مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

سڑک پر چلتے ہوئے مجھے ٹھوکر لگی۔ میں نے بے اختیار خود کو سنبھالا اور آنکھوں پر لگائی ہوئی عینک کو ٹھیک کیا۔ اب ہلکی ہلکی ہوا کچھ تیز ہو گئی ہے، بادل پہلے سے زیادہ گھنے ہو گئے ہیں۔ سامنے سڑک پر دو ٹین ایجر لڑکے جاگنگ کرتے ہوئے آرہے ہیں۔ ٹی شرٹس اور شارٹس میں ملبوس… میں ان دونوں کو بھی پہچانتا ہوں، وہ روز مجھے تقریباً یہیں ملتے ہیں۔ پچھلی رات کے کسی نہ کسی انڈین پروگرام یا انڈین مووی اسٹار کو ڈسکس کرتے۔ آج بھی ان کا موضوع یہی ہے۔ میں ان کی آوازیں سن رہا ہوں۔ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ۔
”اے آر رحمان یار کیا کمال کرتا ہے یہ بندہ، رات کو وندے ماترم لگا ہوا تھا۔ یوں لگ رہا تھا دل پر بیٹ پڑ رہی ہے۔ سارا دن پاکستانی چینلز پر پروپیگنڈہ سنتا رہا۔ وہی بکواس… وہی گانے… یہ لوگ لبرل ہونا نہیں چاہتے۔ چاہتے ہی نہیں کہ ہمارے اندر سے یہ Prejudice (تعصب) ختم ہو… ہر چیز ہماری اور ان کی کامن ہے حتیٰ کہ آزادی کے دن بھی ساتھ ساتھ ہیں۔ پھر بھی یہ چاہتے ہیں ہم ہر وقت ہاتھ میں تلوار پکڑے رکھیں۔ میں تو سمجھتا ہوں
”Across the borders we are one”
اس کی بات جاری تھی مگر وہ دونوں میرے پاس سے گزر چکے تھے، میں اب ان کی آواز نہیں سن سکتا مگر اس کا جملہ ”Across the borders we are one” اب بھی فضآ میں بازگشت بن کر پھر رہا ہے۔ سب کچھ کامن ہے، ہر چیز ایک جیسی ہے۔
Prejudice (تعصب)… پروپیگنڈہ… بکواس… میں نے اپنے قدم تیز کر دئیے۔
…*…




