من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

”میں کیا کروں اس کا؟” اتنے مہینوں سے فون کر کر کے جان عذاب میں کر دی ہے اس نے… نمبر بدلتا ہے… آواز بدلتا ہے… نام بدلتا ہے… سوکالیں کرتا ہے ایک دن میں… ایک بار اس سے بات کر ہی لیں پری جی… میری جان تو چھوڑے یہ۔” سلطان نے ایک بار پھر سیل فون کو آف کرتے ہوئے کہا۔ وہ بے حد زچ لگ رہا تھا۔
”ابھی اسے فون کرنے دو… بات کرنے کی اتنی جلدی کیا ہے اسے… نہ وہ کہیں جا رہا ہے … نہ میں کہیں جا رہی ہوں… دونوں یہیں ہیں تو پھر کیسی جلدی۔” زینی نے اپنے ناخنوں پر کیوٹکس لگاتے ہوئے کہا۔
”میری سمجھ میں نہیں آتا اتنے سال سے کوئی رابطہ نہیں کیا اس نے… اب اتنے سالوں کے بعد آپ کی یاد کیسے ستانے لگی اسے؟” سلطان نے اس کے ہاتھ سے کیوٹکس کی باٹل پکڑ لی تھی۔
”اسے لگتا ہے میں اس کے انتظار میں بیٹھی ہوں… شادی جو نہیں کر رہی … مرد کو بڑی خوشی ہوتی ہے جب عورت اس کی یاد کا طوق گلے میں لٹکائے اس کے نام پر بیٹھی رہے۔” زینی کے لفظ تلخ تھے لہجہ نہیں وہ یوں بات کر رہی تھی جیسے اپنے اور شیراز کے بارے میں نہیں کسی اور کے بارے میں بات کر رہی تھی۔
”جب جانتی ہیں تو کیوں بیٹھی ہوئی ہیں اس کے لیے؟… دفع کریں اسے پری جی… آپ بھی گھر بسا لیں اب۔۔۔۔”
زینی اس کی بات پر ہنسی سلطان نے برا منایا۔
”پہلی دفعہ کسی ہیروئن کا سیکرٹری اسے شادی کا مشورہ دے رہا ہے… کسی دوسری ہیروئن کے پاس تو نہیں جانا چاہتے؟”
زینی نے اسے چھیڑا۔ سلطان اور ناراض ہوا ۔
”بار بارسیکرٹری کہہ کر میری اوقات کیوں جتاتی رہتی ہیں مجھے پری جی… ٹھیک ہے تنخواہ دار ملازم ہوں آپ کا… وہ مجبوری ہے میری… آپ کا گھر بس جائے گا تو کتنی خوشی ہو گی مجھے آپ کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہے۔”
”شادی… گھر بسانا… کس سے شادی کروں؟… بتاؤ مجھے…؟”
اتنے لوگ کہتے ہیں آپ سے شادی کے لیے۔”
”ان مردوں سے شادی کروں جو گھر میں شریف اور معزز خاندانوں کی عورتوں کو شادی کے نام پر لاکر بٹھانے کے بعد باہر جگالی کرتے پھرتے ہیں؟” زینی کے لہجے میں تنفر تھا۔
”ایسے مر د جو پاؤں کی جوتی اور عورت میں زیادہ فرق نہیں سمجھتے… تم چاہتے ہو میں کسی کے پاؤں کی جوتی بن جاؤں؟” وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
”اللہ نہ کرے پری جی… آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟… آپ کو پاؤں کی جوتی کون بنائے گا… سر کا تاج بنا کر رکھیں گے… اتنے لوگ جان دیتے ہیں آپ پر… آپ کیوں سوچتی ہیں کہ شادی کے بعد ان کا رویہ بدل جائے گا۔”
”کیونکہ میں عقل کی اندھی نہیں ہوں۔۔۔۔” زینی نے ترکی بہ ترکی کہا۔
”اورویسے بھی رشتے بنا کر اب مجھے کرنا کیا ہے؟… جو پہلے تھے ان کا کیا کر لیا کہ اب مزید گلے کے پھندے تیار کروں میں۔”
”تو اس کا کیا کروں پری جی… … وہ تو بات کیے بغیر نہیں ٹلے گا… آج بھی 35 بار کالز کی ہیں اس نے… جو کچھ مجھے کہہ رہی ہیں ایک بار اسے کہہ دیں… میری بات کا تو اثر نہیں ہوتا… اس پر… ہو سکتا ہے آپ کی بات کا ہی ہو جائے۔” سلطان نے کہا تھا۔
