مٹھی بھر مٹی — عمیرہ احمد

وہ ہر بار نت نئی خبروں کے ساتھ واپس آتا۔ہر بار اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ جوش ہوتا۔ آنکھوں میں پہلے سے زیادہ چمک ہوتی، چہرے پر پہلے سے زیادہ سرخی ہوتی اور جھولی میں پہلے سے زیادہ خواب ہوتے۔
میرا باپ گھر کا واحد شخص تھا جو مظفر کا مذاق اڑایا کرتا تھا۔ اسے گھر میں سب سے زیادہ مظفر سے محبت تھی یہی وجہ تھی کہ وہ اسے ڈانٹتا نہیں تھا مگر اس کی ہر بات کے جواب میں وہ کہتا۔
”تم اس شخص کی تقریروں کی بات کرتے ہو جسے کافر قرار دیا جا چکا ہے۔ کوئی مولوی اسے مسلمان ماننے کو تیار نہیں، سب کہہ رہے ہیں جناح پاگل ہے، کافر ہے، مسلمانوں میں تفرقہ پھیلا رہا ہے۔ میں تو ان لوگوں کی بات سنوں گا اور اسی پر عمل کروں گا، جناح کی نہیں۔”




میرے باپ کی ایک ہی رٹ ہوتی، چوپال میں اب سیاست پر ہی بات ہوتی تھی۔ ہندوستان کے مستقبل کے بارے میں بحثیں ہوتیں ،مسلم لیگ اور کانگریس کے بارے میں بات ہوتی۔ گاندھی، نہرو، مولانا عبدالکلام آزاد اور جناح، جوہر اور لیاقت علی خان کا موازنہ کیا جاتا۔ مسلم لیگ اور اس کے لیڈر کو گالیاں دی جاتیں میرا باپ بھی انہی مسلمانوں میں شامل ہوتا جو اسے گالیاں دیا کرتے تھے۔
1940ء کا عشرہ چل رہا تھا۔ میری بڑی بہن کی منگنی میرے ماموں زاد کے ساتھ ہو چکی تھی۔ کچھ عرصہ تک شادی ہونے والی تھی۔ مگر پھر میرے ماموں زاد نے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا، شادی ملتوی ہو گئی۔ طے یہ پایا کہ وہ تعلیم مکمل کر لے پھر شادی کی جائے گی۔
ان ہی دنوں پنجاب کے کچھ علاقوں میں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر قتل و غارت کی گئی، چوپال میں یہ خبریں بھی پہنچتیں۔
”ہاں تو جو لوگ غلط کام کرتے ہیں، ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ لوگ کیوں مسلم لیگ کے گماشتے بنے پھرتے ہیں۔ نہ یہ مشتعل کرنے والے کام کریں نہ مارے جائیں۔” سکھ پنچ نے ان فسادات پر چوپال میں بیٹھ کر یہ تبصرہ کیا۔
