ورثہ

مریم نے جب غیر جانب داری سے اپنی ایڈاپشن ایجنسی کی نوکری کا جائزہ لیا تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے وہاں کام کرنے کی ضد بے وقوفانہ تھی لیکن وہ اپنے دل اور محبت کے ہاتھوں مجبور تھی۔دوسری طرف علی تھا جو اپنی بیوی سے اس معاملے میں تھوڑی سی ہم دردی کی توقع کر رہا تھا تو کچھ غلط بھی نہیں کر رہا تھا ۔ وہ اس کی نوکری کی اصل وجوہات سے واقف ہی نہیں تھا اور جس بات سے وہ لاعلم تھا ، اس بات کو وہ سمجھ ہی کیسے سکتا تھا ۔ یہ بات مریم کے اندر ندامت پیدا کرتی تھی کہ وہ علی کو بالواسطہ اس کا تکلیف دہ ماضی یاد کروانے کی ذمہ دار بنتی ہے ۔
جب علی بارہ سال کا تھا تو اس کے والدین کا انتقال ایک حادثے میں ہو گیا تھا ۔ حادثے کے وقت علی بھی ان کے ساتھ تھا لیکن شدید زخمی ہونے کے باوجود وہ بچ گیا۔ امریکا میں کوئی بھی قریبی رشتہ دار نہ ہونے کی وجہ سے اس کا قانونی طور پر مستقل کوئی انتظام ہونے تک اسے ایک امریکی خاندان کے پاس عارضی طور پرفوسٹر کیئر میں بھیج دیا گیا۔یہ وقت علی کے لیے ایک ایسے خوف و ہراس اور ذہنی خلفشار کا دور ثابت ہوا جو ہمیشہ کے لیے اس کے ذہن پر نقش ہو گیا۔ حادثے کے فوراً بعد نہ صرف ماں باپ کے بچھڑنے کا غم تھابلکہ ایک اندھیر اور غیر محفوظ مستقبل بھی کسی خوف ناک جن کی طرح اسے ہڑپ کرنے کے لیے تیار کھڑا تھا ۔
علی نے فوسٹر ہومز میں بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم اور لا پروائیوں کی بے شمار داستانیں سن رکھی تھیں جس کے نتیجے میں ایسے لا وارث بچوں کو اکثر یکے بعد دیگرے کئی گھر بدلنے پڑ جاتے تھے ۔ سب سے بڑھ کر وہ اس بات سے خوف زدہ تھا کہ اسے اس کے مذہب سے ہٹا دیا جائے گا اور کوئی اور مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا ۔ بارہ سالہ بچے کا دماغ چار پانچ مہینے تک صبح سے لے کر شام تک انہی تکلیف دہ سوچوں اور خوف میں مدغم رہتا لیکن اللہ کو کچھ اور منظور تھا ۔ جرمنی میں مقیم علی کے چچا ، جو اپنے بڑے بھائی سے کسی ناچاکی کی بنا پر کئی سالوں سے نہیں ملے تھے، اس نازک موقع پر اپنی ذمہ داری سے نہیں کترائے ۔ بھائی اور بھابی کے انتقال کی خبر انھیں دیر سے ملی تھی لیکن ملتے ہی انہوں نے جرمنی سے ہی علی کو قانون گود لینے کی کروائی شروع کر دی تھی اور امریکا میں اس ایڈاپشن ایجنسی سے بھی رابطہ کر لیا تھا جس کے ذریعے علی کو فوسٹر ہوم میں بجھوایا گیا تھا ۔ جب وہ علی کو امریکا سے لے کر جرمنی پہنچے تو ان کے دونوں بیٹوں اور جرمن بیوی نے اپنے خاندان کے نئے فرد کا خوش دلی سے استقبال کیا ۔ ان کے گھر میں علی کو تحفظ اور سکون کے ساتھ ساتھ چچا کی شفقت بھی ملی تھی ۔ گو کہ تکلیف دہ دور گزر گیا تھا لیکن چچا کے گھر کا پرسکون اور محفوظ وقت بھی اس کے دماغ سے فوسٹر ہوم میں گزارے گئے پانچ مہینوں کی دہشت نہ نکال سکا ۔ ہائی اسکول تک کی تعلیم اس نے جرمنی میں حاصل کی اور پھر وہ مزید تعلیم کے لیے امریکا آ گیا۔
علی اپنے ایکسیڈنٹ اور اپنے ماں باپ کا ذکر کبھی نہیں کرتا تھا۔ وہ اس واقعہ کو ایک ڈراﺅنے خواب کی طرح بھولے رکھنا چاہتا تھا لیکن مریم کا ایڈاپشن ایجنسی میں نوکری کرنا اسے لا شعوری طور پر ہمہ وقت اس دور کی یاد دلاتا تھا ۔ اسے احساس تھا کہ مریم کا مقصد ان لاوارث بچوں کے لیے اچھے گھر ڈھونڈنا تھا لیکن وہ اپنے دل کے ہاتھوں بھی مجبور تھا جو اس کی زندگی کی مشکلترین یادوں کو اس نوکری کے حوالے سے اس کے سامنے لے آتی تھیں ۔ وہ زور زبردستی کا قائل نہیں تھا اور مریم کو محض اپنی خوشی کے لیے کسی کام کو چھوڑنے یا اپنانے کے لیے نہیں کہنا چاہتا تھا لیکن وہ اس تلخی سے بھی ڈر گیا تھا جو اس کے نا چاہتے ہوئے بھی مریم اور اپنے ما بین متواتر ہونے والی بحث کا نہ صرف حصہ بن رہی تھی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شدت میں اضافہ بھی ہو رہا تھا ۔
اس کے نزدیک اپنے گھر کے سکون کی خاطر ان دونوں کے مابین خفگی کو طول دینے سے بہتر تھا کہ اس پکتے ہوئے ناسور کو ایک ہی جھٹکے میں کاٹ کر پھینک دیا جائے اور یہی اس نے کیا تھا ۔ اس کے حساب سے اگر مریم نوکری کرنا ہی چاہتی تھی تو اس کو اس سے کہیں بہتر نوکری مل سکتی تھی۔
علی کو کبھی یہ اندازہ نہیں ہو سکتا تھا کہ مریم اس اڈوپشن ایجنسی میں نوکری برائے نوکری کرتی ہی نہیں تھی؛ وہ تو اپنی زندگی کی ایک lifeline تھامے بیٹھی تھی۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!