ورثہ

مریم اور علی کے ائیرپورٹ پہنچنے کے کچھ دیربعد ہی رائنا اور عمر کا جہاز لینڈ ہو گیا ۔ دونوں بچے بے انتہا خوش اور پر جوش تھے ۔ نانا نانی نے دل بھر کر انہیں مزے کروائے تھے ۔ رائنا نے نئے اسٹا ئل سے بال کٹوائے ہوئے تھے ۔
”عینی باجی مجھے اپنی ایک ہیر ڈریسر دوست کے پاس لے کر گئیں تھیں۔“ علی کی تعریف پر اس نے بڑے فخر سے باپ کو بتایا ۔ عینی باجی ، چوبیس سالہ نورالعین ، لاس اینجلس میں شازیہ کے پاکستانی ہمسایوں شمیم اور تنویر کی بیٹی اور رائنا کی رول ماڈل تھی ۔
”واقعی اچھے لگ رہے ہیں تمہارے بال رائنا۔“ عمر سے بات کرتے کرتے مریم نے بھی اس بار ذرا غور سے رائنا پر نظر ڈالی۔ اچھے نظر آنا اور پھر اپنی تعریف سننا ان دنوں رائنا کا محبوب ترین مشغلہ تھا ۔ ایک تو وہ پیاری بھی تھی اور کچھ اس عمر کا فتور بھی تھا ۔ علی اب عمر سے اس کی پڑھائی کے بارے میں سوال کر رہا تھا ۔ پیار محبت اپنی جگہ لیکن بچوں کی پڑھائی کے معاملے میں وہ کوئی لحاظ نہیں رکھتا تھا ۔
رات کے کھانے کے دوران رائنا کے پاس جون میں متوقع عینی باجی کی شادی کی باتوں کے علاوہ کوئی موضوع نہیں تھا۔ عینی کا ہونے والا شوہر پڑھا لکھا تھا اور لاس اینجلس کے قریبی شہر سین ڈیاگو میں رہتا تھا ۔ شمیم تو اسی بات پر خوش تھیں کہ ان کی لاڈلی بیٹی شادی کے بعد بھی ان سے کچھ ہی گھنٹوں کے فاصلے پر رہے گی نہ کہ کسی دور دراز ریاست میں ۔ ان ساری باتوں کا مریم کو سرسری سا علم تو تھا، لیکن اب ان میں اضافی تفصیلات مع مرچ مسالہ ، رائنا صاحبہ مسلسل ان سب کے گوش گوار کر رہی تھیں ۔
”ڈیڈی آپ کو پتا ہے عینی باجی اپنا Masters سین ڈیاگو یونیورسٹی سے کریں گی۔“ اس نے علی کو فخریہ بتایا ۔ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس خبر سے باپ بے حد خوش ہوگا کہ عینی شادی کے بعد بھی بہت اچھی یونیورسٹی سے پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھنے والی ہے۔
”یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے۔“ علی نے اسے مُسکرا کر دیکھا۔ اس کا جواب حسب توقع تھا ۔
”اور مما آپ کو پتا ہے شمیم آنٹی عینی باجی کی شادی پورے پاکستانی اسٹائل میں کریں گی۔“ رائنا کا عینی نامہ جاری تھا ۔
”شادی تو شادی ہوتی ہے۔“عمر نے اسے گھورا ۔
”یہ پورے پاکستانی کا کیا مطلب ہوا؟“
”تمہیں کیا پتا؟“ رائنا نے جیسے اس کا مذاق اُڑایا ۔
”ان باتوں کا لڑکیوں کو زیادہ پتا ہوتا ہے ۔ تم بھی تو شادی میں جاﺅ گے،خود ہی دیکھ لینا۔“ اس کے جواب پر عمر لاپروائی سے کندھے اُچکا کر رہ گیا ۔
”شمیم آنٹی نے کہا ہے کہ وہ ایک زبردست سی ماین بھی کریں گی اور مہندی بھی۔“ اس نے ایک اور خبر دی ۔ عمر قہقہہ مار کر ہنس پڑا ۔ علی اور مریم بھی مُسکرا دیے ۔
”تو کیا عینی باجی کا ہونے والا شوہر ماین ہے ؟“ عمر نے پوچھ کر گویا کچھ دیر پہلے کا حساب برابر کیا ۔ رائنا چڑ کر مریم کی طرف مڑی ۔
”ما ین ہی تو ہوتا ہے نا مما ؟صحیح کہہ رہی ہوں نا میں ؟“ رائنا نے ماں کی تائید چاہی۔
”وہ جو traditional پاکستانی شادیوں میں ایک event ہوتا ہے؟“
”نہیں بیٹا! ماین نہیں، مایوں ہوتا ہے۔“ مریم پیار سے اس کی طرف دیکھ کر مُسکرائی ۔
”اور کیا تمہیں نہیں پتا کہ ماین کس کو کہتے ہیں؟“ علی نے اب اسے دیکھا۔
”اتنی تو معلومات ہونی چاہئیں تمہارے history کے سبجیکٹ میں ۔“
”ہاں ڈیڈی ! مجھے پتا ہے کہ mayan جنوبی افریقہ کی کسی قدیم سوسائٹی کا نام تھا۔“ رائنا تھوڑی کھسیانی ہوئی۔
”لیکن میں سمجھی کہ اس occasion کا بھی یہی نام ہے۔“
اپنی عینی باجی کی شادی اٹینڈ کرنے کا اشتیاق رائنا کی باتوں سے صاف ظاہر تھا ۔ شازیہ کے ذریعے مریم اور علی کو شمیم اور تنویر کی طرف سے شادی کا بلاوا بھی مل چکا تھا ۔ شادی کا باقاعدہ کارڈ آنا تو ایک رسمی سی بات تھی ۔
