ورثہ

“مریم، تم بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو،” انھوں نے اسے سمجھایا، “تمھارے خیال میں زیدان اپنا بہترین مستقبل ، اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی خاندانی عزت،  داؤ پر لگاتے ہوۓ تم سے شادی کر لیتا؟ بلفرض وہ اس بچے کو قبول کرتے ہوۓ اس بات پر راضی ہو بھی جاتا، تو کیا اس کے پٹھان والدین اپنے  اکلوتے وارث کی ناجایز اولاد کو اپنا نام دینے پر  تیار ہو جاتے ؟ نہیں مریم، ایسا صرف کتابوں اور مغربی کلچر میں ہوتا ہے جہاں لوگ اپنے خاندانوں،  اپنے مذہبی اقدار ، اپنی روایتوں، اپنے رسم و رواج ، سماجی حیثیت، اور سب سے  بڑھ کر اپنے ورثوں کی حفاظت  ہماری طرح اپنے بیش قیمت اثاثوں کی مانند نہیں  کرتے- زیدان تو چھوڑو، تمہاری بچی اور تمہارے ماضی کی دھول کے ساتھ کوئی بھی تم سے شادی نہیں کرتا – کم از کم کوئی  مسلمان تو ہرگز نہیں کرتا- ہم نے جو فیصلہ کیا تھا ، وہ کئی  بیخواب راتوں کی سوچ بچار کا نچوڑ  تھا- ہم نے اپنا ورثہ محفوظ کیا ہے مریم- یہی تو ہماری زندگی کا حاصل ہے-” 

چائے کا پانی پک چکا تھا- شازیہ  نے دو مگوں میں چائے بنائی اور ایک مگ اس کے سامنے رکھ دیا – اپنا مگ لے کر وہ دوبارہ  اس کے سامنے بیٹھ گیئں – مریم سر جھکائے بیٹھی تھی- اس کی اندر ایک عجیب سی تھکن اتر رہی تھی اور  اس کی آنکھیں پانیوں سے بھر رہی تھیں –  

“مریم، ایک مسلمان عورت چاہے کتنی  بھی  مغرب یافتہ کیوں نہ ہو جائے، اس  کی زندگی عزت سے اسی وقت مکمل ہو سکتی ہے  جب اسے ایک اچھی قدریں رکھنے والا، مسلمان ساتھی مل جائے- ورنہ اس میں اور ایک کٹی پتنگ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا-عینی تمہاری زندگی میں ہوتی تو یہ کبھی بھی ممکن نہ ہوتا- اور عینی کی شخصیت کا کیا ہوتا ؟ کبھی یہ سوچا ہے تم نے؟ ” مریم کی آنکھوں میں جمع ہوتے  آنسو اب اس کے  ہاتھوں پر گر رہے تھے-

“تم نے سالوں پہلے اچھا کیا تھا  کہ میری نصیحت مان کر ماضی کو ماضی ہی رہنے دیا تھا – اب بھی یہی کرو،” شازیہ  اسے پھر سمجھا رہی تھیں، “یہ سب کے لیے ضروری ہے- خاص طور پر رائنا کے لیے- عینی ایک مضبوط، لاجواب بچی ہے، اور اب تو اس کی شادی بھی ہو گئی ہے- اس وقت ماضی کو کھود کر نکالنا سب کی ، خاص طور پر تمھارے تینوں بچوں کی ، زندگیوں میں بھونچال لے آئے گا – دفن ہوئی باتوں کو دفن ہی رہنے دو- عینی کو صرف یہ پتا ہے کہ وہ اڈوپٹڈ ہے اور اس کے باپ کا نام زیدان خان ہے- وہ آدمی  اس کے لیے صرف ایک نام ہے اور کچھ نہیں -ان ناموں کو نام ہی رہنے دو – انھیں شکلیں دینے کی کوشش مت کرو اور نہ اس کی یا کسی اور کی  زندگی میں  نئے رشتے متعارف کرواؤ-“

“شمیم آنٹی کو کیا پتا ہے؟” مریم کو  خیال آیا- 

“شمیم اور تنویر  کو کچھ نہیں پتا سواۓ اس کے کہ انہوں نے  ہماری درخواست پر ایک پاکستانی مسلمان لڑکی  کی لاوارث بچی کو ایک اچھا گھر اور پرورش دے کر اس کے ساتھ نیکی کی ہے- عینی شمیم اور تنویر کے  سونے گھر میں بہار  لے آئی تھی – انہوں نے خود بھی کبھی کچھ اور جاننے کی کوشش نہیں کی -” مریم کو اندازہ ہوا کہ اگر اس کے والدین نے اس کے  ماضی کو دفنانے کا بیڑا اٹھایا تھا تو انہوں نے واقعی مکمل طور پر یہ کام کیا تھا، “ہم نے ماضی کو لوئی سیانا میں چھوڑ دیا تھا مریم ، اسے وہیں رہنے دو، ” شازیہ کی آخری بات میں ایک واضح تنبیہ تھی –

