ورثہ

اس کی پیدائش اور پرورش امریکا کی ریاست انڈیانا کے ایک مضافاتی شہر میں ہوئی تھی ۔ وہ ایک خاموش اور کم آبادی والا علاقہ تھا جس میں گورے امریکن زیادہ اور دوسری جگہوں کی رہنے والے، باالخصوص مسلمان بہت کم تھے ۔ایک ہی بیٹی ہونے کے باوجود نذیر اور شازیہ عبید دونوں نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ مریم کی تربیت پر ان کے لاڈ پیار کے کوئی منفی اثرات نہ پڑ سکیں ۔ مضافات میں دوسرے شہر ان سے کافی دور واقع تھے اور مسلمان خاندان ویسے بھی گنتی کے تھے، لہٰذا سب سے ملاقاتیں بھی زیادہ تر عیدوں اور دوسرے تہواروں پر ہی ہو پاتی تھیں ۔اس علاقے کا اسلامک سینٹر بھی ان کے گھر سے دور تھا۔ نذیر عبید فطرتاً خاموش طبع تھے ۔ لہٰذا انہیں یہ پرسکون اور بڑے شہروں کے ہنگامے سے عاری ماحول پسند تھا ۔ نوکری بھی ان کی اچھی تھی۔ ان لوگوں کا پاکستان آنا جانا دو تین سال میں ایک مرتبہ ہی ہو پاتا تھا۔
مریم دسویں گریڈ میں تھی جب ایک پٹھان فیملی ان سے دو گلی چھوڑ کر شفٹ ہوئی۔ ملک خان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ جڑواں بیٹیاں مریم سے تین سال چھوٹی اور بیٹا زیدان خان اس سے دو سال بڑا تھا۔ وہ ہائی اسکول کے آخری سال میں تھا ۔ اس نے ایک دو مہینوں میں ہی پورے اسکول میں اپنی تعلیمی قابلیت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ زیدان خان کا اپنی آگے کی پڑھائی اور career کے بارے میں عزم قابل ستائش تھا جس کی بھنک مریم کو اپنے ماں باپ کے علاوہ اسکول کی دوستوں سے بھی ملتی رہتی تھی۔ یہ زیدان خان کی وجاہت سے زیادہ اس کی لیاقت ہی تھی جس نے مریم کی متجسس اور مشتاق فطرت کو اپنی جانب کھینچا تھا۔
چند ہی ہفتوں میں شازیہ کی زیدان کی ماں نیلوفر سے اور نذیر عبید کی ملک صاحب سے اچھی سلام دعا ہو گئی۔ دونوں فیملیز اکثر ایک دوسرے کے گھر ڈنر ، برنچ اور لنچ کرنے لگیں تھیں۔ ایک دوسرے کے اتنے قریب ایک مسلمان فیملی کا ہونا جن کے بچے بھی تقریباً ہم عمر ہی تھے، دونوں خاندانوں کو ایک آئیڈیل صورتِ حال لگی تھی ۔ زیدان اکثر اپنے آگے کے پلانز نذیر اور ملک خان کے ساتھ ڈسکس کرتا اور ان کی رائے بھی لیتا تھا۔ اس نے امریکہ کی بہترین یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے apply کرنا شروع کر دیا تھا۔ ادبی مزاج رکھنے والے نذیر عبید کو زیدان خان کا یہ ambition بے حد بھاتا تھا۔
”اس ملک میں مسلمانوں کی بہترین سرمایہ کاری، ان کی قابل اور پڑھی لکھی اولاد ہے ۔“وہ اکثر کہتے تھے۔ ملک خان بھی نذیر عبید کے اس نظریے سے سو فیصد متفق تھے۔
رائنا کی عمر میں مریم بھی ایک منچلی، پراعتماد، اور سوالات سے بھرپور، second generation پاکستانی امریکن تھی جس کی تسلی منطق سے ہی ہوتی تھی ۔ شازیہ کے دیے گئے جوابات اکثر اسے مطمئن کرنے میں ناکام رہتے تھے۔ ہائی اسکول میں آنے تک مریم کو اتنا تو اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ امریکا اتنا پھیکا، بدمزہ اور سنسان نہیں جتنا کہ وہ شہر جہاں اس نے اپنی ساری زندگی گزاری تھی ۔ اب زیدان خان کی اپنی متوقع یونیورسٹیز کے بارے میں گفتگو اور ان مشہور امریکی شہروں کی گہما گہمی کے قصے جہاں یہ یونیورسٹیز تھیں، گویا اسے ایک نئی دنیا دکھا رہی تھی جہاں جانا اس کے لیے بھی اتنا ہی ممکن تھا جتنا کہ زیدان کے لیے۔ کسی بہترین یونیورسٹی میں داخلہ لینا مریم کو اچانک ’رہائی‘ کا ایک ممکن راستہ نظر آرہا تھا۔
