من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

وہ شوٹنگ کے لیے وہاں تھی یہ کرم علی بھی جانتا تھا۔ اس کے پاس اس کے پینتیس دن کی شوٹنگ اور لوکیشنز کا پورا شیڈول تھا۔ وہ جانتا تھا آج وہ کہاں کیا شوٹ کروا رہی ہے۔ بہت دفعہ اس کا دل چاہا کہ وہ ایک بار اسے ملنے جائے یا فون کر کے اس سے بات کرے۔ بہت بار وہ فون ہاتھ میں لے کر بھی بیٹھا رہا اور ہر بار الفاظ تلاش کرتے کرتے فون رکھ دیتا۔
زینی سے بات کرنے کے لیے اس کے پاس ہمت تھی الفاظ نہیں تھے۔ بہت دفعہ وہ اپنے آپ کو بار بار یہ بھی سمجھاتارہا کہ وہ اس طرح مسلسل اس کے بارے میں سوچ سوچ کر اپنی بیوی سے بے وفائی کا مرتکب ہو رہا تھا۔ لیکن ہر بار وہ خود کوبے بس پاتا۔ یہ اس کا ذہن نہیں تھا جس کو وہ سمجھا نہیں پا رہا تھا یہ اسکا دل تھا جو کچھ بھی سننے پر تیار نہیں تھا۔
”سنا ہے آپ کی پسندیدہ ہیروئن پری زاد آئی ہوئی ہے آپ کی فلم کی شوٹنگ کے لیے اور آپ نے مجھے بتایا تک نہیں۔”
وہ اس رات سونے کے لیے لیٹ رہا تھا، جب زری کی بات پر ٹھٹھک گیا۔ وہ تکیے سے ٹیک لگائے بظاہر ٹی وی دیکھ رہی تھی۔
کرم علی کو یقین تھا کہ جلد یا بدیر زری کو زینی کی وہاں آمد کے بارے میں پتا چل جائے گا لیکن یہ سب اتنا جلدی ہوگا۔ یہ اسے اندازہ نہیں تھا۔
”آپ کو کس نے بتایا؟” کرم علی نے اس سے کہا۔
”اب آپ نے نہیں بتایا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بھی نہیں بتائے گا۔” زری نے بے حد بے نیازی سے کہا۔
”میں نے اس لیے نہیں بتایا کہ میرے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ فلم میں کام کرنے آئی ہے اور کام کر کے چلی جائے گی۔”
”اب یہ تو آپ کو پتا ہو گا کہ وہ کیا کام کرنے آئی ہے اور کیا کام کر کے جائے گی، ویسے ہے خوب صورت ملوا ہی دیتے۔”
وہ اب دل جلانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہہ رہی تھی۔ کرم علی نے جواب دینے کے بجائے خاموشی سے لیٹ جانا بہتر سمجھا، چند منٹوں تک کمرے میں خاموشی رہی۔ زری اب اٹھ کر VCD پر کوئی فلم لگانے میں مصروف تھی۔
چند لمحوں کے بعد اسکرین پر ابھرنے والی ایک آواز پر کرم علی جیسے کرنٹ کھا کر اٹھا تھا، زری اب پری زاد کی کوئی فلم لگانے کے بعد بے حد فاتحانہ انداز میں بیڈ کی طرف آرہی تھی۔ پری زاد اس سین میں ہیرو کے ساتھ بے حد قابل اعتراض ڈائیلاگ بول رہی تھی۔
”بند کرو اسے۔” کرم علی نے بے حد غصے میں زری سے کہا۔
”کیوں آپ کو اچھا نہیں لگا کیا؟” زری نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے معصومیت سے کہا۔
کرم علی اشتعال کے عالم میں اٹھا اور اس نے ٹی وی آف کر دیا۔ زری سے ریموٹ مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ اسے بری طرح تنگ کرتی۔
”اوہ! میں سمجھ گئی۔ پری زاد کی ایسی فلمیں توآپ اکیلے بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ میرے ساتھ تو اچھا نہیں لگے گا آپ کو اپنی فیورٹ ایکٹریس کو ا س حالت میں دیکھ کر۔”
زری کرم علی کی حالت سے بری طرح محظوظ ہو رہی تھی۔
”کہاں سے لی ہے آپ نے یہ فلم؟” کرم علی نے واپس بیڈ پر آتے ہوئے کہا۔
زری نے بے حد ناز اور معصومیت سے آنکھیں گھماتے ہوئے چھت کو دیکھا اور پھر کہا۔
