ورثہ

شازیہ کچن میں تھیں- عمر ان سے جاتے وقت لازانیہ کی فرمائش کر کے گیا تھا اور اس کی ہر فرمائش پوری کرنا ان پر جیسے فرض  تھا- مریم خاموشی سے کچن ٹیبل کی ایک کرسی کھینچ کر وہیں بیٹھ گئی- ہاتھ میں تہہ کیا ہوا کاغذ تھا- وہ کچھ بھی کہے بنا ماں کو دیکھتی رہی-  اس کے آنے  اور بیٹھنے کی  آواز انھیں  آ گئی تھی اور اب وہ اس کے بولنے کی منتظر تھیں- لیکن وہ نہیں بولی- اس وقت وہ بولنے نہیں، صرف سننے آئی تھی- اس کی طرف سے کچھ دیر مزید خاموشی پر شازیہ خود ہی مڑیں- 

“تمہیں سٹامپس مل گئے ؟” انہوں نے اس کے تاثرات پر غور نہیں کیا تھا- ان کی نظر اس کے ہاتھ میں موجود کاغذ پر پڑی، “تمہیں اگر یہ  لیٹر آج کی تاریخ میں میل کرنا ہے تو جلدی سے لفافہ باہر رکھ آؤ  – ڈاکیا آنے ہی والا ہوگا،” وہ سمجھیں شازیہ کے ہاتھ میں وہ خط ہے جو وہ میل کرنا چاہتی تھی – اچانک انھیں اندازہ ہوا کہ وہ نہ صرف چپ تھی ، بلکہ بے حس و حرکت بھی- وہ کام چھوڑ کر اس کی طرف آئیں –

“مریم ، تم ٹھیک تو ہو؟” انہوں نے اس کی کندھے پر  ہاتھ رکھا – 

“پتا نہیں امی جی، ” اس کی آواز بیحد شکستہ اور کھوئی کھوئی سی  تھی- شائد اس لیے کیونکہ  زندگی کی کھوئی ہوئی چیزیں ‘تلاش ‘ کرنے کا وقت آ گیا تھا- “آپ بیٹھ جائیں ،” اس نے سامنے کی کرسی کی طرف اشارہ کیا – شازیہ بیٹھیں نہیں بلکہ انہوں نے  آہستگی سے اس کے بے جان ہاتھ میں تھما ہوا کاغذ لیا اور اسے کھولا – ایک ہی نظر میں وہ بات کی تہہ تک پہنچ گیئں –  ایک گہری سانس لیتے ہوۓ وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیئں –

“یہ تمہارے دیکھنے کے لیے نہیں تھا،” ان  کی آواز نرم تھی –  

“کیا یہ وہی زیدان خان ہے؟” مریم  کی آواز اس کے اپنے کانوں کو اجنبی لگی-

“ہاں-” 

مریم کا دل چاہا کہ کاش ان کا جواب ‘نہ ‘ میں ہوتا – اس کے خوف میں اضافہ ہوا – 

“شمیم آنٹی کی بیٹی  کی ولدیت میں اس آدمی کا نام کیوں لکھا  ہوا ہے؟” اس کے پوچھا – شازیہ نے گہرا سانس لیا – 

“اس لیے کہ وہی  اس کا باپ ہے- عینی شمیم اور تنویر کی سگی بیٹی نہیں ہے،” شازیہ نے الفاظ نہیں، اسے ایک  بھاری  پتھر  دے مارا تھا،”وہ ان کی adopted بیٹی  ہے… زیدان خان کی بیٹی… -” کچھ گھتھیاں سلجھ گئیں تھیں اور کچھ ڈوریں مزید الجھتی جا رہی تھیں- 

“لیکن دنیا میں موجود لاکھوں بچوں میں سے شمیم آنٹی نے زیدان خان کی ہی بیٹی کو گود کیوں لیا ؟”مریم  نے الجھن بھری نظروں سے ماں کو دیکھا – شازیہ کے آنکھوں میں ترحم ابھرا- 

“ہماری درخواست پر….” انہوں نے آہستگی سے جواب دیا – 

“آپ کی…؟؟” الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے -ان  کی  اب ضرورت نہیں رہی تھی – سارے جواب مل گیے تھے، “آپ کا مطلب ہے…؟” جوابات ملنے کے باوجود اس  کا بے یقین ذہن پھر بھی تصدیق چاہ رہا تھا- 

