من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

”دنیا میں تمہارے جیسا بے وقوف کوئی دوسرا نہیں ہو گا کرم… اپنے ہاتھ سے شادی کروا دی…؟ لوگ تو قتل کر دیتے ہیں اس بات پر بیویوں کو اور تم نے۔۔۔۔” کرم کی ماں کے لیے غصے کے عالم میں بات کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ جمال کو کینیڈا بلوانا اور وہاں بلوا کر زری کے ساتھ اس کی شادی کروانا کرم کی فیملی سے زیادہ دن چھپا نہیں رہا تھا۔ زری کے محلے میں جمال کے دوستوں کے ذریعے یہ بات گردش کرنے لگی تھی اور اس کے بعد وہاں سے کرم کے رشتہ داروں کے ذریعے کرم کے گھر والوں تک یہ سب کچھ پہنچنا مشکل نہیں تھا۔ اس کے تمام بہن بھائیوں کی ایک اور میٹنگ ہوئی تھی جس میں زور و شور سے ایک لمبی چوڑی بحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ”بھائی جان” کا ذہنی توازن اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خراب ہو رہا تھا۔ وہ اپنے سے آدھی عمر کی اس سابقہ بیوی پر اس طرح عاشق تھے کہ اس کے لیے وہ سب کچھ بھی کرتے پھر رہے تھے وہ دوسرا کوئی مرد کبھی نہ کرتا۔ اور یہ بڑا ضروری تھا کہ انہیں مکمل طور پر اب زری سے قطع تعلق کے لیے مجبور کیا جائے ورنہ وہ آئندہ بھی اسی طرح اس کے ہاتھوں استعمال ہوں گے… اور اس کے ساتھ ایک متفقہ فیصلہ یہ بھی کیا گیا تھا کہ کرم کی دوبارہ شادی کی اب کوئی کوشش نہیں کی جائے گی اور اگر کرم نے خود سے شادی کی کوشش کی تو پوری فیملی مل کر اس کی مخالفت کرے گی… کرم کو کسی عورت کے چنگل سے بچانے کا یہ واحد حل سب کی سمجھ میں آیا تھا۔
اور اب کرم کی ماں کرم کے گھر بیٹھی ہمیشہ کی طرح اس پر لعنت ملامت کر رہی تھی… یہ کام کرنے سے پہلے اس نے گھر میں پھر پھر کر وارڈ روبز کھول کھول کر زری کے سامان کو وہاں دیکھنے کی کوشش کی تھی مگر زری اپنے سامان کا ایک تنکا بھی پیچھے نہیں چھوڑ کر گئی تھی ۔ کرم نے اسے اپنے سامان کے علاوہ ضرورت کی دوسری چیزیں بھی لے جانے کی اجازت دی تھی اور زری نے اس اجازت کا بھر پور فائدہ استعمال کیا تھا۔ وہ باتھ روم میں رکھے ہوئے ہینڈ واش، شیمپوز اور باڈی واش تک لے گئی تھی… ڈریسنگ ٹیبل پر پڑا کاسمیٹکس کا سامان اور دوسری چیزیں تو خیر اسے لے ہی جانا تھیں… نہ صرف یہ بلکہ وہ کچن سے اپنی ضرورت کے کچھ برتن کٹلری اور بیڈ سپریڈ اور comforters بھی لے گئی تھی ۔ ان تمام چیزوں کی پیکنگ جب اس نے شروع کی تھی تو ہاؤس کیپر نے کرم کو فون کر کے اسے اطلاع دے دی تھی کرم نے اسے کہا تھا کہ وہ زری کو کوئی بھی چیز لے جانے سے نہ روکے کیونکہ اس نے خود اسے اس کی اجازت دی تھی… ہاؤس کیپر کچھ جزبز ہوئی تھی… کرم کی فیملی کی طرح اس نے بھی زری کو کبھی پسند نہیں کیا تھا۔ زری بدتمیز اور بے لحاظ تھی اور وہ اسے کسی پاکستانی نوکر کی طرح Treatکرتی تھی اگر کرم نہ ہوتا تو یہ ہاؤس کیپر بھی زری کے وہاں آنے کے چند ہفتوں بعد ہی وہاں سے چلی جاتی۔
