ورثہ

اتوار کا دن تھا۔ رائنا اور عمر اسلامک سینٹر گئے ہوئے تھے۔ علی انہیں پِک کرنے کے لیے نکلا تھا۔ ویکینڈ کے سنڈے اسلامک اسکول میں دونوں بچوں کو وہ باقائدگی سے بھیجتے تھے۔ اس کے علاوہ ہفتے میں چار دن دونوں بچے قرآن پڑھنے بھی اسلامک سینٹر جاتے تھے ۔ لڑکوں کو وہاں کے امام اور لڑکیوں کے لیے ایک خاتون عالمہ کا انتظام تھا۔ بچوں کا شروع سے اپنے دین سے جڑے رہنا بے انتہا ضروری تھا اور اس بات کا اندازہ علی سے بھی زیادہ مریم کو تھا۔اپنی کمیونٹی اور لوگوں سے گٹھ جوڑ نہ صرف بچوں کی شخسی نشو نما کی تعمیر کی ا ایک ناگزیر اینٹ تھی بلکہ یہ ایک غیر مذھب اور سرکش تہذیب و تمدن کے درمیان ان کے لیے اپنی حدود کا تعین کرنے اور اپنی اجتمائی پہچان اور استحکام کے لیے بھی ضروری تھا۔
مریم کوفی کا مگ لیے پچھلے لان میں آ گئی تھی۔ لان بہت well maintained اور بڑا تھا۔ ایک سائیڈ پر ماربل کے چوڑے ، سفید سلیب کے درمیان بڑے سائز کی بار بی کیو گرل بھی لگی ہوئی تھی ۔ ایک تین لوگوں کے بیٹھنے کا جھولا بھی تھا جس پر اب ان چاروں میں سے کسی کو بھی بیٹھے کئی مہینے گزر چکے تھے ۔ گھر کے پچھلے حصے کا یہ لان گرمیوں میں ہی استعمال ہوتا تھا لیکن پھر بھی اتنا نہیں جتنا کہ جب دونوں بچے چھوٹے تھے۔ بچوں کے بڑے ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی مصروفیات بھی بڑی ہو گئی تھیں۔ اس سال بھی گرمیوں کی چھٹیاں سر پر کھڑی تھیں اور اسے اور بچوں کو عینی کی شادی میں لوث انجیلس جانا تھا ۔
بچوں کی سوچ سے اس کا ذہن عمر کی طرف بھٹکا ۔ عمر اچھا بچا تھا۔ وہ نذیر سے بہت متاثر تھا اور ان کی باتیں نہ صرف سنتا تھا بلکہ ان پر عمل بھی کرتا تھا ۔ لیکن رائنا کی طرف سے مریم کو اکثر الجھن رہتی تھی۔ اس کے پاس بہت سوال ہوتے تھے جن کے لیے وہ مںطقی جوابات کا مطالبہ کرتی تھی ۔ صرف کہہ دینے یا سمجھا دینے سے رائنا شاز و نادر ہی کوئی بات مانتی تھی اور تسلی بخش وجوہات جانے بغیر ٹلتی نہیں تھی۔
“مسلمان لڑکے اور لڑکیاں date کیوں نہیں کر سکتے ؟” وہ مریم کو زچ کرتی، ” اگر مسلمان لوگ غیر مذھب کے لوگوں سے date نہیں کر سکتے تو مسلمانوں کے ساتھ کرنے میں کیا حرج ہے ؟”
“مسلمان لڑکیاں بغیر آستین کے کپڑے کیوں کہیں پہن سکتیں؟ دوسری مسلمان لڑکیاں تو پہنتیں ہیں، پھر آپ مجھے کیوں نہیں پہننے دیتیں ؟” ایک اور سوال آتا۔
“اگر مسلمان لڑکے کرسچین اور یہودی لڑکی سے شادی کر سکتے ہیں تو پھر لڑکیاں کیوں نہیں کر سکتیں؟”
رائنا کے بیشتر سوالات اسلام اور مغرب کے درمیان معاشرتی اور تہذیبی فرق کے متعلق ہوتے تھے ۔ رائنا بے انتہا زہین تھی اور بڑی ہو رہی تھی ۔ اسی حساب سے اس کے سوال بھی ایک تواتر سے امڈے آ رہے تھے۔ مریم تو اسلامک سینٹر کی عالمہ ، اپنی ماں ، اور عینی کی مشکور تھی کہ وہ ان سوالات کی بوچھاڑ کا مقابلہ کرنے میں اس کے مددگار تھے ۔ رائنا کی عمر میں وہ خود بھی ایسی ہی تھی اور شاید یہی بات اسے خوف و ہراس میں مبتلا رکھتی تھی ۔ حقیقت پسندی کی نظر سے اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ رائنا کی عمر میں وہ خود رائنا سے بھی بڑھ کر منہ زور تھی ۔ ورنہ کیسے ممکن تھا کہ شازیہ جیسا کڑا نظم و ضبط رکھنے والی ماں بھی اسے لگامیں نہ ڈال سکی ؟
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!