مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

میرا سانس کافی تیز ہو گیا ہے۔ اگر ہوا اتنی ٹھنڈی نہ ہوتی تو اب تک پسینے سے بھیگا ہوتا۔
”تیز چلتے ہوئے جب تک پسینہ نہ آئے آپ سمجھیں آپ کو چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ یہ سمجھیں آپ نے واک کی ہی نہیں۔” میرے کانوں میں کسی کی آواز لہرائی۔ آواز نہیں تھی ہدایت تھی، کس کی تھی؟ میں مسکرایا۔
بڑے بیٹے شاہد نے لندن میں اپنی مرضی سے اپنی ایک پاکستانی کلاس فیلو سے شادی کی، فائقہ سلمان… اچھی لڑکی ہے… ملنسار… مہذب، سمجھدار، خوبصورت، خاندانی… مگر مادہ پرست۔ ان دونوں کے دو بیٹے ہیں۔ آج کل شاہد اور فائقہ چھوٹے بیٹے زبیر کے ساتھ میرے پاس آئے ہیں۔ چند روز رہنے کے لیے۔ شاہد مستقل طور پر پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں ہوا، میرے سمجھانے کے باوجود بھی۔
”یہاں میرا کوئی فیوچر نہیں ہے بابا…! میں بہت آگے جانا چاہتا ہوں۔ یہ ملک ہر لحاظ سے پیچھے ہے۔ کبھی کبھار آنے کے لیے ٹھیک ہے مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ ویسے بھی فائقہ اسی شرط پر مجھ سے شادی پر تیار ہوئی ہے کہ ہم ہمیشہ باہر ہی رہیں گے۔ امریکہ ہو چاہے یورپ کا کووی بھی ملک مگر پاکستان نہیں۔ جو معیار زندگی ہم چاہتے ہیں، وہ یہ ملک ہمیں دے ہی نہیں سکتا۔”




