مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

اس ڈائننگ ٹیبل کو دیکھا جو کھانے کے بہت سے لوازمات سے بھری ہوئی تھی اور پھر اس عورت کی بھری ہوئی پلیٹ کو دیکھا… پھر مجھے دو چادروں میں سیے ہوئے اپنے بھائی کی لاش کے ٹکڑے یاد آئے آگ سے جلتے ہوئے گھر میں اپنی دونوں بہنوں کی چیخیں یاد آئیں۔
مٹی کی وہ پوٹلی یاد آئی جو میرے باپ نے مرنے سے پہلے سلیمہ کو اپنے پاس رکھنے کے لیے دی تھی۔ میری بھوک ختم ہو گئی، میں نے چاولوں سے بھرا ہوا چمچ دھیرے سے پلیٹ میں الٹا دیا۔
”کسی بھی ملک میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ہر ملک زمین کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔ اصل چیز اس زمین کے ٹکڑے پر بسنے والے لوگوں کے اندر ہوتی ہے، خامی ہمیشہ ان لوگوں کے اندر ہوتی ہے، اور یہ خامی اس ملک کا تعارف بن جاتی ہے۔ ایسا سائن بورڈ جسے پھر وہ ملک اٹھائے پھرتا ہے۔”
میں خاموش رہا تھا مگر سلیمہ خاموش نہیں رہی۔ بڑے پر سکون اور ٹھنڈے لہجے میں اس نے اس عورت سے کہا۔ اس بار خاموشی اس عورت پر چھائی ہوئی تھی۔ میں نے اپنی بیوی کو مشکور نظروں سے دیکھا جو اب میرے کولیگ کو ایک ڈش سرو کر رہی تھی۔
…*…




میرا باپ دو سال بیمار رہا تھا، اس کی وفات پر میں پاکستان آیا تب اسے دفنایا جا چکا تھا۔ میں نے اس کا بھی چہرہ نہیں دیکھا… میں رویا بھی نہیں… کئی دن میں خاموش رہا۔ سلیمہ نے کوشش کی کہ وہ مجھ سے میرے باپ کے بارے میںبات کرے مگر میں ہر بار موضوع بدل دیتا۔ پھر شاید وہ جان گئی کہ میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ اس نے دوبارہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔
لندن واپس آنے کے کئی ماہ بعد تک میں اسی طرح گم صم رہا۔ باپ کے مرنے کے بعد میرا پورا خاندان مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا۔ ایک عجیب سا احساس تنہائی مجھے ہر وقت اپنی لپیٹ میں رکھتا تھا۔
ایک رات میں نے تین بجے سلیمہ کو جگا دیا۔ وہ پریشان ہو گئی۔
”کیا بات ہے؟ آپ ٹھیک تو ہیں؟”
”ہاں میں ٹھیک ہوں… تم مجھ سے باتیں کرو۔”
”کیا باتیں؟” وہ حیران ہوئی۔
”کوئی بھی بات… کچھ بھی…”
”اچھا…” وہ مجھے پورے دن کی روددا سنانے لگی۔ میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ شاہد کی شرارتوں کے بارے میں بتاتی رہی، میں سنتا رہا۔ ٹی وی پر آنے والے ایک پروگرام کی تفصیلات سناتی رہی پھر وہ تھک کر خاموش ہو گئی۔
”آپ بھی تو کچھ کہیں…” اس نے جیسے شکایت کی۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا سر جھکائے میں نے اس سے کہا۔
”ابا نے… مرنے سے پہلے… تم سے… کچھ کہا… میرے بارے میں؟” وہ ساکت ہو گئی۔ شاید اسے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔ باپ کی وفات کے دس ماہ بعد میں اس سے پوچھ رہا تھا کہ کیا میرے باپ نے میرے بارے میں کچھ کہا تھا۔
”ہاں…” اس بار میں سن ہو گیا۔ میں ہمت نہیں کر پایا کہ اسے وہ الفاظ دہرانے کے لیے کہوں… میں بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھتا رہا… وہ اٹھ کر وارڈ روب کی طرف چلی گئی۔ کچھ دیر وہ وہاں کوئی چیز تلاش کرتی رہی پھر وہ ایک پیکٹ لے کر میری طرف چلی آئی۔ میرے قریب بیڈ پر بیٹھ کر اس نے پیکٹ کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک پوٹلی نکال لی، میرا سانس رک گیا۔ میں اس کپڑے کو ساری عمر فراموش نہیں کرسکتا تھا۔ وہ وہی کپڑا تھا جسے میں نے اپنے بھائی اور ماں کی لاشیں گھر لاتے وقت اپنے باپ کے کندھے پر خون سے لتھڑا ہوا دیکھا اور جس سے میرے باپ نے میرے بھائی کے جسم سے مٹی اورتنکے صاف کیے تھے اور پاکستان واپس آنے کے بعد اسی میں میرے باپ نے ایک مٹھی مٹی ڈال کر اپنی جیب میں رکھ لی تھی۔ میں نے اس کے بعد وہ کپڑا اپنے باپ کے کندھے پر کبھی نہیں دیکھا، اور آج اتنے سالوں کے بعد وہ پوٹلی میری بیوی کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے وہ پوٹلی میری طرف بڑھا دی۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اسے پکڑ لیا۔




