نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

“آپ ایک بار اس سے بات کر کے تو دیکھیں۔ کیا پتا وہ مان جائے۔” ماما نے اصرار کیا۔ کمال صاحب نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا تو وہ اُٹھ کر چلی گئیں۔ جب وہ واپس آئیں تو کائنات ان کے ساتھ تھی۔میرے دل میں گھنٹیاں بجنے لگیں۔میں اور ماما کھڑے ہو گئے تھے۔ماما کی نظروں میں اس کے لیے ستائش تھی۔ اس نے مجھے دیکھا تو ہمیشہ کی طرح اس کے چہرے پہ ناگواری اور غصے کے تاثرات تھے۔اس نے گھور کر مجھے دیکھا تو میں نے سر جھکا لیا ۔
“بہت چھچھورے ہو تم۔ عام مردوں کی طرح جہاں لڑکی دیکھی وہیں چکر چلانے لگ گئے۔ جب دال نہیں گلی تو میرے گھر تک آگئے میرا پیچھا کرتے ہوئے۔” وہ غصے سے بولی۔ہم سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔
“کائنات بیٹا۔۔۔! یہ ہمارے مہمان ہیں۔”، کمال صاحب نے کہا۔
“مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ کون ہے۔لیکن میرا جواب آج بھی نہ میں ہے اور ہمیشہ نہ میں ہی رہے گا۔”، اس نے غصے سے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔ کمال صاحب نے شرمندگی سے سر جھکالیا تھا۔
٭…٭…٭