“ہاں مریم، وہ تمہاری بیٹی ہے،” مریم کو سجھ نہیں آیا کہ اس کی زندگی میں اتنا بڑا بھونچال لانے والے وہ  الفاظ اس کی سگی ماں نے اس قدر سکون سے کیسے ادا کیے تھے – وہ بے حس و حرکت شازیہ کو دیکھ رہی تھی – شازیہ  نے  نکاح نامے کو تہہ کر کے ٹیبل پر رکھ دیا اور اپنی بات جاری رکھی ، “عینی  کی پیدائش کے کچھ ہی گھنٹوں بعد تنویر نے تمہارے ابو کے ساتھ جا کر اسے اڈوپٹ کر لیا تھا- background چیک وغیرہ تو کچھ مہینے سے ہی پراسیس ہو چکے تھے اس لیے سب کام فورً ا ہو گیا – عینی کو گود میں لینے والے  سب سے پہلے  تمھارے ابو ہی تھے- شمیم اور تنویر ہمارے بہت پرانے دوست ہیں اور بے اولاد تھے- ان کا کسی  بچے کو  گود لینے کا ارادہ نہیں تھا  لیکن وہ  ایک مسلمان ماں باپ کی لاوارث بچی  کے سر پر ہاتھ رکھنے کے لیے راضی ہو گئے تھے – یہ حقیقت کہ عینی تمھاری بیٹی ہے  صرف میں یا تمھارے ابو ہی جانتے ہیں – اور اب تم جان گئی ہو- شمیم اور تنویر شروع سے کولاراڈو میں مقیم تھے – عینی جب پانچ یا چھ سال کی تھی تو وہ لوگ لوث انجیلس شفٹ ہو گئے – عینی جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی، ہمارے اندر اس کی زندگی کا ایک چھوٹا سا حصّہ بننے کی خواہش  ہمیں بھی ان لوگوں کے قریب لوث انجیلس لے آئی…” مریم بت کی طرح ساکت ان کی  باتیں سن رہی تھی- باتیں کیا تھیں، پے درپے کچوکے تھے جو شازیہ اس کی روح پر لگا رہی تھیں- 

“اس کی زندگی کا حصّہ؟” مریم  نے ان کا آخری فقرہ درشتگی سے کاٹا، “اور آپ کے خیال میں کیا مجھے حق نہیں  تھا کہ میں بھی اس کی زندگی کا کوئی حصّہ بن سکتی؟” اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کی اپنی ماں نے اسے اس کی سگی اولاد سے جانتے بوجھتے محروم رکھا تھا – 

“نہیں مریم، تمہارا اس پر کوئی حق نہیں تھا،” ان کی آواز  اور لہجہ دونوں برف کی طرف ٹھنڈے تھے،” کیونکہ تم نے اپنی زندگی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی  – تمھارے ابو نے اور میں نے تو اس ساری  تباہی کے  ملبے کو اس طرح سمیٹا کہ اس کی بازگشت بھی تم تک پہنچ نہیں پائی  -“

“تو پھر اسے اس طرح اپنے جاننے والوں میں adopt  کیوں کروایا؟” مریم کی آواز میں غصّہ تھا،”چھوڑ دیتے اسے وہیں کہیں یتیم خانے میں کسی کے بھی لیے- یہ  اس تکلیف سے تو بہتر ہوتا کہ میں ساری عمر اس سے واقف رہی لیکن اس کی شناخت سے اتنی لا علم …” اس کی بات پر  شازیہ استہزایا ہنسیں – 

