری فون کال کا منتظر تھا ۔ یہ کچھ دنوں کا نہیں بلکہ کئی مہینوں کا بے چین انتظار تھا جو اب اختتام پر تھا ۔ ہر گزرتا لمحہ اس کے دل میں موجود بے نام اندیشوں اور اضطراب میں اضافہ کر رہا تھا ۔ اس کا ذہن مستقل اپنے فیصلے کے ممکنہ نفع اور نقصانات کو ہر زاویے سے جانچنے میں مصروف تھا لیکن اپنے دل کی گہرایوں میں اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ کسی بھی تجزیے اور سوچ و بچار کا کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ فیصلے کے صحیح یا غلط ہونے کا سوال تو وہاں ہوتا ہے جہاں ایک چیز کے علاوہ کسی دوسری چیز کے انتخاب کا اختیار بھی پاس ہو ۔ یہاں تو مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق کچھ بھی اور کرنے کا اختیار تھا ہی نہیں ۔
متوقع فون کال اگلی صبح بلاخر آ ہی گئی ۔ اس کال کے فوراً بعد اس نے امریکی ریاست کولاراڈو کے شہر ڈینور میں مقیم اپنے دوست کو فون کیا ۔ دونوں نے نیو آرلینز کی فلائٹس بک کروا لیں ۔ ان دونوں نے اسی دن چار بجے کے قریب آگے پیچھے ہی نیو آرلینز انٹرنشنل ائیرپورٹ پر پہنچنا تھا ۔انہیں امید تھی کہ اس ٹائم تک بچہ اس ایڈاپشن ایجنسی تک پہنچ چکا ہوتا جہاں انھیں جانا تھا ۔ صبح صبح اپنے پاس آنے والے فون پر وہ یہ پوچھنا ہی بھول گیا تھا کہ بچہ لڑکی تھی یا لڑکا لیکن اس بات سے اسے کوئی فرق پڑتا بھی نہیں ا تھا۔
دونوں دوست دوپہر ڈھلنے پر مقررہ وقت پر نیو آرلینز ائیرپورٹ، پھر ائیرپورٹ سے گاڑی رینٹ کر کے پانچ میل دور اس ایڈاپشن ایجنسی پہنچے جو اس ہسپتال سے منسلک تھی جہاں بچے کی پیدائش کچھ گھنٹے پہلے ہی ہوئی تھی ۔ ائیرپورٹ پر لینڈ کرتے ہے اسے ٹیکسٹ آ گیا تھا کہ وہ ایک بچی ہے ۔ اس کا دل ایک لمحے کو لرزا اور ساتھ ہی اس کے حوصلے کو بے پناہ تقویت پہنچی کہ اس نے بلا شبہ ایک بہترین فیصلہ کیا تھا ۔ اس کا دوست ایسے کسی اندیشوں کا شکار نہیں تھا ۔ وہ صرف خوش تھا ، بے حد مسرور ۔
”تم مجھ پر مکمل بھروسہ کر سکتے ہو۔“ اس نے اسے پچھلی کئی بار دی جانے والے تسلی ایک بار پھر دہرائی ۔
”میں اس بچی کی پرورش بالکل اپنی سگی اولاد کی طرح کروں گا۔“ اس کے دوست کو بچے کا لڑکا یا لڑکی ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔ جواب میں اس نے کچھ نہیں کہا، صرف خاموشی سے گاڑی چلاتا رہا ۔
”لیکن ایک بات مجھے بتاﺅ۔“ اس کے دوست کے ذہن میں اچانک خیال آیا۔
”وہاں اور بھی نوزائیدہ بچے ہوں گے ۔ تم اسی بچی کو کیسے پہچان پاﺅ گے؟ میرا مطلب ہے کم از کم مجھے تو تمام نوزائدہ بچے ایک ہی جیسے دکھتے ہیں۔“
وہ اپنے دوست کی سادہ لوحی پر محض مُسکرا کر رہ گیا ۔ اب وہ اسے کیا بتاتا کہ کوئی اپنے خون کو بھلا کس طرح نہ پہنچانتا؟
