من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

”دوست تھا یا تھی؟” اگلا سوال بے حد ڈائریکٹ تھا شیراز کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن اس سے پہلے ہی شینا نے ٹیبل پر پڑا اس کا موبائل اٹھا کر اس کی کالز کا ریکارڈ چیک کرنا شروع کر دیا شیراز کا چمچ ایک بار پھر اس کے ہاتھ سے گرا تھا… وہ بری طرح بوکھلایا تھا…
”زینی” شینا نے بے حد تنفر سے لاسٹ کال کو دیکھا۔
”کون ہے یہ؟”
”میرے ساتھ کام کرتی ہے آفس میں۔” شیراز نے بے اختیار جھوٹ بولا۔
”تو آفس میں کام کرے… گھر میں کیا کام پڑ گیا ہے اس کو دیکھتی ہوں اسے۔”شیراز کے ہاتھ کانپنے لگے۔ شینا کال بیک کر رہی تھی۔
”شینا… شینا پلیز وہ کیا سوچے گی میری بے عزتی ہو جائے گی۔” شیراز منتیں کرنے لگا تھا۔
”وہ ان کی ہوتی ہے جن کی کوئی عزت ہوتی ہے۔ اس لیے تم بے عزتی کی تو فکر مت کرو۔” شینا نے فون کان سے لگاتے ہوئے کہا۔
شیراز نے بے اختیار دل میں فون کے بند رہنے کی دعا کی… دعا قبول نہیں ہوئی تھی دوسری طرف سے زینی نے کال ریسو کر لی تھی۔ ہیلو کہتے ہی اس کے کانوں میں شینا کی حقارت بھری آواز پڑی تھی۔
”میں مسز شیراز بول رہی ہوں اور تمہیں صرف یہ بتانا چاہتی ہوں کہ دوبارہ میرے شوہر کے نمبر پر تمہاری کال نہیں آنی چاہیے۔”
”ورنہ تم کیا کرو گی؟”
شینا کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا۔
”کیا کہاتم نے؟”
”میں نے کہا ورنہ تم کیا کرو گی؟” زینی نے بے حد ٹھہرٹھہر کر اپنا ایک ایک لفظ دہرایا۔
”اس سے بات کرو ابھی اور اسی وقت اور اسے بتاؤ کہ تم دوبارہ اس کی آواز بھی نہیں سننا چاہتے۔” شینا نے غراتے ہوئے شیراز کے ہاتھ میں فون تھمایا۔ دوسری طرف فون کان سے لگائے زینی ان کی باتیں سن رہی تھی… زندگی نے اسے ایک بار پھر جیسے بازار میں لا کر جا کھڑا کیا تھا… ایک آس تھی اسے… ایک موہوم سی آس… وہ چند لمحے پہلے اس سے ایکسیکوز کر رہا تھا… وہ اب ایک بار پھر اسے وہ سب کچھ نہیں کہے گا… لیکن ایسا نہیں ہوا تھا شیراز نے نہ چاہتے ہوئے بھی شینا کے الفاظ دہرا دیے… کسی نے پھر سے بازار میں جیسے زینی کے منہ پر جوتا کھینچ مارا تھا سیل اب دوبارہ شینا کے ہاتھ میں تھا۔
”سن لیا تم نے…؟ دوبارہ تمہارا فون نہیں آنا چاہیے… سن لیا نا؟”
”بہت اچھی طرح” زینی نے بمشکل کہا… آگ ہی آگ تھی جو اس کے وجود کو جلانے لگی تھی۔
”اس کی آواز بڑی familiar لگ رہی ہے مجھے… پتہ نہیں کیوں۔” شینا نے ایک لمحے کے لیے الجھتے ہوئے فون ٹیبل پر رکھا تھا اور پھر کندھے اچکا دیے… شیراز کی جان میں جان آ ئی… شینا نے اسے نہیں پہچانا تھا… زینی کو وہ دوبارہ منا سکتا تھا۔
اس نے کھانا ختم کرتے ہی شینا کے گھر سے نکلنے کے بعد زینی کو کال کی تھی اس کا سیل آف تھا… شیراز نے دوسرے دن فون کرنے کا سوچا تھا… اسے اندازہ تھا کہ جتنی محنت اس نے زینی کو اس سے بات کرنے پر کی تھی وہ شینا کی ایک ہی کال نے برباد کی تھی اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ شینا نے اس کی محبت پرنہیں اس کال سے شیراز کی قسمت پر سیاہی پھیر دی تھی۔




وہ سارا غصہ اس رات ایک آتش فشاں کی طرح زینی کے اندر ابل پڑا تھا جو وہ اتنے سالوں سے مسلسل دبانے کی کوشش کر رہی تھی… وہ کتنی بار اسے ذلت دیتا آخر کتنی بار… شینا کے لہجے کا غرور ایک نیزے کی انی کی طرح اسے چبھ رہا تھا تو شیراز کی بزدلی اسے خنجر کی طرح کاٹ رہی تھی۔
اس رات اس نے ایک لمبے عرصے کے بعد ایک بار پھر ہوش و حواس کھوئے تھے… بے تحاشا شراب پی تھی بے شمار سگریٹ پھونکے تھے… سلطان اس کی حالت دیکھ کر پچھتا رہا تھا شیراز سے بات کا مشورہ اسی نے دیا تھا اسے… وہ جانتا ہوتا کہ پری زاد کی یہ حالت ہو جائے گی تو وہ پری زاد سے نہ کہتا…
