مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

”تیز چلتے ہوئے جب تک پسینہ نہ آئے آپ سمجھیں چلنے کا کوئی فائدہ ہی نہیں ہوا بلکہ یہ سمجھیں کہ آپ نے واک کی ہی نہیں۔ دادو تیز چلیں… میری طرح کوئیک… اسی لیے تو آپ فٹ نہیں رہتے… دادو کوئیک…”
وہ میرے آگے آگے چلتا بولتا رہتا ہے، میں اس کے ساتھ قدم ملانے کی پوری کوشش کرتا ہوں مگر تھک جاتا ہوں۔ دانستہ… وہ میرا مستقبل ہے، میرے پاکستان کا مستقبل… اپنے مستقبل کو کون ہرانا چاہے گا۔
چند دن پہلے وہ میرے پاس ایک پیکٹ لے کر آیا۔ ”آپ کو ایک چیز دکھاؤں دادو؟” اس نے آکر کہا۔ میں نے اخبار تہہ کر دیا۔
”ہاں دکھاؤ…” برق رفتاری سے اس نے پیکٹ کھولا اور اس کے اندر موجود چیز میرے سامنے کر دی۔ میرا سانس رک گیا۔ وہ پوٹلی نسلوں کا سفر کتنی آسانی سے طے کر رہی تھی۔ میں نے ہونٹ بھینچتے ہوئے اسے ہاتھ میں اٹھا لیا۔
”یہ تمہیں کہاں سے ملی؟” میں نے اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”پاپا نے دی تھی جب وہ کارگل جارہے تھے، انہوں نے کہا تھا یہ گفٹ ہے… اپنے دادا سے پوچھنا یہ کیا ہے؟ دادو یہ کیا ہے…؟”




