نیلی آنکھوں والی — عائشہ احمد

کیا ہوا۔۔۔۔؟ میرا جواب نہ پاکر وہ بولی۔
“کچھ نہیں۔۔۔۔! ان سے کہیں مجھے منظور ہے۔ میں نے فون بند کیا اور جلدی سے گھر کی طرف روانہ ہوا ۔میں ماما کو جلد سے جلد یہ خبر سنانا چاہتا تھا۔
ماما یہ خبر سن کر بہت خوش ہوئیں لیکن حق مہر کی بات سن ان کے چہرے پہ ایک رنگ آکر گزر گیا۔ لیکن وہ منہ سے کچھ نہ بولیں۔ وہ جانتی تھیں کہ کائنات کو پانے کے لیے میں ایک کروڑ تو کیا، اپنا کچھ بھی لٹا سکتا ہوں ۔
یوںوہ دلہن بن کے میری زندگی میں آگئی نکاح بہت سادگی سے ہوا۔ یہ اس کی خواہش تھی۔
لیکن ولیمہ بہت دھوم دھام سے کیا گیا۔ میرے پائوں زمین پر نہیں لگ رہے تھے۔ کائنات میری زندگی میں ایک نیا سویرا بن کرآئی تھی۔
“یہ بتائیے کہ ہا ںکیسے کردی۔۔۔۔؟ میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر اس سے پوچھا۔
”اذان کی آواز سُن کر۔۔۔!” اس نے دھیرے سے کہا اور میں مسکرا دیا۔ پھر میں نے شیروانی کی جیب سے چیک نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
“یہ کیا۔۔۔۔۔؟ وہ حیران ہو کر بولی۔
”میری محبت کی پہلی نشانی۔” میں نے ایک کروڑ کا چیک اس کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔
“لیکن۔۔۔!” وہ پریشانی سے بولی۔
“کوئی سوال جواب نہیں۔ یہ آپ کا حق ہے۔ ویسے بھی حق مہر ادا کرنا شوہر کا فرض ہے، مجھے آپ کا اکائونٹ نمبر نہیں معلوم تھا ورنہ اس میں جمع کر وا دیتا۔” میں نے کہا اور وہ حیران نظروںسے مجھے دیکھتی رہی۔
“اب تو یقین آگیا ناں میری محبت کا؟” میں نے مسکرا کر پوچھا تو اس نے بھی مسکرا کر میرے کندھے پہ سر ٹکا دیا۔
اس کے آنے سے میں مکمل ہو گیا تھا۔ماما بھی بہت خوش تھیں۔ایک ہفتہ دعوتیں اڑاتے گزر گیا۔اس کے بعد ہم ہنی مون منانے لندن چلے گئے۔یوں زندگی بڑے مزے سے گزرنے لگی۔ہماری شادی کو کے چند ماہ بعد ہی مامانے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانے کو کہا۔
“لیکن کیوں ماما۔۔۔؟ ویسے بھی شادی کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں اور اگر ہماری قسمت میں اولاد ہوئی تو اﷲ ہمیں ویسے ہی دے دے گا۔” میں نے کہا تو وہ چپ کر گئیں۔
لیکن پھر میں اور کائنات ڈاکٹر کے پاس گئے ڈاکٹر نے ہمیں کچھ ٹیسٹ کروانے کو کہا اور ساتھ میں کچھ دوائیاں بھی لکھ کر دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ ڈاکٹر کے پاس سے آنے کے بعد وہ کچھ اداس اداس سی رہنے لگ گئی تھی۔ حالاں کہ میں ہر ممکن اس کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔
“کیا ہوا۔۔۔؟” ایک دن میں نے اس سے پوچھا۔
“کچھ بھی نہیں۔” وہ اداسی سے بولی۔
“ادھر میری طرف دیکھو۔۔۔! میں نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں سے تھام کر کہا تو اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے میں نے اس کے آنسو صاف کیے۔
“میں سمجھ سکتا ہوں تمہارا دکھ، لیکن ہو سکتا ہے اس میں اﷲ پاک کی کوئی مصلحت ہو، اس نے ہمارے لیے کوئی بہتری رکھی ہو۔” میں نے محبت سے کہا۔
“کچھ بھی تو نہیں ہے میرے پاس تمہیں دینے کو۔ گھر اولاد سے بنتے ہیں اور اولاد میاں بیوی کے رشتے کو بہت مضبوط کرتی ہے۔” وہ دکھ سے بولی۔
“لیکن مجھے یقین ہے کہ اﷲ ہمیں اولاد ضرور دے گا۔مایوس نہیں ہوتے۔یہ تو انسانوں کے بنائے ہوئے قانون ہیں کہ اولاد کا نہ ہونا عورت کی وجہ سے ہے، غلط کہتے ہیں سب،اولاد صرف اس پاک ذات کی مرضی سے ہوتی ہے۔ جب تک وہ نہ چاہے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔بس دعا کرو اﷲ سے کہ جو ہمارے لیے بہتر ہے وہی کرے۔”،میں اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔ پتا نہیں اس کو یہ بات سمجھ آئی کہ نہیں لیکن میرا یمان تھا کہ اﷲ پاک نے جو میرے نصیب میں لکھ دیا ہے وہ مجھے ضرور ملے گا۔
٭…٭…٭





