نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

کائنات میرے دوست عزیر کی دور کی کزن اور دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہے۔ماں ،باپ حیات ہیں اور اس نے بی ایس سی کیا ہوا ہے۔لیکن ایک ایسی بات جو میرے دوست نے اس کے بار ے میں بتائی تو پہلے تو میں سکتے میں آگیا ،اور یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ایسی معصوم اور نازک سی لڑکی ایک بڑے طوفان سے گزر چکی ہے۔مجھے یہ تمام باتیں عزیر نے بتائیں۔
“یار وہ نا صرف طلاق یافتہ ہے بلکہ زندگی میں کبھی اس کی گود ہر ی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اس کا خیال دل سے نکال دے۔”، عزیر مجھے سمجھاتے ہوئے بولا۔ایک لمحے کے لیے میرا سر گھوم گیا تھا۔میں گم سم بیٹھا تھا جب عزیر نے مجھے جھنجھوڑا۔
“دیکھ یار۔۔! ہم مرد کتنے بھی اچھے بننے کی کوشش کریں ۔لیکن شادی ایک ایسی لڑکی سے کرتے ہیں جو غیر شادی شدہ ہو،طلاق یافتہ اور بیوہ سے شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ہم صرف باتیں کر سکتے ہیں عمل نہیں ۔اس لیے اسے بھول جا۔” وہ اس معاشرے کی ایک تلخ حقیقت سے پردہ اٹھا رہا تھا۔اس کی باتیں سن کر میں چپ چاپ واپس لوٹ آیا۔عزیر کی باتیں میرے سر پہ ہتھوڑا بن کر برس رہی تھیں۔
“ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔؟ ایسی معصوم اور پیاری سی لڑکی کو بھلا کون ٹھکرا سکتا ہے؟ میں بیڈ پر لیٹا خود سے سوال کر رہا تھا۔”ایسا نا ممکن ہے۔وہ تو ایسی لڑکی ہے کہ کسی بھی مر د کی زندگی کو جنت بنا سکتی ہے۔ نہیں۔ نہیں۔ عزیر جھوٹ بول رہا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی بات کہیں اور طے ہو اور عزیر مجھے ٹالنے کے لیے یہ سب کہہ رہا ہو،مجھے خود اس سے بات کرنی ہوگی۔یہ سوچتے سوچتے میں نیند کی وادی میں چلا گیا تھا۔
٭…٭…٭