لیکن Divorce کے بعد اس ہاؤس کیپر نے کرم کی ماں کو ان تمام چیزوں کے بارے میں بتا دیا تھا جو زری جاتے ہوئے اس گھر سے لے گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ جب کرم نے ماں سے یہ جھوٹ بولنے کی کوشش کی کہ اس نے زری کی چھوڑی ہوئی تما م چیزیں کسی Charity Shop میں دے دی ہیں تو اس کی ماں اس کے جھوٹ پر بری طرح چراغ پا ہوئی تھی۔




”اچھی طرح جانتی ہوں میں وہ جھاڑو پھیر گئی ہے اس گھر میں… اور یہ سب تمہاری مرضی سے ہوا ہے۔ اتنے نیچ خاندان کی تھی… کیسے چھوڑ جاتی پیچھے کچھ… ایک ایک چیز یوں اٹھا کر لے گئی جیسے اپنے جہیز میں لے کر آئی تھی۔ اور تم نے… تم نے اپنی حق حلال کی کمائی کو یوں ضائع ہونے دیا… اس طرح لٹا دیا ایک بدکردار اور آوارہ عورت پر۔”
”امی وہ اب بیوی نہیں رہی میری اس لیے اس کے بارے میں بات نہ کریں۔”کرم نے ماں کو ٹوکا تھا۔
”کیوں بات نہ کروں… بیوی نہیں رہی تھی تو اس طرح سامان کا انبار کیوں لے گئی وہ یہاں سے۔
”وہ تو اسلام نے حق دیا تھا اسے… میرا فرض تھا کہ میں جاتے ہوئے وہ جو بھی لے جانا چاہتی لے جانے دیتا۔” کرم نے تحمل سے کہا اور اس کی ماں کے غصے میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔
”سارا اسلام تمہارے لیے ہی رہ گیا ہے… ساری نیکیاں تم نے ہی کمانی ہیں… اس طرح کی عورتوں کے لیے نہیں ہوتے ایسے فرمان… ایسی عورتوں کو تو دھکے دے کر نکالنا چاہیے… خالی ہاتھ۔”
”ہر طرح کی عورت کے لیے ایک ہی حکم ہے… ””اس” طرح یا ”اُس” طرح کی عورت کا کوئی فرق نہیں ہے اس میں… مجھے اللہ نے حکم دیا تھا کہ میں اسے اچھے طریقے سے رخصت کروں… اور میں نے اسے اچھے طریقے سے رخصت کیا… اس نے میرے ساتھ جو کیا اس کے لیے وہ اللہ کو جواب دہ ہو گی میں نہیں… آپ کیا چاہتی تھیں کہ میں اللہ کی نافرمانی کرتا۔” کرم جان بوجھ کر اسلام کا ذکر کر رہا تھا صرف یہی ایک موضوع تھا جس پر وہ اپنی ماں کو کچھ جذباتی کر کے خاموش کروا دیا کرتا تھا ورنہ وہ اگلے کئی گھنٹے اسی طرح یونہی رہتیں اس وقت بھی یہی ہوا تھا۔ کرم کی ماں کا غصہ یک دم کچھ ٹھنڈا پڑ گیا تھا۔
”اور مجھے کیا فرق پڑ گیا میری چار چیزیں وہ لے گئی تو… میں مرد ہوں کما کر پھرلے آؤں گا… وہ عورت ہے۔”
”تمہاری چیزیں کیوں لے کر گئی… کہتی اپنے دوسرے شوہر کو… وہ خرید کر دیتا اسے… جس کے لیے تمہیں چھوڑا اس نے۔” کرم کی ماں نے کہا تھا۔ کرم نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”پیسہ بھی دیا ہے تم نے اسے؟ کرم کی ماں نے بالآخر اس سے وہ سوال کیا جو کرم کے بہن بھائیوں نے اسے پوچھنے کے لیے بھیجا تھا۔”
”نہیں۔” کرم نے جھوٹ بولا۔