ماں کی باتوں میں چھپی گہری سچائی اور منطق قطرہ ، قطرہ مریم کے اندر ٹپک رہی تھی – ٹھیک ہی تو کہہ رہیں تھیں- اپنی  جوان ہوتی بیٹی کو ، جس کو وہ امریکا میں رہتے ہوۓ مغرب کی کلچر کی برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتی رہتی تھی اور اسلامی اقدار سکھا رہی تھی،  عینی کی پیدائش کی کیا وضاحت دیتی؟ وہ اپنے شوہر اور بیٹے کو کیا بتاتی؟ اور عینی کے نئے  شوہر اور اس کے سسرال  والوں کا کیا ہوتا؟ کیا وہ عینی کی ذات سے وابستہ  اندھیروں کو قبول کر لیتے ؟ ابھی تو ساری توڑ پھوڑ صرف مریم  کے اندر قید تھی- باہر آ جانے پر وہ  بلا شبہ ایک  ہولناک بربادی کا موجب بن جاتی  – 

“اپنے  ابو سے کسی قسم کا کوئی سوال مت کرنا ،” شازیہ نے اسے تاکید  کی، “انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سال اپنے آپ سے یہ پوچھتے گزار دیے کہ ان سے کیا غلطی ہوئی تھی-” 

مریم نے گہرا سانس لیا- دو رنگوں کا امتزاج ہمیشہ ایک دلکش نیا رنگ نہیں ہوتا- اس کا نتیجہ ایک خستہ، بے کیف ، اور اداس سا مٹیالا رنگ بھی ہو سکتا ہے- وہ اپنے ماضی کے شکستہ  رنگ کو صرف اس موہوم  امید پر اپنے حال کے کھلکھلاتے رنگوں پر نہیں پھینک سکتی تھی  کہ شائد اس کا نتیجہ ایک دلفریب سا نیا رنگ ہی ہو  – تھوڑی ہی دیر میں اس کے ‘حال ‘ کے کھلکھلاتے رنگوں نے  واپس گھر آ جانا تھا- مریم  نے اپنے ‘ماضی ‘ کے بارے میں سوچا جو اس وقت ہنسی خوشی سین ڈیاگو میں اپنی زندگی کی بنیاد رکھ رہی تھی- اس معصوم کے  اوپر اچانک ہی ایک اسقدر شکستہ حال اور گراں بار ‘ماضی’ کے بوجھ کو لاد دینا سراسر ظلم ہوتا – 

بیٹی  کی خاموشی سے شازیہ کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی باتیں اس کی سمجھ میں آ گئی تھیں – انہوں نے  اس کے سامنے سے نکاح نامہ اٹھایا اور کچن سے نکل گئیں- انھیں پتا  تھا کہ اسے اب سمبھلنے میں بہت عرصہ لگنا تھا ، کچھ گھنٹے نہیں-

مریم کچن ٹیبل پر رکھے اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی  – کون کہتا تھا کہ غلطیاں اور خطائیں وقت کی دھول میں دفن ہو جاتی تھیں – وہ کبھی بھی دفن نہیں ہوتیں، بلکہ تاحیات زندگی کے ساتھ ایک روگ کی طرح لگی رہتی ہیں- کبھی بد دعایئں بن کر جو آسیب کی طرح نصیبوں کو کھا جاتی ہیں اور کبھی  ایسے گناہوں کی صورت  جن کا  کفارہ ادا کرتے کرتے زندگی تمام ہو جاتی ہے پر قرض ختم نہیں ہوتا  –

 دونوں صورتوں  میں انسانوں کی غلطیاں پیروں میں بیڑیوں کی طرح پڑی اپنی یاد دلاتی رہتی ہیں … اس کے  خون میں گردش کرتی رہتی  ہیں – بھولنے کی کوشش محظ خوش فہمی ہوتی ہے لیکن  زندگی گزارنے  کی آس لیے  ڈوبتے کو خوش فہمیوں کے تنکے بھی بہت ہوتے ہیں – 

_________________________________

 

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!