من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

وہ معمول کے چیک اپ کے لیے ہاسپٹل میں گیا تھا جب اس نے ڈاکٹر کو اپنی پشت پر کمر کے اطراف ان چند گلٹیوں کے بارے میں بتایا جو چند ماہ پہلے نمودار ہوئی تھیں اور جن میں وہ پچھلے کچھ عرصہ سے درد محسوس کر رہا تھا۔ ڈاکٹر نے ابتدائی معائنے کے بعد اسے بائیو پسی کا کہا تھا اور بائیو پسی کی رپورٹ پازیٹو آگئی تھیں۔ وہ گلٹیاں Cancerous تھیں… کچھ دیر کے لیے رپورٹس کے رزلٹس جان کر کرم کے ہوش و حواس مفلوج ہو گئے تھے… برص کے علاوہ اسے زندگی میں اب تک کسی بیماری نے تنگ نہیں کیا تھا اور اب یک دم کینسر جیسا ہولناک مرض…
لیکن ڈاکٹر نے اسے ساتھ ہی یہ خوش خبری بھی سنا دی تھی کہ اس کا کینسر بالکل ابتدائی سٹیج میں تھا اور ایک معمولی آپریشن کے ذریعے وہ بڑی آسانی سے ٹھیک ہو سکتا تھا بلکہ چند اور Tests کروانے کے بعد یہ بھی ممکن تھا کہ وہ میڈیسنز کے ساتھ ہی ٹھیک ہو جاتا۔
کچھ دیر کے لیے کرم کو ڈاکٹر کی بات پر یقین نہیں آیا اسے لگا کہ وہ اسے جھوٹی تسلیاں دے رہا تھا لیکن پھر اسے خیال آیا کہ وہ اس سے جھوٹ کیوں بولے گا… اگر اس کا کینسر ایڈوانسڈ اسٹیج پر ہوتا تب بھی وہ اتنا ہی Openly اس کے ساتھ ڈسکس کر رہا ہوتا اور اب اگر وہ یہ کہہ رہا تھا کہ پریشانی کی بات نہیں تھی تو واقعی ایسا ہی ہو گا۔
اگلے چند ہفتے وہ کچھ دوسرے ہاسپٹلز اور ڈاکٹرز کے ساتھ Consult کرتا رہا تھا اور ہر ایک کی رائے تقریباً اسی ڈاکٹر کی رائے جیسی تھی… کرم نے اطمینان کا سانس لیا تھا۔
اس نے تب تک اپنے گھر والوں کو اپنی بیماری کے بارے میں نہیں بتایا تھا لیکن ان ڈاکٹرز سے Consultation کے بعد اس نے بالآخر اپنی ماں کو اپنی بیماری کے بارے میں بتا دیا۔ اس کی ماں اس کی بیماری کا سنتے ہی بری طرح رونے لگی تھی… کرم کو اسی کا اندیشہ تھا۔
”آپ پریشان نہ ہوں امی… ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ میری زندگی کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ بس دعا کریں میرے لیے۔” کرم نے ماں کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔
”یہ سب اس چڑیل کی وجہ سے ہوا ہے… اس نے ہی کوئی جادو ٹونہ کیا ہے تم پر… پتہ نہیں کیاکھلاتی رہی ہے تمہیں تمہارے ساتھ رہ کر۔” کرم نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ اس کی ماں کا اشارہ زری کی طرف تھا… وہ اس کی زندگی سے تو نکل گئی تھی لیکن اس کی فیملی کی یادداشت سے نہیں ہر ایک وقتاً فوقتاً زری کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہنا اپنا فرض سمجھتا تھا… کیونکہ کہیں نہ کہیں ہر ایک کو یہ شک تھا کہ کرم ابھی بھی زری کے ساتھ رابطے میں تھا… اور یہ بھی عین ممکن تھا کہ وہ اس کی مالی مدد کرتا رہا ہو… کرم نے ابتدائی چند مہینوں میں بہت بار ان سب کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ وہ اب زری کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ رکھے ہوئے نہیں تھا۔ لیکن بہت جلد ہی وہ بار بار کی ان وضاحتوں اور یقین دہانیوں سے تنگ آگیا تھا ۔ اس نے زری کے معاملے پر بالکل چپ سادھ لی تھی اور اس کی خاموشی نے جیسے اس کی فیملی کے شبہات کی تصدیق کر دی تھی۔
اب بھی یہی ہو رہا تھا وہ ماں کو اپنی بیماری کے بارے میں بتا رہا تھا اور ماں کو ایک بار پھر زری یاد آرہی تھی… نہ صرف یہ کہ وہ یاد آرہی تھی بلکہ وہ اس کی بیماری کو اسی کے سر منڈھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
بعض دفعہ ماں باپ کی”سادگی” اولاد کے لیے بے حد صبر آزما اور تکلیف دہ ہوتی ہے۔ کرم کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ تھا… اس کی ماں بہ آسانی اس کے بہن بھائیوں کی باتوں میں آکر ان کی زبان بولتی تھی… کیونکہ وہ زیادہ وقت انہیں لوگوں کے ساتھ رہتی تھی اور 24 گھنٹے جو کچھ اس سے کہا جاتا تھا وہ حرف بہ حرف اس پر یقین کرتی تھی… کرم کے لیے ان کا ذہن بدلنا بہت مشکل ہو جاتا تھا… کرم علی کے بہن بھائی وہ ساری باتیں اور مطالبات جو وہ خود کرم سے نہیں کر سکتے تھے اپنی ماں سے کہہ دیتے تھے اور کرم بنا چوں چرا ان سب باتوں کو مان جایا کرتا تھا اس کی ماں کو اگر ایک طرف اس بات پر فخر تھا کہ کرم اس کی بات ٹال نہیں سکتا تھا۔ تو دوسری طرف اس بات پر غرور بھی تھا کہ کرم کا سارا مال و دولت انہیں کی دعاؤں کی وجہ سے تھی۔ اور وہ بار بار کرم کو یہ بات جتانا بھی ضروری سمجھتی تھیں کرم نے کبھی اس معاملے پر ان سے بحث نہیں کی تھی… اس کے پاس دولت کس طرح آئی تھی؟ اس نے دولت کے لیے کیا کیا قیمت ادا کی تھی؟… اور وہ اس دولت کو کیا سمجھتا تھا؟… اس نے اپنی ماں کو کبھی یہ سب کچھ بتانے کی کوشش نہیں کی تھی… وہ بس چپ چاپ ان کی باتیں سنتا تھا جو ہر وقت اسے بتاتی رہتی تھیں۔ کہ انہوں نے اسے کویت بھجوانے کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے کے لیے کیا کیا قربانیاں دی تھیں… اتنے سال گزرنے کے باوجود اور اپنی فیملی کے لیے یہ سب کچھ کرنے کے باوجود کرم اپنا سر ہمیشہ ان کے اس ایک احسان کے سامنے جھکا ہوا ہی پاتا تھا… اس نے کبھی اس چیز کو Argue نہیں کیا تھاکہ ان کی قربانیاں زیادہ تھیں یا اس کی ان کے لیے دی جانے والی قربانیاں… کہیں نہ کہیں اس کو اپنے دل میں یہ یقین تھا کہ ماں اس سے محبت کرتی تھی… سچی محبت… دنیا کی ہرماں کی طرح… ذہن میں آنے والے ہر خدشے، ہر شبہے اور بہن بھائیوں یا ماں کے رویے سے پہنچنے والی ہر تکلیف کے باوجود کرم کو یقین تھا کہ اگر دنیا میں کوئی واقعی اس کی زندگی اس کی سلامتی کسی مطلب کے بغیر چاہتا تھا تو وہ اس کی ماں ہی تھی اور صرف یہی یقین تھا جس کی وجہ سے وہ ماں کے کہنے پر کچھ ایسے کام بھی کرنے پر تیار ہو جاتا تھا جو کسی اور کے کہنے پر کرتے ہوئے وہ دو بار سوچتا۔
