من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

اس نے کیا غلط کر دیا تھا یہ اگلے چند دنوں میں کھل کر سامنے آگیا تھا… دو بڑی ملٹی نیشنل کمپینز نے اسے اپنی campaign سے الگ کر دیا تھا… وہ ایک ایسی ایکٹریس نہیں چاہتے تھے جس کے کردار کے حوالے سے کوئی ایسا سکینڈل بنتا جو میڈیا اچھالتا۔
چند آنی والی فلمز میں بھی اس کی جگہ دوسری ہیروئنز کو کاسٹ کر لیا گیا۔ اس کے تمام پچھلے سکینڈلز کو بھی میڈیا نے اچھالنا شروع کر دیا تھا اور نیوز پیپرز نے اس کے خلاف دوسرے ایکٹرز اور ایکٹریسز کے بیانات بھی شائع کرنے شروع کر دیے تھے… پری زاد کی ساکھ کو بہت بری طرح نقصان پہنچا تھا۔ لیکن وہ جانتی تھی کچھ عرصے کے بعد یہ سب کچھ لوگوں کی یادداشت سے غائب ہونا شروع ہو جائے گا… کوئی اور سکینڈل اس کے سکینڈل کی جگہ لے لے گا… زینی کو کسی قسم کی کوئی فکر نہیں تھی۔ صرف نفیسہ کی فون کالز سے اسے رنج ہوا تھا اس سکینڈل پر اس کے بہن بھائیوں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا اور نفیسہ نے بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کیا… اس نے اس بار پہلے کی طرح ماں کو صفائیاں اور وضاحتیں نہیں دی تھیں۔ اس نے خاموشی سے ان کی باتیں سن لی تھیں۔
میڈیا اس تک رسائی پانے کی جدوجہد میں مصروف تھا اور زینی مکمل طور پر گھر میں بند ہو کر بیٹھ گئی تھی… شوبز سے بہت عجیب سے انداز میں اس کا جی اچاٹ ہونا شروع ہو گیا تھا… اور اس کے ذہن پر ان دنوں ایک ہی چیز سوار رہتی تھی… شیراز… وہ مستقل اس کے بارے میں سوچنے لگی تھی اور یہ بہت عرصے کے بعد ہوا تھا کہ وہ اس طرح اسے یاد آیا ہو۔
شینا نے طلاق کے لیے کیس فائل کر دیا تھا اس کی خبر اسے اخبارات کے ذریعے مل گئی تھی… شیراز نہ صرف معطل تھا بلکہ اس کے خلاف کرپشن کے بہت سارے کیسز بھی رجسٹر ہوئے تھے… اسے ان سب چیزوں کے بارے میں بھی اخبارات میں ہی پتہ چلتا رہا تھا۔
٭٭٭




”شیراز کے ماں باپ آئے ہیں آپ سے ملنے… باہر گیٹ پر کھڑے ہیں… اندر لانا ہے کیا؟” اس دن سلطان نے اسے اطلاع دی۔
وہ ایک میگزین دیکھتی دیکھتی کچھ دیر کے لیے رک گئی تھی… وہ اس کے پاس کیوں آئے تھے؟… ایک لمحے کے لیے اس کا دل چاہا کہ وہ انہیں اندر نہ بلائے باہر سے ہی بھجوا دے… دروازہ تک نہ کھولے… جیسے انہوں نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن پھر پتہ نہیں کیا خیال آنے پر اس نے انہیں اندر بلا لیا تھا۔
ان پر ایک نظر ڈالتے ہی زینی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کس قدر پریشان تھے۔ وہ اس کی طرف آنا چاہتے تھے شاید اس سے گلے ملنا یا اس کے سر پر پیار دینا چاہتے تھے لیکن زینی نے ان کا یہ ارادہ پہلے سے ہی بھانپتے ہوئے ان کے اندر داخل ہوتے ہی ان سے کہا۔
”بیٹھیں۔۔۔۔”
نسیم اور اکبر کچھ ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گئے تھے۔
”کیا پیئیں گے آپ؟”
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر خاموش رہے۔
”کچھ کام ہے آپ کو مجھ سے؟” زینی نے پہلے سوال کو دوبارہ نہیں دہرایا۔
”دیکھ زینی بیٹا۔۔۔۔” نسیم نے بات شروع کرنا چاہی زینی نے کاٹ دی۔
”آپ پری زاد کے گھر آئے ہیں زینی کے نہیں۔”
نسیم نے یک دم چادر کا پلو آنکھوں پر رکھتے ہوئے رونا شروع کر دیا۔
”خون کے رشتے کبھی ختم نہیں ہوتے بیٹا۔” یہ اکبر تھا۔