کائنات کے انکار کے بعدمیرے اور ماما کے درمیان اس موضوع پہ پھر کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیکن میرے دل میں ایک خلش موجود تھی جو مجھے بے چین کیے ہوئے تھی۔ میں اسے بھول نہیں سکتا تھا۔اس لیے اب میری دعائوں میں شدت آگئی تھی۔ مجھے مولانا صاحب کی بات اچھی طرح یادتھی کہ دعا میں طاقت ہوتی ہے۔ اگر دعا خلوص دل سے کی جائے تو ضرور پوری ہوتی ہے۔اسی طرح کئی دن گزر گئے۔اس کا چہرہ بار بار میری نگاہوں میں گھوم رہا تھا۔ میں چاہ کر بھی اسے نہیں پا سکتا تھا۔ ماما اس دوران کئی بار میری شادی کی بات کر چکی تھیں ۔لیکن میں ٹال رہا تھا۔اس بات کو گزرے ایک مہینہ ہو گیا تھا۔لیکن میں پھر بھی اس کے لیے بے چین تھا۔پھر اتفاق سے وہ مجھے ایک شاپنگ مال میں ملی۔میں اپنے لیے شاپنگ کر نے آیا تھا۔ وہ اپنی ایک دوست کے ساتھ تھی۔اسے دیکھ کر میرا دل بے اختیار دھڑکنے لگا تھا۔اس نے مجھے ناگواری سے دیکھا اور جانے لگی۔ میں نے اس کا راستہ روک لیا۔ اس کے چہرے کا رنگ بدلااور اس پر غصے کے تاثرات آگئے۔
“میرا راستہ چھوڑ دو۔” وہ غصے سے بولی۔
“ایسے نہیں۔۔۔۔پہلے آپ کو میری بات سننی ہوگی۔” میں نے اٹل لہجے میںکہا۔
“لیکن مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرلی۔” وہ آپ کی بہ جائے تم کہہ کر مخاطب کر رہی تھی لیکن مجھے اچھا لگا تھا۔
“نہیں۔۔۔۔! اب میں آپ سے بات کئے بغیر نہیں جائوں گا، آپ کو میری بات سننی ہوگی” میں نے سخت لہجے اور تھوڑا اونچی آواز میں کہا تو ارد گرد کے لوگ متوجہ ہو گئے تھے۔ لیکن مجھے پرواہ نہیں تھی۔ اس نے شرمندگی سے ادھر اُدھر دیکھا۔ اس کی دوست ابھی تک نہیں بولی تھی اس نے پہلی بار مداخلت کی۔
“پلیز آپ اس طرح نہ کریں ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔” وہ آہستہ سے بولی۔ وہ میرے بدلے ہوئے تیور دیکھ رہی تھی۔ اس لیے اس نے مصلحت کی راہ نکالی۔
“بیٹھ کر بات کرنے کا ٹائم گزر گیا۔” میں نے اس بار دھیمے لہجے میں کہا۔” آپ کی دوست کو میری یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ میں ان سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔” میں نے آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے کہا۔” لیکن یہ کیا جانیں کسی کے جذبات اور احساسات؟ ان کو تو اپنی انا اور ضد پیاری ہے۔ انہوں نے کون سا کسی سے محبت کی ہے جو پتا چلے کہ جب محبت ہوتی ہے توانسان کی کیا حالت ہوتی ہے اور جب کوئی آپ کی محبت کو ٹھکراتا ہے تو اس وقت دل پہ کیا گزرتی ہے۔” میں نے کائنات کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اس نے منہ دوسری طرف کر لیا۔
“دیکھیے ہم بیٹھ کر بات کر سکتے ہیں۔” اس کی دوست بولی۔
“میں کچھ نہیں جانتا بس اتنا جانتا ہوں کہ میں آپ کی دوست سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور بس۔۔۔۔! یہ میرا کارڈ ہے اس پر میرے آفس کاا ور میرا نمبر موجود ہے۔مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔” میں نے اس کی طرف دیکھا اور کارڈاس کی دوست کو پکڑا کر آگے بڑھ گیا۔
٭…٭…٭
کائنات کی دوست جس کا نام آمنہ تھا، اگلے دن اچانک میرے آفس آگئی۔ رسمی تعارف کے بعد اس نے بات کا آغاز کیا۔
“یقینا ایان صاحب آپ بہت اچھے ہوں گے بلکہ اچھے ہیں، لیکن کائنات اب دوبارہ شادی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ ایک بھیانک تجربے سے گزر چکی ہے اس لیے اسے دُہرانا نہیں چاہتی بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ ڈر گئی ہے۔” اس نے کہا۔
“میں مانتا ہوں کہ یہ ایک بہت برُا تجربہ تھا لیکن کیا ضروری ہے کہ ہر بار ویسا ہی ہو؟” میں پریشانی سے بولا۔ میں جانتا تھا کہ اسے کائنات نے بھیجاہے اور یقینا انکار کیا ہوگا۔
“اس کا مردوں پر سے اعتبار اٹھ چکا ہے، اس کے نزدیک دنیا کا ہر مر درندہ ہے جو عورت کو بس اپنی ہوس مٹانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔” آمنہ نے کہا۔
“ہر مرد برُا نہیں ہوتا، اچھے مرد بھی ہوتے ہیں جیسا کہ میں۔” میری اس بات پہ آمنہ چونک گئی تھی۔
“میرا مطلب ہے کہ میں بھی تو ہوں اور میری زندگی میں آنے والی کائنات پہلی لڑکی ہے۔” میں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