کیوٹکس کا برش ہاتھ میں لیے زینی کچھ دیر سوچتی رہی پھر اس نے سلطان کو برش دیتے ہوئے اپنا سیل فون اس کے ہاتھ سے تھام لیا۔
”فون کرنے لگی ہیں اسے؟” سلطان بے اختیار خوش ہوا۔ زینی نے جواب نہیں دیا۔ سیل آن کر کے اس نے شیراز کو کال بیک کرنا شروع کر دیا تھا۔




یہ شیراز کی بد قسمتی تھی کہ وہ زینی کا سیل آف ہونے کے بعد قدرے مایوس ہو کر ڈنر ٹیبل پر آیا تھا اور ابھی اس نے کباب کا پہلا ٹکڑا منہ میں رکھا ہی تھا جب ٹیبل پر رکھا اس کا سیل بجنے لگا۔ شیراز نے بے حد لاپرواہی کے انداز میں سیل پر نظر ڈالی اور زینی کا نام سکرین پر چمکتے دیکھ کر اس کا دل جیسے کچھ دیر کے لیے دھڑکنا بھول گیا تھا۔ ہاتھ میں پکڑ اہوا کانٹا پکڑنے کی کوشش کرتے کرتے بھی پلیٹ میں گر پڑا تھا۔ شینا نے چونک کر اسے دیکھا… شیراز یک دم بے حد نروس بے حد کنفیوزڈ نظر آرہا تھا یوں جیسے اس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ وہ کیا کرے کال ریسیو کرے یا ایسے ہی بیٹھا رہے… شینا نے بے حد گہری نظروں سے اسے دیکھا تھا… اور یہ جیسے اس کی نظریں ہی تھیں جنہوں نے جیسے شیراز کو حوصلہ دیا تھا وہ یک دم سیل فون پکڑ کر ایکسیکوزمی کہتے ہوئے ٹیبل سے اٹھ گیا۔ شینا کھانا کھاتے کھاتے رک گئی تھی… وہ کس سے بات کر رہا تھا کہ اسے تنہائی کی ضرورت پڑ گئی تھی۔ اس سے پہلے تو وہ ٹیبل پر ہی کالز لے لیا کرتا تھا… پھر اب وہ کون تھا جس سے بات کرنے کے لیے اسے ٹیبل سے اٹھ کر کمرے سے نکلنا پڑا تھا۔ اتنے سالوں میں اسے شیراز کے معاملات میں صرف اتنی دلچسپی تھی کہ وہ کسی دوسری عورت میں دلچسپی نہ لے اور اپنا روپیہ کہیں اور خرچ نہ کرے… باقی وہ کیا کرتا تھا… کیسے رہتا تھا؟… کیسے جیتا تھا… شینا کو اس میں دلچسپی نہیں تھی… شوہر نام کا جو ڈھول اس نے گلے میں بجانے کے لیے ڈال لیا تھا اسے وہ بہت پہلے اتار کر پھینک چکی ہوتی اگر سعید نواز شیراز کے پیچھے نہ کھڑے ہوتے… اتنے سالوں میں بھی ان دونوں کا رشتہ ابھی بھی اسی طرح ہچکولے کھاتا پھر رہا تھا جیسے وہ شادی کے شروع کے دنوں میں تھا… سہیل اس دوران اپنی بیوی کے ساتھ بیرون ملک چلا گیا تھا اور یہ پہلا سیٹ بیک تھا جو شینا کو ہوا تھا اس کا خیال تھا وہ پاکستان میں رہے گا تو کبھی نہ کبھی وہ اسے اس کی بیوی کو چھوڑ دینے پر مجبور کر ہی لے گی… لیکن اس کا پاکستان سے چلا جانا… سعید نواز اور شیراز کو اس وقت ایک امید بندھی تھی کہ شاید شینا اب شیراز کے ساتھ اپنے رویے پر نادم ہوتے ہوئے اپنے رویے کو بہتر کرے گی… مگر یہ ان دونوں کی غلط فہمی تھی… شینا نے اپنے سوشل سرکل میں نئے بوائے فرینڈز بنالیے تھے… شیراز دنیا میں رہ جانے والا آخری مرد بھی ہوتا تب بھی شینا کے لیے اسے برداشت کرنا ناقابل برداشت تھا۔ اسے شیراز سے اتنی ہی چڑ تھی… اور کیوں تھی یہ شیراز کو سمجھ نہیں آتی تھی… اتنے سالوں میں اس نے اس طرح کا مرد بننے کے لیے لاکھ پاپڑ بیلے تھے جیسے مرد شینا کو اچھے لگتے تھے… اپنے لباس اور رکھ رکھاؤ سے لے کر اپنی بول چال تک اس نے خود کو مکمل طور پر بدل لیا تھا… کوئی بھی اب اسے دیکھ کر یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ ہمیشہ سے اپر کلاس کا حصہ نہیں رہا… لیکن شینا کے لیے وہ اب بھی قابل قبول نہیں تھا۔ بہر حال اتنے سالوں میں شیراز نے ایک چیز سیکھ لی تھی… آنکھوں میں دھول جھونکنا شادی کے ابتدائی سالوں کے برعکس وہ اب شینا کے شکنجے سے بڑی آسانی سے بچ نکلتا تھا… اس نے شینا اور سعید نواز کو دھوکہ دیتے ہوئے بہت سارا روپیہ آر پار کرنا شروع کر دیا تھا… جب بھی سعید نواز کو پتہ چلتا تو وہ کچھ دیر کے لیے اس کی ٹھیک ٹھاک بے عزتی کرتے… وہ ہمیشہ کی طرح جھوٹ کے انبار گھڑ کر رکھ دیتا… اور سب کچھ پہلے کی طرح ہی رہتا بے عزتی سے اب اسے خوف نہیں آتا تھا… یہ اس کی زندگی کا ایک اہم جز بن گئی تھی وہ اس سے کیا خوف کھاتا… اور وہ یہ بھی اندازہ کر چکا تھا کہ سعید نواز اس کو پٹے کے طور پر شینا کے گلے میں باندھے رکھنے پر مجبور تھے… اور ان کی اس مجبوری سے وہ جتنا فائدہ اٹھا سکتا تھا اٹھا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جلد یا بدیر شینا نے اس سے الگ ہو ہی جانا تھا… یہ واحد صحیح نتیجہ تھا جو اس نے اتنے سالوں میں نکالا تھا۔ اور اس نتیجے نے اسے اپنے مستقبل کی پلاننگ کے حوالے سے کچھ اور چیزیں بھی سوچنے پر مجبور کر دیا تھا… اور ان میں سے ایک دوسری شادی تھی لیکن یہ قدم وہ تب ہی اٹھاتا جب شینا کسی وجہ سے اس سے طلاق لے لیتی وہ خود ایسا کوئی قدم اٹھا کر سعید نواز کے عتاب کا نشانہ نہیں بننا چاہتا تھا… لیکن شیراز نے تلاش شروع کر دی تھی… اپنے سوشل سرکل میں اپنی آئندہ ممکنہ بیوی… اپر کلاس ہی کی کوئی دوسری عورت (کم از کم یہ وہ معیار تھا جس پر وہ کمپرومائز کرنے پر تیار نہیں تھا)… بے شک زیادہ خوبصورت نہ ہوتی… بے شک مطلقہ ہوتی… لیکن اس بار وہ لومیرج چاہتا تھا تاکہ اس طرح کی ذلت اور ہتک اس کی زندگی میں دوبارہ نہ آئے جس کا شکار وہ پچھلے کئی سالوں سے شینا کے ساتھ تھا… شینا کی طرح ہی وہ بھی گرل فرینڈز بدلنے لگا تھا… سعید نواز کی طرح وقتی وابستگیاں اس کی زندگی کا حصہ بھی بننے لگی تھیں۔ کہیں نہ کہیں دولت ہونے کے باوجود… محبت نام کا ایک خلا جو اس نے خود اپنے وجود میں پیدا کیا تھا اب اس کو بری طرح چبھنے لگا تھا دولت نے اس کی ہر کمی پوری نہیں کی تھی… اور جب بھی شیراز کو محبت نام کی چیز کی خواہش ہوتی زینی اس کی نظروں کے سامنے آجاتی… وہ اس سے کتنی نفرت کرنے لگی تھی اور اسے ذلیل کرنے کے لیے کیا نہیں کر سکتی تھی شیراز کو اس کا اندازہ اس ایک ملاقات سے ہی ہو گیا تھا جو اس کے گھر پر ہوئی تھی اور اس ایک ملاقات کے بعد وہ کچھوے کی طرح اپنے خول میں بند ہو گیا تھا وہ ہر اس جگہ سے دور بھاگتا رہا تھا جہاں اسے شوبز کے کسی بھی فرد کے آنے کا خدشہ ہوتا زینی تو خیر ایک بہت دور کی شے تھی… وہ جانتا تھا وہ جب بھی اس کے سامنے آئے گی وہ طوفان کی طرح آئے گی اور وہ اس کے جانے کے بعد اپنے پرخچے سمیٹتا پھرے گا جیسے پہلی بار