من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

اور اس مشکل کو اس کے گھر والوں نے آسان بنا دیا تھا جنہوں نے یہ سب پتہ چلنے پر ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ وہ واقعی ان کا رد عمل دیکھ کر واقعی ہکا بکا رہ گیا تھا… اور شاید پہلی بار بری طرح پچھتایا تھا۔ کہ اس نے کیوں زری اور جمال کے بارے میں اپنی ماں کو بتایا… اسے اندازہ بھی نہیں تھا کہ اس کی ماں فوری طور پر یہ سب کچھ اس کے بہن بھائیوں کو بتائے گی اور اس کے بعد ہر ایک کی جیسے دلی مراد بر آئے گی… ہر ایک فوری طور پر ہی چاہتا تھا کہ کرم زری کو طلاق دے کر اسے پہلی فلائٹ سے واپس پاکستان بھیج دے بلکہ ان کے لیے اگر ممکن ہوتا تو وہ یہ کام خود ہی سرانجام دے دیتے۔ کرم کوشش کے باوجود ان سب سے یہ نہیں کہہ سکا کہ یہ اس کی زندگی ہے اور اس کے بارے میں کم از کم اب کوئی فیصلہ کرنے کا حق صرف اسے ہی ہے… وہ سب بظاہر اس کی ہمدردی اور محبت سے تڑپ رہے تھے اور کرم کے لیے اس طرح کی سچوئیشن میں کوئی ایسی بات کرنا بے حد مشکل تھا… جب اس کی پوری فیملی محاذ بنا لیتی تھی تو ہمیشہ اسے ہی پسپا ہونا پڑتا تھا… اس وقت بھی وہی ہو رہا تھا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ اگر زری اس طرح طلاق لے کر پاکستان گئی تو اس کے گھر والے کیا سلوک کر سکتے تھے۔
وہ وہاں سب کی باتیں سن کر وہاں سے بھی اسی طرح اٹھ کرآگیا تھا۔ زری اور اس کے درمیان بات چیت مکمل طور پر بند تھی اور اس میں دونوں طرف سے کسی شعوری کوشش کا عمل دخل نہیں تھا… زری اس سے چھپتی پھرتی تھی اور جب کبھی آمنا سامنا ہو جاتا تو کرم کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس سے کیا کہے… اس نے زری کو یہ ضرور بتا دیا تھا کہ وہ اسے طلاق دینے کی تیاری کر رہا ہے… اور چند دنوں کے اندر اسے کاغذات دے دے گا۔ زری نے اس سے دوباہ جمال کو بلوانے کی بات نہیں کی تھی شاید اسے یقین ہو گیا تھا کہ کرم یہ کام نہیں کرے گا۔
اپنی فیملی کے ساتھ ہونے والی اس سٹنگ کے دوسرے ہی دن اسے آفس میں روتی ہوئی زری کا فون آیا۔ کرم کی فیملی اس وقت کرم کے گھر پہنچی ہوئی تھی۔ اور وہ اسے اسی وقت گھر سے نکالنا چاہتے تھے۔ زری نے کمرے کو لاک کیا ہوا تھا اورکرم عقب میں دروازے پر ہونے والا شور سن سکتا تھا۔ کچھ دیر کے لیے تو کرم کو یقین نہیں آیا تھا کہ یہ سب کچھ اس کے گھر پر ہو رہا تھا… زری اس کی بجائے ایک کال پولیس کو کر دیتی تو اس سمیت اس کے تمام گھر والوں کو لینے کے دینے پڑ جاتے… اور اس وقت یہ واقعی اس کی مہربانی ہی تھی کہ اس نے کرم کو فون کیا تھا پولیس کو نہیں۔
کرم اسی وقت آفس سے نکل آیا۔ آفس سے گھر آنے کے دوران اس نے فون کر کے اپنے بھائی اور ماں سے بات کی لیکن اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کے وہاں پہنچے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔ اور گھر پہنچتے ہی پہلی بار اس کا فیوز بری طرح اڑا تھا۔ جب اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی آصف کو زری کا بازو پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر نکالنے کی کوشش کرتے دیکھا… اس کے پیچھے اس کی پوری فیملی تھی جو غنیمت تھا کہ اس وقت آصف کی طرح اسے باہر نکالنے کی کوشش نہیں کر رہے تھے صرف زبانی طور پر آصف کو ہلا شیری دینے تک ہی محدود تھے۔