”خون کے رشتے اسی دن ختم ہو گئے تھے جب آپ نے میرے باپ کو اس کی اوقات جتائی تھی۔” اس کے انداز میں سرد مہری تھی۔
نسیم کے آنسوؤں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔
”ہم سے غلطی ہو گئی بیٹا۔” اکبر نے بے حد ندامت سے کہا۔ ”تم وہ غلطی مت کرو۔”
”میں نے کوئی غلطی کب کی…؟ آپ نے تو مجھ پر اپنے گھر کے دروازے بند کر دیے تھے۔ مجھے اندر نہیں آنے دیا… میں نے تو آپ کو اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا ہے۔” زینی نے بے حد ٹھنڈے لہجے میں کہا۔
”تم ہمیں اور شیراز کو معاف کر دو۔” نسیم نے روتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے… معاف کیا۔” اس نے بے حد اطمینان سے کہا۔
”ہمارا گھر تباہ ہو گیا۔۔۔۔” نسیم ایک بار پھر رونے لگی تھی۔
”تو کیا ہوا؟… ہمارا گھر بھی تباہ ہو گیا تھا۔” اس کا اطمینان قابل دید تھا۔
”ہم نے جو کچھ کیا ہم اس پر بہت پچھتاتے ہیں زینی۔” اکبر نے کہا۔ اس کے چہرے پر واقعی ندامت تھی۔
”آپ کا پچھتاوا میری زندگی کو نہیں بدل سکتا اس لیے یہ میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔” زینی نے تلخی سے کہا۔”آج آپ کا بیٹا جیل میں نہ بیٹھا ہوتا تو آپ اپنا پچھتاوا اور شرمندگی لے کر میرے پاس آتے؟ کبھی نہیں؟ ” زینی نے کہا۔
”ہم پر رحم کرو زینی۔” ”آپ کو بھی مجھ پر اور میرے ماں باپ پر رحم کرنا چاہیے تھا۔ ” وہ اس وقت سفاکی کی حد تک بے حس ہو گئی تھی۔
”ہم نے بڑا ظلم کیا زینی… بڑا ظلم کیا۔”
”دولت اتنا اندھا کیسے کر دیتی ہے انسان کو کہ اپنے بہن بھائی ہی نظر آنا بند ہو جائیں۔”
”سب کچھ چھن گیا ہے ہم سے زینی سب کچھ… نزہت کو بھی اس کے شوہر نے بچے چھین کر گھر سے نکال دیا… ہم پر تو اللہ کی طرف سے عذاب آگیا ہے… تم مدد کرو ہماری۔” نسیم نے روتے ہوئے کہا۔
”جس پیسے کے لیے آپ نے زینی کے چہرے پر کالک ملی تھی اس سے کہیں وہ آپ کی مدد کرے… زینی کیوں مدد کرے آپ کی…؟ اور جہاں تک نزہت کا تعلق ہے تو کوئی بات نہیں زہرہ آپا کو بھی گھر سے نکال دیا گیا تھا… آپ نے چھوٹی خالہ کو مجبور کر کے ربیعہ سے عمران کی منگنی بھی ختم کروا دی تھی… توکیا ہوا؟… یہ کوئی بڑی باتیں تھوڑی ہیں… زندگی میں تو اس سے بھی بڑے بڑے حادثے ہو جاتے ہیں۔” وہ اس طرح بات کر رہی تھی جیسے یہ سب کچھ بے حد معمولی بات تھی۔
اکبر اور نسیم کے پاس جیسے سارے لفظ ختم ہو گئے تھے۔ وہ اس سے رحم اور ہمدردی کی توقع کیسے رکھ سکتے تھے… کیسے یہ سمجھ سکتے تھے کہ وہ ان کے ساتھ وہ نہیں کرے گی جو انہوں نے اس کے ساتھ کیا۔
”ایک بار شیراز سے مل لو زینی… بس ایک بار اس کی بات سن لو… اس نے منتیں کر کے بھیجا ہے ہمیں تمہارے پاس کہ زینی سے کہیں ایک بار آکر اس کی بات سن جائے۔” نسیم اب بھی مسلسل رو رہی تھیں۔
”میں بھی ملنا چاہتی تھی اس سے منگنی ٹوٹنے کے بعد ایک بار… وہ ملا مجھ سے؟… آپ نے ملنے دیا اس سے؟… پھر میں کیسے جاؤں اس کے پاس؟… وہ ہے کون میرا؟” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”آپ لوگ دوبارہ میرے پاس نہ آئیں ۔” زینی نے انہیں کہا۔
