میں کبھی یہ جنگ نہیں جیت سکی۔ آپ نے جھوٹ بول کر اپنی اس بیماری کو مجھ سے چھپا کر شادی نہ کی ہوتی تو شاید میں اپنے آپ کو یہ سوچ کر سمجھا لیتی کہ یہ میرا فیصلہ ہے۔ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے۔ مجھے اسے نبھانا چاہیے۔ پر ہر بار آپ کے جسم کو دیکھ کر مجھے دھوکے کا احساس ہوتا ہے۔ میرے گھر میں اتنی غربت نہ ہوتی تو آپ اور آپ کے گھر والے کبھی اتنا بڑا عیب چھپا کر آپ کی شادی کرتے کبھی نہیں۔ لیکن انہیں پتا تھا کہ غربت نے میرے ماں باپ کے ہاتھ کاٹ دیے ہیں، زبان بند کر دی ہے۔ برص کیا وہ سو بیماریاں بھی چھپا لیتے تو بھی مجھے آپ ہی کے گھر میں بسنا ہوتا اور مجھ سے ”وفاداری” اور ”سچائی” کامطالبہ بھی ہوتا۔”
کرم علی کو پہلی بار اس کی زبان پر جھوٹ کا گمان نہیں ہوا تھا۔ وہ اس وقت وہ کہہ رہی تھی جو اس کے دل میں تھا اور جو اس کے دل میں تھا وہ بے حد تکلیف دہ تھا۔
”میں نے جو کچھ کیا غلط کیا، لیکن اس کام کی ابتدا آپ نے کی ہے۔ نہ کی ہوتی تو شاید یہ پچھتاوا اور احساس جرم ہی مجھے گناہ سے روک دیتا کہ میں آپ کے ساتھ یہ کر رہی ہوں لیکن کرم علی مجھے کبھی کوئی احساس جرم نہیں ہوا۔ ہر بار مجھے لگا میں آپ کے ساتھ ٹھیک کر رہی ہوں کیونکہ اس سے پہلے آپ نے دھوکا دیا تھا مجھے۔”
”تم جانتی تھیں اس شادی کو میں نے ارینج نہیں کیا تھا، نہ تم کو میں نے دیکھ کر تم سے شادی کی خواہش کی تھی۔ تم لوگوں کو میرے بارے میں کیا بتایا گیا، کیا چھپایا گیا، مجھے اس کا بھی پتہ نہیں تھا۔ میری شادی زبردستی۔۔۔۔”
”مرد کی شادی کوئی زبردستی نہیں کر سکتا کرم یہ عورت ہوتی ہے جس کے ساتھ زبردستی ہوتی ہے۔ مرد کے ذہن میں کہیں نہ کہیں ”ہاں” ہوتی ہے۔ تو وہ ”ہاں” کہتا ہے۔ اگر ”ناں” ہو تو وہ مر جاتا ہے مگر ”ناں” ہی کہتا ہے۔ اور آپ کو مجبور کرنے والے تھے کون۔ ایک ماں اور چھوٹے بہن بھائی۔”
اس نے جیسے کرم علی کے منہ پر جوتا کھینچ مارا تھا۔ کرم علی کو اس وقت اس سے بات کرتے ہوئے واقعی ٹھنڈے پسینے آرہے تھے۔ اگر اس نے سارا علم اور تجربہ ”دنیا” سے حاصل کیا تھا تو زری کا استاد بھی ”دنیا” ہی تھی۔
”تم اب کیا چاہتی ہو زری؟” کرم علی نے اپنے سارے سوالوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ اسے زری سے سوال جواب یک دم بے کار لگنے لگے تھے۔
زری خاموش ہو گئی۔ ”اب” کے بارے میں اس نے واقعی نہیں سوچا تھا۔
”طلاق چاہتی ہو؟” اس کی خاموشی نہ ٹوٹنے پر کرم علی نے اس کی مشکل جیسے آسان کرتے ہوئے حل پیش کیا۔
”ہاں۔”
”ٹھیک ہے، تم پاکستان چلی جاؤ۔ میں وہیں پر تمہیں طلاق کے کاغذات بھجوا دیتا ہوں۔” کرم علی نے کہا۔
”میں پاکستان نہیں جاؤں گی۔ ابا مجھے مار دے گا۔” زری یک دم خوف زدہ ہو گئی۔
