من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

”کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی آپ کو اس اپارٹمنٹ میں؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کرم علی نے اس سے کہا… جمال چونک کر اس کی طرف متوجہ ہو ا۔
”نہیں۔”
آپ اور زری شادی کے بعد بھی اسی اپارٹمنٹ میں رہیں گے۔ کرم نے اسے مطلع کیا۔ جمال کے ماتھے پر ایک شکن آئی۔ خریدا ہے آپ نے ہمارے لیے؟”
”ایک سال کے لیے کرائے پر لیا ہے۔”
”اس احسان کی کیا ضرورت تھی کرائے پر تو میں بھی لے سکتا تھا۔”
جمال کے لہجے میں ہلکی سی ناراضی آئی۔
”مرضی ہے آپ کی ۔ نہ رہنا چاہیں تو چھوڑ دیں۔” کرم علی کے جواب نے جمال کو چند لمحوں کے لیے خاموش کر دیا تھا۔ اسے شاید اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح بھی بات کر سکتا ہے۔ ابھی اس کے ساتھ ہونے والی دو چار بار کی گفتگو میں کرم علی نے ہمیشہ بے حد شائستگی اور تہذیب کا مظاہرہ کیا تھا اور یہ وہ خاصیت تھیں جن سے جمال ناواقف تھا۔ اپنی سابقہ بیوی کی اس کے کسی پرانے آشنا سے شادی کروانے والے مرد کو جتنا کمزور سمجھ سکتا تھا وہ اتنا ہی کمزور سمجھ کر اس سے بات کر رہا تھا۔
”زری بتا رہی تھی کہ آپ نے میرے لیے کسی کام کا بندوبست کیا ہے۔” جمال نے پہلے جھٹکے کے بعد سنبھلتے ہوئے کہا۔
”ہاں ایک فیکٹری میں پیکنگ کا۔”
کرم علی نے سنجیدگی سے کہا۔
”اب میں کینیڈا آکر اس طرح کا چھوٹا موٹا کام کروں گا؟” جمال ایک بار پھر اپنی ناگواری چھپا نہیں سکا۔
”آپ پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ کسی ہنر سے بھی واقف نہیں انگلش بھی آپ کو نہیں آتی۔ اس صورت حال میں اسی طرح کا کام ہی کرنے کو ملے گا آپ کو۔” کرم علی نے اس کے انداز کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس طرح کا کام تو میں خود بھی ڈھونڈ سکتا تھا اس کے لیے مجھے آپ کے احسان کی کیا ضرورت تھی۔” جمال اس بار اپنی ناراضی کو چھپا نہیں سکا تھا۔
”آپ کی مرضی ہے نہ کرنا چاہیں تو نہ کریں۔”
کرم علی نے ایک بار پھر اسی سرد مہری کے ساتھ کہا تھا۔
جمال کو ہتک کا احساس ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کرم علی سے مزید کچھ پوچھتا۔ زری کمرے میں آگئی تھی۔ اور بے اختیار جمال کی طرف گئی تھی۔ اگر اچانک اسے کرم علی کی وہاں موجودگی کا احساس نہ ہوجاتا تو وہ یقینا جمال سے لپٹ جاتی، وہ کچھ ایسی ہی سرخوشی کے عالم میں تھی۔
کرم علی اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا تھا وہاں اس کی موجودگی اب غیر ضروری تھی۔ دس منٹ کے بعد زری اس کے پاس آئی اور اس نے کرم علی سے کہا کہ وہ جمال کے ساتھ جانا چاہتی ہے کرم علی نے اسے یاد دلایا تھا کہ اس کی عدت میں ابھی وقت باقی ہے۔ لیکن زری بضد رہی کہ وہ جمال کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ کرم علی نے مزید کوئی اعتراض کیے بغیر اسے جانے کی اجازت دے دی تھی۔