”میں مان ہی نہیں سکتی۔ میں تجھے اچھی طرح جانتی ہوں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تم نے اسے خالی ہاتھ بھیج دیا ہو۔” کرم کی ماں نے بے یقینی سے کہا۔
”جب آپ جانتی ہیں تو پھر پوچھ کیوں رہی ہیں؟”
”کتنی رقم دے دی تم نے اسے؟” کرم کی ماں کی جان حلق میں آگئی تھی۔
”اس کا حق مہر دیا ہے۔” کرم نے جھوٹ بولا کرم کی ماں نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔
”پانچ لاکھ روپے اور سوتولے سونا دے دیا تم نے اسے؟”
” اس کا حق مہر تھا۔ ”
”پانی لا کر دے کرم مجھے… پانی لا کر دے میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔”
کرم نے پاس پڑے ٹیبل پر پڑے جگ سے گلاس میں پانی انڈیل کر ماں کو تھما دیا۔
”اس کی تو لاٹری نکل آئی کرم… تم نے بیٹھے بٹھائے لکھ پتی بنا دیا اسے… مجھے ہی عقل نہ آئی سو تولے سونا اس کے پاس کیوں رہنے دیا میں نے اپنے پاس کیوں نہ رکھا۔” وہ اب کفِ افسوس مل رہی تھی۔ کرم اگر انہیں یہ بتا دیتا کہ اس نے حق مہر کی رقم اور وہ زیورات شادی کی رات کو ہی زری کے حوالے کر دیے تھے تو کرم کی ماں کو یقینا غش آجاتا۔ کرم کو زندگی میں کبھی پیسہ جانے پر دکھ نہیں ہوا تھا۔ اسے آج بھی کوئی دکھ نہیں ہوا تھا لیکن اسے اس بات پر تکلیف ضرور تھی کہ اس کی ماں اس کے گھر ٹوٹنے پر غم زدہ نہیں تھی گھر کی چیزیں اور اس کا پیسہ جانے پر ماتم کر رہی تھی۔ اور شاید انہیں دونوں چیزوں کا صدمہ اس کے بہن بھائیوں کو تھا ورنہ گھر ٹوٹنے پر تو شاید سب ہی کو خوشی تھی…زری ناپسندیدہ تھی اور وہ ناپسندیدہ عورت ان کے بھائی کی زندگی سے نکل گئی تھی… وہ ایک بار پھر بھائی جان پر مکمل حق جتا سکتے تھے۔ وہ ایک بار پھر کھلے عام کسی روک ٹوک کے بغیر بھائی جان کے گھر آسکتے تھے۔
اگلے چند ہفتوں میں بھی اس کی فیملی میں سے کسی نے کرم سے اس کی طلاق پر افسوس نہیں کیا تھا۔ صرف کرم کے چند دوست تھے جنہوں نے کرم کی Divorce پر اس کے ساتھ ہمدردی کی تھی لیکن ان میں سے بھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی تھی کہ کرم اپنی زندگی کے اس حادثے سے کتنا دلبرداشتہ ہوا تھا اس کی فیملی کی طرح ان کا بھی یہی خیال تھا کہ کرم علی ”امیر” آدمی تھا اور اس کے پاس اتنا پیسہ تھا کہ اس طرح کے ”چھوٹے موٹے” حادثات تو اس پراثر انداز ہو ہی نہیں سکتے۔ یہ تو ایک عام آدمی تھا جو اپنی زندگی میں ہونے والی ایسی چیزوں سے ”ہرٹ” ہوتا… کرم کروڑ پتی آدمی تھا کرم کو کیا فرق پڑ سکتا تھا… پیسہ تھا نا اس کے آنسو پونچھنے کے لیے۔ دوستوں رشتہ داروں کے کندھوں کی ضرورت تو اس کو پڑتی ہے جس کے پاس پیسہ نہ ہو۔
ایک عجیب سی فرسٹریشن تھی جو ان دنوں کرم کی زندگی کا حصہ بن گئی تھی ۔ زری جیسی بھی تھی بہر حال اس کے ہونے سے گھر میں کسی کے ہونے کا احساس ہوتا تھا… گھر بہت سالوں بعد پہلی بار گھر جیسا لگتا تھا… اور اب ایک بارپھر سے وہاں وہی پرانی خاموشی اور وحشت نظر آنے لگی تھی جو پہلے تھی۔