”تم اپنے گھر مت جانا۔ پہلے کی طرح جمال کے پاس ہی جانا۔” کرم علی نے طنز نہیں کیا تھا لیکن زری کو طنز ہی لگا۔
”جمال کے پاس کیسے جا کر رہوں۔ اس کا گھر ہمارے پرانے محلے میں ہے۔ وہ کوئی کام نہیں کرتا، مجھے کیسے رکھے گا اور وہ ابا اتنا موقع تھوڑی دے گا مجھے کہ میں اس کے ساتھ جا کر رہ سکوں۔ میں پاکستان نہیں جاؤں گی۔” زری نے جیسے اعلان کیا۔
”تو یہاں اکیلے کیسے رہو گی؟”
”میں جمال کو یہاں بلوانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اس نے ایجنٹ کو پیسے دیے تھے کینیڈا آنے کے لیے لیکن فراڈ ہو گیا۔ وہ کہہ رہا تھا وہ اب سیدھا ایمبسی ہی اپلائی کرے گا اسے ویزا مل جائے گا تو پھر وہ یہاں آجائے گااور ہم شادی کر لیں گے۔” اس کے پاس حل تھا لیکن وہ پھر بھی پریشان نظر آرہی تھی۔
”اور یہ ایجنٹ کے لیے تم ہی نے اسے پیسے بھجوائے ہوں گے؟” وہ کرم علی کی بات پر کچھ نہیں بولی۔
”اور اگر جمال کو ویزا نہ ملا تو؟ اس کے بعد تم یہاں کیا کرو گی؟”
وہ اس کی بات پر کچھ اور پریشان نظر آنے لگی تھی۔
”بہتر ہے تم اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاؤ۔ کم از کم اس طرح تم جمال سے شادی کر سکو گی۔”
”نہیں، مجھے پاکستان نہیں جانا ۔ میں مر جاؤں گی لیکن پاکستان نہیں جاؤں گی۔”
”زری نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ کرم علی اسے دیکھتا رہا، وہ اسے وہاں رکھنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ وہ اگر وہاں کسی کورٹ میں اس کے خلاف کیس دائر کر دیتی تو کرم علی کے لیے اچھی خاصی مصیبت کھڑی کر سکتی تھی اور زری سے وہ اب کچھ بھی توقع کر سکتا تھا۔
”میں تمہارے والدین کو یہاں بلوا کر انہیں سمجھا دیتا ہوں۔ وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔ میں ان سے کہہ کر تمہاری شادی جمال سے کروا دیتا ہوں۔” کرم علی نے جیسے راستہ ڈھونڈا تھا۔
زری نے دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیے۔
”آپ ان کی بجائے جمال کو یہاں بلوا کر میری شادی اس سے کر دیں۔ میں ساری عمر آپ کی احسان مند رہوں گی۔”
٭٭٭
رات کے چاربجے کا وقت تھا، جب زینی سرہانے بجتے ہوئے انٹر کام کی آواز پر بیدار ہوئی تھی۔ دوسری طرف سلطان تھا۔
”غضب ہو گیا پری جی؟”
”کیا ہوا؟” زینی نے اپنی جماہی روکتے ہوئے کہا۔
”تبریز پاشا کا ہارٹ فیل ہو گیا۔” وہ سنتی رہی۔ ”رات کسی وقت پاشا اسٹوڈیوز کے ایڈیٹنگ روم میں آگ لگ گئی۔ آپ کی آنے والی فلم ”بہاروں کے سنگ” کے تینوں پرنٹ جل گئے۔ آگ پر ابھی تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ پاشا کا کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔ اس کی باڈی ابھی ہاسپٹل میں پڑی ہے۔ پوری فلم انڈسٹری میں کہرام مچا ہواہے۔ سب پاشا کے گھر پہنچ رہے ہیں۔ میں نے ڈرائیور کو کہا ہے گاڑی نکالنے کا۔ آپ بھی تب تک تیار ہو جائیں۔”