اس کا خیال تھا وہ سب کچھ سننے کے بعد وہ دوبارہ کبھی اس کے پاس نہیں آئیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ بری طرح مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے اور اس مصیبت سے زینی کے علاوہ انہیں کوئی نہیں نکال سکتا تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ بار بار اس کے پاس نہ آتے… شیراز کی ساری جائیداد سیل کر دی گئی تھی جو اس کے نام تھی اور اس میں وہ گھر بھی تھا جو شیراز نے اپنے ماں باپ کے لیے لیا تھا۔ اکبر اور نسیم اب دوبارہ اسی محلے میں جا کر رہنے لگے تھے جہاں وہ ہمیشہ رہتے رہے تھے اور اتنے سال آسائشوں میں رہنے کے بعد اس دو کمرے کے گھر اور اس محلے میں رہنا انہیں عذاب سے کم نہیں لگ رہا تھا… اس پر شیراز جیل میں بند تھا اور نزہت کے سسرال والے جو صرف شیراز سے وقتاً فوقتاً ملنے والے روپے اور اس کے تعلقات کو ضرورت پڑنے پر استعمال کرنے کے لیے نزہت کا رشتہ جوڑ کر گھر لے گئے تھے۔ انہوں نے فوری طور پر شیراز کو بھنور میں پھنسے دیکھ کر اس کی بہن کو بھی ڈبو دیا تھا… اکبر اور نسیم کی دوسری دونوں بیٹیوں کو بھی آج کل اپنے اپنے سسرال میں اسی طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا… شیراز نے اپنی ساری بہنوں کی شادی اپنے سے بہت اوپر کی فیملیز میں کی تھیں اور اب وہ فیملیز اگر شیراز کے سکینڈل پر اس طرح ری ایکٹ کر رہی تھیں تو اس میں ان کا بھی قصور نہیں تھا۔ وہ نظریہ ضرورت کی بنیاد پر کیے گئے رشتے تھے اور نظریہ ضرورت ختم ہونے کے ساتھ ہی اب اگر وہ تڑخنے لگے تھے تو اس میں توڑنے والے کا قصور نہیں تھا۔
اکبر اورنسیم محلے میں سے جس جس کو زینی کو سمجھانے کے لیے زینی کے پاس لے جا سکتے تھے لے کر جا رہے تھے… یہ اور بات تھی کہ اب اس کام کے لیے بھی انہیں لوگوں اور رشتہ داروں کے سامنے ہاتھ جوڑنے اور منتیں کرنی پڑ رہی تھیں۔ خاندان میں اور محلے میں ”اب” کوئی ایسا نہیں تھا جو انہیں ان کی زیادتیاں یاد نہ دلا رہا ہو… شیراز کے ہاتھ سے ”پاور” جاتے ہی لوگوں کو حق بات کہنا یاد آگیا تھا… اور بہت سے لوگ تو انہیں دیکھ کر کانوں کو ہاتھ بھی لگاتے تھے… اگر غرور کا سر نیچا ہوتا ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے اس کی زندہ مثال دیکھ رہے تھے۔
اکبر اور نسیم خاندان یا محلے کے جس بھی شخص کو زینی کے پاس اسے سمجھانے کے لیے لے کر گئے وہ زینی کے اس چار کنال کے گھر میں داخل ہوتے ہی گونگا ہو جاتا تھا اور ڈرائنگ روم میں زینی کے سامنے بیٹھا وہ بمشکل ہی زینی کی کسی بات کو غلط کہتا بلکہ الٹا زینی کی حمایت میں بولتا… دنیا دریا کے دھارے کے ساتھ چلتی ہے اور دریا کا دھارا اس طرف تھا جس طرف زینی کھڑی تھی۔
اکبر اورنسیم نے محلے اور خاندان میں سب سے مایوس ہو کر زہرہ اور نعیم سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی اور منہ کی کھائی تھی۔ زینی ہر بار انہیں گھر کے اندر داخل ہونے دیتی تھی یہ اس کی مہربانی تھی لیکن زہرہ اور نعیم نے یہ بھی نہیں کیا تھا… گیٹ سے ہی ٹکاسا جواب دے کر ان کو فارغ کر دیا گیا تھا… بڑھاپے میں اس ”لائق اور قابل اولاد” کی وجہ سے انہیں جتنے دھکے کھانے پڑ رہے تھے وہ صرف وہ ہی جانتے تھے۔
اور جب اکبر اور نسیم نے بالآخر یہ جان لیا کہ زینی کا دل موم نہیں ہو گا وہ ان کی بات مان کر شیراز سے ملنے نہیں جائے گی تو پتہ نہیں زینی کے دل میں کیا آئی کہ وہ شیراز سے ملنے کے لیے جیل جا پہنچی۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!