ماما میری حالت سے پریشان تھیں۔انہوں نے کئی بار مجھ سے پوچھا لیکن میں ٹال گیا۔ہر بار کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتا۔ ماما سے بات کرنے سے پہلے اس سارے معاملے کو میں خود ہینڈل کرنا چاہتا تھا۔لیکن ماما بھی میرا پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھیں۔ایک شام میں جیسے ہی آفس سے آیا ،انہوں نے مجھے گھیر لیا۔مجھے کپڑے بھی چینج کرنے نہیں دیے اور کھینچ کر صوفے پر لے گئیں۔پہلے مجھے زبردستی بٹھایا اور پھر خود میرے قریب بیٹھ گئیں۔ انہوں نے میرا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا۔
“ماں ہوں میں تمہاری! تم نے کب سے مجھ سے اپنی باتیں چھپانا شروع کر دی ہیں؟ وہ محبت بھرے لہجے میں بولیں اور مجھے اپنے لب کھولنے ہی پڑے۔
“مجھے ایک لڑکی اچھی لگتی ہے۔” میں نے ہمت جمع کرتے ہوئے کہا تو ماما ہنس پڑیں۔
“آپ ہنس رہی ہیں؟” میں نے رو دینے والے لہجے میں کہا۔
“اس لیے ہنس رہی ہوں کہ مجھے پتا تو تھا کہ کوئی لڑکی کا ہی چکر ہے بس تمہارے منہ سے سننا چاہتی تھی۔” انہوں نے میرے گال تھپتھپائے اور میںنے چونک کر انہیں دیکھا۔
“ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ ماں اپنے بیٹے کے اندر تک جھانک لیتی ہے،اور میں تو تمہاری دوست بھی ہوں،بس شکوہ ہے کہ تم نے بتانے میں دیر کردی۔” وہ محبت سے بولیں، اور میں چپ چاپ ان کو تکتا رہا۔
“یہ بتائو اب اس لڑکی کے گھر چلنا کب ہے؟ یہ تو میں نہیں پوچھوں گی کہ وہ لڑکی کون ہے؟ کیسی ہے؟ جانتی ہوں میں اپنے بیٹے کی پسند کو۔ “وہ مسکراتے ہوئے بولیں اور میں ایک ٹھنڈی آہ بھر کررہ گیا۔ اب میں انہیں کیا بتاتاکہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا نظر آرہا ہے۔میں ابھی بات کو ٹال گیا تھا لیکن انہوں نے تنبیہ کی تھی کہ جلد از جلد میں انہیں لڑکی کے گھر والوں سے ملوا دوں۔
٭…٭…٭
عزیر نے ہماری ملاقات کا انتظام اپنے گھر میں کروایا تھا۔اس نے کائنات کو میرے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔کائنات اسی کے علاقے میں اس کی پچھلی گلی میں رہتی ہے اس لیے اس کے لیے آنا مشکل نہیں تھا۔میں وقت سے پہلے ہی وہاں پہنچ گیا تھا، وہ ابھی تک نہیں آئی تھی۔میرے لیے وقت گزارنا مشکل ہو رہا تھا۔میں بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ماہم بھابھی کچن میں کھانا بنا رہی تھیں اور عزیر میرے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔
“آجائے گی یار۔۔۔!،تھوڑ اصبر کر۔”،وہ میری بے چینی دیکھتے ہوئے بولا۔تھوڑی دیر بعد وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔ وہی باوقار چال،چہرے پہ چھائی گہری سنجیدگی۔جیسے ہی وہ پاس پہنچی، ہم دونوں کھڑے ہو گئے۔ اس نے ہم سے سلام لیا تھا۔ میری طرف اس کا دھیان نہیں گیا تھا۔جب میں نے اس کے سلام کا جواب دیا تب وہ چونکی۔مجھے دیکھ کا اس ے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات واضح تھے۔
“آپ نے مجھے کس کام سے بلایا تھا عزیر بھائی؟”، وہ سنجیدہ لہجے میں بولی۔ عزیر نے میری طرف دیکھا۔اور میرے چہرے پہ پریشانی کے تاثرات آگئے۔
“تم بیٹھو۔۔۔۔!”اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
“نہیں آپ بات کریں میں رک نہیں سکتی ۔”،وہ تیزی سے بولی۔
اس کے بعد ایک بار بھی اس نے میری طرف نہیں دیکھا۔ عزیر نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا۔ جیسے میں اپنی ہمت مجتمع کر رہا ہوں چند لمحے اسی طرح گزر گئے میری اپنی سانسیں اٹکی ہوئی تھیں۔” وہ۔۔میں نہیں، ایان تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔یہ میرا دوست ہے” عزیر نے ڈرتے ہوئے کہا۔ اور اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔
“جی بولیں۔۔۔۔،”وہ رکھائی سے بولی۔ میں نے ایک نظر عزیر کی طرف دیکھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں میری ہمت بندھائی۔
“میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔” میں نے تمہید باندھنے کی بہ جائے آسان لفظو ں میں اسے کہہ دیا کائنات کے ساتھ ساتھ عزیر کو بھی حیرت کا جھٹکا لگا۔دونوں نے چونک کر میری طرف دیکھا۔
“دماغ تو ٹھیک ہے آپ کا۔۔۔۔؟آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں۔؟ کبھی گاڑی ٹکراتے ہیں،کبھی میرے راستے میں آتے ہیں۔” میں آپ سے شادی تو دور کی بات آپ سے بات کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتی۔” اس کاچہرہ غصے سے لال ہو رہا تھا۔اس نے ایک نظر عزیر پہ ڈالی اور پائوں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
٭…٭…٭
