لیکن ڈاکٹر نے ان علامات کے پیچھے جو وجہ بتائی اس نے شازیہ کے پیروں کے نیچے سے زمین ہی کھینچ لی۔ ان کی زبان گنگ ہو گئی ۔ مریم کے تو پیٹ میں جیسے کسی نے چھرا گھونپ دیا ہو ۔ اس کا دم گھٹنے لگا اور سانس بند ہونے لگی۔ اسے لگا جیسے وہ مر چکی ہو اور جہنم میں آ گئی ہو۔ یقینا جہنم رسید لوگوں کے اندر بھی اسی طرح کی وحشت اور آگ بھر جاتی ہوگی جیسی اس کے اندر اچانک بھر گئی تھی۔ شازیہ ایک لفظ بولے بغیر اسے گاڑی میں لیے گھر واپس آ گئیں۔
گھر آنے تک پورا راستہ شازیہ خاموش رہی تھیں ۔ وہ فولادی اعصاب کی مالک تھیں اور زندگی نے انہیں اکثر ان اعصاب کی آخری حدوں تک بھی آزمایا تھا لیکن وہ ٹوٹی نہیں تھیں۔ لیکن اب جس ہول ناک نوعیت کی بربادی منہ کھولے ان کے گھر کو تہس نہس کرنے کھڑی تھی، اس کا تو انہوں نے کبھی اپنے بدترین خیالوںمیں بھی تصور نہیں کیا تھا۔ وہ گنگ ہو گئیں تھیں اور ان کی یہ خاموشی مریم کی دہشت میں اضافہ کر رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ ماں اس پر چیخے ، چلائے اس سے باز پرس کرے، لیکن ماں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔
شازیہ عبید کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جو مصیبت میں رونا دھونا مچا کر قیمتی وقت برباد کرنے کے بجائے ایک لمحہ بھیضائع کیے بغیر اس مصیبت کا حل تلاش کرنے میں جت جاتے ہیں ۔ آفت تو مجسم حقیقت بن کر سر پر کھڑی تھی۔ اب سوال تو عزت آبرو بچا کر اس آفت کو سر سے اتارنے کا تھا ۔ عزت کا تحفظ شازیہ کو اپنے اور نذیر سے بھی زیادہ اپنی اس اکلوتی اولاد کے لیے تشویش ناک حد تک لازمی نظر آ رہا تھا جو بے عزتی کے اس آسیب کو ان کے گھر میں لانے کی ذمہ دار تھی ۔
”کون تھا وہ؟“ گھر میں گھستے ہی یہ ان کا پہلا سوال تھا۔ان کی آواز کسی بھی جذبے سے عاری تھی ۔
”زیدان خان؟“انہوں نے مریم کی خاموشی پر خود ہی اندازہ لگایا ۔
مریم صرف سر ہلا کر رہ گئی۔ وہ مر چکی تھی اور مردہ لوگوں کی کوئی آواز نہیں ہوتی۔
”اپنے کمرے میں جاﺅ، میں تم سے بعد میں بات کروں گی۔“ انہوں نے جیسے اسے اپنی نظروں سے دور کیا ۔ وہ کسی گہری سوچ میں تھیں۔ ان کا ذہن حل ڈھونڈنا چاہتا تھا لیکن ان کی اندر کی توڑ پھوڑ اس قدر پُرزور تھی کہ وہ کچھ سوچ ہی نہیں پا رہی تھیں۔ ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ مریم پر چیخیں ، چلائیں اور اس سے پوچھیں کہ اس نے اپنے ماں باپ کو کس گناہ کی سزا دی ہے۔ لیکن انہیں اندازہ تھا کہ اگر وہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں لگ جاتیں تو ضروری کام پیچھے چلے جاتے ۔ اور ضروری کام فوری غور طلب تھے۔
اپنے کمرے کی ایک دیوار سے ٹیک لگائے ، کارپٹ پر بیٹھی مریم کو شدت سے ماں کی گالیوں اور پھٹکار کی آرزو ہوئی۔ ان کی خاموشی کی مار سے تو کچھ بھی بہتر ہوتا لیکن شازیہ نے نہ صرف اس دن اس کی یہ آرزو پوری نہیں کی، بلکہ کبھی نہیں کی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اس تمام بدبختی کا مورد الزام مریم کو کم اور خود کو زیادہ ٹھہرا رہی تھیں۔ مریم تو بچی اور ان کی امانت تھی۔ وہی اس امانت کی حفاظت نہیں کرپائی تھیں۔ چوک انھیں سے ہوئی تھی ۔ خیانت کا قصوروار امانت کو ٹھہرانا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
مریم کو اس دن سمجھ آیا کہ وہ مایوسی اور یاسیت کی کون کی دہلیز ہوتی ہے جس پر پہنچ کر لوگ خود کشی کی حرام موت کو گلے لگاتے ہیں ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کمرے کی کھڑکی سے کود جائے اور اپنی نہیں تو اس زندگی کی سانسیں ختم کر دے جس نے اس کی اتنی مضبوط ماں کی گویائی چھین لی تھی۔ لیکن وہ اس قدر بزدل تھی کہ صرف سوچ کر ہی رہ گئی۔ اور اگر وہ بزدل نہ ہوتی تو اس آفت میں پھنستی ہی کیوں؟ وہ زیدان کو ہی نہ روک دیتی؟ اب بہادری دکھا کر گیا وقت واپس نہیں آ سکتا تھا ۔ اسے اپنے آپ سے کراہیئت محسوس ہو رہی تھی۔