سمیٹتا رہا تھا… لیکن اس سب کے باوجود اسے یقین تھا کہ وہ محبت اسی سے کرتی ہے… اور کبھی نہ کبھی اس کا یہ غصہ یہ ناراضگی ختم ہو جائے گی اور تب اس کے لیے زینی سے دوبارہ مراسم بڑھانے آسان ہو جائیں گے اتنے سالوں میں کرم کی طرح اس نے بھی زینی کے بارے میں ایک ایک چیز کی خبر رکھی تھی… اس کی ایک ایک کیرئیر موو پر اس کی نظر تھی… اور اسے جتنا عروج مل رہا تھا شیراز کی اس سے ملنے کی خواہش اتنی ہی شدید ہو رہی تھی… وہ پاکستان کی Most Wanted Woman تھی اور یہ کیسے ممکن تھا کہ شیراز جیسا مرد اس کے چارم سے محفوظ رہ پاتا۔
اب اتنے سالوں کے بعد اس سے رابطے کی کوشش اس نے بہت سوچ سمجھ کر کی تھی… اسے جس طرح کے رد عمل کی توقع تھی… زینی نے ویسے ہی ری ایکٹ کیا تھا لیکن شیراز مستقل مزاج تھا… وہ اگر شینا جیسے فتنے کے ساتھ اتنے سال گزار سکتا تھا تو زینی کا اس طرح کا رویہ تو اس کے سامنے کچھ بھی نہیں تھا… پتہ نہیں کیوں اسے یقین تھا زینی پگھل جائے گی… پری زاد نام کا ماسک وہ زیادہ عرصے اپنے وجود پر چڑھا کر نہیں رہ سکے گی۔
اور آج اس طرح یک دم اس کی کال آجانے پر اسے لگا تھا جیسے اس کا خیال بالکل ٹھیک تھا۔
اس نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ ڈائننگ روم سے نکل کر زینی کی کال ریسور کی۔
”ہیلو زینی!” اس نے بڑی بے تابی سے کہا۔
”پری زاد!” دوسری طرف سے زینی نے اسے کہا۔
شیراز چند لمحوں کے لیے طے کرتا رہا کہ اسے اس کو کس نام سے پکارنا چاہیے پھر اس نے کہا۔
”پری زاد… کیسی ہو تم؟”
”بہت اچھی ہوں۔”
”مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں تم سے بات کر رہا ہوں۔”
”یقین کر لو شیراز۔۔۔۔” اس نے بڑی سرد مہری سے اس سے کہا شیراز کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا بات کرے۔
”بات تم شروع کرو گے یا میں کروں؟” زینی نے چند لمحوں کے بعد کیا۔
”I am sorry” اس نے ندامت سے کہا۔
کسی نے جلتے ہوئے انگارے زینی کی ہتھیلیوں پر رکھ دیئے۔
”تم مجھے معاف کر دو… میں نے بہت بڑی غلطی کی۔”
”معافی مانگنے کی اتنی جلدی کیا ہے تمہیں شیراز… ابھی تو بڑا وقت ہے… معافی مانگنے کے لیے تو آمنا سامنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔۔” اس نے شیراز کی بات کاٹ کر کہا۔
”آمنا سامنا ہی چاہتا ہوں میں تم سے۔”
”اس کے لیے چند سال انتظار کرو… کچھ کام مجھے نپٹا لینے دو… کچھ کام تم نپٹا لو… پھر اطمینان سے بیٹھ کر پہلے بات کریں گے پھر حساب کتاب کریں گے۔”
زینی نے فون آف کر دیا… اسے اس بار مایوسی نہیں ہوئی… اس سے اتنی بات بھی اس کی کامیابی تھی… وہ اس کے گرد کھنچی ہوئی دیواروں پر پہلی ضرب لگا چکا تھا۔
وہ قدرے مسرور سا اندر ڈائننگ روم میں واپس آیا اور سیل ٹیبل پر رکھتے ہی اس نے شینا کو ہاتھ پر ہاتھ رکھے اپنا منتظر پایا وہ کھانا نہیں کھا رہی تھی۔
”کس کا فون تھا؟ ” اس نے شیراز کے بیٹھتے ہی کہا۔
”ایک دوست تھا۔ شیراز نے نظریں چراتے ہوئے اپنی پلیٹ کو دیکھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!