”ایسابھی کیا ہو گیا ہے پری جی؟… ایسا بھی کیا کہہ دیا ہے اس نے؟” وہ جاننے کے لیے پری زاد کی منتیں کرتا پھررہا تھا… اور وہ چپ تھی اور سلطان کو ہمیشہ اس کی خاموشی سے ڈر لگتا تھا… وہ جانتا تھا اب وہ کچھ پلان کر رہی تھی… اور اب وہ کس کو ڈبونے والی تھی یہ کم از کم پہلے کی طرح اس کے لیے راز نہیں تھا… لیکن کرنا کیا چاہتی تھی… یہ اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا… چند دنوں بعد آگیا تھا۔
٭٭٭
شیراز کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا تھا اس نے ایک بار پھر اس سے معذرت کرنے کے لیے اسے فون کیا تھا اور زینی نے اس کی بات سننے کی بجائے بڑے میٹھے لہجے میں اس سے ملنے کے لیے اسے ایک گیسٹ ہاؤس میں بلا لیا تھا۔
”بکنگ تم کرواؤ گے… مسٹر اور مسز شیراز کے نام سے۔”
شیراز کو لگا اسے سننے میں غلطی ہو رہی تھی اس کا دل جیسے اس کی پسلیاں توڑ کر باہر آجانا چاہتا تھا… وہ کیا رات گزارنے کے لیے اسے وہاں بلا رہی تھی…؟ یقینا رات گزارنے کے لیے بلا رہی تھی… ورنہ… ورنہ… کیا زینی اس پر اس طرح مہربان ہو سکتی تھی؟… ہاں کیوں نہیں… وہ محبت کرتی ہے مجھ سے… وہ خود ہی سوال کر رہا تھا… خود ہی جواب دے رہا تھا… اس کے پورے وجود میں یک دم جیسے پارہ بھر گیا تھا۔
”تم پہلے میرے گھر آکر مجھے پک کرو گے… ہمPC میں ڈنر کریں گے… اس کے بعد اس گیسٹ ہاؤس میں جائیں گے… بہت ساری باتیں ہوں گی پھر… تم ہی کہہ رہے تھے نا کہ میرا سامنا کرنا چاہتے ہو… مجھ سے ملاقات کی خواہش ہے تمہیں۔”
شیراز بہت کچھ کہناچاہتا تھا اس سے لیکن فرط جذبات سے اس سے بات نہیں ہو رہی تھی… زینی نے فون بند کر دیا… اچھا کیا… شیراز اس وقت جیسے اپنے آپ میں نہیں رہا تھا… ایک دن اور ایک رات کے بعد وہ اس لڑکی سے ملنے والا تھا جس سے وہ کبھی محبت کرتا تھا… (کم از کم اس بات پر اسے یقین تھا)
وہ ساری رات سو نہیں سکا… وہ ساری باتیں سوچتا رہا جو اسے زینی سے کہنی تھیں وہ سارے خیالات ترتیب دیتا رہا جو اس کے ذہن میں آرہے تھے… سوچتا رہا کہ زینی اس سے کیا کیا گلہ کر سکتی ہے اور ہر گلے کا وہ مناسب ترین جواب تلاش کرتا رہا… ایسا جواب جو زینی کو مطمئن کر سکے… وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اسے ”زینی” سے ملنے کی زیادہ خوشی تھی یا ”پری زاد” سے ملنے کی… جو اب وہ جانتا تھا… لیکن وہ جواب وہ زینی کے سامنے نہیں دے سکتا تھا۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پر اس نے بے حد سنجیدگی سے شینا کو بتا دیا کہ وہ شہر سے باہر جا رہا تھا… ایک دن بعد آئے گا۔۔۔۔” شہر کی بجائے وہ دنیا سے بھی باہر جا رہا ہوتا تو شینا کو دلچسپی نہ ہوتی۔
وہ شام کو مقررہ وقت سے بھی پہلے زینی کے گھر پر پہنچ گیا تھا۔
چند منٹوں بعد اسے گھر میں داخلے کا پروانہ مل گیا۔ پھولوں کے بکے کے ساتھ اس کے شاندار ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہوئے شیراز کو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے… وہ کیوں اتنا نروس تھا اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا… اتنا نروس تو وہ سعید نواز اور شینا کے علاوہ کسی کا سامنا کرتے ہوئے نہیں ہوتا تھا۔
ملازم نے اسے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ شیراز نے بکے رکھ دیا اور خود ڈرائنگ روم میں بے چینی سے ٹہلنے لگا… بیٹھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا…
