مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

”اس ملک میں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اصلاح نے تو کینیڈا امیگریشن کے لئے اپلائی کیا ہوا ہے۔ بس چند ہفتوں تک سارا کام ہو جائے گا پھر ہم سب وہیں جا کر سیٹل ہو جائیں گے۔ پاکستان میں تو اب مجبوری میں ہی رہا جا سکتا ہے۔ میرا سارا میکہ اور سسرال امریکہ اور کینیڈا شفٹ ہو چکا ہے۔ بس اصلاح تھے جو یہاں اٹکے ہوئے تھے۔ان کی حب الوطنی ختم کرتے کرتے خاصا وقت لگ گیا مجھے…” وہ ہنسی۔
”چلو دیر آید درست آید…” دوسری عورت نے بھی قہقہہ لگایا۔ وہ دونوں بھی میرے قریب سے گزر گئی ہیں۔
”اس ملک میں کچھ بھی نہیں ہے۔”
اس عورت کا جملہ میرے کانوں میں گونج رہا ہے، وہ عورت وہ جملہ کہنے والی واحد عورت نہیں ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے یہ جملہ بہت سے لوگوں سے سن رہا ہوں۔
”کسی بھی ملک میں کچھ نہیں ہوتا۔ ہر ملک زمین کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے اصل چیز اس زمین کے ٹکڑے پر بسنے والے لوگوں میں ہوتی ہے۔ کمی ہمیشہ ان لوگوں میں ہوتی ہے اور یہ خامی اس ملک کا تعارف بن جاتی ہے۔ ایسا سائن بورڈ جسے پھر وہ ملک اٹھائے پھرتا ہے۔”
میں نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ یہ بات مجھے کس نے کہی تھی اور مجھے یاد آگیا کہ یہ بات کس نے کہی تھی۔
…*…




میرے باپ نے اگلے دن صحن کے ایک کونے میں اس چھری کی دھار کو تیز کیا جس سے ہر سال بکرے ذبح کیے جاتے تھے۔ وہ کندھے پر پڑے ہوئے کپڑے کے ساتھ اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو صاف کرتا جاتا اور پتھر پر چھری کو رگڑتا جاتا۔ میں ایک دفعہ اسے چھری ہاتھ میں لیے دیکھ کر کمرے میں آگیا اور پھر باہر نہیں گیا۔ چار پائی پر بیٹھے میں اپنی دونوں بڑی بہنوں کو کمرے میں آتے جاتے دیکھتا رہا۔ وہ دوپہر کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیں۔
اس دن میں نے ایک لمحہ کے لئے بھی ان کے چہروں سے نظریں نہیں ہٹائیں۔ میں جانتا تھا زندگی میں دوبارہ کبھی میں ان چہروں کو نہیں دیکھ سکوں گا۔ وہ رات کو سو گئیں تو میرے باپ نے مجھے کمرے سے باہر جانے کے لیے کہا۔ میں کپکپاتے ہوئے باہر آگیا، کچھ دیر بعد میرا باپ بھی باہر آگیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں لالٹین اور دوسرے میں چھری تھی مگر چھری پر خون نہیں تھا۔ میں خشک لبوں کے ساتھ باپ کو دیکھتا رہا۔ ”میں انہیں مار نہیں سکا… میں اپنے ہاتھ سے انہیں مار نہیں سکتا۔ میں گھر کو جلا دیتا ہوں وہ اس کے ساتھ ہی جل جائیں گی۔” میرے باپ نے کانپتی آواز میں کہا۔