“ویسے آپ کو اس میں کیا اچھا لگا کہ اسی سے شادی کریں گے؟” اس نے کہا۔
“اس کی نیلی آنکھیں،جو پہلی ہی بار میں میرے دل میں اتر گئی تھیں۔” میں نے خواب ناک لہجے میں کہا تو وہ ہنس دی۔
“باتیں خوب بنا لیتے ہیں آپ۔” وہ بولی۔
“حقیقت بیان کر رہا ہوں۔مجھے امید ہے آپ اس سلسلے میں میری مدد کریں گی۔” اسی دوران چائے آگئی۔
وہ چائے کے کپ میں چمچ گھماتے ہوئے بولی۔ “میں کوشش کروں گی۔”
٭…٭…٭
ہر گزرتے دن کے ساتھ میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی اس لیے کہ کائنات کی طرف سے مجھے کوئی امید نہیں تھی۔ آمنہ سے جب بھی بات ہوتی وہ مجھے یہی کہتی کہ آپ اسے کو بھول جائیں۔ لیکن ایسا کیسے ممکن تھا۔ پہلے وہ میری محبت بنی اب میرے دل میں دھڑکن بن کر دھڑکنے لگی تھی۔ بھلا دل سے دھڑکن کبھی جدا ہوئی ہے؟” میں خود سے کہتا۔میری صحت بھی گرتی جا رہی تھی۔ ماما بھی میری وجہ سے بہت پریشان تھیں لیکن میں کیاکرتا؟ میرا کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ بالکل دیوانہ سا ہو گیا تھا۔ پھر میں نے آخری بار اس سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ میں اب اس معاملے کو ختم کرنا چاہتا تھا۔میں نے آمنہ سے بات کی، پہلے تو وہ نہیں مانی پھر میرے بے حد اصرار پر مان گئی اور یہ ملاقات اسی کے گھر پر طے پائی۔ کائنات کو اس کا پتا نہیں تھا۔ میں وہاں پہنچا تو وہ وہاں پہلے سے موجود تھی۔ مجھے دیکھ کر وہ آگ بگولا ہو گئی اور آمنہ کی طرف غصے سے دیکھا میں نے آمنہ کو وہاں سے جانے کو کہا اور وہ وہاں سے چلی گئی۔
“تم چاہتے کیا ہوا۔۔؟” وہ غصے سے بولی۔
“جب جانتی ہو تو پوچھتی کیوں ہو۔۔۔؟ میں نے اب آداب کو ایک طرف رکھ دیا تھا۔
“لیکن مجھے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔ تم سمجھتے کیوں نہیں؟” وہ غصے سے بولی۔
“میں کچھ نہیں سمجھنا چاہتا،نہ ہی مجھے سمجھنے کی ضرورت ہے۔” میں غصے سے بولا۔
“اور تم چاہتی کیا ہو؟ تمہارے دماغ میں اتنی سی بات نہیں آتی کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور شادی کرنا چاہتا ہوں۔” میں اب آپ سے تم پر آگیا تھا اور وہ حیرانی سے میرا منہ تک رہی تھی۔
“لیکن نہیں۔۔۔۔! تمہیں تو شوق ہے دوسروں کو ذلیل کرنے کا، سارے مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔اس کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں،مجھ میں کوئی برائی نہیں ہے۔ میری کوئی لڑکی دوست نہیں ہے، نہ کو ئی گرل فرینڈ ہے۔ اپنا بزنس کرتا ہوں پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں” میں مسلسل بولا رہا تھا اور وہ چپ چاپ سن رہی تھی۔
“اگر میری پارسائی کا ثبوت چاہیے تو مسجد جا کر مولوی عبدالقدوس سے پوچھ لیں کہ میں کیسا ہوں اور شام مغرب اور عشاء کے وقت میری آواز میں اذان بھی سنیں۔” میں نے کہا لیکن اس کے جواب میں اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ میں مایوس ہو گیا۔چند لمحے اسی طرح خاموشی سے گزر گئے۔
“آئی ایم سوری۔۔۔۔ میں کچھ زیادہ ہی بول گیا ہوں، اب میں آپ کے راستے میں کبھی نہیں آئوں گا۔ اﷲ حافظ۔” میں نے کہا اور بوجھل قدموں سے وہاں سے اٹھ گیا۔
٭…٭…٭
اس دن کے بعد سے میں نے کوشش کی کہ خود کو کام میں مصروف رکھوں، اب میں آفس کے کام پر زیادہ دھیان دینے لگ گیا تھا۔ ماما میری اس تبدیلی سے خوش تھیں۔ لیکن میرے دل پہ کیا بیت رہی ہے یہ میں ہی جانتا تھا۔اس بات کو دو ہفتے گزر چکے تھے۔
ایک دن میں آفس میں بیٹھا کا م کر رہا تھا کہ آمنہ کی کال آئی اور میں نے ریسیو کی۔ دعا سلام کے بعد اسنے مجھے ایک دھماکہ خیز خبر سنائی۔
“کیا۔۔۔۔۔؟ کیا کہا آپ نے۔۔۔؟ میں نے تقریباً چیخ دینے والے لہجے میں کہا۔
“جی! بالکل صحیح سنا آپ نے۔۔ کائنات نے ہاں کر دی ہے۔ لیکن اس نے ایک شرط رکھی ہے۔” وہ سنسنی خیز لہجے میں بولی۔
“وہ کیا۔۔۔؟ میرا سانس حلق میں ہی اٹک گیا تھا۔
“اس نے حق مہر میں ایک کروڑ کی ڈیمانڈ کی ہے۔” اس نے کہا تو میں ایک دم چونک گیا۔”




Loading

Read Previous

لیپ ٹاپ — ثناء سعید

Read Next

صدیاں — سائرہ اقبال

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!