”دنیا میں پری زاد کی فلموں کے سب سے بڑے ذخیرے سے، جو میرے شوہر کے پاس موجود ہے۔”
کرم علی بے حس و حرکت بہت دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ ”آپ نے اس کمرے کو کھول لیا؟”
”کھولا نہیں تالا توڑنا پڑا چابی تو آپ کے پاس تھی۔” زری نے بڑے آرام سے کہا۔
”میں نے منع کیا تھا نا؟”
”اس سے کیا ہوتا ہے؟” زری کے انداز میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
”زری! میں آج آپ کو آخری بار یہ بات سمجھا رہا ہوں کہ اگر میں یہ کہوں کہ آپ اس کمرے میں نہیں جائیں گی تو آپ نہیں جائیں گی اور اگر میں نے کہا کہ اس چیز کو ہاتھ نہیں لگائیں گی تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ہاتھ نہیں لگائیں گی۔” کرم علی نے شادی کے بعد پہلی بار اس سے اس طرح بات کی تھی۔ زری کو جھٹکا لگا تھا۔
”ورنہ آپ کیا کریں گے؟” ”میں آپ کو divorce(طلاق) کر دوں گا۔”
کئی منٹ تک زری کے منہ سے آواز نہیں نکل سکی وہ جیسے اس وقت سکتے میں آئی ہوئی تھی۔ اس کے نزدیک جو بات معمولی سی تھی، اس پر کرم علی کا اس طرح کا رد عمل کرم علی نے اٹھ کر VCD سے فلم نکالی اور کمرے سے نکل گیا۔ زری نے ایک فلم کے علاوہ وہاں سے کوئی اور چیز نہیں لی تھی۔ البتہ اس نے اس کمرے میں ہر چیز چیک ضرور کی تھی۔ میگزنیز بھی بے حد بے ترتیبی سے پڑے ہوئے تھے۔ ایک نظر ڈالتے ہی کرم علی کو اس کا اندازہ ہو گیا تھا۔
پندرہ منٹ کے بعد وہ جب واپس کمرے میں آیا تو زری سو چکی تھی یا کم ازکم سونے کی ایکٹنگ ضرور کر رہی تھی۔
کرم علی بھی سونے کے لیے لیٹ گیا تھا۔ فوری طور پر نیند کا آنا مشکل تھا۔ وہ زری کی اس حرکت سے بہت بری طرح اپ سیٹ ہوا تھا۔




اگلے چند دن زری بے حد خاموش رہی جبکہ کرم علی معمول کے انداز میں اس سے بات کرتا رہا۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ زری دوبارہ اس کمرے میں نہیں گئی تھی نہ اس نے پری زاد کا ذکر کیا تھا۔ اس لیے وہ غیر محسوس طور پر زری کی دل جوئی کرنے کی کوشش بھی کرتا رہا۔ اسے واقعی احساس ہوا تھا کہ اس نے ایک بہت چھوٹی بات پر طلاق کی دھمکی دی تھی۔
اگلے چند دن وہ زری کو بہت اچھی اچھی جگہوں پر کھانا کھلانے لے جاتا رہا۔ اس نے زری کو جی بھر کر شاپنگ کرنے کا موقع بھی دیا تھا۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کوئی اور چیز زری کا موڈ ٹھیک کرے یا نہ کرے روپے کو بے دردی سے خرچ کر کے وہ ضرور خوش ہو جاتی تھی اور زری کا موڈ واقعی ٹھیک ہو گیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے کرم علی سے اپنے رویے کے لیے معذرت بھی کر لی تھی۔ شادی کے کئی مہینوں میں یہ پہلی معذرت تھی جو زری کی جانب سے آئی تھی اور کرم علی کے لیے یہ بے حد خوش کن بات تھی۔
لیکن دو ہفتوں کے بعد ہی زری نے کرم علی کی عدم موجودگی میں اس کی ماں کے گھر آنے پر اس کی بے حد بری طرح بے عزتی کرتے ہوئے اسے صاف لفظوں میں اپنے گھر آنے سے منع کیا تھا۔ کرم علی کی ماں کی زری کے ساتھ وقتاً فوقتاً چھوٹی موٹی چپقلش تو ہوتی رہتی تھی لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ زری اور اس کے درمیان اتنا بڑا جھگڑا ہوا۔ کرم علی کی ماں اس وقت گھر سے چلی گئی تھیں لیکن اس نے کرم علی کے آنے پر ہچکیاں لے کر روتے ہوئے اسے زری کی باتیں بتائیں نہ صرف یہ بلکہ اس نے کرم علی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اسے ایسی بیوی کو طلاق دے دینی چاہیے جو اس کی ماں کے ساتھ اتنی بدتمیزی کر رہی ہے۔