وقت پر لگا کر اُڑ رہا تھا۔ ہماری شادی کو تین سال ہو گئے تھے اور سوائے اولاد کے نہ ہونے کے اور کوئی دکھ ہماری زندگی میں نہیں تھا۔وہ بھی میں نے اﷲ پہ چھوڑ دیا تھا۔ماما تو بالکل مایوس ہو گئیں تھیں۔کبھی کبھار تو وہ مجھ سے اس بات پہ لڑ پڑتی تھیں اور میں انہیں سمجھاتے سمجھاتے تھک جاتا تھا۔ لیکن وہ دونوں بھی کیا کرتیں۔ ماں اپنے بیٹے کی شادی بڑے چائو اور مان کے ساتھ کرتی ہے۔پہلے اپنی اولاد کو محبت سے پال پوس کر جوان کرتی ہے پھر ان کے بچوں کو گود میں کھلانے کی خواہش کرتی ہے۔ بیوی تب تک بیوی رہتی ہے جب تک وہ ماں نہیں بن جاتی۔ ماں بننا اس کا خواب ہوتا ہے۔ ورنہ وہ ادھوری تصور کی جاتی ہے۔ ماں بنتے ہی اس کے لیے تمام رشتے بے معنی ہو جاتے ہیں۔ویسے بھی اولاد نہ ہونے سے عورت کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کا شوہر دوسری شادی نہ کر لے۔لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا تھا۔میں نے کائنات کو اس کی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کیا تھا اور مرتے دم تک ساتھ نبھانے کا عہد کیا تھا۔لیکن خالی باتوں سے تو پیٹ نہیں بھرتا۔ کائنات بہت اداس رہنے لگی تھی۔ میں اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا، لیکن اس کے دکھ میں کوئی کمی نہ آئی۔ کاش میرے بس میں ہوتا تو کسی طرح اس کی جھولی اولاد سے بھر دیتا، لیکن یہ میرے بس میں نہیں تھا۔ ہماری شادی کوتین سال گزر گئے تھے لیکن ان تین سالوںمیں، میںاسے اعتماد نہیں دے سکا بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ اسے میری محبت پہ یقین نہیں آیا۔ لیکن مجھے اپنے اﷲ پہ یقین تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی ہماری دعا سنے گا اور ہمارا گھر بھی خوشیوں سے بھر دے گا۔ لیکن یہ بات ماما اور نیلم کو نہیں سمجھاا سکتا تھا۔ مولوی عبدالقدوس ہمیشہ میرا حوصلہ بڑھاتے تھے۔
“تم مایوس کیوں ہوتے ہو۔۔۔؟ وہ ربِّ کریم بڑا مہربان ہے۔وہ کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا، ہاں بس تھوڑی آزمائش میں ڈالتا ہے۔کسی کو دے کر آزماتا ہے اور کسی کو نہ دے کر آزماتا ہے۔ جو دیئے ہوئے کو اس کی رضا کے مطابق چلائے تو اس کی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی سنور جاتی ہے اور جو اس کی رضا میں خوش رہے وہ بھی جنت کا حق دار ٹھہرتا ہے۔” وہ دھیمے لہجے میں مجھے سمجھاتے ہوئے بولے۔
“دعا مانگنا کبھی نہ چھوڑنا ،دعا کبھی رد نہیں ہوتی بس پورا ہونے میں تھوڑا ٹائم لگتا ہے۔” انہوں نے ہمیشہ کی طرح مجھے لاجواب کردیا تھا۔
٭…٭…٭