”مگر اس طرح پورے کے پورے گھر کو جلا دینا اور خاندان قتل کر دینا کہاں کا انصاف ہے۔ قتل تو نہیں کرنا چاہئے۔ وہ جو بات کہتے ہیں سن لیں اور ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیں۔ لیکن مار دینا… یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔”
پہلی بار میرے باپ نے چوپال میں بیٹھ کر ایسی بات کہی۔
”کیوں انصاف نہیں ہے، یہ فسادی لوگ ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ بٹوارہ کرنا چاہتے ہیں یہ… گھر میں دیوار اٹھا دینا چاہتے ہیں… ٹھیک کیا اگر ایسوں کو مارا۔”
چوپال میں بیٹھے ہوئے ایک ہندو نے کہا اور وہاں بیٹھے سب لوگوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ میرا باپ خاموش ہو گیا۔
1945ء کا سال شروع ہو چکا تھا۔ 1945ء اور 1946ء کے دسمبر جنوری میں انتخابات منعقد ہوئے اور یہ وہ انتخابات تھے جن میں میرے بھائی مظفر نے مسلم لیگ کے اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا کام کرتے ہوئے مسلم لیگ کے امیدواروں کی کنویسنگ کی۔ وہ اپنے علاقے سے انتخاب لڑنے والے مسلم کے امیدواروں کے لیے علاقے کے تمام مسلمانوں کے گھر جاتا رہا اور وہاں کے ہندوؤں اور سکھوں کی نظروں میں آگیا۔
چوپال میں پہلی بار میرے باپ کو اس کے بیٹے کی سرگرمیوں پر سرزنش کی گئی۔ میرا باپ خاموش رہا۔ وہ کیا کہہ سکتا تھا، الزامات سچ تھے۔ اس رات گھر آکر اس نے پہلی بار میرے بھائی کو ڈانٹا۔ ”نہیں ابا! یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس بار گھر نہیں بیٹھ سکتا۔ اس بار اگر مسلم لیگ کے ساتھ الیکشنز میں وہ سب کچھ ہوا جو پچھلے الیکشنز میں ہوا تھا اور وہ اتنی بری طرح ہاری جس طرح پچھلی بار ہاری تھی تو ہم سب کچھ ہار جائیں گے۔ انگریز ہمیں ہندوؤں کے حوالے کرکے چلے جائیں گے اور مجھ کو ان کا کتا نہیں بننا۔ اس بار اگر ہم نے مسلم لیگ کا ساتھ نہ دیا تو پھر اگلے کئی سو سال غلامی گزاریں گے اور اس بار غلامی پہلے سے زیادہ بدتر ہو گی۔”
میں نے زندگی میں کبھی اپنے بھائی کو اتنی بلندآواز میں اپنے باپ سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا، مگر اس رات وہ بولتا رہا۔ میرے باپ کی کوئی دلیل اسے قائل نہیں کرسکی۔ جمعیت علمائے ہند کے بیانات کے حوالے بھی اسے متاثر نہیں کرسکے۔