”اس مصیبت میں آپ نے پھنسایا ہے مجھے۔” کرم علی نے زچ ہو کر کہا۔ ”آپ کو شوق تھا میرے لیے کم عمر اورخوبصورت بیوی لانے کا… اب وہ آگئی ہے اور میں بھگت رہا ہوں تو آپ بھی بھگتیں۔”
”غلطی ہو گئی مجھ سے کہ جو میں نے تمہاری تب نہ سنی۔ بھک منگوں کے خاندان سے رشتہ جوڑ لیا۔ کیسی سیدھی اور معصوم لگتی تھی اور اب اس کے منہ میں زبان کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔ میں کہتی ہوں کرم! فارغ کرو اسے۔ میں اس سے اچھی جگہ تمہاری شادی کرواؤں گی بلکہ اس بار تمہاری مرضی سے سب کچھ ہو گا جہاں تم کہو گے وہاں شادی ہو گی تمہاری۔” کرم علی ماں کے چہرے کو دیکھ کر رہ گیا۔
ان کے لیے اس کی شادی کا ہونا اور ختم ہونا اتنی معمولی بات تھی کہ وہ چٹکی بجاتیں اور وہ یہ کر دیتا۔ عجیب سی گھٹن تھی جو وہ اس وقت ماں کی باتیں سنتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔
”میں زری کی طرف سے آپ سے معذرت کرتا ہوں بلکہ میں زری کو سمجھاؤں گا۔ وہ بھی معذرت کر لے گی آپ سے۔ دوبارہ کبھی ایسی شکایت نہیں ہو گی آپ کو۔” اس کی ماں اس کی باتوں پر بری طرح برافروختہ ہو گئیں۔
”تمہارا خیال ہے کہ میں نے اس وقت تمہیں زری سے معافی منگوانے کے لیے یہاں بلوایا ہے؟ ماں کی بے عزتی تمہارے نزدیک کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ ٹھیک کہتے ہیں تمہارے بہن بھائی کہ تم شادی کے بعد بالکل بدل گئے ہو، بیوی کے علاوہ تمہیں کوئی نظر ہی نہیں آتا۔”
کرم علی ان سے بہت کچھ کہنا چاہتا تھا۔ بہت کچھ کہہ سکتا تھا۔ لیکن وہ خاموش رہا۔ اس نے زندگی میں ہمیشہ ماں کی ڈانٹ ڈپٹ کو خاموشی سے سنا تھا۔ اس وقت بھی سن رہا تھا۔
تقریباً تین گھنٹے وہاں بیٹھنے کے بعد وہ واپس گھرآیا۔ زری کو اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ اپنی ماں کے پاس سے ہو کر ہی وہاں آئے گا۔ وہ اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی۔ اور بے حد غصے میں بھی۔
”امی کے ساتھ جھگڑا کیوں کیا آپ نے؟”
”میں نے جھگڑا نہیں کیا؟ آپ کی امی یہاں آئی جھگڑا کرنے کے لیے تھیں۔” زری جیسے منتظر تھی کہ کرم علی بات کرے اور وہ شکائیتوں کا انبار لا کر اس کے سامنے رکھ دے۔
”میں تنگ آگئی ہوں ان کے روز روز کے طعنوں اور باتوں سے۔ ہر وقت ان کی زبان پر یہی ہوتا ہے کہ ان کے بیٹے کا پیسہ میں اپنے گھر والوں کو بھیج رہی ہوں۔ آپ نے میرے باپ کو ایک گھر کیا خرید دیا۔ آپ کے سارے گھر والے پیچھے پڑ گئے ہیں میرے۔ ہر وقت ان کی زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے۔ میں ان کے بیٹے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہوں۔”
کرم علی فوری طور پر زری کی باتوں پر بھی کچھ نہیں کہہ سکا۔ وہ یہ جانتا تھا کہ اس کے گھر والے وقتاً فوقتاً اپنے سسرال کی، کی جانے والی امداد کو بے حد ناپسند کرتے تھے۔ پاکستان میں زری کے خاندان کا گھر بدلنا اور اس کے بہتر ہوتے ہوئے حالات کرم علی کے خاندان کے مختلف لوگوں کے ذریعے کرم علی کے گھر والوں تک پہنچ جاتے تھے اور یہ کس کے طفیل ہو رہا تھا یہ جاننے میں انہیں دیر نہیں لگتی تھی۔