“واقعی مریم؟ کیا تمھارے خیال میں ہمیں یہی کرنا چاہیے تھا؟” ان کی آواز کا ٹھنڈا پن اب حقیقت پسندی میں تبدیل ہو چکا تھا، “تمھارے خیال میں  کیا ہمارے لیے یہ ممکن تھا کہ  ہم جانتے بوجھتے اپنی اکلوتی اولاد کی بیٹی کو کسی غیر مسلمان  یتیم خانے میں چھوڑ کر ، ہاتھ جھاڑ کر آگے بڑھ جاتے؟ تاکہ وہ بے دین لوگوں کے گھروں میں دھکے کھاتی پھرتی اور نہ جانے کیا سے کیا بن جاتی ؟ نہ اسے اپنی اصل باپ کا  نام پتا ہوتا نہ اپنے  دین سے واقفیت ہوتی ؟ نہیں مریم ، ہم جانتے بوجھتے  یہ نہیں کر سکتے تھے – اس کے ‘ہو جانے ‘ کو تو ہم نے برداشت کر لیا تھا لیکن اس کے ‘کھو جانے’ کو ہم کبھی بھی برداشت نہیں کر پاتے – اپنا ورثہ بڑی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے مریم ، اس کی محبت، اس سے عشق  خون میں نہیں، سانسوں میں چلتا  ہے – دنیا میں کسی بھی دین یا قومیت کا غیرت مند  فرد اپنے  ورثے کو اپنے ہاتھوں سے آگ میں نہیں جھونک سکتا  – مرے ہوؤں کو تو سب ہی روتے ہیں لیکن زندوں کو رونا بڑا دل گردہ مانگتا ہے- اور یہ ہم میں نہیں تھا،” وہ رکیں، “کیا یہی وہ وجہ نہیں ہے جس نے تمہیں پچھلے کئی سال سے خوار کیے رکھا ہے؟ کہ تمہاری بچی کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے؟ کن ہاتھوں میں پل رہی ہے؟” 

“میری تکلیف اور کرب کا آپ کو اندازہ تھا ، لیکن آپ نے مجھے پھر بھی نہیں بتایا؟” مریم  کے لہجہ کا غصّہ اب الزام میں بدل گیا تھا، “کس طرح کی ماں اپنی سگی بیٹی کے ساتھ یہ کرتی ہے؟” 

“ایک سمجھ دار ماں ، مریم،” شازیہ نے اس کا ہاتھ تھپکا، “ایک با شعور اور معاملہ فہم ماں اپنی بیٹی کے ساتھ وہی سب کچھ کرتی جو میں نے کیا- تم نے تو اپنی عقل ہوا کے حوالے کر دی تھی- کیا ہم بھی یہی کرتے؟ عینی ہمارا خون ہے مریم – اس کے وجود کا آغاز لاکھ ناگوار حالات میں ہوا ہو  ، لیکن ہے تو  وہ معتبر گھرانوں کا چشم و چراغ – ہم نے وہی فیصلہ کیا جو اس کے لیے اور ہمارے لیے ان حالات میں بہترین فیصلہ تھا- اور الله نے اس کا ثمر بھی خوب دیا ہے-“

“لیکن میں بھی تو آپ ہی کی طرح اس کی زندگی کا ایک حصّہ ہو سکتی تھی امی جی، ” شازیہ کی حقیقت پسندی مریم  کی سمجھ سے بالا تر تھی- 

“نہیں،” انہوں نے اس کی بات کو ایک ہی لمحے میں رد کر دیا، “اگر تم اس کی زندگی کا معمولی سا بھی حصّہ ہوتیں تو تم اپنے ماضی سے ہمیشہ جڑی رہتیں- نہ تمہاری کسی  اچھے گھر میں عزت سے شادی ہو سکتی تھی ، نہ کمیونٹی میں تمہاری کوئی حیثیت ہوتی ،” وہ اٹھ کر الیکٹرک کیتل میں چائے کے لیے پانی بھرنے لگیں، “تم پڑھی لکھی تھیں، خوبصورت تھیں، اور اچھے خاندان سے تھیں- ہم نے تمھارے ماضی کو تمہاری کسی بھی خوبی کو گہنانے سے بچایا تھا اور الله نے ہماری مدد کی تھی- تمہارے ‘شفاف ‘ ماضی کی بنا پر ہی  تمہیں اتنا اچھا، پڑھا لکھا، مسلمان لڑکا مل گیا اور تمہاری زندگی کی گاڑی بخوبی چل پڑی -“

“لیکن میں زیدان سے شادی کر لیتی…اور عینی کو بھی رکھ لیتی،” اس کے الفاظ میں پچھتاوا جھلک رہا تھا- شازیہ اپنا سر ہلاتے ہوۓ ہنس پڑیں – ان کی بیٹی  ابھی تک خوش فہمیوں کے دائروں  میں ہی چکرا رہی تھی- 

Loading

Read Previous

الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ ۔ قسط نمبر ۲۶ ۔ آخری قسط

Read Next

نامراد

2 Comments

  • .Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.

    • its now fixed

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!