”انہوں نے کہا تھا، جمال سے کہنا واپس ضرور آئے۔ میں نے اس مٹی کے رزق سے اس کی پرورش کی ہے۔ اس پر فرض ہے کہ وہ یہ رزق میری مٹی کو لوٹا دے۔” میں گم صم اپنی بیوی کو دیکھتا رہا۔
وہ میرے رونے کی رات تھی۔ اس رات میں رویا تھا… اسی طرح جس طرح میرا باپ زمین سے لپٹ کر روتا رہا تھا۔ میں جان گیا تھا، وہ مٹی میرے لیے رکھی گئی تھی۔ میرا باپ جو ساری عمر ہندوستان اور کانگریس کے گن گاتا رہا… سردار پٹیل، مولانا ابو الکلام آزاد اور گاندھی کی باتیں سنا سنا کر جھومتا رہا۔ وہ مرنے سے پہلے میرے لیے پاکستان کی مٹی چھوڑ کر گیا تھا شاید اپنے بیٹے کے جسم کے ٹکڑے اکٹھے کرتے ہوئے اسے پہلی بار احساس ہوا ہو گا کہ مذہب کی بنیاد پر کھڑا کیا ہوا دو قومی نظریہ دیوانے کی بڑ نہیں، حقیقت تھی۔ شاید میری ماں کی کٹی ہوئی گردن درخت سے اتارتے ہوئے اسے احساس ہوا ہو گا کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔ شاید شکیلہ باجی کی لاش، ڈھانپتے ہوئے اسے پتا چلا ہو گا کہ ہندو کا پالتو کتا بن جانے کا مطلب کیا ہے اور شاید میری دونوں بہنوں کو گھر میں جلاتے ہوئے اسے پتا چلا ہو گا کہ آزادی، قربانی مانگتی ہے۔ حاصل کرنے کے لیے بھی اور قائم رکھنے کے لیے بھی۔
ڈاکٹریٹ کے بعد میں نے کچھ عرصہ انگلینڈ میں ایک یونیورسٹی میں پڑھایا اور پھر واپس آگا۔ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق، کوئی دوسری سوچ میرے ذہن میں نہیں آئی۔ کوئی پاؤنڈز میرے پیروں میں نہیں لپٹے، گھر اور گاڑیاں میرے خوابوں میں نہیں آئیں اور نہ ہی سلیمہ نے مجھ سے وہاں رکنے کے لیے کہا۔
…*…
پھوار بند ہو گئی ہے، میں نے چند گہرے سانس لے کر اس تازہ ہوا کو اپنے اندر اتارا۔ میرے قدم ایک بار پھر تیز ہو گئے۔ سڑک پر اب بھی لوگ نظر آرہے ہیں۔ بارش کے آثار نے کسی کو بھی پریشان نہیں کیا، ظاہر ہے یہ سردیوں کی بارش نہیں ہے۔ اب میرے سامنے علیم الدین ہاشمی چست چال چلتے ہوئے آرہے ہیں۔ ان کے پیچھے رائفل ہاتھ میں لیے ان کا گارڈ بھی ہے۔ ان کے ہاتھ میں ایک موبائل ہے جس پر وہ بات کر رہے ہیں۔ ان کا بیٹا یونیورسٹی میں میرا سٹوڈنٹ رہ چکا ہے۔ وہ دور سے مجھے دیکھتے ہوئے مسکراتے ہیں اور سر کے اشارے سے سلام کرتے ہوئے فون پر بات جاری رکھتے ہیں۔ میں بھی سر کے اشارے سے ان کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔ وہ فون پر کسی سے کہہ رہے ہیں۔
