مریم اور بچوں کی سیاٹل واپسی میں دو تین دن ہی رہ گئے تھے – اس دن دونوں بچے نذیر کے ساتھ کہیں باہر گئے ہوۓ تھے اور شازیہ کچن میں تھیں- مریم کو ایک ضروری لیٹر کے لیے سٹیمپ کی ضرورت تھی- وہ نذیر کی اسٹڈی میں گھسی ان کے ٹیبل کی دراز میں کاغذ الٹ پلٹ کر رہی تھی جب بلکل اوپر پڑے ایک غیر تہ شدہ دستاویز پر اس کی نظر پڑی – وہ عینی کے نکاح نامے کی کاپی تھی -مریم کو عینی کا خیال آ گیا اور یہ کہ وہ کتنی دلفریب دلہن بنی تھی- مریم کو پتا تھا کہ نذیر عبید نکاح کے گواہوں میں سے ایک تھے اور شاید اسی لیے نکاح نامے کی کاپی بھی ان کے پاس تھی- اس نے سرسری سی نگاہ نکاح نامے پر دوڑائی اور دوسرے ہی لمحے جیسے گھر کی چھت اس کے سر پر آ گری – مریم کو لگا جیسے اس کی سانس بند ہو گئی ہو اور واقعی وہ سانس لینا ہی بھول گئی تھی – اس کے ہاتھوں پیروں سے جان نکل گئی – وہ ایک لمحہ بھی مزید کھڑی رہتی تو یقینً گر جاتی – بے جان ٹانگوں سے لڑکھڑاتی ہوئی وہ کھرتی کے پاس پڑی آرام کرسی پر گری – اپنے لرزتے ہاتھوں میں تھمے نکاح نامے کو اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا –
گو کہ کاغذ کے اوپر موجود حروف اتنے ہی روشن تھے جتنی کہ کھڑکی سے چھن چھن کر آنے والی سنہری دھوپ لیکن اس کا ذہن ان سے مکمل طور پر انکاری ہو رہا تھا- وہ الفاظ اس کے لیے ناقابل یقین تھے –
عینی کے باپ کے نام کے خانے میں زیدان خان کا نام لکھا تھا-
یہ کس طرح ممکن ہو سکتا تھا؟ شمیم کے شوہر کا نام تنویر احمد تھا – عینی کے باپ کے خانے میں تنویر احمد کا نام لکھا ہونا چاہیے تھا، نہ کہ وہ جو اسے نظر آ رہا تھا – اس کی منطق اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی کہ دنیا میں زیدان خان نامی صرف ایک ہی شخص نہیں تھا- لیکن دل اس منطق کو جھٹلا رہا تھا اور اسے جھنجوڑ جھنجوڑ کر یقین دلا رہا تھا کہ دنیا میں بے شک زیدان خان نامی لاکھوں لوگ ہوں ، لیکن مریم کی دنیا میں اس نام کا صرف ایک ہی آدمی تھا اور وہ یہی تھا –
ناقابل یقین یہ بھی تھا کہ اس کے اپنے باپ نذیر عبید کا نام ولی یا سر پرست والے خانے میں لکھا ہوا تھا، گواہ کے خانے میں نہیں اور تنویر احمد کا نام ایک گواہ کے طور پر تھا – ایسے کیسے ہو سکتا تھا کہ اس کے اپنے باپ اور زیدان خان کے نام ایک اتنے حساس نوعیت کے قانونی اور شرعی دستاویز پر ایک ساتھ موجود تھے ؟ یہ ہرگز ایک اتفاقی مطابقت نہیں ہو سکتی تھی- اس نے بے یقینی اور وحشت کے عالم میں دو تین بار نکاح نامہ اس امید کے ساتھ پڑھا کہ جو بھی اس نے پہلی بات پڑھا وہ محظ نظر کا دھوکہ تھا- لیکن اس کاغذ کے ٹکرے پر کچھ بھی نہیں بدلا – سب نام انہی خانوں میں اس طمطراق کے ساتھ موجود رہے گویا وہی ان کی جائز جگہ تھی – مریم ہاتھ میں وہ کاغذ کا ٹکرا لیے اٹھ کھڑی ہوئی جس نے لمحوں میں اس کی ہستی کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے تھے- اسے شازیہ سے کچھ ضروری سوالات کرنے تھے-
________________________________
2 Comments
.Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.
its now fixed