ایڈاپشن ایجنسی کی نوکری چھوڑنے کا فیصلہ مریم کی خلافِ مرضی کچھ اچانک ہی ہو گیا ۔ ماں کا رویہ بھی اس کے موقف کو کم زور کرنے کی ایک وجہ تھی ۔ وہ اور علی اس وقت بچوں کو لینے ائیرپورٹ جا رہے تھے اور نہ جانے کس بات سے وہی بات پھر نکل آئی جس سے مریم شتر مرغ کی طرح ریت میں سر گھسا کر آنکھیں چرانے میں لگی رہتی۔ گھر سے نکلتے ہی اسے اپنی سکول والی دوست کا فون آ گیا ۔ فون تو اس نے کسی اور کام سے کیا تھا لیکن علی کو ان دونوں کا غیر حل شدہ تنازعہ یاد دلا گیا ۔
”تمہیں پتا ہے نا کہ تمہاری اس نوکری مجھے بڑی کوفت ہوتیہے۔“
”تم نے کہا تھا تم صرف کچھ دن یہاں کام کرو گی پھر چھوڑ دو گی اور اب اتنے سال ہونے کو آرہے ہیں ۔“ مریم کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ بات بدل دے لیکن ہر بار یہ ممکن نہیں تھا اور علی کا اصرار بھی بڑھتا جا رہا تھا ۔
”تمہیں تو ویسے بھی کسی بھی قسم کی نوکری کی ضرورت ہے ہی نہیں۔“ علی نے اگلا نقطہ بھی جڑ دیا۔ اس کا لہجہ تناﺅ یا غصے سے عاری تھا ۔ وہ جیسے اس کے دلائل سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مسلسل مایوس ہورہا تھا ۔ اپنے مخالف سے بحث کرنا اس وقت ناممکن ہو جاتا ہے جب وہ اپنے نقطہ ¿ نظر سے آپ کا قطعی اتفاق چاہنے کے بہ جائے آپ کا مو ¿قف سمجھنے کی کوشش کرنے لگے ۔
”مجھے تمہاری بات سمجھ آتی ہے علی اور مجھے افسوس ہے کہ میری یہ نوکری تمہاری تکلیف کی وجہ بنتی ہے۔“ مریم کی آواز کم زور تھی ۔
”اگر بات سمجھ آتی ہے تو پھر چھوڑو یہ جھگڑا ۔ میں تو ایک ہی ٹاپک پر بحث کرتے کرتے بھی تھک گیا ہوں۔“ علی نے اکتا کر کہا۔
مریم نے اس کی طرف دیکھا۔ تنگ تو وہ بھی آ گئی تھی اور اسے اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ علی کو اپنی ضد چھوڑنے کی عادت نہیں تھی ۔ بحث ، دلیل یا پیار سے وہ اکثر اپنی ہی بات منوا لیتا تھا ۔ مریم کو اس بات سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا تھا ۔ لیکن اپنی نوکری والی بات اس کے لیے عام بات نہیں تھی ۔ اس سے اسے فرق پڑتا تھا لیکن فرق تو علی کو بھی پڑ رہا تھا ۔ کسی نے تو اپنی ضد چھوڑنی ہی تھی ۔
”ٹھیک ہے علی ! میں یہ جاب چھوڑ دیتی ہوں۔“ اس نے اچانک ہی بات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
”میں بھی تنگ آ گئی ہوں ۔ ہمیں اب بحث کے لیے واقعی کوئی نیا ٹاپک ڈھونڈھ لینا چاہیے ۔“ اس کی بات سے علی کا اترا ہوا چہرہ یک دم کھل اٹھا ۔اس نے مسکرا کر مریم کی طرف دیکھا۔ اس کے آنکھوں میں تشکر کی جھلک تھی ۔ مریم تھی ہی اتنی اچھی کہ اسے امید تھی کہ وہ جلد یا بہ دیر اس کی خوشی کے لیے اپنی پسندیدہ جاب چھوڑ ہی دیتی ۔
”تھینک یو مریم۔“ اس نے نرم آواز میں کہا۔
” اور تم فکر مت کرو، میں ہماری اگلی بحث کے لیے کوئی زیادہ چٹ پٹا ٹاپک تلاش کروں گا۔“ اس کی بات پر مریم مسکرائے بغیر نہ رہ سکی ۔ بچے بھی گھر آ رہے تھے۔ اچھا تھا کہ وہ دونوں بھی اپنے اختلافات بھلا کر ان کا خوشدلی سے استقبال کرتے ۔
مریم اور علی نے بچوں کے ننھیال میں گھلنے ملنے اور ملاقاتوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی تھی ۔ دونوں کو اندازہ تھا کہ بچوں کو اپنی پاکستانی جڑوں سے جوڑے رکھنے کا یہ بہترین ذریعہ تھا ۔ شازیہ اور نذیر کے ساتھ نہ صرف بچوں کو مزہ آتا تھا بلکہ وہ کئی نصیحتیں بھی غیر محسوس انداز میں ان کی گھٹی میں ڈالتے رہتے۔ رائنا کے برعکس عمر کا مزاج سنجیدہ تھا ۔ نانا نانی کی باتوں پر غور کرنا، سمجھنا اور اپنانا اس کی عادت تھی ۔ رائنا کے پاس ایک ہزار سوال ہوتے تھے جن کے جوابات وہ دلائل کے بغیر نہ سنتی تھی۔ بعض دفعہ اسے دیکھ کر مریم کو اپنا بچپن یاد آجاتا اور ہر دفعہ یہ احساس اس کے اندر خوف اور بے چینی پیدا کرتا تھا ۔
مریم اور علی نے اپنا اور دونوں بچوں کا رابطہ اسلامک سینٹر سے بھی مستقل رکھا ہوا تھا ۔ بچے یہاں نہ صرف ویک اینڈ کلاسز لیتے بلکہ سینٹر کے ذریعہ ان کا اسلامی اور باالخصوص پاکستانی کمیونٹی میں اچھا ملنا ملانا ہو چکا تھا۔ یہ بھی امریکا میں نئی نسلوں کا اپنی شناخت برقرار رکھنے کی جانب انتہائی ضروری اقدامات میں سے ایک تھا ورنہ جس معاشرے میں وہ رہتے ہیں وہاں بے لگامی کا انجام کٹی پتنگ کی مانند تھا جس کو نہ اڑان کی سمت کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ اپنی پہچان کا ۔
٭….٭….٭
2 Comments
.Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.
its now fixed