اس نے دونوں خاندانوں کی gatherings کے دوران مردوں کی گفتگو،خاص طور پر زیدان خان کے تبصروں میں ، زیادہ دل چسپی لینا شروع کر دی ۔ یہ بات چیت خواتین کے ما بین ہونے والی کسی بھی مذاکرے سے کہیں زیادہ تفریحی ہوتی تھی ۔ زیدان کے پاس اپنی گاڑی تھی جس میں وہ اپنی بہنوں کو ان کے اسکول چھوڑتا ہوا اپنے ہائی اسکول چلا جاتا تھا ۔ ان تینوں نے مریم کو بھی ساتھ لیتے جانے کی پیش کش کی ۔ اس بات کی اجازت دیتے ہوئے شازیہ شروع میں تھوڑی متذبذب تھیں لیکن زیدان نہ صرف سنجیدہ اور ذمہ دار تھا بلکہ اس کے گھر والوں سے ان لوگوں کا اچھا میل جول بھی تھا ۔ لہٰذا انہوں نے اسے پک اینڈ ڈراپ کی اجازت دے دی۔ رضامندی دیتے ہوئے شاید یہ ان کا اپنی تربیت پر اندھا اعتماد تھا جس نے ان کی نظروں سے مریم اور زیدان کی غیر پختہ اور حساس عمروں اور ماحول کے اثرات کو مخفی کر دیا تھا ۔ وہ یہ بھول گئیں کہ کچھ ہو نہ ہو ، زیدان ایک لڑکا اور ان کی بیٹی ایک بہت حسین لڑکی تھی ۔
گو کہ زیدان کی بہنوں سے بھی مریم کی اچھی دوستی تھی لیکن ایک ہی اسکول میں ہونے کی وجہ سے اس کی زیدان سے بھی گہری دوستی ہو گئی ۔ ایک ہی یونیورسٹی جا کر پڑھنے کا منصوبہ پھلتے پھولتے ایک دوسرے سے شادی بھی کرنے کے فیصلے تک پہنچ گیا ۔ انہوں نے اپنے یہ منصوبے کسی کو بتائے نہیں تھے۔ ان کا آپس میں اسکول پراجیکٹس اور اسائنمنٹس میں مدد لینے اور دینے کے بہانے بھی ایک دوسرے کے گھروں اور لائبریری میں کافی ٹائم گزرنے لگا ۔ اس سے بھی زیادہ جتنا کہ مناسب یا ضروری تھا۔
پھر زیدان کے لیے ان تمام یونیورسٹیز سے جوابات آنے شروع ہو گئے جہاں اس نے کچھ مہینے پہلے apply کیا تھا۔ حسبِ توقع اس کا داخلہ ملک کی کئی بہترین یونیورسٹیز میں ہو گیا تھا۔ اس کے پاں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔ اس کی پوری فیملی تو اس کی کارکردگی پر فخر کر ہی رہی تھی، ساتھ ہی مریم بھی بے انتہائی خوش تھی ۔ وہ زیدان کی کام یابی کو اپنے مستقبل کی تناظر میں دیکھ رہی تھی اور اس کی خوش حالی میں اسے اپنی خوش حالی نظر آ رہی تھی ۔
ان دنوں ملک خان اپنی پوری فیملی کے ساتھ زیدان کی یونیورسٹیز دیکھنے نیو یارک گئے ہوئے تھے، جب شازیہ، مریم کو زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں ۔مریم کا کچھ دن بعد ایک ضروری پراجیکٹ تھا۔ وہ ماں کی زبردستی سے سخت بے زار ہوئی۔
”امی جی میں بالکل ٹھیک ہوں۔“وہ شازیہ پر چڑی ۔
”آپ کو پتا ہے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا کتنا برا لگتا ہے۔“
”چاہے تمہیں برا لگے یا اچھا، جانا تو تم نے ہے۔“ شازیہ بھی اڑ گئیں ۔
”تم نے اپنی پڑھائی کو بہت سر پر چڑھا لیا ہے۔ کئی ہفتوں سے تمہاری شکل بھی اتری ہوئی ہے اور پیٹ بھی آئے دن خراب رہتا ہے۔“ شازیہ اس کی دن بہ دن خراب ہوتی صحت پر فکرمند تھیں۔

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!