میں آج تک یہ سمجھ نہیں پایا کہ میرے باپ نے اتنے بڑے حادثے کے بعد اپنا ذہنی توازن کیوں نہیں کھویا… مظفر سے زیادہ اسے کسی سے محبت نہیں تھی۔ میں نے خود نہیں دیکھا مگر دیکھنے والے کہتے ہیں میرے باپ نے میرے بھائی کی لاش کے تمام ٹکڑے خود اکٹھے کیے تھے، برستی آنکھوں کے ساتھ… کسی چیخ و پکار کے بغیر۔ اس نے میرے بھائی کا پورا جسم اکٹھا کیا، وہ ہر چکر کے بعد جسم کے ٹکڑے دوبارہ گنتا پھر جو ٹکڑے کم ہوتے ان کے نام دہراتا۔ دائیں ٹانگ… ناک… بایاں کان… بایاں ہاتھ… پیر کا انگوٹھا… دائیں ہاتھ کی چار انگلیاں…
ہاتھ کی دو انگلیاں وہ آدھ گھنٹہ ڈھونڈتا رہا۔ جب وہ مل گئیں تو اسے جیسے قرار آگیا۔ اب اس کے بیٹے کا جسم نامکمل نہیں رہا تھا۔ وہ جسم کا ہر ٹکڑا اٹھا کر اس پر لگی ہوئی گرد اور مٹی صاف کر دیتا اگر چہ وہ خون خشک نہیں کر پاتا تھا مگر وہ سارے تنکے اور مٹی کو ضرور صاف کر دیتا۔ اس کے کندھے پر لٹکا ہوا کپڑا اس خون آلود مٹی اور تنکوں سے بھر گیا تھا۔ میرے بھائی کی عمراس وقت صرف بیس سال تھی، پورا گاؤں جانتا تھا کہ وہ شریف اور ہر ایک کی عزت کرنے والا تھا۔ اسے کبھی کسی نے جھگڑتے نہیں دیکھا تھا۔ مسلم لیگ کے لیے کام کرنے کے علاوہ اس نے زندگی میں کوئی جرم نہیں کیا تھا اور یہ کوئی معمولی جرم نہیں تھا۔ کم از کم اس زمانے میں اتنی بے رحمی کے ساتھ قتل ہونے کے لیے صرف دو چیزیں کافی تھیں۔ مسلمان ہونا اور مسلم لیگ کا حامی ہونا، اور بدقسمتی سے میرے بھائی میں دونوں خصوصیات تھیں۔
میرے بھائی کے جسم کے ٹکڑے اکٹھے کرنے کے بعد میرے باپ نے درخت سے میری ماں کا سر اتارا تھا۔ پھر وہ دونوں لاشیں گھر لے آیا۔ میں اور میری دونوں بہنیں سکتے میں آگئے تھے۔ اگرچہ میرے باپ نے ہم تینوں کو وہ لاشیں دیکھنے نہیں دیں۔ اس نے سوچا ہو گا کہ ہم تینوں کو خوف اور صدمے کے مارے کچھ… میں اس وقت چودہ سال کا تھا، میری چھوٹی بہن ساڑھے پندرہ سال کی تھی اور منجھلی بہن سترہ سال کی۔
بھائی کی لاش کو میرے باپ نے خود غسل دیا۔ غسل دینے کے بعد اس نے ایک سفید چادر پر اس کے جسم کے ٹکڑے رکھے اور اس کے اوپر دوسری سفید چادر ڈال کر دونوں چادروں کو چاروں جانب سے سی دیا۔ میں نے اپنے باپ کو کبھی سوئی ہاتھ میں نہیں لیتے دیکھا، ٹانکہ کیسے لگاتے ہیں، یہ وہ نہیں جانتا تھا۔ بہر حال اس دن ان چادروں کو اس نے خود ہی سیا تھا۔ کیسے سیا ہو گا۔ میں نہیں جانتا کیونکہ اس نے یہ کام اکیلے کمرے میں بند ہو کر کیا تھا۔ جب کمرے کا دروازہ کھلا تو ہم نے صرف وہ سفید بوری سی دیکھی جو اب بھی جگہ جگہ سے خون سے تر ہو رہی تھی۔
اپنی اڑسٹھ سالہ زندگی میں، میں نے آج تک کسی کو ویسا کفن پہنے نہیں دیکھا۔ میری دونوں بہنیں زار و قطار رو رہی تھیں مگر میں… میں خوف زدہ تھا… یہ سب کیوں ہوا تھا؟ کیسے ہوا تھا؟ کس نے کیا تھا؟ ان سے بڑا سوال میرے لیے یہ تھا کہ شکیلہ باجی کہاں ہیں؟