اس نے ان کی چارپائیوں کے گرد مٹی کا تیل چھڑک دیا اور پھر آگ لگا کر دروازہ بند کر دیا۔ صحن میں کھڑے ہو کر میں نے اپنی بہنو ںکی چیخیں سنی تھیں یا پھر شاید چتا جلتے دیکھی تھی ہم لوگ تب تک وہاں کھڑے رہے جب تک آگ کے شعلے پوری طرح بھڑکنے نہیں لگے پھر میں صحن میں بیٹھ کر بلند آواز میں رونے لگا۔ ان بہنوں نے مجھے اپنی گود میں کھلایا تھا، میں نے ان کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا۔ اب ان کی چیخیں… ان کی چیخیں…
”یہ جلدی مر جائیں، جلدی مر جائیں، جلدی مر جائیں۔” میں زمین پر بیٹھا بلند آواز میں دعا کر رہا تھا… پھر… پھر… آہستہ آہستہ آگ نے پورے کمرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور… اور… چیخیں دم توڑ گئیں۔
تب میرے باپ نے مجھے اور اس گٹھڑی کو لیا جو اس نے پہلے ہی تیار کرکے رکھی تھی اور ہم راتوں رات وہ جگہ چھوڑ گئے ہم دونوں ایک گھوڑے پر سوار تھے جسے میرا باپ دوڑا رہا تھا اور میں اس کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ فجر کے وقت ہم کسی گاؤں میں داخل ہوئے، جہاں اور بھی بہت سے لوگ تھے اور ان میں وہ چھ قاتل بھی تھے۔ ویسے ہی قاتل جیسا میرا باپ تھا۔
اس کے بعد کیا ہوا… وہی جو ہر قافلے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک لمبا سفر طے کرکے ہم جس دن پاکستان میں داخل ہوئے، وہ پندرہ اگست کا دن تھا اور لاہور کا بارڈر تھا اور تب میرے باپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی اٹھا کر اس رومال میں رکھی جو وہ ہر وقت کندھے پر لیے رہتا تھا اور جس سے اُس نے میرے بھائی کے جسم سے گرد صاف کی تھی اور پھر اس کی ایک پوٹلی سی بنا کر اس نے اپنی جیب میں رکھ لی… اور…اور… اس کے بعد میرا باپ دھاڑیں مار مار کر زمین سے سر ٹکرا ٹکرا کر روتا رہا۔
میں نے اسے بھائی، ماں اور شکیلہ باجی کے ساتھ ہونے والے حادثے پر بھی اس طرح روتے نہیں دیکھا تھا، تب وہ صرف آنسو بہاتا رہا تھا۔ مگر اس دن وہ بلند آواز میں چیخ چیخ کر رو رہا تھا۔ وہاں میرے علاوہ کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا وہاں اس کے علاوہ بھی اور بہت سے رونے والے تھے۔ صرف میں تھا جو زمین پر بیٹھا گیلی آنکھ کے ساتھ باپ کی دیوانگی دیکھتا رہا۔ اب اتنے سالوں بعد میں سوچتا ہوں کہ وہ کیوں رویا تھا۔ کیا اسے اپنا خاندان یاد آیا تھا۔ زمینیں اور گھر بار یاد آرہا تھا یا پھر…
میں نے اس کے بعد اپنے باپ کو کبھی روتے نہیں دیکھا… بڑی سے بڑی مصیبت یا تکلیف پر بھی نہیں…