وہ چند لمحوں کے بعد وہاں آنے والی تھی اور شیراز اس کے متوقع رد عمل کے بارے میں اندازے لگانے میں مصروف تھا۔
٭٭٭
سلطان کو چند لمحوں کے لیے اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ منہ کھولے وہ بے یقینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ وہ پنڈلی کے گرد سینڈل کے ان اسٹریپس کو لپٹینا بھول گیا۔ جنہیں چند لمحے پہلے وہ بڑے انہماک، شوق اور محبت کے ساتھ لپیٹ رہا تھا۔
وہ خاموش نہیں ہوئی تھی۔ اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اب بڑی سہولت کے ساتھ جھک کر ان اسٹرپس کو خود لپٹینا شروع کر دیا تھا۔ سلطان اس کے پیروں کے پاس کارپٹ پر کسی پتھر کے مجسمے کی طرح بیٹھا اسی ہکا بکا انداز میں پری زاد کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اس نے پچھلے آٹھ سالوں میں سینکڑوں بار اسے اسی طرح چونکایا تھا۔ آٹھ سال کے طویل عرصے کے بعد اب سلطان کو یقین تھا کہ وہ اسے مزید حیران اور پریشان نہیں کر سکتی کیونکہ وہ پری زاد کو اندر باہر سے جان گیا تھا۔
لیکن اس وقت اس کے سامنے بیٹھے وہ اپنے آپ کو احمق سمجھ رہا تھا۔ پری زاد کے بارے میں انڈسٹری جو کہتی تھی ٹھیک کہتی تھی۔
صرف پانچ منٹ پہلے ہی تو اس کے سرخ کیوٹکس سے رنگے ہوئے لمبے ناخنوں کو دیکھتے ہوئے وہ اس کے پیروں پر قربان ہو جانا چاہتا تھا۔ وہ ہر بار اسی شوق اور لگن کے ساتھ پری زاد کے پیروں میں جوتے پہناتا تھا۔ اور اس پر رشک کرتا تھا۔ وہ کسی بیلے ڈانسر کے پیروں کی طرح نازک، خم دار اور دودھیا تھے۔ سلطان نے شراب کے نشے میں بہت سے مردوں کو اس کے پیروں کو چومتے دیکھا تھا اور اسے سامنے بٹھا کہ وہ روز ان پیروں میں جوتے پہنایا کرتا تھا۔
وہ اب اسٹریپس بند کرتے ہوئے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اپنی ساڑھی کو سنبھالتے ہوئے وہ ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی، سلطان اب بھی اسی طرح کارپٹ پر بیٹھا سانس روکے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ آئینے میں خود پر تنقیدی نظریں ڈالتے ہوئے اپنی ساڑھی ٹھیک کر رہی تھی۔
کمرے میں پڑا انٹر کام بجنے لگا تھا۔ سلطان چونک گیا پھر اٹھ کر انٹر کام کی طرف گیا۔ وہ اسی طرح آئینے میں اپنی ساڑھی کو ٹھیک کرتے ہوئے بولتی رہی۔
چوکیدار نے انٹر کام پر سلطان کو ”کسی” کی آمد کی اطلاع دی۔ سلطان انٹر کام کا ریسیور ہاتھ میں لیے پری زاد کو اس آمد کی اطلاع نہیں دے سکا۔ وہ آئینے سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے بولنے سے پہلے ہی اس سے کہہ رہی تھی۔
”اسے اندر آنے دو۔ میں نے تم سے کہا تھا نا وہ وقت سے پہلے یہاں پہنچ جائے گا۔”
سلطان جان نہیں سکا اس کے لہجے میں کیا تھا۔ اس نے انٹر کام پر چوکیدار کو ہدایت دی پھر ریسیور رکھ دیا۔
”یہ مت کریں۔” وہ ریسیور رکھتے ہی پری زاد کی طرف آیا تھا۔ پری زادنے اسے مسکرا کر دیکھا۔
وہ ”دوپہر” سے اس ”ملاقات” کی تیاری کر رہی تھی۔
پری زاد ”کب” سے اس ملاقات کی تیاری کر رہی تھی یہ پری زاد کے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا تھا۔
”یہ مت کریں۔” سلطان ایک بار پھر گڑگڑایا۔
”کیوں؟” وہ مسکرائی۔ ”تمہیں مجھ پر ترس آرہا ہے یا اس پر؟”
”نو سال لگائے ہیں یہ فلمی کیرئیر بنانے میں آپ نے۔ آپ اس طرح کی کوئی چیز سوچ بھی کیسے سکتی ہیں؟”
وہ اب اسے پتہ نہیں کیا کیا یاد دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”میں کیسی لگ رہی ہوں سلطان؟”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!