اور یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں کرم کی فلم شاندار بزنس کر رہی تھی اور اسے پاکستان سے ڈائریکٹرز، ایکٹرز اور ایکٹریسز کی کالز پر کالز آرہی تھیں۔ ہر ایک اس کی اگلی فلم کا حصہ بننا چاہتا تھا۔ کرم کے یہ بتانے کے باوجود کہ وہ اب دوبارہ کوئی فلم بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا کوئی بھی اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا… ہر ایک کا خیال تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا اور پہلے کی طرح اچانک اپنی فلم کے ڈائریکٹر اور کاسٹ کا اعلان کرے گا… اس لیے انڈسٹری کا ہر ڈائریکٹر اور ایکٹر اسے فون کر کے اپنا نام اس کی یادداشت میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور انہیں کالز میں کرم کو غیر محسوس طور پر صرف ایک کال کا انتظار رہنے لگا تھا…اسے یقین تھا جلد یا بدیر وہ بھی اسے کال کرے گی… اگر اگلی فلم کے لیے نہیں تو اس فلم کی کامیابی پر مبارک باد دینے کے لیے ہی سہی… فلم کے ڈائریکٹر سے لے کر کمپوزر تک ہر ایک نے باری باری اسے کال کیا تھا لیکن کئی ہفتے گزرنے کے باوجود اسے زینی کی کال نہیں آئی تھی… کرم کو یقین تھا وہ یہ جان چکی ہوگی کہ وہ اب مزید کوئی فلم نہیں بنانا چاہتا اور اسی لیے اس نے اسے کال نہیں کیا تھا وہ اب اس کے کسی کام کا نہیں رہا تھا… وہ زندگی کے جتنے تکلیف دہ دور سے گزر رہا تھا… وہاں یہی سوچ سکتا تھا۔
پاکستان سے آنے والے اخبارات میگزینز اور چینلز پر وہ پری زاد کی نت نئی فتوحات کی داستانیں پڑھتا اور دیکھتا رہتا تھا۔ اور بعض دفعہ وہ سوچتا کہ پری زاد کو تو وہ اب شاید یاد بھی نہیں ہو گا آخر یاد رہ جانے والی اس میں کوئی بات تھی ہی کیا کہ فلم انڈسٹری کی وہ سپر سٹار اس کو یاد رکھتی… اور یہ سب سوچنے کے باوجود کرم کے لیے یہ بہت مشکل تھا کہ وہ اس کو یاد نہ رکھے… یاد نہ کرے… زینی اس کی زندگی کی کتاب کی خوبصورت ترین یاد تھی… اور اس کے ساتھ گزارے ہوئے وقت کے بارے میں سوچ کر کرم بہت بار ”کرم” نہیں رہتا تھا۔
٭٭٭
”تم نے میرے سین کٹوائے ہیں؟” زینی سین کے لیے ڈریسنگ روم میں تیار ہو رہی تھی جب سفیر دندناتا ہوا اندر آیا تھا۔
”کیسے سین؟” زینی نے بے حد بے نیازی کے عالم میں کہا سفیر سے پچھلے کئی ماہ سے ایک عجیب سی سرد جنگ جاری تھی اس کی، اور سفیر اس کی وجہ جاننے کے لیے جیسے پاگل ہو رہا تھا… زینی نے اسے مکمل طور پر Avoid کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اس کی پارٹیز میں نہیں جاتی تھی۔ اس کی فون کالز نہیں لیتی تھی یا لے کر مصروف ہونے کابہانہ کر کے فون رکھ دیتی تھی سیٹ پر بھی ان دونوں کے بیچ پہلے جیسی گرم جوشی اب غائب ہو چکی تھی۔ وہ اس کی باتوں کا جواب بے حد مختصر دیتی یا پھر اس کی سرے سے یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہ سیٹ پر سفیر سے بات کرنے کی بجائے دوسرے لوگوں سے بات چیت میں مصروف رہے۔ تاکہ سفیر کو اس سے بات کرنے کا موقع کم سے کم مل سکے اور سفیر کے لیے اس کا یہ رویہ ناقابل یقین تھا وہ پچھلے کئی سالوں سے ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے اور سفیر کو یقین تھا کہ پری زاد اس سے محبت کرتی تھی اس سے کئی گنا زیادہ محبت جتنی وہ اس سے کرتا تھا… اور اسی محبت کے یقین میں اس نے اپنے گھریلو اختلافات کو سلجھانے یا اپنی بیوی سے مصالحت کی بجائے اسے طلاق دے دی تھی۔ وہ اب بڑی سنجیدگی سے پری زاد سے شادی کا سوچ رہا تھا اور کئی بار پری زاد کو پرپوز بھی کر چکا تھا… کسی دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ پری زاد نے اس کے پرپوزل کو سرے سے ریجیکٹ کر دیا ہو وہ سفیر کو ہر دفعہ امید دلاتی تھی لیکن فوری شادی پر فی الحال تیار نہیں تھی اور سفیر کو بھی اس کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ اس کے لیے اتنا ہی کافی تھاکہ انڈسٹری کی سب سے بڑی ہیروئن کے ساتھ اس کا نام اتنے عرصہ سے جوڑا جا رہا تھا وہ پری زاد کی محبت میں کچھ اتنی بری طرح گم رہا تھا کہ اس نے اوپر تلے پری زاد کے ساتھ فلاپ ہونے والی فلموں پر بھی غور نہیں کیا نہ ہی اس بات پر توجہ دی کہ پری زاد کی دوسرے ہیروز کے ساتھ آنے والی فلمیں تو ہٹ جا رہی تھیں لیکن اس کے ساتھ آنے والی فلمیں اچھا بزنس نہیں کر رہی تھیں… اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ پری کی جس مرضی ہیرو کے ساتھ فلم ہٹ ہوتی اس کا نام تو لوگ اسی کے ساتھ لیتے تھے اور کل کو اسے سفیر ہی کے ساتھ شادی کرنی تھی اور اسی خوش فہمی میں اس نے اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ جن فلموں میں اس کے ساتھ پری زاد ہوتی تھی ان فلموں میں اس کے بہت سارے سین کاٹ کر اس کا رول کم کر دیا جاتا تھا۔ اگر کبھی اسے ایسی شکایت ہوتی بھی کہ فلم میں سے اس کے بہت سارے اچھے سینز غائب ہوتے تھے ایسے سینز جن کی وجہ سے وہ ایک اچھے ایکٹر کے طور پر اس فلم میں ابھر کر نمایاں ہوتا تو یا فلم کا ڈائریکٹر یا پروڈیوسر اسے اس کا وہم قرار دیتا۔ اور ان سینز کو کاٹنے کی کوئی نہ کوئی بڑی وجہ اسے دیتے سفیر اس بات کو اگنور کرنے پر مجبور ہو جاتا وہ اس بات کو تب زیادہ نوٹس کرتا اگر فلم میں اس کے علاوہ سیکنڈ لیڈ میں موجود کسی ایکٹر کے سینز اس سے بڑھ کر یا اس کے برابر ہوتے اور سفیر کو کم از کم ایسی کوئی شکایت نہیں تھی۔ پری زاد کے سینز کی تعداد اور کوالٹی پر اس نے کبھی غور ہی نہیں کیا وہ تو ویسے ہی اسکی محبوبہ تھی جس پر وہ اندھا اعتماد کرتا تھا۔ اور ہیرو کا مقابلہ کسی دوسرے ہیرو سے تو ہو سکتا تھا لیکن ہیروئن … ؟… ایسا فلم انڈسٹری کی روایت نہیں تھا۔