ہم کیمپ میں رہنے لگے۔ ہم نے کلیم جمع کروایا، ہمیں زمین اور گھر الاٹ ہو گیا۔ میرے باپ نے مجھے لاہور پڑھنے کے لیے بھجوا دیا۔ تب تک وہ پچاس کا ہو چکا تھا۔ اس نے دوبارہ شادی نہیں کی… زمین سے ہونے والی آمدنی کو وہ فلاحی کاموں میں خرچ کرتا رہتا۔ اس کے اپنے سارے شوق اور سرگرمیاں ختم ہو گئی تھیں۔ گھوڑے پالنے کا شوق… مرغے لڑانے کا شوق… میلوں میں جانا… کبوتر پالنا… اس نے سب کو چھوڑ دیا۔ جب تک میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا وہ ایک بار پھر علاقے کاایک بڑا زمیندار بن چکا تھا۔ رزق کے معاملے میں وہ ہمیشہ سے خوش قسمت رہا تھا مگر اس بار وہ معمولی سے کپڑے کے لاچے کرتے میں وہ کئی کئی دن گزار دیتا۔ کھیت پر مزارعوں کے ساتھ کام کرتا، ان کے ساتھ ہی کھانا کھالیتا۔
میرے اور اس کے درمیان کبھی پچھلے واقعات کے بارے میں بات نہیں ہوئی۔ جب تک وہ زندہ رہا اس نے کبھی ماں، بہنوں یا بھائیوں کا نام تک نہیں لیا اور نہ ہی میں نے کبھی لیا۔ ہم دونوں کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی بہت کم ہوتی تھی۔ میں لاہور سے گاؤں جاتا وہ میرا حال احوال پوچھتا، میں جواب دیتا، وہ کھانے کا کہتا پھر باہر نکل جاتا۔ جس دن مجھے واپس آنا ہوتا، وہ میرے لیے کچھ چیزیں تیار کروا دیتا، کچھ نوٹ تھماتا اور ٹانگے پر بٹھا دیتا۔ ہرماہ لاہور آتا، مجھے ہاسٹل میں ملتا پھر وہی چیزیں کپڑے اور روپے دیتا۔ ہم دونوں کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کے سامنے نظریں جھکائے بیٹھے رہتے پھر وہ چلا جاتا۔
ماسٹرز کے بعد میں نے انگلینڈ مزید تعلیم کے لیے جانے کی خواہش کی، وہ مان گیا۔ جانے سے پہلے اس نے میری شادی کرنے کی خواہش کی، میں مان گیا۔
اس نے مجھ سے میری پسند پوچھی۔ میں ایک گھنٹہ سر جھکائے کسی ایسی لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا جو مجھے پسند ہوتی۔ تصور میں کسی لڑکی کی شبیہہ نہیں آئی میں نے کہا۔ ”کسی بھی تعلیم یافتہ لڑکی سے میری شادی کر دیں۔” چوتھے دن سلیمہ بانو سے میرا نکاح ہوا، آٹھویں دن میں انگلینڈ آ گیا دو ماہ کے بعد وہ بھی انگلینڈ آگئی۔
سلیمہ گورنمنٹ کالج لاہور کی تعلیم یافتہ تھی۔ میں بعض دفعہ سوچتا ہوں اگر وہ میری زندگی میں نہ آتی تو کیا ہوتا۔ وہ واقعی میری نصف بہتر ہے۔ اس نے میری زندگی کے بہت سے خلاؤں کو پر کیا، وہ جتنی اچھی بیوی ثابت ہوئی اتنی ہی اچھی بہو تھی۔ میرے پی ایچ ڈی کے دوران مجھے اپنے باپ کی بیماری کی اطلاع ملی، میں اپنی تعلیم چھوڑ کر واپس نہیں جا سکتا تھا اور میرا باپ میرے پاس آنے پر تیار نہیں تھا۔ درمیانی راستہ سلیمہ نے نکالا۔ وہ میرے دو سالہ بیٹے کو لے کر لندن سے پنجاب کے اس گاؤں میں چلی گئی، جہاں بجلی تھی نہ ہی صاف پانی۔
اگلے دو سال اس نے وہیں میرے باپ کے ساتھ گزارے۔ دو سال بعد میرے باپ کا انتقال ہوگیا تو وہ میرے ساتھ واپس لندن آگئی کیونکہ میرا ڈاکٹریٹ ابھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ میرے باپ نے مرنے سے پہلے گاؤں میں موجود اپنی ساری زمین مزاعوں میں بانٹ دی۔ اس نے ایسا کرنے سے پہلے مجھ سے اور سلیمہ سے اس کی اجازت لی، مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔
”یہ آپ کا اور ابو کا معاملہ ہے مجھ سے اجازت لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے” سلیمہ نے میرے اجازت لینے پر کہا۔
آٹھ سال تک انگلینڈ رہنے کے بعد میں واپس پاکستان آگیا۔ یہاں آکر مجھے پنجاب یونیورسٹی میں جاب مل گئی۔ جو کچھ میں انگلینڈ چھوڑ آیا تھا اس کے سامنے یہ جاب اور سہولتیں کچھ بھی نہیں تھیں مگر میں پھر بھی خوش او رمطمئن تھا۔ میں اپنے ملک کو وہ سب کچھ لوٹانے آیا تھا جو اس نے مجھے دیا تھا اور یہاں واپس آنے کے بعد پہلی بار یہ جملہ میں نے اپنے ایک کولیگ کی بیوی سے 1963ء میں سنا جب وہ ہمارے گھر کھانے کی ایک دعوت پر آئے۔ میں چپ چاپ اس عورت کا چہرہ دیکھتا رہا۔ لفظ میرے اندر موم کی طرح گھل گئے تھے۔
”اس ملک میں کچھ بھی نہیں ہے۔”
میں نے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی اس عورت کو دیکھا جو زرق برق کپڑوں میں ملبوس تھی، جس کے ہاتھوں میں بہت سے زیور تھے۔




Loading

Read Previous

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Read Next

عکس — قسط نمبر ۸

One Comment

  • Its veryy very heart touching…we must not have to leave our beloved motherland for the sake of money and power….no matter how much underdeveloped we are but we should not forget those precious peoples who laid down their lives for the independence of muslims

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!