شازیہ نے اسے نذیر کا پیغام پہنچا دیا تھا کہ وہ کوئی بات کرنا تو دور اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے لہٰذا وہ ان سے دور رہے ۔ ماں باپ کی خاموشی مریم کے لیے کسی بھی مار پیٹ اور غصے کے اظہار سے کئی گنا بڑا عذاب تھی ۔ وہ کمرے میں بند ہو گئی تھی اور کھانے کے نام پر بہ مشکل وہ سینڈوچ کھا رہی تھی جو شازیہ خاموشی سے اس کے کمرے میں رکھ جاتی تھیں۔ اسے اندازہ تھا کہ غذا کی سادگی جان بوجھ کر نہیں تھی بلکہ شاید اس کی طرح گھر کے دوسرے دو افراد یہ سینڈوچ بھی نہیں کھا پا رہے تھے ۔ اور واقعی شازیہ تو دن رات اس ڈاکٹر کی کھوج میں مصروف تھیں جو اس بلا کو ان کے سر سے ٹالنے کے لیے راضی ہو جائے ۔ وہ کھانا کیا پکاتیں اور کیا کھاتیں۔
بالآخر ایک اچھے گائناکالوجسٹکا پتا نکال کر وہ مریم کو اس کے پاس لے گئیں لیکن اس نے تو ان کے بدترین خدشات پر ٹھپا لگا دیا۔ تین مہینے کا ٹائم گزرنے اور مریم کی عمر دیکھتے ہوئے وہ کام قانونی طور پر جائز نہیں تھا جس کی امید میں وہ وہاں گئیں تھیں۔ اگر یہ ممکن بھی ہوتا تو اس وقت تک نذیر یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ وہ جان بوجھ کر ایک زندگی کا خون اور ایک سنگین گناہ اپنے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔ انہیں ہر حال میں کسی اور راستے کا انتخاب کرنا تھا چاہے وہ کتنا ہی خاردار کیوں نہ ہو۔
مریم کی زندگی پر ایک فل اسٹاپ لگ چکا تھا۔ وہ اسکول نہیں جا رہی تھی اور اس کا فون پہلے دن ہی شازیہ نے لے لیا تھا۔ ویسے بھی اسے کسی چیز کی آرزو نہیں رہی تھی ۔ وہ صرف ماں باپ کی طرف سے سزا سننے کی منتظر تھی۔ ایک ہفتے بعد شازیہ نے اس کے سامنے بیٹھ کر بات کی۔
”تم نے اس بات کا ذکر کسی سے بھی نہیں کرنا، خاص طور پر زیدان سے۔“ ان کے لہجہ اور سنجیدہ تھا، بالکل ویسا جیسے وہ مالی کو لان کی دیکھ بھال کے متعلق ہدایات دے رہی ہوں۔
”میں نہیں چاہتی کہ کسی کو بھی کچھ معلوم ہو۔“
”لیکن امی جی زیدان کو تو بتانا۔“ آنکھیں نیچے کیے وہ ہکلائی ۔
”کیوں؟“شازیہ نے درشتی سے اس کی بات کاٹی۔“
”تاکہ تم اسے قصور وار ٹھہراﺅ ؟ اور اسے یہ جتاﺅ کہ اس نے تمہاری زندگی برباد کر دی ہے؟“ وہ پہلی مرتبہ اپنے غصے اور اشتعال کا اظہار کر رہی تھیں۔
”نہیں مریم ! یہ زیدان کی غلطی نہیں ہے۔ یہ سراسر تمہاری غلطی ہے اور شاید تم سے بھی بڑھ کر ہماری غلطی ہے۔ کوئی نادان اور بے عقل انسان ہی اس بات کا الزام کسی اور کو دے گا، خاصکر زیدان کو۔ اس نے اگر ڈاکا ڈالا تو وہ اس لیے کہ ہم نے اپنی چیز کی حفاظت کی ہی نہیں۔“ان کی سانس پھول گئی اور مریم تو جیسے سانس لینا ہی بھول گئی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ امی جی کی خاموشی زیادہ ظالم تھی یا ان کے غصے کا اظہار۔
”جو خطا ہوئی سو ہوئی، اب کیا اس کا ساری دنیا میں اشتہار لگاتے پھریں ؟ لوگوں کو دعوت دیں کہ آﺅ ہم پر انگلیاں اٹھاﺅ ، ہماری تربیت پر تھوکو، اور ہماری جزا اور سزا کا حساب کتاب کرو؟“ پہلی بار شازیہ کا لہجہ روہانسی ہوا۔
”تو پھر اب میں کیا کروں؟“ مریم کے اندر ایک نئی دہشت جاگی ۔ کوئی راستہ نکلنے کی ایک موہوم سی امید جو دل میں تھی، وہ شازیہ نے ایک ہی جھٹکے میں گل کر دی تھی ۔
2 Comments
.Story is incomplet. Kindly upload remaining pages.
its now fixed