”بازو چھوڑو اس کا۔” کرم نہ بھی کہتا تب بھی اسے دیکھ کر آصف پہلے ہی اس کابازو چھوڑنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ کوریڈور میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی… ”تم اپنے کمرے میں جاؤ۔” کرم نے زری سے کہا۔ ”تیری عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں کرم… اس آوارہ عورت کو کمرے میں بھیج رہا ہے۔”
اس کی ماں نے زری کو واپس اندر جاتے دیکھ کر واویلا کرنا شروع کر دیا۔
”جی… پتھر پڑ گئے ہیں۔” کرم نے بے حد سرد مہری سے کہا۔
”اس وقت ہی پڑ گئے تھے جس وقت آپ سب کے کہنے پر اس سے شادی کی تھی۔”




وہ پہلی بار ان سب کی موجودگی میں تلخ ہو رہا تھا۔
”اور تم… تم نے کس سے پوچھ کر اس کا بازو پکڑا ہے۔ ” وہ اب آصف پر برسا تھا۔
”بھائی جان وہ… ” آصف کچھ حواس باختہ ہو کر ماں کو دیکھتے ہوئے کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگا۔
”میں نے کہا تھا اسے گھر سے نکالنے کو… میں لے کر آئی ہوں سب کو یہاں پر … تو نے تو اتنے دن سے سب کچھ جاننے کے باوجود اسے مہارانیوں کی طرح رکھا ہوا ہوا ہے۔۔۔۔”
اس کی ماں نے بروقت مداخلت کر کے آصف کو بچایا تھا۔
”آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں اور دوبارہ اس طرح کے کسی کام کے لیے یہاں نہ آئیں… مجھے اس طرح کی مدد اور تعاون کی ضرورت نہیں ہے۔” اس نے اپنے بہن بھائیوں سے نظریں ملائے بغیر دو ٹوک انداز میں ان سے کہا۔
”دو ٹکے کی لڑکی کے لیے ماں اور بہن بھائیوں کو گھر سے نکال رہا ہے… خون سفید ہو گیا ہے تیرا کرم… ہم سب تیری محبت میں یہاں دوڑے آئے اور تو اپنی اس آوارہ بیوی کو اندر بٹھا کر ہمیں دھکے دینے پر اتر آیا ہے۔” اس کی ماں اب بری طرح اشتعال میں آگئی تھی۔
”میں کسی کو اس گھر سے نہیں نکال رہا… نہ ان کو نہ زری کو۔۔۔۔” کرم نے بے بسی سے کہا۔ ”لیکن میں اپنے گھر میں اس طرح کا ہنگامہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔”
”نہیں چاہتے تو اسے اسی وقت فارغ کر کے پاکستان بھیجو۔”
”میں نے کب کہا کہ میں اسے طلاق نہیں دے رہا… میں چند دن میں اسے طلاق دے رہا ہوں لیکن تب تک میں اسے سڑک پر تو نہیں پھینک سکتا۔”
”جب اس نے تمہارا خیال نہیں کیا تو تم اس کا خیال کیوں کرو؟”
”وہ اس کا عمل تھا یہ میرا عمل ہے۔ ”
”تو بزدل ہے کرم… تجھ میں ہمت ہی نہیں ہے ایسا قدم اٹھانے کی۔” اس نے ماں کی باتیں خاموشی کے ساتھ سنی تھیں جو کچھ دیر وہاں بکتی جھکتی رہی پھر اس کے بہن بھائیوں کے ساتھ وہاں سے چلی گئی تھی۔
کرم اپنے کمرے میں چلا آیا۔ زری بے حد پریشان کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی اسے کبھی اندازہ بھی نہیں تھا کہ اسے اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا پہلی بار وہ طلاق کے بعد اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ کر خوفزدہ ہو رہی تھی۔ کرم نے اس سے اپنے گھر والوں کے رویے کے لیے معذرت کی اور پھر اسی سانس میں کہا۔