زری بے حد جوش و خروش میں اپنے کمرے میں آئی اور اس نے پیکنگ شروع کر دی۔ اور پیکنگ کرتے ہوئے اسے احساس ہوا تھا کہ وہ صرف ایک دن میں اپنا سارا سامان پیک نہیں کر سکتی تھی جو جگہ جگہ پر بکھرا ہوا تھا۔ اس نے جمال کے ساتھ جانے کا ارادہ کچھ دن کے لیے ملتوی کر دیا۔
جمال کچھ ناخوش ہو کر واپس گیا تھا۔ اور اس کے جانے کے بعد کرم علی نے زری سے کہا تھا کہ وہ اس کے گھر سے اپنے سامان کے علاوہ بھی اگر کچھ لے کر جانا چاہتی ہے تو لے جائے اسے اعتراض نہیں ہو گا۔ اس نے زری کو کچھ مزید رقم کا ایک چیک بھی دیا تھا۔ وہ واقعی جتنے اچھے طریقے سے اسے اپنے گھر سے رخصت کر سکتا تھا رخصت کر رہا تھا اور اس سے وہ چیک لیتے ہوئے زری کو پہلی بار صحیح معنوں میں کرم کے لیے ممنونیت کا احساس ہوا تھا۔ ”آپ کو مجھ پر اور جمال پر غصہ نہیں آرہا کرم؟” اس نے پتہ نہیں کس خلش سے مجبور ہو کر کہا تھا۔ ”تم پر آیا تھا غصہ مجھے… تم بیوی تھی… عزت تھی میری… تم سے توقعات تھیں مجھے… جمال پر کیوں آتا…؟ وہ غیر آدمی تھا اس سے میرا کیا رشتہ تھا۔ جس کا لحاظ یا پاس وہ کرتا۔” ”مجھے بہت شرمندگی ہے میں نے آپ کو دکھ پہنچایا۔”
”دکھ بڑا چھوٹا لفظ ہے زری… بڑا ہی چھوٹا لفظ ہے… تم نے ایک اور رشتے پر سے میرا اعتبار ختم کر دیا۔” وہ اس وقت اس کے ساتھ یہ ساری باتیں کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا… رشتہ ختم ہو جانے کے بعد یہ ساری باتیں بے کار تھیں۔ لیکن زری بہت مہینوں کے بعد اس سے اس موضوع پر بات کر رہی تھی اور پتہ نہیں وہ اس تک کیا پہنچانا چاہتی تھی۔ ”آپ مجھے بہت برا سمجھتے ہوں گے کرم… لیکن میں بری لڑکی نہیں ہوں۔”
”میں نے کب کہا کہ تم بری ہو… لیکن تم نے جو کچھ کیا وہ برا تھا چاہے اس کے لیے تمہارے پاس کتنی ہی مضبوط وجوہات کیوں نہ ہوں… لیکن اب ان باتوں پر وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے… واحد نصیحت تمہیں میری یہی ہے کہ عدت کے چند ہفتے باقی ہیں وہ گزار کر یہاں سے جاؤ… اور پھر اس مسجدکے امام سے مل لینا وہ جمال کے ساتھ تمہارا نکاح کر دے گا… میں نے اس سے تم لوگوں کے بارے میں بات کی ہے۔”
زری نے اس کے ہاتھ سے وہ کارڈ پکڑ لیا جو کرم نے اسے والٹ سے نکال کر اس کے سامنے کیا تھا۔ ”آپ بڑے اچھے آدمی ہیں کرم۔”
زری کے لہجے میں ممنونیت جھلک رہی تھی۔ احسان مندی… شکر گزاری… ممنونیت… کرم نے ایک گہرا سانس لیا اور مسکرانے کی کوشش کرتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔
اگلے چند دنوں میں وہ زری کے وہاں سے چلے جانے کی توقع کر رہا تھا لیکن اسے حیرت ہوئی جب وہ اپنی عدت ختم کرنے کے بعد ہی وہاں سے گئی۔