”لاء اینڈ آرڈر تو تباہ ہو گیا ہے اس ملک میں، اکیلے نکلنے کی تو ہمت ہی نہیں ہوتی۔ پچھلے ماہ پی ایس او کے منیجنگ ڈائریکٹر شوکت مرزا کا قتل ہو گیا۔ ڈیڑھ ہفتہ پہلے صدر صاحب کہہ رہے تھے کہ میں اس ملک کے بارے میں کیا کروں… میرا بس نہیں چلتا۔ آپ خود سوچیں اگر صدر یہ کہے کہ میں شوکت مرزا کی بیوی سے افسوس کرتے ہوئے اسے یہ یقین دہانی بھی نہیں کروا سکا کہ قاتل پکڑے جائیں گے یا نہیں، تو میرا اور آپ کا کیا ہو گا۔ ہم اور آپ تو کس کھیت کی مولی ہیں۔”
وہ اب میرے پاس سے گزر رہے ہیں۔ ”اب اس طرح کے کولڈ بلڈڈ مرڈرز کے بعد اس ملک میں رہنے کو کس کا دل کرتا ہے۔” وہ میرے پاس سے گزر گئے ہیں۔
پاکستان واپس آنے کے بعد میں یونیورسٹی میں ہی پڑھاتا رہا۔ میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ انگلینڈ جیسی سہولتیں میرے پاس نہیں تھیں مگر سلیمہ نے بھی شکوہ نہیں کیا۔ اس نے بڑے سلیقے اور طریقے سے میرے پانچوں بچوں کی پرورش کی۔ بچے بڑے ہو گئے، ان کی تعلیمی ضروریات بڑھنے لگیں تو اس نے خود بھی ایک اسکول میں جاب کر لی۔ میرے پانچوں بچے تعلیمی میدان میں بہت اچھے تھے۔ بڑے دونوں بیٹے بہت جلد ہی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلینڈ چلے گئے۔ ان دونوںکی پیدائش وہاں ہوئی تھی اور ان کے پاس نیشنیلٹی تھی، وہ ہائی اسکول کے بعد ہی وہا ںجا کر کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرتے رہے۔ سب سے بڑے بیٹے نے لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈگری حاصل کی، دوسرے نے بھی وہیں سے تعلیم حاصل کی۔ بڑے بیٹے کا تعلیمی ریکارڈ بہت شاندار تہا اس لیے تعلیم کے دوران ہی اسے اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کے ساتھ کام کرنے کا موقع مل گیا اور بعد میں وہ مستقل طور پر اس کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ خلیق بھی ڈگری حاصل کرنے کے بعد لندن ہی میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے لگا۔ بڑی بیٹی ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ان دونوں کے پاس چلی گئی۔ وہاں اس نے سپیشلائزیشن کی۔ چھوٹی بیٹی فزکس میں ایم ایس سی کرنے کے بعد ایک کالج میں پڑھانے لگی۔ سب سے چھوٹا بیٹا نعمان… ہاں وہ… پاک فوج میں تھا۔ دو سال پہلے کارگل میں شہید ہو گیا۔
…*…




Loading

Read Previous

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Read Next

عکس — قسط نمبر ۸

One Comment

  • Its veryy very heart touching…we must not have to leave our beloved motherland for the sake of money and power….no matter how much underdeveloped we are but we should not forget those precious peoples who laid down their lives for the independence of muslims

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!