”تم جمال کو بتاؤ کہ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ ”
زری جیسے ٹھٹھک کر رہ گئی۔
”کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ آپ اس سے؟” وہ کچھ پریشان ہوئی تھی۔
”اسے پاکستان اپنے کسی دوست کے پاس بھجوانا چاہتا ہوں تاکہ وہ اس کے پیپرز تیار کروا کے اس کے ویزا کے لیے اپلائی کرے اور وہ یہاں آجائے۔” زری کو جیسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
”آپ اسے یہاں بلا رہے ہیں۔”
”تمہاری خواہش ہے یہ۔” کرم علی نے سنجیدگی سے کہا۔ اب واقعی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ اس معاملے کو جتنا جلدی نمٹا سکتا تھا نمٹا دیتا۔
جمال سے اس کی دوسرے دن بات ہوئی تھی اور کرم علی کو پہلے چند جملوں میں ہی جمال کے بارے میں کچھ اندازہ ہو گیا تھا۔
اس نے اسے اپنے دوست کے پاس جانے کا کہا تھا، اپنے پاسپورٹ اور آئی ڈی کارڈ کے ساتھ۔ جمال نے دل میں ہزاروں خدشات لے کر اس کی بات سنی تھی، اسے یقین تھا کرم علی اس کے خلاف کوئی سازش کر رہا ہے۔ اگر زری اگلے چند دن اسے مسلسل مجبور نہ کرتی رہتی تو جمال کسی بھی قیمت پر کرم علی کی ہدایات کے مطابق اس دوست سے جا کر نہ ملتا۔
کرم علی نے اسی ہفتے کے دوران زری کو طلاق دے دی تھی لیکن اسے گھر سے جانے کا کہنے کے بجائے وہ خود اس مدت تک کے لیے ایک دوسرے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا تھا۔ جب تک زری کی عدت پوری نہیں ہوجاتی۔
اس کی ماں نے اس بات پر بھی ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یوں پورا گھر زری کے ہاتھ میں دینے سے وہ گھر کی ہر چیز غائب کر دے گی اور یہ پہلا موقع تھا جب کرم علی نے اپنی ماں کو قانونی معاملات کے بارے میں بتا کر ان کے اشتعال کو ٹھنڈا کر دیا۔ وہ زری کو ایک کم پڑھی لکھی لڑکی سمجھ کر یوں سمجھے بیٹھے ہیں جیسے وہ پاکستان میں تھے اور وہ پاکستان میں اس کے ساتھ طلاق دینے کے بعد جو چاہے کر سکتے تھے۔ وہ روز کی ملامت جو کرم علی کو ماں سے تقریباً روز فون پر سنناپڑتی تھی، وہ اس کے بعد بند ہو گئی تھی۔
لیکن کرم علی کے بہن بھائیوں کو ساتھ ہی یہ خدشات بھی پیدا ہونے لگے تھے کہ زری عدت ختم ہونے کے بعد پاکستان جانے کے بجائے کہیں کورٹ نہ پہنچ جائے اور اگر اس نے کرم علی کی جائیداد کے حوالے سے کچھ مطالبات کر دیے تو… اور اس ”تو” نے کرم علی کی فیملی کو بری طرح سے حواس باختہ کر دیا تھا۔ ان میں سے ہر ایک نے دوسرے کو اس رشتے اور کرم علی کی اس شادی کے لیے مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا تھا۔
وہ کم عمر کم پڑھی لکھی سیدھی سادی، بھولی بھالی تابعدار لڑکی اب یک دم وہ ہڈی بن گئی تھی جسے وہ نہ نگل سکتے تھے نہ اگل سکتے تھے۔ ہر ایک اب زری کے ہر قیمت پر ایک بار اس کے پاکستان پہنچ جانے کی دعائیں کر رہا تھا یہ جانے بغیر کہ کرم علی اس کے لیے کیا پلان کیے بیٹھا تھا اور اگر اس کے اس منصوبے کی ان میں سے کسی کو خبر ہو جاتی تو وہ جو طوفان نہ کھڑا کر دیتے و ہ کم تھا۔