”میں اپنے خاندان اور خاندان سے باہر جانے والے مستحق لوگوں کو ہر سال لاکھوں روپیہ دیتاہوں خیرات اور زکوٰة میں… اگر اپنے سسرال والوں کی تھوڑی بہت مدد کر دیتا ہوں تو کیا فرق پڑتاہے۔ مستحق تو وہ بھی ہیں۔ اگر تھوڑی آسانی ان کی زندگی میں میری وجہ سے آگئی ہے توکیا ہو گیا ہے۔ میرے بزنس اور بینک بیلنس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔”
وہ جو زری سے سن رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے اپنی ماں سے بھی سن آیا تھا اور اس نے اس اعتراض پر ماں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی جس پر اس کی ماں نے برا مانا تھا۔ اب زری دوبارہ وہی الزام دہرا رہی تھی تو کرم علی کی سمجھ میں نہیں آیا تھاکہ وہ اسے کیسے کہے۔ وہ باتیں سن کر کسی کو بھی غصہ آتا ۔ اگر زری کو آگیا تھا تو یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی۔
”آپ جو کچھ میرے گھر والوں کو دیتے ہیں۔ ایک ایک چیز کے بارے میں اپنی ماں کو بتاتے ہیں۔ یہ ساری بے عزتی آپ کی وجہ سے ہوتی ہے میری۔”
”زری! میں نے کبھی اپنی ماں یا کسی بہن بھائی کو یہ نہیں بتایا کہ میں آپ کے گھر والوں کو کیا دیتا ہوں جیسے آپ کو میں نے یہ نہیں بتایا کہ میں اپنے گھر والوں کو کیا دیتا ہوں۔ میرے لیے آپ کی فیملی اور اپنی فیملی میں کوئی فرق نہیں ہے۔”
”تو پھر کیسے پتا چلتا ہے انہیں کہ۔”
”پاکستان میں بہت رشتہ دار ہیں ہمارے جن کا آپ کا گھر آناجانا ہے… آپ کے گھر والے ذکر کرتے ہوں گے یا ذکر نہ بھی کریں وہ اندازہ کر سکتے ہیں۔ آپ کی فیملی نے گھر بدلا ہے گاڑی رکھ لی ہے انکل کاروبار کرنے لگے ہیں تو۔” کرم علی نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔
”اب آپ بھی ایک ایک چیز جتائیں مجھے، بالکل اپنی ماں کی طرح۔ اسی لیے میرا ان کی شکل دیکھنے کو دل نہیں چاہتا۔ ہر ہفتے آجاتی ہیں یہاں اپنے گھر کیوں نہیں رہ سکتیں وہ؟” زری نے اس کو بولنے نہیں دیا۔
”وہ ماں ہیں میری! اور یہ ان کے بیٹے کا گھر ہے۔ میری ماں جب چاہیں گی یہاں آئیں گی۔”
”جانتی ہوں میں کہ یہ ان کے بیٹے کا گھر ہے۔ میں نے کب کہا کہ یہ میرے شوہر کا گھر ہے۔ یہ آپ کی ماں کا گھر ہے۔ آپ کے بہن بھائیوں کا گھر ہے اور آپ جیسے جو مرد ہوتے ہیں نا، انہیں شادی نہیں کرنا چاہیے۔ انہیں بس ساری عمر اپنی ماں اور بہن بھائیوں کا طواف کرنا چاہیے۔ ویسے بھی اتنی عمر تو گزر گئی تھی آپ کی۔ باقی بھی گزار لیتے۔ میری زندگی برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ بیوی کی تو آپ کو ضرورت ہے ہی نہیں۔ ماں ہے نا آپ کے لیے۔”
زری آج پھر اپنے پرانے موڈ میں تھی۔ وہ بری طرح چلانے لگی۔
کرم علی ہونٹ کاٹتا رہا ۔ اس کا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔
”اپنے اپنے گھروں میں کیوں نہیں آرام سے رہ سکتے یہ سب لوگ جب ان کو پیسے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بھیج دیتے ہیں آپ کی ماں کو یہاں۔”
”Stop it Zarri” کرم کو اس کی بات چابک کی طرح لگی۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!