”اچھا بھئی آپ لوگ اب یہ ما ین وا ین چھوڑیں، میری نئی والی پہیلی بوجھیں۔“ عمر اب میدان میں کودا ۔ اسے نئی نئی پہیلیاں سوچنے اور بجھوانے میں بے انتہا دل چسپی تھی ۔
”اب یہ شروع جائے گااور بولے جائے گا۔“ رائنا نے آنکھیں گھما کر بے زار ہونے کی ایکٹنگ کی لیکن عمر کو بہن کی حرکت سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ۔مریم ان لوگوں کو chill کرتا چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس نے ابھی کچن بھی سمیٹنا تھا ۔
وہ کچن میں تھی جب شازیہ کا فون آ گیا ۔ مریم نے ٹیکسٹ کر کے بچوں کے پہنچنے کی اطلاع تو انہیں ائیرپورٹ پر ہی دے دی تھی لیکن فون پر بات نہیں ہوئی تھی ۔ ویسے مریم کو اندازہ تھا کہ شازیہ کے فون کرنے کی اصل وجہ علی اور اس کے مابین جاب کے بارے میں ہونے والی چپقلش کے متلعق نہ صرف پوچھنے بلکہ اس کا حل بھی نکالنے کی بے چینی ہو گی۔ مریم کو ان کی عادت کا پتا تھا ۔ حسبِ توقع انھیں اس کا جاب چھوڑنے کا فیصلہ سن کر اطمینان ہوا تھا ۔
”تم نے بھی تو ایک ایسی بے معنی تکرار لگائی ہوئی تھی جس کا کوئی حاصل ہی نہیں تھا۔“ انہوں نے نرم لہجے میں اسے سمجھایا۔
”تمہاری ضد صرف ایک deadend سڑک تھی ۔“
”شاید ایسا نہیں ہوتا۔“ مریم کی آواز میں افسوس در آیا۔
”شاید یہ سڑک کہیں پہنچ ہی جاتی اگر میں شروع میں اتنا وقت ضائع نہیں کرتی۔“
”لیکن اس چیز کی قیمت تمہارے گھر کا سکون اور اپنے شوہر کے ساتھ خوش گوار تعلقات ہوتے۔“ شازیہ حقیقت پسندی سے نفع نقصان کی بات کر رہی تھیں لیکن مریم کو ان کی باتیں ظالمانہ لگیں۔
”بس یہ سوچ کر مطمئن ہو جاﺅ کہ وہ اچھے ہاتھوں میں ہے۔ تمہارے لیے یہی کافی ہونا چاہیے۔“ مریم کے لیے اب یہ سوچ لینا کافی نہیں تھا۔ اپنے خون سے سینچی اس کلی کی مہک اسے بے قرار کیے رکھتی تھی ۔ اس کے لیے اس کی فطری محبت اسے سونے نہیں دیتی۔
”کچھ بھی نہ کیے بغیر صرف سوچے جانا بڑا مشکل کام ہے امی جی۔“ وہ آہستہ سے صرف اتنا ہی بول پائی ۔
”مشکل اس لیے ہے کیوں کہ تم اسے مشکل بنا رہی ہو۔ تم ایک ایسی بے نام اور بے شناخت پرچھائی کی جست جو میں ہو جسے چھونا تو دور کی بات، مجسم ہونے پر تم پہچان بھی نہیں پاﺅ گی ۔“ شازیہ نے پھر اسے سچ کی مار ماری ۔ ماں کا یہ لہجہ مریم اچھی طرح پہچانتی تھی۔ یہ ان کی کوفت اور اشتعال کی انتہا ہوتی ہے ۔ ایک لال جھنڈی کہ اب ان کی طرف سے زیرِ بحث موضوع پر ہر قسم کے مذاکرات ختم ۔ مریم کو اندازہ بھی تھا کہ ماں کے ساتھ اس موضوع پر گفتگو اور ماضی کے بند قفل کھولنا یقینا ان کے لیے ذہنی دباﺅ کا سبب بن جانا تھا ۔ اپنے اوپر لہروں کی مانند امنڈ امنڈ کر آنے والے پچھتاووں ، ندامتوں اور افسوس کے منہ زور جذبوں پر بند باندھنا صرف اس کی اپنی ذمہ داری تھی ۔ بار بار ماں کا کندھا تلاش کرنا اور ان جذبوں کو واجب قرار دینا ان کے ساتھ سراسر نہ انصافی تھی ۔ شازیہ ٹھیک ہی کہتی تھیں، اس کھیل کا اب ختم ہو جانا ضروری تھا ۔ اس کی نوکری کی طرح۔
فون بند کرنے کے بعدوہ کچن میں اسٹول پر ہی بیٹھ گئی ۔ کچن تو سمٹ چکا تھا پر اندر کا پھیلاوا تھا کہ کسی صورت سمٹنے میں ہی نہیں آتا تھا ۔ فیملی روم سے ٹی وی چلنے اور بچوں اور علی کی باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ کھڑکی سے باہر رات کا اندھیرا اس کا ماضی تھا ۔ وہ اپنے ماضی کو کسی کوٹ کی طرح اتار کر نہیں رکھ سکتی تھی۔ ایسا کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوتا ۔ تاریک ہو یا روشن، ماضی ہمیشہ انسانوں کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ جس طرح ایک مثبت اور پرمسرت ماضی لوگوں کے حال کو چمک اور رونق بخشتا رہتا ہے، اسی طرح ایک اندھیر ماضی اپنی ٹھنڈی اور افسردہ انگلیاں مستقل ان کے حال کی مسکراہٹوں اور فرحت کے گرد لپیٹے رکھتا ہے۔
٭….٭….٭

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!