میرے بڑے بیٹے کی کئی سال پہلے کی صاف گوئی وہ پہلا جھٹکا تھا جو مجھے اور سلیمہ کو لگا۔ کئی دن ہم دونوں ایک دوسرے سے نظریں چراتے رہے۔ ہمیں بے یقینی تھی کہ ہمارا بیٹا یہ سب کہہ رہا تھا۔ اس وقت ہمارے تین بچے باہر تھے اوردو ہمارے ساتھ تھے۔
ہم نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کو باہر نہیں بھیجیں گے۔ خوش قسمتی سے میرے دونوں چھوٹے بچوں نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔
میری بڑی بیٹی عالیہ کی منگنی میرے ایک کولیگ کے بیٹے سے ہو چکی تھی وہ بھی وہیں انگلینڈ میں سپیشلائزیشن کے لیے جانے والا تھا اور ہمارا خیال تھا ہم ان دونوں کی جلد ہی شادی کر دیں گے۔ دوسرے بیٹے خلیق سے بات کرنے کے بعد سلیمہ نے اس کی منگنی اپنی بہن کی چھوٹی بیٹی سے کردی جو ایک کالج میں پڑھا رہی تھی۔ شاید یہ ایک حفاظتی قدم تھا۔ ہمارا خیال تھا یہاں کی لڑکی سے شادی کے بعد وہ مستقل طور پر باہر سیٹل ہونے کا نہیں سوچے گا۔ وہ اسے پاکسان لے آئے گی۔ ایسا نہیں ہوا، صالحہ سے شادی کے کچھ عرصہ کے بعد خلیق نے بھی یہی کہا کہ وہ پاکستان سیٹل ہونا نہیں چاہتا۔ اس بار سلیمہ نے اپنی بہن کے ذریعے اپنی بہو پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی مگر اس کی بہن نے سلیمہ سے کہا۔
”صالحہ پاکستان میں رہنا نہیں چاہتی… یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے… زبردستی ان لوگوں کو واپس بلانے کی کیا ضرورت ہے۔ ان لوگوں نے پاکستان کی خدمت کا ٹھیکہ تو نہیں اٹھا رکھا اور میرا خیال ہے میری بیٹی سمجھدار ہے، وہ بالکل صحیح کہہ رہی ہے۔ اس کے کچھ خواب ہیں… پاکستان آخر دے کیا سکتا ہے ان دونوں کو… تم دوبارہ اس سلسلے میں مجھ سے بات نہ کرنا… وہ دونوں میاں بیوی اپنے مستقبل کے بارے میں زیادہ بہتر طریقے سے سوچ سکتے ہیں۔”
سلیمہ بہن کے گھر سے بالکل خاموشی سے واپس آگئی۔ اگلے دو ہفتے وہ بیمار رہی۔ اس کا بخار اترنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ میں جانتا تھا یہ بخار نہیں تھا، یہ بے بسی اور شرمندگی تھی۔ اس کا خیال تھا وہ اولاد کی اچھی تربیت نہیں کر پائی۔
صدیقہ ہماری چھوٹی بیٹی ہے۔ اس کی شادی ہم نے اس کی مرضی سے کی۔ اس کا ایک کلاس فیلو اعظم تھا جو فزکس میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد اٹامک انرجی کمیشن کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ مالی طور پر وہ کسی بہت امیر کبیر خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا مگر اچھا لڑکا تھا اور پھر صدیقہ کو پسند تھا۔ دونوں بہت اچھی زندگی گزار رہے تھے۔
بڑی بیٹی عالیہ بھی کچھ عرصہ باہر رہی پھر عبداللہ کے ساتھ شادی کے بعد واپس پاکستان آگئی۔
چھوٹے بیٹے نعمان نے بھی اپنی پسند سے شادی کی۔ اس کی بیوی کرن شروع سے اس کے ساتھ اسکول میں پڑھتی رہی۔ دونوں خاندان بہت اچھی طرح ایک دوسرے سے واقف تھے۔
ایف ایس سی کے بعد نعمان آرمی میں چلا گیا اور پھر جب وہ اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوا تو ہم نے ان کی شادی کر دی۔ آرمی میں جانا نعمان کی اپنی خواہش تھی۔ باقی بچوں کی طرح ہم نے اسے بھی اپنی مرضی کا پروفیشن چننے کا اختیار دیا اور ہاں میں نے اسے آرمی جوائن کرتے ہوئے مٹی کی وہ پوٹلی بھی دی تھی۔
وہ فوج میں میجر کے طور پر کام کر رہا تھا جب کارگل کی جنگ شروع ہوئی اور وہ ان آفیسرز میں شامل تھا جنہو ںنے کارگل آپریشن کے لیے خود کو رضاکارانہ پیش کیا تھا۔ وہ ان فوجیوں میں شامل تھا جو کارگل کی جنگ شروع ہونے سے بہت پہلے سردیوں کے موسم میں ان پہاڑوں پر قبضہ کرنے گئے تھے جنہیں برف باری شروع ہونے سے پہلے ہر سال انڈین فوج چھوڑ کر چلی جاتی تھی۔
”ہم کشمیر کو ہائی لائٹ کرنے کے علاوہ اور کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ ان چوٹیوں پر ہم قبضہ کر سکتے ہیں۔ مگر ہم جب تک وہاں رہیں گے دنیا اس علاقے کو دیکھتی رہے گی۔ اس کے بارے میں بات کرے گی۔ ان لوگوں نے اس علاقے میں کئی بار بارڈر کراس کیا ہے کہ اب یہ خود کو سورما سمجھنے لگے ہیں۔ جب ان کا دل چاہے گا، یہ منہ اٹھا کر ادھر گشت کرنے نکل پڑیں گے۔ ایک بار ہم ان کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب اگلی دفعہ یہ کوشش ان کو کتنی مہنگی پڑے گی۔ میں چاہتا ہوں آپ مجھے دعا دیں کہ میں شہید ہو جاؤں۔”
جانے سے ایک رات پہلے نعمان نے مجھے یہ سب کچھ کہا تھا۔