میرے اس سوال کا جواب چوتھے دن مل گیا، جب میرا باپ جنگل سے ان کی لاش لایا تھا۔ ہم نے ان کا چہرہ بھی نہیں دیکھا شاید… وہ بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
”تمہیں منع کیا تھا کہ اپنے بیٹے کو ایسے کام مت کرنے دو۔ تم نے بات نہیں سنی، اب ہم تمہارے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ تم تو جانتے ہو جوان خون گرم ہوتا ہے۔ لڑکوں کو بڑا غصہ تھا تمہارے بیٹے پر… جوش میں کر بیٹھے یہ سب کچھ… اب صحیح پتا بھی نہیں ہے کہ کس کس نے حصہ لیا اس کام میں… اس لیے پولیس کو کیا بتاتے۔ تم بس بھول جاؤ یہ سب کچھ… ہمیں بڑا دکھ ہے جو کچھ تمہارے گھر والوں کے ساتھ ہوا ہے مگر اب کیا ہو سکتا ہے۔ غلطی تمہارے بیٹے ہی کی ہے… جس نے ایک غلط کام کی ابتدا کی۔”
گاؤں کے سرپنچ سردار جوگندر سنگھ نے میرے باپ کی داد رسی ان الفاظ میں کی تھی۔
”غلط کام…” شاید میرے باپ نے پہلی بار وہاں بیٹھ کر غلط کام کی تعریف کے بارے میں سوچا ہو گا اور شاید… اس دن ہی پہلی بار گھر آتے ہوئے اس نے راستے میں کھڑے ہندو اور سکھ لڑکوں کو دیکھا ہو گا۔ ان کے قہقہوں پر غور کیا ہو گا اور پھر شاید یہ اندازہ لگانے کی کوشش بھی کی ہو گی کہ ان میں سے کس نے اس کی بیوی کی گردن کاٹی۔ کتنوں نے اس کے بیٹے کے ٹکڑے کیے اور کس کس نے اس کی بیٹی… بہر حال وہ گھر آگیا تھا، خاموشی اور بے بسی کے ساتھ… جھکے ہوئے کندھوں اور خالی آنکھوں کے ساتھ… خاموش زبان اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ… پھر اس دن کے بعد وہ دوبارہ کبھی گھر سے باہر نہیں نکلا نہ ہی ہم تینوں میں سے کوئی کہیں گیا۔
وہ پنجاب کی تقسیم کا انتظار کر رہا تھا۔ منتظر تھا کہ اسے یہ پتا چل جائے کہ اس کا علاقہ پاکستانی پنجاب میں شامل ہو گا یا ہندوستانی پنجاب میں۔
پھر یہ پتا چل گیا کہ ہمارا علاقہ پاکستان کے ساتھ شامل نہیں ہو گا۔
”ہم لوگ پاکستان جائیں گے” ایک رات میرے باپ نے مجھ سے کہا… تب تک ساتھ والے دونوں گاؤں میں مسلمانوں کے گھر لوٹے جا چکے تھے اور ہمارے گاؤں کے مسلمان ہجرت کی تیاریوں میں تھے…
”تم اور میں…” میں اپنے باپ کی بات پر حیران رہ گیا۔ ”اور صغریٰ اور سلمیٰ وہ نہیں جائیں گی؟” میں نے اپنے باپ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔
”نہیں…” مجھے خوف آنے لگا۔ ”آپ انہیں یہاں چھوڑ جائیں گے؟”
”نہیں…”
میں الجھ گیا۔
”میں… میں انہیں مار دوں گا۔”
میں بول نہیں سکا۔ چودہ سال کا ایک بچہ یہ سن کر کیا بول سکتا ہے کہ اس کا باپ اس کی دونوں بڑی بہنوں کو قتل کرنے والا ہے۔
”میں نہیں ماروں گا تو کوئی اور مار دے گا…” وہ اب رو رہا تھا۔
میں پوری رات سو نہیں سکا۔ مجھے لگا کہ میں سوؤں گا اور میرا باپ میری بہنوں کو قتل کر دے گا۔ میرے باپ نے اس رات میری بہنو ںکو قتل نہیں کیا۔ یہ کام اس نے اگلی رات کیا۔
…*…
مجھے ہلکی ہلکی پھوار اپنے جسم پر گرتی محسوس ہوئی۔ بارش شروع ہو چکی ہے۔ میں جانتا ہوں آہستہ آہستہ برسات کی یہ بارش تیز ہو جائے گی مگر مجھے اس سے کوئی خوف نہیں آرہا۔ اس سڑک پر چلنے والے سب لوگ ہی بارش سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ سامنے سے اب دو عورتیں آرہی ہیں، شاید وہ اب واپس گھروں کو جارہی ہیں۔ میں ان کو بھی پہچانتا ہوں۔




Loading

Read Previous

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Read Next

عکس — قسط نمبر ۸

One Comment

  • Its veryy very heart touching…we must not have to leave our beloved motherland for the sake of money and power….no matter how much underdeveloped we are but we should not forget those precious peoples who laid down their lives for the independence of muslims

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!