آخر کار میں نے ماما کو اس کے بارے میں سب بتا دیا۔ان کو حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ “ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔۔؟ میں ایک طلاق یافتہ کو اپنی بہو بنا لوں۔۔۔۔؟ ماما غصے سے بولیں۔
“تو کیا ہوا ماما۔۔۔۔۔؟ طلاق یافتہ سے شادی کرنا جرم ہے کیا ۔۔۔۔؟ اس میں اس کا کیا قصور۔۔؟” میں نے کہا۔
“میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے یہ رشتہ منظور نہیں ہے۔” انہوں نے غصے سے کہا اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئیں۔ میں بے بسی سے انہیں جاتے دیکھتا رہا۔
ماما راضی نہیں تھیں تو میں کائنات سے کیا بات کرتا۔ماما کے انکار کے بعد تو میرا ہرکام سے دل اٹھ گیا۔ کسی کام میں جی نہیں لگتا تھا۔مسجد بھی میں جاتا تو بُجھا بُجھا سا رہتا۔ماما نے بھی میری کیفیت نوٹ کی تھی لیکن وہ نہیں مانیں۔
مولوی عبدالقدوس صاحب نے بھی میری یہ کیفیت نوٹ کر لی تھی۔ایک دن جماعت کے بعد میں جانے لگا تو انہوں نے مجھے روک لیا۔میں ایک کونے میں بیٹھ گیا۔جب تمام نمازی چلے گئے تو وہ میرے پاس آئے اور میرے سامنے بیٹھ گئے۔
“دیکھو بیٹا۔۔!یہ جو پریشانیاں ہوتی ہیں ناں یہ زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔اگر یہ نہ ہوں تو زندگی کا مقصد ختم ہو جائے۔” انہوں نے تمہید باندھی۔
“مشکلات اور پریشانیاں انسان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی ہیں،تم تو بہت بہادر ہو، پھر ایسی کون سی پریشانی ہے کہ اپنی عبادات کو یک سوئی سے نہیں کر رہے۔ پریشانیاں تو انسان کو اﷲ پاک کے قریب کرتی ہیں۔” انہوں نے کہا تو میں شرمندہ سا ہو گیا۔پھر میں نے انہیں ساری بات بتائی۔
“محبت کرنا بہت آسان ہے لیکن اسے نبھانا بہت مشکل ہے۔وہ بھی ایک ایسے انسان کے ساتھ جس میں کوئی خامی ہو اور وہ بھی ایک عورت ہو۔” تمہارا جذبہ بہت اچھا ہے۔لیکن ہمارا یہ نام نہادمعاشرہ عمل کی بہ جائے باتوں پہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میںطلاق یافتہ اور بیوہ عورت کی کوئی عزت نہیں،اسے کوئی اپنانے کو تیار نہیں ہے۔” انہوں نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
تم اﷲ سے مدد مانگو، اگر تمہارے حق میں اچھا ہواتو وہ تمہاری تمام مشکلات آسان کر دے گا۔
٭…٭…٭
پھر ایسا ہی ہوا،اﷲ نے میری سن لی ۔ماما مان گئی تھیں۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی، ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے سارے جہان کی خوشیاں مل گئی ہوں۔ میں نے عزیر سے کائنات کے گھر کا ایڈریس معلوم کیا۔اس نے بہت مجھے سمجھایا لیکن میں نے اسے کہا کہ اس میں صرف میری ہی نہیں اﷲ کی بھی مرضی شامل ہے۔ بہرحال ہم اس کے گھر پہنچے۔ میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے گھر کے اندر قدم رکھا۔عزیر نے ان لوگوں کو پہلے ہی ہماری آمد کے بارے میں بتا دیا تھا۔ کائنات کے والدین نے ہمارا پر تپاک استقبال کیا اور ہماری مشروبات اور دیگر لوازمات کے ساتھ تواضع کی گئی۔میری بے چین نگاہیں اس کو ڈھونڈھ رہی تھیں۔ماما نے میری بے چینی نوٹ کر لی تھی۔ کھانے پینے سے فارغ ہو کر باقاعدہ بات چیت کا آغاز کیا گیا۔ماما نے پہلے اپنے اور میرے بار ے اوراپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بتایا۔کائنات کے والد کا چھوٹا سابزنس ہے۔ جسے وہ احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ماما نے میرے لیے کائنات کا رشتہ مانگا تو ایک دم دونوں کے چہروں پہ تاریکی چھا گئی۔ اس کے والد کمال صاحب بہت کم گو انسان ہیں۔ اور دھیمے مزاج کے آدمی ہیں۔ جب ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تو ماما نے خود ہی بات آگے بڑھائی۔
“ہم جانتے ہیں آپ کی بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا۔لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، وہ اس کا ماضی تھا۔ اور اب میرے بیٹے کا وہ مستقبل ہے۔میرے بیٹے کی کہیں سے بھی آپ گارنٹی لے سکتے ہیں کہ کیسا ہے یہ؟ مجھے یقین ہے کہ کائنات بیٹی میرے بیٹے کے ساتھ خوش رہے گی۔” ماما نے کہا اور میں سر جھکائے چپ چاپ ساری کارروائی سنتا رہا۔
“آپ کی مہربانی کہ آپ نے ہمیں اس قابل سمجھا۔لیکن میری بیٹی شادی کرنا ہی نہیں چاہتی۔ ایک بھیانک تجربے کے بعد وہ مزید زخم نہیں سہنا چاہتی۔” وہ کرب سے بولے۔ان کے لہجے میں ایک باپ کی بے بسی کی جھلک نمایا ں تھی۔




Loading

Read Previous

لیپ ٹاپ — ثناء سعید

Read Next

صدیاں — سائرہ اقبال

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!