”جو لوگ آج جناح کو کافر کہتے ہیں، وہ کل جناح کا ہاتھ چوما کریں گے اور اس کا مزار بنا کر اس پر فاتحہ پڑھا کریں گے۔ جو لوگ آج پاکستان کے مطالبے کو ذہنی فتور کہتے ہیں اور اسے گالیاں دیتے ہیں، وہ کل اسی پاکستان میں پناہ لینے کے لیے بھاگیں گے۔ جناح کافر نہیں ہے وہ پریکٹیکل مسلمان ہے۔ مولویوں کی طرح دین کی بات نہیں کرتا، دین پر عمل کرتا ہے۔ یہ وہ مولوی ہیں جو پچھلے سو سال میں ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی سے آزاد نہیں کروا سکے اور اب جو آزادی کی بات کر رہا ہے وہ شخص ان کو کافر نظر آتا ہے۔ یہ لوگ دستاریں اور چوغے پہن کر بھی میرے لیے اگر آزادی نہیں لا سکے تو مجھے اس شخص کے پیچھے کھڑے ہونے دیں جو پینٹ کوٹ پہن کر اور سگار پی کر مجھے وہ زمین دلا دے گا، جہاں میں مسجد میں بلند آواز میں اذان دوں تو میرا سر کاٹنے کے لیے ہندو اندر نہ آجائیں۔”
میرا باپ بول نہیں سکا، وہ اس کے بعد کبھی بھی میرے بھائی کے سامنے بول نہیں سکا۔
مسلم لیگ نے 1945ء اور 1946ء کے انتخابات میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی اور وہ مسلمانو ںکی تقریباً تمام سیٹیں جیت گئی۔
کانگریس کے حامی مسلمان امیدوار ہمارے علاقے میں بری طرح ہارے۔
الیکشنز میں جیت کے بعد مسلم لیگ کے مطالبے میں اور بھی شدت آگئی۔ برٹش حکومت اب مسلم لیگ کو پہلے کی طرح نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔
چوپال میں میرے باپ کے لیے ناپسندیدگی اور بڑھ گئی۔ میرے بھائی کے خلاف باتیں کی جاتیں، میرا باپ اگر بڑا زمیندار نہ ہوتا تو شاید اب تک اسے چوپال سے نکال دیا جاتا مگر اب بھی وہ ایک طرح کے سوشل بائیکاٹ کا شکار تھا حالانکہ وہ اب بھی کانگریس کی بات کرتا تھا اور اس نے الیکشن میںکانگریس کے حامی امیدوار کو ہی ووٹ دیا تھا۔ اس کے باوجود چوپال میں کوئی بھی اس سے خوش نہیں تھا۔
3 جون 1947ء کو تقسیم ہند کا اعلان کر دیا گیا۔ میرا بھائی اس خبر پر خوشی سے پاگل ہو کر گھر آیا تھا۔ میرا باپ ہمیشہ کی طرح ناخوش تھا۔
”اب ہم پاکستان چلے جائیں گے۔ وہاں مغربی پنجاب میں رہیں گے۔ آپ لوگ انتظامات شروع کردیں۔” اس نے میرے باپ سے کہا۔
”میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ یہاں میری زمینیں اور گھر بار ہے میں کوئی احمق ہوں جو انہیں چھوڑ جاؤں۔ پھر یہاں ہمیں تکلیف کیا ہے۔”
میرے باپ نے ہمیشہ والا جواب دیا۔
”ہم وہاں کلیم داخل کروائیں تو زمینیں اور گھر ہمیں وہاں بھی الاٹ ہو جائے گا۔” میرے بھائی نے باپ کو سمجھایا مگر وہ رضامند نہیں ہوا۔
”ٹھیک ہے آپ مت جائیں مگر میں پاکستان میں ہی رہوں گا۔” میرے بھائی نے اعلان کیا میرے باپ نے پھر بھی اس کی بات پر کان نہیں دھرے۔
تیسرے دن میرے بھائی کو واپس شہر جانا تھا۔ میرے باپ نے اس سے کہا کہ وہ اگلے دن میری ماں اور بڑی بہن کو ساتھ والے گاؤں میں چچا کے گھر چھوڑ آئے۔ میری چچا زاد کی شادی ہونے والی تھی اور میری ماں بڑی بہن کے ساتھ وہاں جاتی پھر اسے رہنے کے لیے چھوڑ کر اسی دن بھائی کے ساتھ واپس آجاتی۔
وہ تینوں چچا کے گھر کبھی نہیں پہنچ سکے۔ گاؤں کے باہر جانے والے رستے پر میری ماں اور بھائی کو بڑی بے رحمی کے ساتھ ذبح کر دیا گیا۔ میرے بھائی کے جسم کے کئی ٹکڑے کرکے وہاں پھینک گئے ہاں البتہ میری ماں پر رحم کیا گیا، اس کی صرف گردن کاٹی گئی جسے ایک درخت پر لٹکا دیا گیا تھا۔ میری بڑی بہن شکیلہ کا اس دن کچھ پتا نہیں چلا البتہ تین چار دن بعد گاؤں کے قریبی جنگل میں اس کی بے لباس لاش کٹی پھٹی حالت میں ملی تھی۔ اسے صرف جنگلی جانوروں نے نہیں ادھیڑا تھا انسانی جانوروں نے بھی بھنبھوڑا تھا۔
…*…




Loading

Read Previous

نیند ہمیں پیاری ہے — عائشہ تنویر

Read Next

عکس — قسط نمبر ۸

One Comment

  • Its veryy very heart touching…we must not have to leave our beloved motherland for the sake of money and power….no matter how much underdeveloped we are but we should not forget those precious peoples who laid down their lives for the independence of muslims

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!