اس لیے کرم علی نے جمال کو وہاں بلوانے کے بارے میں اپنی فیملی کے کسی فرد کے ساتھ کوئی بات نہیں کی تھی۔ ان کے برعکس اسے زری کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں تھا۔ ایک عجیب سی بے حسی تھی جو زندگی کے اس مرحلے پر اس پر طاری ہو گئی تھی۔ اگر وہ اپنے گھر کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکا تھا۔ تو چند لاکھ ڈالرز کو بچانے کے لیے جدوجہد کیوں کرتا۔ زری اس کی عزت اور ناموس کی حفاظت نہیں کر سکی تو وہ اس سے کسی اور اخلاقی قدروں کا کیا مطالبہ کرتا۔
”وہ عورت” تھی جو بھی کرتی کم تھا۔
زری بے حد خوش تھی۔ اس کا اندازہ کرم علی کو تب ہوتا جب وہ عدت کے دوران وقتاً فوقتاً اس سے ملاقات کے لیے جاتا رہا۔ اگرچہ یہ ملاقات چند منٹوں سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی اور وہ اس کی صرف خیر و عافیت دریافت کر کے آجاتا تھا۔ اس کے باوجود زری کی خوشی کا اندازہ کرنے میں اسے دقّت نہیں ہوتی تھی اور یہ خوشی کرم علی کو ایک عجیب سی کیفیت سے دو چار کر دیتی تھی۔
رنج اور ملال کے بیچ کا کوئی احساس تھا جو اسے ہوتا تھا، زری نے ایک سے زیادہ دفعہ کرم علی کے سامنے اپنی احسان مندی اور شکر گزاری کا ذکر کیا تھا اور کرم علی کو ایک بار بھی اس کی زبان پر یقین نہیں آیا تھا۔ وہ جھوٹ بولنے کی عادی تھی۔ وہ اب جھوٹ ہی بول رہی ہو گی کرم علی کو یقین تھا اور جھوٹ نہ بھی بول رہی ہوتی تب بھی اسے اس کی احساس مندی اور شکر گزاری کی ضرورت نہیں تھی۔ زندگی میں یہی دو جذبے تو تھے جن کی کرم علی کو کبھی کمی نہیں رہی تھی۔ وہ جس پر بھی احسان کرتا تھا وہ اس کا احسان مند اور شکر گزار ہوتا تھا اور بس اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ کسی کے دل میں اپنے لیے کوئی تیسرا جذبہ پیدا نہیں کر سکا تھا۔
عدت کی مدت گزرنے سے پہلے ہی جمال کینیڈا آگیا تھا۔ اور اس کے وہاں آنے کے دوسرے دن کرم علی نے اسے گھر پر ملاقات کے لیے بلایا تھا اور اس پر پہلی نظر ڈالتے ہی ناپسندیدگی کا وہ تاثر اور مضبوط ہوا تھا جو اس سے پہلے اس سے فون پر باتیں کرتے ہوئے بنا تھا کرم علی ایک زیرک بزنس مین تھا۔ انسانوں کو بآسانی جج کر سکتا تھا۔ اور اسے اس وقت زری پر واقعی ترس آرہا تھا شکل و صورت کے علاوہ جمال میں دوسری کوئی خوبی نہیں تھی اور کرم علی کو کوئی شبہ نہیں تھا کہ جمال سے شادی کی صورت میں زری نے اپنے لیے ایک اندھے کنوئیں کا انتخاب کیا تھا۔
کرم علی جتنی خوش دلی سے مل سکتا تھا اس سے ملا تھا کیونکہ جمال کا انداز بے حد محتاط اور عجیب تھا۔ وہ جیسے کرم علی کے بارے میں مسلسل اندازے لگانے میں مصروف تھا۔
”کچھ لیں گے آپ؟” اس کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آتے ہوئے کرم علی نے بے حد شائستگی سے پوچھا۔
”ہاں زری۔” جمال نے بے حد معنی خیز لیکن بے حد چھچھورے انداز میں کہا۔ چہرے پر ایک رنگ آنے کے باوجود کرم علی نے اس کے جواب کو نظر انداز کیا۔ وہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ جمال اس کے سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھ گیا تھا۔ لیکن وہ مستقل کمرے اور کمرے میں موجود چیزوں کا جائزہ لینے میں مصروف تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!