اس کی بیماری کا اس کے بہن بھائیوں کو بھی پتہ چل گیا تھا اور زندگی میں شاید پہلی بار کرم کو انہیں پریشان دیکھ کر لگا کہ وہ واقعی اس کی پرواہ کرتے تھے اس کی زندگی اور صحت ان کے لیے کوئی معنی رکھتی تھی اور یہ اس کے لیے ایک بے حد خوش کن چیز تھی۔




وہ تقریباً روز ہی اپنے بہن بھائیوں کی کالز ریسیو کرتا تھا اور وہ اس سے اس کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ اس کے علاج اور طبیعت کے بارے میں پوچھتے… اس سے پہلے اس نے کبھی زندگی میں اتنے تواتر اور باقاعدگی سے ان سب کی کالز ریسیو نہیں کی تھیں… ہر دوسرے تیسرے دن ان میں سے کوئی نہ کوئی اپنی فیملی کے ساتھ اس کے گھر آجاتا یہاں تک کہ اس کی ماں بھی اپنے دوسرے بیٹے کے ساتھ رہنے کی بجائے کرم کے گھر پر ہی آگئی تھی… زری کے اس گھر سے جانے کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ کرم کو اپنے گھر میں وحشت نہیں ہو رہی تھی تنہائی کا وہ احساس جو گھر کا دروازہ پار کرتے ہی اس کے وجود کو کھوکھلا کرنے لگتا تھا وہ یک دم کہیں غائب ہو گیا تھا…
اس نے اس سے پہلے کبھی اپنی زندگی کے لمبے ہونے کی خواہش نہیں کی تھی لیکن اب وہ چاہتا تھا کہ وہ صحت یاب ہو کر اور جیئے… کیونکہ اس کی فیملی کو اس کی ضرورت تھی اس کی زندگی ان کے لیے کچھ معنی رکھتی تھی۔
٭٭٭
”سلمان نے ویزا اپلائی کرنے کے لیے کہا ہے۔” نفیسہ نے اس سے کہا۔
”آپ پاسپورٹ دے دیں میں ویزا اپلائی کر دیتی ہوں۔”
”نعیم اور زہرہ بھی جانا چاہ رہے ہیں… سلمان نے کہا ہے کہ اگر ان کا ویزا لگ جاتا ہے تو وہ ان دونوں کی ٹکٹس بھی بھیج دے گا۔”
”آپ آپا سے پاسپورٹ منگوالیں میں ان کے ویزے بھی ساتھ ہی اپلائی کر دیتی ہوں۔ میرا تو خیر پہلے ہی لگا ہوا ہے… ربیعہ اور فاروق بھی آرہے ہیں لندن سے؟”
زینی نے سدرہ کی تصویر پر ایک نظر ڈالتے ہوئے ماں سے پوچھا۔
”ہاں وہ بھی آرہے ہیں۔” نفیسہ یک دم کچھ چپ سی ہو گئی تھی یوں جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہو لیکن کہہ نہ پا رہی ہو۔
”بڑی پیاری لڑکی پسندکی ہے سلمان نے۔” زینی نے تصویر دیکھتے ہوئے ماں سے کہا۔ سلمان نے سدرہ کی تصویر اپنی تصویروں کے ساتھ بھیجی تھی۔
”تمہارے پاس وقت ہو گا اس کی شادی میں شرکت کے لیے؟… میرا مطلب ہے تم توآج کل بہت مصروف رہتی ہو… تمہاری تو فلموں کا ہرج ہو گا۔”