”آپ امی اور کرن کو کچھ مت بتائیں، میں کرن سے صرف یہ کہہ کر جارہا ہوں کہ ایکسر سائز پر جارہا ہوں۔ چند ماہ لگ جائیں گے مگر ہو سکتا ہے میں دوبارہ کبھی نہ آسکوں۔ کرن میرے فون کا انتظار کرے گی، مگر آپ کسی نہ کسی بہانے سے اسے ٹالتے رہیے گا۔ کبھی کبھار یہ کہہ دیں کہ آپ نے مجھ سے فون پر بات کی تھی یا اگر وہ گھر سے باہر ہو تو آپ کہہ دیں کہ میں نے فون کیا تھا۔”
میں اسے شہادت کی دعا نہیں دے سکا۔ میں اتنا بہادر باپ نہیں تھا مگر میں نے اسے کامیابی کی دعا دی… بعد میں مجھے احساس ہوا شہادت ہی اس کی کامیابی تھی۔
اگلے کئی ماہ گھر سے اس کا رابطہ منقطع رہا اور میں اسی طرح کرن کو بہلاتا رہا۔ سردیاں ختم ہونے کے بعد انڈین آرمی نے دوبارہ ان مورچوں کی طرف جانے کی کوشش کی جن کو وہ سردیوں میں خالی کر آئے تھے اور تب انہیں احساس ہوا کہ وہ مورچے خالی نہیں تھے وہاں پر کچھ لوگ موجود تھے۔ ان کے الزامات ٹھیک تھے، یہ مجاہدین نہیں ہوسکتے تھے۔ ہزاروں فٹ اونچی برف کی بنجر چوٹیوں کو اسلحے سمیت سردیوں میں سر کرنے والے غیر تربیت یافتہ مجاہدین کیسے ہو سکتے تھے۔ ہندوستان کی چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ ٹی وی چینلز اور اخبارات نے طوفان اٹھا دیا اور پھر ایک دن میری بہو کرن نے مجھ سے پوچھا۔
”ابو!نعمان کارگل میں ہے نا؟” میں بول نہیں سکا۔
اس نے دوبارہ کوئی سوال نہیں کیا۔ وہ اٹھ کر چلی گئی۔ فوجیوں کی بیویاں سوالات کرنے کی عادی نہیں ہوتیں یا کم از کم اس طرح کے سوالات۔
”اگر ہندوستان 71ء میں مکتی باہنی کے روپ میں اپنی فوج کے ٹرینڈ گوریلے مشرقی پاکستن بھیج سکتا ہے، اگر وہ 80ء کے عشرے میں سری لنکا میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلام کے لوگوں کے ساتھ لڑنے کے لیے اپنی فوج کا اسلحہ اور فوجی بھیج سکتا ہے تو پھر پاکستان بھی مجاہدین کے روپ میں اپنے فوجیوں کو بھیج سکتا ہے۔ کمینے اور مکار دشمن سے کمینگی اور مکاری کے ساتھ ہی نپٹا جا سکتا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ نعمان وہاں لڑ رہا ہے اور جن لوگوں کے لیے لڑ رہا ہے وہ میرے ملک کا ایک حصہ ہیں۔ لندن میں بیٹھ کر پاؤنڈز سے اکاؤنٹ بھرنے والے تمہارے اور تمہارے شوہر جیسے مادہ پرست اس چیز سے واقف ہو ہی نہیں سکتے۔”
کارگل کی جنگ باقاعدہ شروع ہوتے ہی شاہد اور اس کی بیوی فائقہ نے بھی لندن سے ہمیں فون کیا تھا۔ انہیں نعمان کے بارے میں پتا چل چکا تھا۔ فائقہ نے بات کرتے ہوئے پاکستانی حکومت اور آرمی پر تنقید کی کہ وہ جان بوجھ کر اپنے ریگولرز کو ایک غلط کام کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور میں… میں… اپنا غصہ ضبط نہیں کرسکا۔ وہ میری باتیں سن کر خاموش ہو گئی۔
جون کے مہینے میں کارگل کے پہاڑوں سے نعمان کی شہادت کی خبر مل گئی۔ صرف خبر، لاش نہیں…! پہاڑ لاشیں واپس نہیں کیا کرتے۔ وہ وہیں کہیں برف میں دفن ہے یا پھر شاید کسی کھائی میں…! میں نے اور سلیمہ نے صبر کیا۔ ہمارے لیے یہ کام آسان تھا، ہمیں عادت تھی، مگر کرن اور اس کے بچوں کے صبر نے ہمیں حیران کیا۔ نعمان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، جانے سے پہلے وہ انہیں ہمارے پاس ہی چھوڑ کر گیا۔
اسی سال جولائی میں پاکستان کے وزیر اعظم امریکہ جا کر وہ معاہدہ کر آئے جس نے میرے جیسے بہت سے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔ کیا ہمارے بیٹوں نے جانیں دیں کہ ان جیسے سیاستدان اپنی کرسیاں بچانے کے لیے اس طرح کے سودے کرتے پھریں۔ میں کئی دن یہی سوچ کر روتا رہا، مگر کیا اس سب کے بعد پاکستان چھوڑ کر چلا جاتا۔ میری جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو شاید یہی کرتا۔ میں نے یہ نہیں کیا، کرن اپنی دونوں بیٹیوں اور بیٹے کے ساتھ ہمارے ساتھ رہ رہی ہے۔ وہ اب ایک اسکول میں پڑھاتی ہے۔ اس کا بڑا بیٹا حیدر آٹھ سال کا ہے، ایک بیٹی چھ سال کی اور ایک چار سال کی۔ حیدر ہر وقت مجھے ہدایات دیتا رہتا ہے، کبھی کبھار وہ صبح میرے ساتھ واک پر آتا ہے اور اس وقت اسے میری چال پر اعتراض رہتا ہے۔




Loading

Read Previous

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Read Next

عکس — قسط نمبر ۸

One Comment

  • Its veryy very heart touching…we must not have to leave our beloved motherland for the sake of money and power….no matter how much underdeveloped we are but we should not forget those precious peoples who laid down their lives for the independence of muslims

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!