ورثہ

”تم نے جو کرنا تھا وہ تم کر چکیں ۔“ شازیہ کی آواز میں لوہے جیسی کاٹ تھی۔
”اب ہم اس تمام گند کو سمیٹیں گے جو تم نے ہماری زندگیوں میں پھیلایا ہے۔“ وہ ایک لمحے کو رکیں اور اپنا لہجہ ہم وار کیا ۔
”تمہارے ابو اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اور تم لوئی سیانا کے ایک شہر میں اپارٹمنٹ لے کر بچے کی پیدائش تک وہیں رہیں گے ۔ پھر اسے گم نام ایڈاپشن میں دے کر واپس آ جائیں گے۔ آگے وہ جانے اور اس کا نصیب۔“ انہوں نے ریاست لوئی سیانا کے ایک بہت ہی چھوٹے سے قصبے نما شہر کا نام لیتے ہوئے اسے فیصلہ سنایا۔
”لیکن ابو یہاں اکیلے کیسے رہیں گے؟“ مریم نے بے ساختہ سوال کیا ۔ جو خاک کا طوفان سر پر کھڑا تھا، اس سے زیادہ اسے خاندان اور زندگی کی ترتیب اور تنظیم میں خلل کی فکر تھی۔ وہ غیر شعوری انداز میں حقیقت سے آنکھیں چرا رہی تھی۔
”اگر وہ اپنی اکلوتی اولاد کی زندگی کو اپنی آنکھوں کے سامنے راکھ کا ڈھیر ہوتا دیکھ سکتے ہیں تو پھر وہ کچھ مہینے اکیلے بھی رہ سکتے ہیں۔“ شازیہ نے جذبات سے عاری لہجے میں جواب دیا۔
”وہ سب کو یہی بتائیں گے کہ ہم کسی رشتہ دار کے پاس کچھ مہینوں کے لیے کینیڈا گئے ہوئے ہیں۔ اسکول سے leave کے لیے ہم اپلائے کرچکے ہیں۔“
پھر شازیہ اس کو لے کر تین دن کے اندر اندر ملک خان اور ان کی فیملی کی واپسی سے پہلے ہی وہاں سے نکل گئیں۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی تھیں کہ اس خاندان کے کسی بھی فرد سے مریم کا سامنا ہو۔مریم کو بعد میں ماں سے ہی پتا چلا تھا کہ زیدان نے روڈ آئی لینڈ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لینے کا فیصلہ کیا اور کچھ ہی مہینوں میں اس کی تمام فیملی بھی وہیں شفٹ ہو گئی تھی۔
لوئی سیانا میں گزارے جانے والے وہ چند ماہ مریم کی زندگی کا بدترین وقت تھا جو اس نے صرف اور صرف اپنے آپ سے نفرت کرتے گزارا ۔ بچے کا تو اسے خیال ہی نہیں آتا تھا ۔ اس کے لیے وہ اس کے پیٹ میں پلنے والا ایک ایسا ناسور تھا جس کا چند ہی ماہ میں مستقل علاج ہونے والا تھا ۔ اس کی نوعمری یکایک غائب ہو گئی تھی۔ وہ ایک نوعمر لڑکی سے ایک تھکی ہوئی عورت میں تبدیل ہو گئی تھی جس کے دل میں مر جانے کے علاوہ کوئی خواہش نہیں تھی۔ ڈاکٹرکے پاس آنے جانے کے علاوہ وہ تمام وقت اس چھوٹے سے اپارٹمنٹ کی چار دیواری کے اندر خالی الذہنی کی کیفیت میں کتابیں پڑھتے یا پھر ‘کب، کیسے، اور کیوں ‘ کے تانے بانے سلجھاتے گزارتی ۔ شازیہ سے بھی اس کی بات چیت بہت کم ہوتی تھی ۔ اگر مریم اپنے اندرونی محاذ پر لڑ رہی تھی تو شازیہ بھی اس گھاﺅ کو مندمل کرنے کی ایک خاموش جدوجہد اور جنگ میں الجھی ہوئی تھی ۔ مریم کو ماں کی اذیت کا احساس تھا لیکن وہ ان کے لیے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے ہاتھوں جتنا خسارہ ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔
بچے کی پیدائش مقررہ وقت سے دو ہفتے پہلے ہی ہوگئی تھی۔ بعد میں ہسپتال کے کمرے میں اکیلے لیٹے مریم کو اچانک ادارک ہوا کہ کوئی بھی ماں اپنی کھو جانے والی اولاد کو کبھی نہیں بھول سکتی۔
اتنے مہینے اس وجود سے لا تعلق رہنے اور اسے اپنی ہر سوچ سے غیر وابستہ رکھنے کے باوجود، اچانک وہ اس بچے کو اپنے دل سے نکال نہیں پا رہی تھی جہاں اس نے اپنی ایک ہی آواز سے جگہ بنا لی تھی۔ مریم نے اسے دیکھا تھا نہ چھوا تھا۔ شازیہ نے بھی اس کے بارے میں ایک لفظ بھی اسے نہیں بتایا تھا۔ ان کے ہونٹوں پر ایک چپ اور چہرے پر سنجیدگی تھی۔ اسے پتا تھا کہ وہ شدید کرب سے گزر رہی تھیں، لیکن اظہار کرنا ان کی فطرت نہیں تھی۔