٭٭٭
جمال کے ساتھ زری کی زندگی کیسے گزرنے والی تھی زری کو نکاح کے فوراً بعد پہلی بار جمال کے ساتھ اس اپارٹمنٹ میں آتے ہی جان گئی تھی۔ ”یہ ہے وہ دڑبہ جو تمہارے سابقہ شوہر نے ہمارے لیے پسند کیا ہے۔” جمال نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی بے حد طنزیہ انداز میں اس سے کہا تھا۔
”کیوں کیا ہوا اسے؟ اچھا خاصا تو ہے۔” زری نے گھر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”اچھا خاصا؟… اس کا اپنا گھر دیکھا ہے تم نے؟ ” جمال نے خفگی سے کہا۔
”وہ اس کا اپنا گھر ہے… اس کی اپنی کمائی کا۔” زری نے بے ساختہ کہا، اور کہہ کر پچھتائی۔
”میں اچھی طرح جانتا تھا تو ایک دن کمائی کا طعنہ ضرور دے گی مجھے۔” جمال بری طرح بگڑا تھا۔
”طعنہ تھوڑی دے رہی ہوں بس بات کر رہی ہوں میں۔” زری نے بات سنبھالنے کی کوشش کی۔
”تیرے لیے بات ہے میرے لیے گالی ہے یہ… سب کچھ پاکستان میں چھوڑ کر میں تیرے لیے پردیس آبیٹھا ہوں اور تو یہاں آکر بھی کمائی کا طعنہ دے رہی ہے مجھے۔” جمال بری طرح بگڑا ہوا تھا۔ زری کو اسے منانے میں کئی گھنٹے لگے۔ یہ وہ جمال نہیں تھا جو کچھ ماہ پہلے پاکستان میں اس کے آگے پیچھے دم ہلاتا پھر رہا تھا۔ جب وہ کرم علی کی بیوی تھی… اب وہ ”اسی” کی بیوی تھی… اور اپنی سب کشتیاں جلا کر آ ئی تھی اور جمال یہ جانتا تھا۔
اگلے چند ہفتے دونوں کے درمیان چھوٹی موٹی تکرار ہوتی رہی لیکن کوئی بڑا جھگڑا نہیں ہوا اس میں بڑا ہاتھ زری کا ہی تھا۔ زری کے پاس فی الحال پیسے کی بہتات تھی اور وہ جمال کے ساتھ کینیڈا میں گھومتی پھرتی اور اس پر کھلے ہاتھ سے روپیہ خرچ کرتی رہی… ایسے حالات میں جھگڑے کا امکان کچھ کم ہی تھا۔ پاکستان میں کرم کے ساتھ اس کی طلاق اور جمال کے ساتھ اس کی شادی کا پتہ چل چکا تھا۔ اس کے گھر والوں نے ابتدائی لعنت و ملامت کے بعد بالآخر اس کی شادی کو تسلیم کر لیا تھا۔ وہ جمال کے ساتھ پاکستان آجاتی تو وہ اس شادی کو کسی صورت میں تسلیم نہ کرتے مگر وہ کینیڈا میں تھی۔ اور اس کے گھر والوں کو ہرماہ کینیڈا سے آنے والی رقم کی عادت ہو چکی تھی۔ غربت بہت ساری بنیادی صفات سے انسان کو محروم کر دیتی ہے اور اس میں سے ایک خود داری بھی ہوتی ہے۔ وہ زری سے قطع تعلق کر لیتے تو ان کا گھر کیسے چلتا… کینیڈا سے آنے والے چیک کی مالیت کم ہو چکی تھی لیکن بہر حال اب کرم کی بجائے زری انہیں تھوڑی بہت رقم بھجوا رہی تھی ان کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔
