ورثہ

لاس اینجلس کا موسم بے حد خوشگوار تھا۔ چمکیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور شہر کے گرد و پیش بکھری چھوٹی بڑی پہاڑیاں حالیہ بارشوں کی وجہ سے ہری ہو چکی تھیں۔ نذیر عبید نے اپنے گھر کے پچھلے لان میں امرود، انار، لیموں ، نارنجی، اور کڑی پتے تک کے جھاڑ لگائے ہوئے تھے۔ کیلی فورنیا ہی امریکا کی ان چند ریاستوں میں سے تھا جہاں کا موسم کئی ایسے پھلوں ، سبزیوں، اور پودوں کی مناسب افزائش کی اجازت دیتا ہے۔ رائنا اور عمر تو گرمیوں کی چھٹیوں میں نانا نانی کے گھر کے پھل خود سے توڑ کر کھانے کو بہت انجوائے کرتے ہیں۔
ان لوگوں کو وہاں پہنچے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ رائنا کو اپنی عینی باجی کی یاد ستانے لگی۔ وہ عینی سے ملنے بے چین تھی۔مریم بھی اس کے ساتھ چلی آئی ۔ حسبِ توقع عینی بھی رائنا کو دیکھ کر اتنی ہی خوش ہوئی تھی جتنا کہ رائنا۔ وہ رائنا کو بچپن سے دیکھ رہی تھی اور اسے پتا تھا کہ رائنا اس سے بہت متاثر ہے۔ امریکا میں نوعمر مسلمان بچوں کے لیے مثبت mentors کی اہمیت کا عینی کو اچھی طرح اندازہ تھا۔ وہ اپنے اسلامک سینٹر میں ہفتے میں ایک دفعہ رائنا کی عمر کی لڑکیوں کی میٹنگ بھی کرتی تھی جہاں لڑکیاں اپنے commonموضوعات پر ڈسکشن کرتی تھیں۔ سیاٹل میں رہنے کے باوجود رائنا، عینی سے رابطے میں رہتی اور اس بات کی مریم نے خاص طور پر بہت حوصلہ افزائی کی تھی۔
علی بھی عینی کا مداح تھا اور اکثر اس کی تربیت اور پختہ سوچ کی تعریف کرتا رہتا۔
”امریکا میں مسلمان لڑکے لڑکیوں کے لیے ہماری ہی کمیونٹی سے mentors ہونا انتہائی ضروری ہے۔“ وہ اکثر مریم سے کہتا :
” بچے ان سے ایسے بھی سوالات اور باتیں کرنے سے نہیں ہچکچاتے جن کے جوابات ضروری ہوتے ہیں لیکن جو وہ اپنے ماں باپ سے نہیں کر پاتے ۔“ اب مریم اسے کیا بتاتی کہ اس بات کی صداقت کو خود اس سے بہتر کون جان سکتا تھا۔
شمیم ان دونوں سے مل کر بہت خوش ہوئیں ۔ رائنا فوراً ہی عینی کی تلاش میں سیڑھیوں سے اوپر دوڑ گئی ۔ کیلی فورنیا میں کثیر تعداد میں پاکستانی مقیم تھے اور خوشی کے موقعوں پر ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہونے والوں یا دکھ کے موقعوں پر غم بانٹنے والوں کی کمی نہ ہوتی۔ فیملی روم کا سارا فرنیچر دیوار سے لگا ہوا تھا اور بیچ میں گوٹا لگی پیلی چادروں پر گاﺅ تکیے اور ڈھول پڑا تھا۔ ایک طرف خوب صورتی سے سجایا گیا تخت رکھا ہوا تھا۔ شمیم کی کچھ سہیلیاں اس وقت بھی وہاں موجود تھیں۔ کچن کے کاﺅنٹر پر ایک بڑی ڈھکی ہوئی ، شیشے کی بیضوی ٹرے دو تین طرح کی مٹھائیوں سے بھری ہوئی تھی۔
شمیم، مریم کا اپنی دوستوں سے تعارف کروا رہی تھیں کہ رائنا اچھلتی کودتی عینی کے ہمراہ نیچے آئی۔ رائنا کے ہاتھ میں جامنی اور زعفرانی رنگ کا جوڑا تھا۔ شفون کے کپڑے پر نہایت نازک کورے دبکے کا کام تھا اور ساتھ میں کمخواب کا چوڑی دار پاجامہ تھا ۔ شفون کے بڑے سے دوپٹے کی چاروں طرف بھی چوڑی سی بیل ٹکی ہوئی تھی ۔
”مما دیکھیں ! یہ عینی باجی نے میرے لیے لیا ہے شادی پر پہننے کے لیے۔“ رائنا کا چہرہ چمک رہا تھا۔ ایک تو اتنا خوب صورت جوڑا اور وہ بھی عینی باجی کی طرف سے، رائنا کی تو جیسے عید ہو گئی تھی۔ اس کا کھلکھلانا دیکھ کر کمرے میں موجود سبھی عورتیں مسکرا رہی تھیں ۔
”اور دیکھیں! ساتھ میں یہ بھی ہیں ۔“ اس نے فٹ سے ہاتھ میں پکڑے بیگ سے میچنگ پراندہ اور کھسے برآمد کیے ۔
”شمیم آنٹی ! یہ تو آپ نے بڑا تکلف کیا۔ “ مریم اتنا خوب صورت اور مہنگا تحفہ دیکھ کر شرمندہ سی ہو گئی۔ عینی اس کے ساتھ ہی بیٹھی تھی ۔
”ارے تکلف کیسا مریم آنٹی ؟“ عینی نے مسکرا کر رائنا کی طرف دیکھا جو اب احتیاط سے کپڑے تہ کرنے میں لگی تھی۔
”رائنا تو میری چھوٹی بہن کی طرح ہے اور امی نے تو یہ خاص طور پر اسی کے لیے بنوایا ہے۔“
”تمہیں پتا ہے عینی! رائنا تو ابھی سے سین ڈیاگو کی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا سوچ رہی ہے تا کہ تم سے قریب رہ سکے۔“مریم نے ہنس کر عینی کو بتایا ۔
”ہاں رائنا! تم بالکل یہی کرنا۔“ شمیم نے پیار سے رائنا کی طرف دیکھا ۔
”پھر تم کچھ سالوں میں عینی کے بچوں کی پہلے baby ستٹنگ کرنا اورپھر ان کی mentor بن جانا۔“ سب قہقہہ لگا کر ہنس پڑے ۔ رائنا ہاتھ میں گلاب جامن پکڑے بیٹھی تھی اور اسے یہ مشورہ بے حد بھایا۔
”زبردست آئیڈیا ہے شمیم آنٹی۔“ اس نے سنجیدگی سے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”اور ویسے بھی سین ڈیاگو میں بڑی پڑھی لکھی مسلمان فیملیز رہتی ہیں۔ میری شادی بھی وہیں پر آرام سے ہو سکتی ہے۔“ کمرے میں موجود سب لوگوں کا قہقہہ بے اختیاری تھا۔ مریم مسکرا کر رہ گئی ۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!