سلطان نے کہا۔
”سلطان! میں شدید شاک کے عالم میں ہوں۔ میرا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے اور میں فی الحال کسی سے نہیں مل سکتی۔ سمجھ گئے۔”
زینی نے اس سے اطمینان سے کہا اور ریسیور رکھ کر بیڈ سائیڈ ٹیبل لیمپ آف کرتے ہوئے دوبارہ لیٹ گئی۔ وہ نیند کی گولی کھا کر لیٹی تھی اور ابھی بھی غنودگی کی حالت میں تھی۔ دوبارہ گہری نیند میں جانے میں اسے دیر نہیں لگی تھی۔
دوسری طرف سلطان ابھی تک انٹرکام کا ریسیور ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا۔
وہ پری زاد کو کتنا جانتا تھا؟
وہ اپنے آپ سے پھر پوچھ رہا تھا۔
٭٭٭
”بہاروں کے سنگ” اگر ریلیز ہو جاتی تو میرے کیرئیر کی سب سے اچھی فلم ہوتی میں نے اس سے زیادہ اچھی ایکٹنگ کسی اور فلم میں نہیں کی۔”
پری زاد تبریز پاشا کی رسم قل کے موقع پر جرنلسٹس کے سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس سیاہ گلاسز لگائے ہوئے تھی۔ تبریز پاشا کی موت کے بعد آج پہلی بار وہ منظر عام پر آئی تھی۔
”میرے لیے تبریز پاشا صاحب کی موت ایک ذاتی نقصان ہے… انہوں نے مجھے میرا پہلا بریک دیا تھا… اور میرے لیے ان کی حیثیت ایک گاڈ فادر سے کم نہیں ہے۔ یہ یقینا پاشا فیملی کا نہیں پاکستان فلم انڈسٹری کا نقصان ہے۔۔۔۔” وہ اب تبریز پاشا کے حوالے سے اپنے تاثرات بتا رہی تھی۔
”پولیس کو اپنی ابتدائی تفتیش میں یہ ثبوت ملے ہیں کہ ایڈیٹنگ روم میں آگ کسی حادثے کا نتیجہ نہیں تھی۔ بلکہ جان بوجھ کر لگائی گئی ہے… اس حادثے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے؟” ایک جرنلسٹ نے سوال کیا۔”یہ یقینا حادثہ نہیں ہے… فلم انڈسٹری کے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی یقین ہے کہ کسی نے جان بوجھ کر تبریز پاشا صاحب کو نقصان پہنچانے کے لیے بڑی پلاننگ سے یہ سب کچھ کیا اور صرف تبریز پاشا ہی کو نقصان پہنچانا مقصود نہیں تھا… یہ ایک ہیروئن کے طور پر مجھے بھی نقصان پہنچانے کی کوشش ہے… کیونکہ یہ میرے کیرئیر کی سب سے بڑی فلم تھی اور اس فلم کا اس طرح ضائع ہونا کیا معنی رکھتا ہے یہ آپ سب آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔” پری زاد نے بے حد اطمینان اور سنجیدگی سے کہا۔
”آپ کو کسی دوسری ہیروئن پر شک ہے؟” ایک جرنلسٹ نے دلچسپی سے کہا۔
”یہ کام میرا نہیں پولیس کا ہے۔” پری زاد نے بے حد متانت سے کہا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔
رپورٹرز نے اس سے کچھ مزید سوال کرنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہے۔ سلطان نے مداخلت کر کے انہیں روک دیا تھا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی پری زاد نے ایک سگریٹ سلگا لیا۔ گاڑی کے چلتے ہی اس نے اپنی آنکھوں پر لگے ہوئے گلاسز اتار دیے اب ان کی ضرورت نہیں تھی۔ سلطان نے ایک بار پھر غور سے پری زاد کا چہرہ دیکھا اسے پری زاد کا اطمینان دہلا رہا تھا… وہ پچھلے تین دن سے اسے اسی حالت میں دیکھ رہا تھا… وہ جی بھر کر سو رہی تھی… اور جی بھر کر کھا رہی تھی… تبریز پاشا کی موت کی وجہ سے ایک ہفتے کے لیے تمام سٹوڈیو بند ہو گئے تھے اور تمام شوٹنگز رک گئی تھیں اور پری زاد کو جیسے اطمینان اور سکون سے گھر بیٹھنے کا موقع مل گیا تھا۔ سلطان کی زبان پر بار بار اس کے لیے سوال آکر رک جاتا تھا… کیا اس سب میں پری زاد کا ہاتھ تھا؟… مگر یہ ناممکن تھا پری زاد اتنی طاقتور نہیں تھی کہ وہ تبریز پاشا کے ایڈیٹنگ روم میں آگ لگوانے کی طاقت رکھتی… اور پھر ابھی فی الحال پچھلے ایک سال سے تو اس کے اور تبریز پاشا کے تعلقات بہت اچھے ہو گئے تھے… پھر وہ ایسا کیوں کرتی؟… لیکن پھر اس کا یہ رد عمل؟… انڈسٹری میں کوئی بھی ہیروئن تبریز پاشا سے بڑی سے بڑی مخالفت رکھنے کے باوجود پاشا پروڈکشنز کے اتنے بڑے نقصان اور تبریز پاشا کی موت پر کسی نہ کسی حد تک اپ سیٹ ضرور ہوتی۔
انڈسٹری کا 25 فی صد بزنس پاشا پروڈکشنز کی مرہون منت تھا… اور اب… ان کی تاریخ کے سب سے مہنگے پروجیکٹ کا راکھ میں تبدیل ہونا، ایڈیٹنگ روم کے ساتھ ساتھ سٹوڈیو کے ایک بڑے حصے کی آتشزدگی میں تباہی اور سب سے بڑھ کر تبریز پاشا کی یوں اچانک موت… صرف پاشا پروڈکشنز نہیں پوری فلم انڈسٹری ہل کر رہ گئی تھی… فلم ریلیز ہو کر فلاپ ہوتی پھر بھی کسی نہ کسی حد تک کچھ نہ کچھ بزنس کرتی… تبریز پاشا ان بڑی رقوم کا کچھ نہ کچھ حصہ واپس ریٹرن کرنے کے قابل ہوتا جو اس نے ا پنے سینماز کی Renovation اور فلم کی ایڈیٹنگ کے لیے Latest Machinery کی امپورٹ پر بینکوں سے لی تھی… لیکن اس آتشزدگی نے سب کچھ راکھ کر کے ایک بہت بڑے ڈھیر میں تبدیل کر کے رکھ دیا تھا… فلم فلاپ ہونے پر تبریز پاشا کو اتنا صدمہ کبھی نہ ہوتا جتنا اس فلم کے پرنٹس کے اس طرح جل جانے پر ہوا تھا… تبریز پاشا کے دونوں بیٹے بھی اسی لائن میں تھے لیکن تبریز پاشا اور ان کے اثر و رسوخ میں زمین آسمان کا فرق تھا… اور انہیں اپنے سامنے ترکے میں کروڑوں کی جائیداد کے ساتھ کروڑوں کے قرضے بھی مل گئے تھے… یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اگلے چند سال پاشا پروڈکشنز کسی فلم کا سوچتا بھی… اور پوری فلم انڈسٹری میں اسی ایک چیز سے کھلبلی مچ گئی تھی… ہر ایک اس متوقع نقصان کا سوچ کر فکر مند ہو رہا تھا جو پاشا پروڈکشنز کی فلموں کے نہ بننے کی وجہ سے ہر ایک کو ذاتی طور پر ہو سکتا تھا اور ایسے حالات میں اگر پری زاد کا اطمینان سلطان کو پریشان کر رہا تھا تو وہ یوں پریشان ہونے میں حق بجانب تھا۔