اور اب آج اسے اس وقت کرنٹ لگ گیا تھا جب وہ اپنی آنے والی ایک بہت بڑی فلم کے رشنر دیکھنے گیا تھا اور اس فلم میں بھی اپنے بہت سارے سینز غائب دیکھ کر وہ ڈائریکٹر سے بڑی طرح الجھ پڑا تھا۔ اسے اس فلم کو دیکھ کر یوں احساس ہوا تھا جیسے وہ فلم میں ہیرو کا رول نہیں کسی ایکسٹراکا رول کر رہا تھا… اور اسے یقین تھا اس فلم کی ریلیز کے بعد ایک بارپھر اسے فلمی تبصرہ نگاروں کی تنقید و تضحیک کا سامنا کرنا پڑتا۔ جو پچھلے کچھ عرصہ سے فلمز میں اس کی پرفارمنس اور کرداروں پر شدید تنقید کر رہے تھے۔ اس کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ اس وقت ایک اچھی فلم آکر وقتی طور پر ان سب کا منہ بند کر دے اور جس فلم کے بارے میں اسے یہ توقع تھی کہ وہ یہ کام کرے گی اس میں پہلی بار اس نے محسوس کیا تھاکہ پری زاد نے سکرین پر جیسے اسے ”کھا” لیا تھا وہ اس کے مقابلے میں کہیں کھڑا نظر ہی نہیں آرہا تھا… سینز میں اس کے اچھے ڈائیلاگ کاٹے گئے تھے۔ اچھے سین غائب تھے۔ Dance Sequence میں ایڈیٹنگ کے ذریعے بہت تبدیلی کر دی گئی تھی۔ وہ ہیرو کی طرح فرنٹ میں ناچتا نظر آنے کی بجائے دوسرے ایکسٹراز کے ساتھ ناچتا ہوا ایک ایکسٹرالگ رہا تھا اور ہر جگہ کیمرہ جیسے پری زاد کا تعاقب کرتا نظر آرہا تھا اور اس وقت پہلی بار سفیر خان کو احساس ہوا تھاکہ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ضرور تھی… اور گڑ بڑ کو جاننے میں اسے زیادہ دیر نہیں لگی تھی اور یہ سب کروانے والے کا نام جان کر وہ شاکڈ رہ گیا تھا… پری زاد ، پری زاد یہ کیسے کر سکتی تھی؟… وہ تو اس کی… سفیر کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے… اس کی بے اعتنائی، بے نیازی اور سرد مہری کی وجہ کوئی بھی ہو سکتی تھی لیکن سفیر خان کے لیے یہ قبول کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ اس کی دشمن ہو سکتی تھی… وہ غصے میں آگ بگولا اسی طرح پری زاد کے پاس چلا آیا تھا اور اسے اس وقت اس کی لاپرواہی دیکھ کر مزید غصہ آیا تھا۔
”کیسے سینز؟” زینی نے بے حد اطمینان کے ساتھ میک اپ آرٹسٹ کو ڈریسنگ روم سے جانے کا کہتے ہوئے سفیر سے پوچھا، سلطان اس کے پاس بے حد محتاط اور چوکنا انداز میں کھڑا تھا یوں جیسے اسے سفیر سے کسی اشتعال انگیز حرکت کی توقع ہو۔
”تم بڑی اچھی طرح جانتی ہو کہ میں کن سینز کی بات کر رہا ہوں۔” سفیر دھاڑا ۔
”میں غیب کا علم نہیں جانتی۔” زینی نے بے حد سردمہری سے کہا۔ ”تم بتاؤ گے تو ہی پتہ چلے گامجھے۔”
”میں چوہدری الطاف کی فلم کی بات کر رہاہوں۔” سفیر نے اس کی بات کاٹی۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!