ایڈاپشن ایجنسی والوں کے پاس اس وقت پانچ نوزائیدہ بچے، نامعلوم اور بے نام طریقے سے گود لیے جانے کے لیے موجود تھے۔نرسری کے شفاف شیشے کی دیوار سے اندر دیکھتے ہوئے اس نے فقط ایک نظر میں ہی اسے پہچان لیا تھا۔ اس نے سنا تو تھا لیکن اب اسے یقین ہو گیا کہ خون واقعی خون کو کھینچتا ہے ۔ یہ تو محبت کی لازوال اور انمول ترین مثال ہوتی ہے ۔
اس کی نشان دہی پر اندر موجود نرس نے بچی کو نرم سفید دلائی میں لپیٹا اور باہر لا کر اس کے ہاتھوں میں تھما دیا ۔ اس کے دل کو ایک جھٹکا سا لگا اور آنکھوں کے سامنے نمی کی دھند آ گئی ۔ سو بچوں میں بھی وہ اپنے خون کو پہچان لیتا، یہ تو صرف پانچ تھے ۔ اس نے ہلکے سے بچی کے پھولے ہوئے گلابی گال کو چھوا ۔ بچی نے اپنی خوب صورت ، گہری بھوری آنکھیں کھول دیں اور انتہائی خاموشی اور سنجیدگی سے اپنے اوپر جھکے دونوں لوگوں کے چہرے کو دیکھنے لگی ۔ ایک چہرے پر دکھ کی گہری پرچھائی تھی اور ایک پر خوشی کی۔
بچی کو گود میں لیے اس کو پھر اپنے فیصلے کے درست ہونے کا یقین ہوا ۔ اگر وہ اس وقت یہ قدم نہیں اٹھاتا تو وہ بلا شبہ اپنی باقی زندگی ایک ایسی سولی پر ٹنگے ہوئے کاٹتا، جہاں ملال کا خنجر اسے جیتے جی دن میں کئی دفعہ مارتا اور بے غیرتی کا شدید احساس اس کی سانسیں روکے رکھتا۔ اب وہ بے شک اس کے اپنے گھر میں نہیں جا رہی تھی لیکن کم از کم اسے اتنی تسلی تو تھی کہ وہ قابل اعتبار ، ذمہ دار اور مشفق ہاتھوں میں تھی ۔ اس کا دوست بچی کے لیے ضرورت کی سب چیزیں لے کر آیا تھا ۔ نئے کپڑوں اور موزوں سے لے کر کار سیٹ تک ۔ ساری کاغذی کارروائیاں مکمل ہونے میں دو گھنٹے لگ گئے ۔ چوں کہ اس نے پورا process پہلے سے شروع کر رکھا تھا اسی لیے ساری معلومات خفیہ تھیں جس کے مطابق بچی کے اصل لواحقین اور گود لینے والے ایک دوسرے کے لیے نامعلوم رہتے۔
وہ اسی طرح کا کام چاہتا تھا ۔ نامعلوم افراد کی بچی گود لینے کا مقصد ہی یہی تھا ۔ جب تک اس کا دوست ساری کاغذی مکمل کرتا رہا، بچی اس کی گود میں ہی سوئی رہی ۔ اسے لگا جیسے وہ اس کا لمس پہچان گئی تھی ۔ وہ اس کے خوب صورت اور معصوم چہرے سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا ۔ وہ بے شک ایک سنگین غلطی کا نتیجہ تھی لیکن وہ بلا شبہ بے قصور بھی تھی ۔ وہ دونوں بچی کے ساتھ وہاں سے نکلے اور سیدھا ائیرپورٹ گیے جہاں سے اس کے دوست نے فورا ہی بچی کے ساتھ واپسی کی فلائٹ لے لی تھی ۔ وہ اس وقت تک وہیں کھڑا رہا جب تک اس کے دوست کا جہاز ٹیک آف نہیں کر گیا ۔ پھر اس نے بکنگ کاﺅنٹر پر جا کر اپنی بھی واپسی کی بکنگ کروا لی ۔ اس کے دل اور دماغ میں اس وقت احساسات کی طغیانی سی تھی جن میں سب سے زور آور احساس، ایک عظیم جدوجہد میں سر خروئی کا تھا ۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!