”سلمان کی شادی میں شرکت کے لیے میں فلموں کا ہرج کر سکتی ہوں… اکلوتے بھائی کی شادی میں شرکت سے زیادہ ضروری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے۔” زینی نے تصویروں کو ایک بار پھر دیکھتے ہوئے کہا… سلمان ان چند سالوں میں بہت بدل گیا تھا۔ تصویروں پر نظر ڈالتے ہوئے اسے یک دم احساس ہوا تھا کہ نفیسہ یک دم بہت خاموش ہو گئی تھیں۔
”کیا ہوا؟” زینی کو ان کی خاموشی بری طرح کھلی تھی۔
”وہ سلمان… نہیں چاہتا کہ تم شادی میں شریک ہو۔” زینی کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ نفیسہ قدرے نادم انداز میں بری مشکل سے کہہ رہی تھی۔
”سدرہ کے خاندان کو پتہ نہیں ہے کہ تم فلموں میں کام کرتی ہو… پتہ ہوتا تو وہ سلمان کا رشتہ کبھی قبول نہیں کرتے… سلمان کہہ رہا تھا کہ امریکہ میں رہنے کے باوجود اس کی فیملی بڑی مذہبی اور پرانے خیالات کی ہے… سلمان نے ان لوگوں کو تمہارے بارے میں سرے سے بتایا ہی نہیں۔” نفیسہ نادم انداز میں کہہ کر چپ ہو گئی تھیں… کہنے کے لیے زینی کے پاس بھی کچھ نہیں تھا… اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے ایک نظر ہاتھ میں پکڑی اپنی ہونے والی بھابھی کی تصویر دیکھی پھر ان تصویروں کو بستر پر ماں سے کچھ فاصلے پر رکھ دیا۔
”آپ لوگ پھر پاسپورٹ دے دیجیے گا کل۔” اس نے آواز کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ اور اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ نفیسہ کا دل بھر آیا اس نے کوئی گلہ کیوں نہیں کیا تھا… لاکھ اس کی غلطی تھی پھر بھی وہ کچھ کہتی تو سہی… زینی کمرے سے نکل گئی… گزرتے دنوں میں ایسے دن ایسے لمحے آجایا کرتے تھے جب کوئی جیسے آئینہ اس کے سامنے رکھ دیتا تھا… اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی آئینے میں اپنا عکس دیکھنے پر مجبور ہو جاتی تھی… اور وہ عکس ہمیشہ شکست خوردہ ہوتا تھا… صرف وہی چند لمحے ایسے ہوتے تھے جب وہ اپنے آپ سے یہ پوچھتی تھی کہ اس نے اتنے سالوں میں کیا کھویا کیا پایا ہے؟… روشنیوں کی وہ دنیا جس کا وہ حصہ تھی انسانوں کے اندر ”تاریکیاں” اتار رہی تھی کیونکہ وہ کچھ دوسرے انسانوں کے اندر کی ”تاریکیوں ” سے بنی تھی۔
وہ سارے اس کی زندگی کے وہ سال تھے جب وہ صرف دولت اور شہرت کے ساتھ جی رہی تھی… عزت اور محبت سے محروم… اخبار کی ہیڈ لائن بننا اور ٹی وی سکرین کی سکرول بار کا حصہ ہونا کتنا تضحیک آمیز ہوتا ہے یہ کوئی زینی سے پوچھتا… اس کی زندگی اس کا وجود چوبیس گھنٹے میڈیا کی مائیکرو سکوپ کے نیچے رہتا تھا… جو اس کو ایک ”غیر انسانی” جذبات نہ رکھنے والی مخلوق سمجھ کر ٹریٹ کرتے تھے۔ کیونکہ وہ ایک ”فلمی ہیروئن” ایک ”ایکٹریس” تھی جس کا کام اپنے جسم کو کپڑوں سے ”دکھا” کر اور اپنے چہرے کو میک اپ میں ”چھپا” کر لوگوں کو ”سستی تفریح” فراہم کرنا تھا… فلم انڈسٹری کی دوسری ہیروئنز کے برعکس زینی کو کبھی اپنے ”فینز” کی داد سے خوشی نہیں ہوئی تھی… سینما میں اپنے کسی جملے یا ڈانس کی کسی Movement پر ملنے والی Clap نے کبھی اس کے جسم میں کرنٹ نہیں دوڑایا تھا… وہ پبلک گید رنگز اور سینماز میں آتے جاتے ہوئے مسکراتی تھی… لوگوں کی تالیوں اور نعروں کا ہاتھ ہلا کر جواب بھی دیتی اور میڈیا کے ذریعے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی ”محبت” اور ”ستائش” کو اپنا سب سے قیمتی اثاثہ بھی بتاتی… لیکن وہ ان سب سے اتنی ہی شدید نفرت بھی کرتی تھی… اس کے دل میں ان لوگوں کے لیے رتی برابر عزت نہیں تھی… اس کے نزدیک وہ سب ”تماشائی” تھے صرف ”تماشائی”… اتنے ہی غلیظ جتنے اس سمیت وہ سب دوسرے لوگ تھے جو ان کے لیے ایسی تفریح فراہم کرتے رہے تھے… وہ اگر اپنی عزت نہیں کرتی تھی تو ان کو بھی عزت کا حصہ دار نہیں سمجھتی تھی… وہ لوگ جنہوں نے اسے سپر سٹار بنایا تھا وہ اگر اپنے بارے میں پری زاد کے خیالات پڑھ لیتے تو سینما میں بیٹھ کر اسے Clap دینے کی بجائے اسے سنگسار کر دیتے…
نفیسہ سلمان کی شادی میں شرکت کے بعد کچھ عرصہ کے لیے واپس پاکستان آئی تھیں لیکن چند ماہ بعد دوبارہ سلمان کے پاس مستقل طور پر چلی گئیں… ربیعہ اور فاروق بھی انگلینڈ سے اسی سٹیٹ میں شفٹ ہو رہے تھے جہاں سلمان اور سدرہ تھے… اور نفیسہ اب زینی کے ”خالی گھر” میں رہتے رہتے تھک گئی تھیں… زینی نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی… اس کے لیے ماں کی خوشی مقدم تھی… وہ اپنے لیے ان کو باندھ کر کیوں رکھ دیتی… لیکن اپنا خالی گھر اسے پہلے سے زیادہ خالی لگنے لگا تھا۔ اس کی شوبز کی مصروفیات اتنی بڑھ چکی تھیں کہ وہ تقریباً صرف سونے یا کپڑے تبدیل کرنے کے لیے ہی گھر آتی تھی مگر وہ چند گھنٹے بھی اُسے اس گھر میں گزارنا مشکل لگتا تھا۔
اور یہی وہ وقت تھا جب کئی سالوں کے بعد شیراز نے ایک دن اس کے سیل فون پر کال کی تھی۔ ایک سیکنڈ لگا تھا زینی کو اس کی آواز پہچاننے میں… ساری عمر ایک سیکنڈ ہی لگنا تھا… اس نے ہیلو سے آگے کچھ سننے کی بجائے فون بند کر دیا اب ایسا کیا تھا جو اسے شیراز سے سننا تھا۔ لیکن اس کی آواز اسے کئی سال پیچھے لے گئی تھی… یادداشت کے سارے دروازے کھڑکیاں، روشن دار کھلنے لگے تھے … سب کچھ کیسے پیچھے سے پلٹ کر آرہا تھا… شیراز بار بار کال کر رہا تھا… پھر بار بار Text کرنے لگا تھا… وہ معافی مانگ رہا تھا… ایک بار بات کرنا چاہتا تھا… صرف ایک بار… ایک بات… ایک ملاقات … زینی نے سیل فون آف کر دیا… وہ یادوں کی کرچیوں پر ننگے پاؤں چلنے لگی تھی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!