میں نے حیدر کو گود میں لے لیا۔
میں نے گھڑی دیکھی اور واپس مڑ گیا۔ اب مجھے واپسی کا فاصلہ طے کرنا تھا اسی سڑک پر۔
آج کل شاہد اور فائقہ اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ میرے پاس آئے ہوئے ہیں۔ کل چودہ اگست کو سارا دن ٹی وی آن رہا، رات کو شاہد مجھ سے کہنے لگا۔
”میں سوچتا ہوں ابو! بڑھاپا پاکستان میں ہی گزاروں۔ ساٹھ ستر سال عمر میں یہاں آ جاؤں گا۔ انسان کو دفن اپنی مٹی میں ہی ہونا چاہئے۔ ہے نا…؟”
وہ مجھ سے اپنی ”حب الوطنی” کی داد چاہ رہا تھا۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا اور کہا۔
”پاکستان کو تمہاری قبروں اور تابوتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کو تمہاری جوانی اور وہ گرم خون چاہئے جو تمہاری رگوں میں خواب اور آئیڈیلزم بن کر دوڑتا ہے۔ اگر پاکستان کو اپنی جوانی نہیں دے سکتے تو اپنا بڑھاپا بھی مت دو… جس ملک میں تم جینا نہیں چاہتے وہاں مرنا کیوں چاہتے ہو… باہر کی مٹی کی ٹھنڈک مرنے ے بعد برداشت نہیں ہو گی تب اپنی مٹی کی گرمی چاہئے؟ نہیں شاہد جمال آپ وہیں رہیں جہاں آپ رہ رہے ہیں۔ ہر شخص کے مقدر میں باوطن ہونا نہیں لکھا ہوتا۔ بعض کے مقدرمیں جلا وطنی ہوتی ہے، اپنی خوشی سے اختیار کی جانے والی جلا وطنی۔” وہ میری بات پر خاموش ہو گیا تھا۔
شاید اس نے سوچا ہو گا میں پچھلی صدی کا آئیڈیلزم کا شکار ایک بوڑھا شخص، اس جدید ترقی یافتہ دور اور ملک کے نشے سے کیسے واقف ہو سکتا ہوں جہاں وہ رہتا ہے۔ تیس سال گزرنے کے بعد جب وہ میری طرح اس ملک میں رہنے کے لیے آئے گا تو اسے احساس ہو گا، زندگی میں بعض دفعہ جان بوجھ کر آہستہ چلنے میں مزہ آتا ہے۔ بعض دفعہ ریس میں حصہ نہ لے کر بھی آپ اسی کا حصہ رہتے ہیں۔ پھر میری طرح اس سڑک پر واک کرتے ہوئے وہ لوگوں کے چہرے اور چیزیں دیکھے گا مگر اس کے پاس سوچنے کے لیے مٹی کی وہ پوٹلی نہیں ہو گی نہ اس سے وابستہ یادیں۔ اس کے پاس پاؤنڈز اور ڈالرز کے وہ لمبے چوڑے اکاؤنٹ ہوں گے… صرف اکاؤنٹ…!
میں اب سڑک پر تیز رفتاری کے ساتھ واپس جارہا ہوں، واپسی کا سفر میں ہمیشہ تیزی سے کرتا ہوں۔ واپسی کا سفر ہر ایک ہی تیزی سے کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ سڑک مجھے پاکستان لگتی ہے اور ہر روز صبح ایک گھنٹہ کی یہ واک اپنی زندگی کے اڑسٹھ سال، پچھلے 54 سال میں نے اس ملک میں گزارے ہیں۔ میرے حصے میں یہاں سب کچھ آیا، اس مٹی نے مجھے خواب دیکھنا سکھایا… پھر اس کی تعبیر دی۔ میں نے اس مٹی کو ہر بار وہ دیا جو اس نے مجھ سے مانگا۔ روپے کی دفعہ روپیہ، وقت کی دفعہ وقت، اور خون کی دفعہ خون… اور مجھے یہ ملک کبھی خالی نہیں لگا۔
مجھے کبھی اس چھوٹے، ترقی پذیر، گندے، ٹوٹی سڑکوں والے ملک کا شہری ہونے پر شرمندگی نہیں ہوئی۔ شاید اس وجہ سے کیونکہ میں نے کبھی اس کے مسائل میں اضافہ نہیں کیا۔ میں نے ہمیشہ اسے اپنے پاس موجود سب سے بہترین شے دی۔ آپ میں سے کوئی بھی اس چیز کو نہیں سمجھ سکتا۔ آج آپ سے آپ کا گھر چھین لیا جائے اور پھر آپ لڑتے جھگڑتے میری طرح خون دے کر اس گھر کو واپس لیں تو پھر آپ کو وہ ٹوٹا پھوٹا، گندا گھر جنت سے کم نہیں لگے گا۔ تب آپ کسی کو اس کی دیوار پر ہاتھ تک نہیں رکھنے دیں گے، کہاں یہ کہ کسی کو اندر آنے دیں۔
میں نے اپنے ڈرائنگ روم میں وہ میڈل رکھا ہوا ہے جو نعمان کی شہادت کے بعد دیا گیا تھا۔ شاید یہ میرے وطن کی طرف سے میری ان خدمات کا اعتراف ہے جو میں نے…
ہر سال پندرہ اگست میں اسی طرح اپنے ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں۔ اسی سڑک پر چلتے ہوئے لوگوں کی وہی باتیں سنتے ہوئے۔
”اس ملک میں کچھ نہیں ہے… ہم نے کینیڈا کی امیگریشن کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے۔”
”Across the borders we are one”
مجھے اس سب کے باوجود یہیں رہنا ہے۔ یہیں جینا ہے… یہیں مرنا ہے۔
”کیا آپ میری طرح قربانی دے کر یہاں جینا اور مرنا سیکھ سکتے ہیں۔”
…*…




Loading

Read Previous

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Read Next

عکس — قسط نمبر ۸

One Comment

  • Its veryy very heart touching…we must not have to leave our beloved motherland for the sake of money and power….no matter how much underdeveloped we are but we should not forget those precious peoples who laid down their lives for the independence of muslims

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!