ایک دن میں گھر پہنچا تو گھر میں گہری خاموشی چھائی تھی۔ماما اور کائنات کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ورنہ جب بھی میں گھر آتا تھا تو دونوں ڈرائینگ روم میں ہی موجود ہوتی تھیں۔ میں سیدھا کمرے میں پہنچا تو کائنات بیڈ کی پشت سے ٹیک لگائے سامنے دیوار کو تک رہی تھی۔ اس کے چہرے پہ پریشانی کے آثار تھے۔ میرے آنے پہ چونک کر اس نے مجھے دیکھا۔ میں نے سلام لیا تو اس نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔
“کیا بات ہے طبیعت تو ٹھیک ہے۔۔۔؟” میں نے اس سے پوچھا۔
“ہاں۔۔ بس ایسے ہی سر میں درد ہے۔” اس کے چہرے پہ پھیکی سی مسکراہٹ تھی۔
“کیا بات ہے۔۔۔؟ ماما نے کچھ کہاہے؟” میں نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلادیا۔
“مجھے سچ بتائو کیا بات ہے۔۔۔۔؟ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔ تو اس کی آنکھیں برسنے لگیں۔ میں جان گیا تھا کہ ماما نے اولاد نہ ہونے کی کوئی بات کی ہے۔ میں غصے سے اٹھا اور ماما کے روم کی طرف چل دیا۔وہ مجھے روکتی رہ گئی ۔ان کے کمرے میں پہنچا تو وہ لیٹی ہوئی تھیں۔انہوں نے میری طرف دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہیں بولیں۔
“میں تنگ آگیا ہوں روز روز کی چخ چخ سے۔۔۔ میں نے شادی اس لیے نہیں کی تھی کہ میری اولاد ہو، اولاد ہونا یا نہ ہونا اﷲ کی مرضی ہے ۔” میں غصے سے بولا۔
“لیکن نہیں۔۔۔! ایسا لگتا ہے کہ میں نے شادی نہیں کی گناہ کیا ہے اور جس کی سزا مجھے روز روز کی لڑائی کی صورت میں مل رہی ہے۔” میں غصے سے چیخا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ مجھے نہیں پتا کہ ماما کی کیا حالت ہوئی تھی لیکن میں گھر سے باہر چلا گیا تھا۔ میں نے کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے اور گاڑی کے بغیر ہی سڑکوں پہ آوارہ گردی کرنے لگا۔
“کیا میں نے شادی اس لیے کی تھی کہ میری زندگی سے سکون ختم ہو جائے۔ کیا اولاد کا ہونا بہت ضروری ہے۔۔۔۔؟” اس طرح کے کئی سوالات میرے دماغ میں جنم لے رہے تھے جن کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عشا کی اذان ہوئی اور میرے قدم مسجد کی طرف بڑھ گئے۔جماعت کے بعد میں وہی بیٹھ گیا اور قراآن پاک کی تلاوت کرنے لگا۔
“اور زمین اور آسمان کی بادشاہت اﷲ ہی کے لیے ہے اور وہ جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے،اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔بے شک وہ ہر چیز پہ قادر ہے۔”
میں سورة الشورٰی کی ان آیات پہ پہنچا تو بے اختیار میر ی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ جب بھی میں کسی مشکل میں ہوتا تو ہمیشہ قرآن پاک سے رہنمائی لیتا۔میں نے قرآن پاک کو باقاعدہ ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہوا ہے اس لیے مجھے اب ازبر ہے کہ کس سورت میں کیا بیان کیا گیا ہے۔میں ایسے ہی روتا رہا اور مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب مولوی صاحب میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔
“خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو اﷲ دین کی سمجھ عطا کرتا ہے اور پھر اس پہ عمل کرنے کی توفیق بھی دیتا ہے۔” انہوں نے کہا تو میں نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔
“ہم مسلمانوںکا زوال کا سبب قرآن سے دوری بھی ہے لیکن ہم سمجھتے نہیں۔ پتا ہے ایان ہم دن میں کتنی بار اﷲ پاک کی آیات کا ذکر کرتے ہیں اور پھر انہیں جھٹلاتے بھی ہیں اور پھر مسلمان ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں لیکن ہم سمجھتے نہیں کہ اس طرح ہم اس خالق کائنات کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔”وہ بولے۔
“آج یہ رات میں مسجد میں گزارنا چاہتا ہوں۔” میں نے ان سے اجازت چاہی۔” پہلے اپنے گھر فون کر کے ان کو اپنی خیریت بتائو ،وہ لوگ پریشان ہوں گے۔” انہوں نے یاد دلایا۔
میں نے ماما کو کال کی تو وہ اور کائنات میری وجہ سے بہت پریشان تھے۔میں نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ مسجد میں کچھ کام ہے اس لیے ادھر ہی رکوں گا۔ یوں دونوں مطمئن ہو گئیں۔
٭…٭…٭
میں قرآن پاک کی تلاوت کرتا رہا اور پھر تہجد ہو گئی اور میں نے تہجد کی نماز ادا کی۔مولوی صاحب تہجد ادا کر کے اپنے حجرے میں جا چکے تھے۔میں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔
“اے اﷲ پاک! تیرا گناہگار بندہ تیرے سامنے سر جھکائے کھڑا ہے،میں نے ہمیشہ تیری رضا کے آگے سر جھکایا ہے اور ہمیشہ جھکاتا رہوں گا۔اگر تیری رضا ہے تو میری خالی جھولی بھر دے۔اس میں اپنی رحمت اور برکت ڈال دے۔ میں جانتا ہوں تیرے گھر میں دیر ہے اندھیر نہیں۔تو دلوں کے حال جانتا ہے۔یہ بھی جانتا ہے کہ تو نے مجھے بن مانگے دیا ہے۔ آج مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔”
میرا چہرہ آنسووں سے تر تھا اور میں نے اپنا سر سجدے میں جھکا دیا تھا۔
٭…٭…٭
“تو باپ بننے ولا ہے”ماما نے مجھے فون کر کے یہ خبر سنائی تو میں اپنی کرسی سے اچھل پڑا۔یہ ٹھیک ایک مہینے بعد کی بات ہے۔
“میں ابھی آیا۔”خوشی سے میری آواز کانپ رہی تھی۔میں نے فون رکھا اور آسمان کی طرف دیکھا۔ خوشی کے آنسو میری آنکھوں سے رواں تھے۔میں نے کوٹ اٹھایا اور مسجد کی طرف چل پڑا ۔میں شکرانے کے نفل ادا کرنا چاہتا تھا۔
ختم شد




Loading

Read Previous

لیپ ٹاپ — ثناء سعید

Read Next

صدیاں — سائرہ اقبال

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!