تین ہفتے بعد وہ دونوں انڈیانا لوٹ آئے تھے۔ نذیر عبید کسی بزنس ٹرپ پر گئے ہوئے تھے۔ ملک خان اور ان کی فیملی وہاں سے جا چکی تھی ۔اس نے دوبارہ اسکول جوائن کر لیا تھا لیکن وہ پرانی مریم کو لوئی سیانا میں ہی دفن کر آئی تھی۔ اسے اب پڑھائی کے علاوہ کسی چیز سے غرض نہیں رہی تھی۔ سارے سوال ختم ہو گئے تھے۔ زندگی نے سب سوالوں کے بہت ہی مفصل اور سفاک جوابات دے دیے تھے۔ بہت سال لگے تھے ان تینوں کو دوبارہ ایک ساتھ ایک ہی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانے میں نذیر نے اس سے بات کرنی تو شروع کی تھی محض رسمی سی۔ لیکن مریم اس کے لیے بھی ان کی ممنون تھی ۔ ہائی اسکول میں بہترین گریڈز کی بنا پر مریم کا ایڈمشن Illinois کی بہت اچھی یونیورسٹی میں ہو گیا۔ اس کے یونیورسٹی چلے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد نذیر اور شازیہ نے مستقل طور پر لاس اینجلسشفٹ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
کئی سال گزرنے کے بعد گو کہ مریم کو لوئی سیانا کا واقعہ ایک خواب سا لگنے لگا تھا لیکن ایک کسک ہمہ وقت اس کے دل پر موجود رہتی۔ مریم کی ملاقات علی سے Illinois میں ہی ہوئی تھی۔ وہ مریم سے شادی کا خواہش مند تھا اور نذیر اور شازیہ نے بھی اسے پسند کیا تھا۔ وہ ایک ہنس مکھ اور پڑھا لکھا مسلمان تھا اور مریم کی بھی اس سے اچھی بن رہی تھی۔ اس کی شادی کے دن شازیہ اور نذیر کو لگا کہ مریم کی لائی ہوئی سنگین افتاد کے حل کے لیے انہوں نے جو بھی ہنگامی اقدام اٹھائے تھے، وہ بالکل مناسب تھے۔
اپنی زندگی کا جو پینڈورا باکس مریم اپنے طور پر مقفل کر کے کسی دریا میں پھینک چکی تھی، وہ رائنا کی پیدائش پر ایک بارود بھرے تحفے کی طرح تیرتا ہوا پانی کی سطح پر آ گیا۔ رائنا کی پیدائش پر اسے اس معصوم کی یاد دل میں آئی جو دن بہ دن بڑھتی ہی چلی گئی۔ اسے صرف یہی پتا تھا کہ وہ بھی ایک بیٹی تھی۔ اس کی ہی بیٹی جو اب نجانے کہاں تھی۔
عمر کی پیدائش کے بعد یہ کسک چبھتے ہوئے گہرے ملال کی شکل اختیار کر گئی ۔ اڈوپشن ایجنسی میں نوکری بھی اسی ملال کے علاج کی ایک کڑی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ علی کے لیے اس کا وہاں کام کرنا باعثِ تکلیف تھا لیکن اس جگہ سے اس کی بھی تو یادیں جڑی تھیں۔ ایسی یادیں جو اب زندگی سے بھی زیادہ عزیز ہوتی جا رہی تھیں۔ وہ کیسی تھی، کہاں تھی، کس کی گود میں پل رہی تھی اور کس حال میں تھی، تنہائی کے لمحات میں اس کا ذہن انہی سوالات کے دائروں میں گھومتا رہتا۔ وہ اس امید پر روز نوکری پر جاتی تھی کہ شاید اس سسٹم کے اندر رسائی حاصل کرنے سے اسے اس تک پہنچنے کا بھی کوئی سرا ہاتھ لگ جائے۔ وہ تو صرف اس کو ایک نظر دیکھ لینے پر ہی راضی تھی۔ اور اب وہ امید بھی نہیں رہی تھی۔
مریم نے ٹھنڈا سانس لیا۔ حال میں واپس لوٹ آنے کا وقت ہو گیا تھا۔ اس نے ابھی لاس اینجلس جانے کی ٹکٹیں بھی کنفرم کروانی تھیں۔ شمیم اور تنویر کی طرف سے شادی کا کارڈ اور بلاوے کا فون بھی آ چکا تھا ۔صرف بچے اور مریم ہی جا رہے تھے کیونکہ علی نے اپنے کسی ضروری پراجیکٹ کی وجہ سے معذرت کر لی تھی۔ اسے یاد آیا کہ اس نے امی جی سے رائنا کے کپڑوں کے بارے میں بھی مشورہ کرنا تھا۔ رائنا تو خود ہی انٹرنیٹ پر بیٹھی اپنی عزیز از جان عینی باجی کی شادی میں پہننے کے لیے کئی جوڑے پسند کر چکی تھی۔ ان میں سے تین چار مریم نے اب بیٹھ کر فائنل کرنے تھے۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اندر سے بچوں کی باتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!