زری اور جمال کے درمیان پہلا بڑا جھگڑا تب ہوا جب چند ہفتے گزرنے کے بعد ایک دن زری نے جمال کو اس جگہ کام پر جانے کے لیے کہا جہاں کرم نے اس کے لیے کام کا بندوبست کیا تھا۔ جمال نے دو ٹوک الفاظ میں وہاں جانے سے انکار کر دیا … وہ وہاں تو کیا فی الحال کہیں بھی کام پر جانے کے لیے تیار نہیں تھا اور وہ یہ بات سمجھنے سے بھی قاصر تھا کہ زری بار بار اسے کام پر جانے کے لیے مجبور کیوں کر رہی تھی جب اس کے پاس کرم کا دیا ہوا ”اتنا” پیسہ تھا۔ یہ صرف زری جانتی تھی کہ وہ اتنا پیسہ اب آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہونے لگا تھا اور اس کی بنیادی وجہ جمال تھا جس کے ذاتی اخراجات گھر کے اخراجات سے بھی تجاوز کر جاتے تھے اگلے چند دن بھی ان کے درمیان اسی طرح جھگڑے ہوتے رہے پھر بالآخر جمال اس فیکٹری میں چلا گیا جہاں کرم نے اس کے لیے کام کا بندوبست کیا تھا۔ زری نے سکون کا سانس لیا تھا لیکن شام کو اس کے واپس آتے ہی اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ سکون عارضی تھا۔
”میں دوبارہ کبھی اس فیکٹری میں نہیں جاؤں گا… بتا رہا ہوں تجھے میں۔” جمال نے زری کے دروازہ کھولتے ہی اعلان کرنے والے انداز میں اسے بتایا تھا۔ زری کی جیسے جان پر بن آئی۔
”کیوں؟ کیا ہوا؟ ”
”تمہارے پچھلے شوہر نے مجھے ذلیل اور تنگ کرنے کے لیے یہ کام دیا ہے مجھے… اپنے کسی دوست کی فیکٹری میں کام دلوایا ہے مجھے اور جہاں پہلے ہی دن شفٹ انچارج نے ذلیل کیا مجھے۔۔۔۔”
”لیکن کیوں؟” زری پریشان ہونے لگی تھی۔
”کبھی کہہ رہا تھا میں سگریٹ نہ پیؤں… کبھی کہہ رہا تھا ورکرز باتھ روم میں اتنی دیر نہیں بیٹھتے… کبھی کہہ رہا تھا میں توجہ سے کام نہیں کر رہا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ میں بتا رہا ہوں تمہیں میں نے اب وہاں نہیں جانا۔”
”ٹھیک ہے مت جاؤ وہاں… پھر کہیں اور کام ڈھونڈ لو۔” زری نے کہا۔
”ڈھونڈھ لوں گا کام بھی… چار دن کام نہیں کریں گے توبھوکے نہیں مر جائیں گے ہم دونوں۔” جمال نے بے حد غصے سے کہا۔
”جمال پہلے ہی دو ماہ ہو گئے ہیں اور۔۔۔۔” زری نے کچھ کہنا چاہا لیکن جمال نے بے حد غصے میں اس کی بات کاٹی۔
”میں نے کہا نا ڈھونڈ لوں گا کام… تو خواہ مخواہ میرا دماغ چاٹنے مت بیٹھا کر۔” جمال تلخی سے کہتا ہوا باتھ روم میں گھس گیا۔ زری پر جیسے اوس پڑ گئی تھی۔ جمال کے چند دنوں کا مطلب صرف چند دن نہیں تھا… کتنے دن ہوتا یہ وہ سوچ کر فی الحال اور پریشان نہیں ہونا چاہتی تھی۔
”مجھے کچھ پیسے دے۔” وہ سنک میں برتن دھو رہی تھی جب اس دن جمال نے آکر اس سے کہا تھا۔ وہ اس ایک دن فیکٹری میں جانے کے بعد کام کے لیے دوبارہ گھر سے نہیں نکلا تھا۔
”کس لیے؟”
”ہر بار تیرا سوال کرنا ضروری ہوتا ہے؟” جمال کو اس کے سوال پر غصہ آیا تھا اور زری کو اس کے مطالبے پر۔
”دیکھ جمال تو بے مقصد پیسے لے کر ضائع کرتا ہے۔”
”میں بے مقصد پیسے لے کر ضائع کرتا ہوں اور جو پیسے تو ہر ماہ اپنے ماں باپ کو بھیجتی ہے وہ ضائع نہیں ہوتے۔” جمال نے ترکی بہ ترکی کہا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!