وہ کینیڈا کے ممتاز ترین بزنس مین میں سے ایک تھا جو دن میں درجنوں گھاگ آدمیوں کے ساتھ بزنس ڈیلز کرتا تھا جس کے ساتھ بزنس ڈیلز سے پہلے بڑے بڑے لوگ مکمل تیاری کے ساتھ آتے تھے کیونکہ کرم علی باریک سے باریک نقص کو پکڑنے کا ماہر تھا۔ اس کو بے وقوف بنانا بے حد مشکل کام تھا اور یہاں بیس سال کی ایک لڑکی نے چٹکی بجاتے میں اس کی آنکھوں میں دھول جھونک دی تھی یا شاید اس نے اسے جان بوجھ کر دھول جھونکنے دی تھی۔
اسے کبھی زری پر کوئی شک نہیں ہوا تھا اور یہ اس کی پہلی غلطی تھی۔ اس نے زری کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی، یہ اس کی دوسری غلطی تھی۔ اس نے زری پر اعتبار کیا، یہ اس کی تیسری غلطی تھی۔ وہ جیسے غلطیوں کی ایک فہرست ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا۔
سب سے بڑی غلطی شاید اس کا زری سے شادی کرنا تھا اور اس کا احساس کرم علی کو اپنی شادی کے دن ہی ہو گیا تھا۔ لیکن اس mismatched رشتے کو نبھانے کے لیے کرنے والی کوششیں جو ”رنگ” لائی تھیں، وہ آج اس کے سامنے تھا۔
سوال اب صرف یہ تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے زری کو ”بیوی” سمجھ کر جو درجہ دیا تھا، اس نے اسے وہ دن دکھایا تھا۔ کرم علی کو اب زری کو اس رشتے کی بریکٹ سے باہر رکھ کر ٹریٹ کرنا تھا۔ ایک عام عورت کی طرح، ایسی عورت کی طرح جس کے لالچ اور ہوس سے اس نے ہمیشہ گھن کھائی تھی اور جیسی عورت کو وہ کبھی آنکھیں کھول کر اپنی بیوی جیسے رشتے کے بندھن میں تو نہ باندھتا۔
ہاتھ میں پکڑا فون لے کراس نے وہیں بیٹھے بیٹھے سی ایل آئی پر ان کالز کو دیکھنا شروع کر دیا تھا جو زری کرتی رہی تھی۔ وہ صرف اس کے گھر کے نمبر نہیں تھے کچھ اور نمبر بھی تھے لیکن صرف ایک ایسا نمبر تھا جو سیل فون کا تھا اور جس پر بار بار لمبی کالز کی گئی تھیں۔
چند لمحے کرم علی اس نمبر کو دیکھتا رہا پھر پتا نہیں کیا سوچ کر اس نے اس نمبر پر کال ملا دی۔ ایک ہی گھنٹی کے بعد دوسری طرف سے جمال نے کال ریسیور کر لی تھی۔
”ہیلو… ہیلو… ہیلو زری آواز نہیں آرہی ہے کیا میری…؟ ہیلو… ہیلو۔۔۔۔”
جمال مسلسل بولتا رہا، کرم علی نے فون بند کر دیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک زہر خند مسکراہٹ تھی۔ اپنا سیل فون اٹھا کر اس بار اس نے اس پر جمال کا نمبر ٹائپ کیا اوردوبارہ اسے کال کرنے لگا۔ اس بار فون چند گھنٹیوں کے بعد اٹھایا گیا تھا۔ پہلے کے برعکس آواز میں بے تکلفی کا عنصر غائب تھا اور اب لہجہ بے حد محتاط تھا۔
”ہیلو۔”
”ہیلو، میں عزیز صاحب سے بات کر سکتاہوں۔” کرم علی نے بے حد شستہ انداز میں کہا۔
”کون عزیز صاحب؟” دوسری طرف سے جمال نے الجھ کر کہا۔
”یہ نمبر عزیز صاحب کا نہیں۔”
”نہیں، یہ تو میرا ہے۔” جمال نے بے ساختہ کہا۔
”اور آپ کا نام کیا ہے؟” کرم علی نے پوچھا۔
”جمال۔” جمال نے روانی سے کہہ کر اپنی زبان دانتوں میں دبا لی۔ کال ڈس کنیکٹ ہو گئی تھی۔
کرم علی نے فون بیڈ سائیڈ ٹیبل پررکھ دیا اور اٹھ کر باہر نکل آیا۔ ڈنر ٹیبل تقریباً تیار تھی اور زری باقی لوگوں کی طرح زرق برق کپڑے پہنے کرم علی کی بہن کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھی۔ وہ وہاں موجود عورتوں میں سب سے خوبصورت نظر آرہی تھی اور کسی مرد کیا عورت کے لیے بھی اس سے نظریں ہٹانا مشکل ہو جاتا۔ یہ سب نہ ہوا ہوتا توکرم علی کیا کوئی بھی مرد ایسی بیوی پا کر اپنی قسمت پر نازاں ہوتا لیکن کرم علی اس وقت اسے دیکھتے ہوئے صرف یہ سوچنے میں مصروف تھا کہ زری نے یہ سب کچھ کیوں کیا ہے۔ پیسے کا لالچ بہت سی عورتوں میں ہو سکتا ہے مگر اپنے شوہر سے بے وفائی کرنے کی ہمت بہت کم عورتوں میں ہوتی ہے اور بدقسمتی سے کرم علی کا واسطہ ایسی ہی ایک عورت سے پڑ گیا تھا۔
رات کو ایک بجے کے قریب سب لوگ چلے گئے تھے۔ کرم علی ان کو رخصت کرنے کے بعد دروازے لاک اور کھڑکیاں بند کرنے کے بعد جب تک اپنے کمرے میں آیا، زری اپنا لباس تبدیل کر چکی تھی اور سونے کی تیاری میں مصروف تھی۔
”آپ کو کیا ہوا؟ صبح تو بہت اچھا موڈ تھا پھر ابھی کیا ہو گیا تھا آپ کو کسی سے بات ہی نہیں کر رہے تھے؟” زری نے اسے دیکھتے ہی قدرے ناراضی کے انداز میں اس سے کہا۔
”ہمیں کچھ باتیں کرنی ہیں زری! وہاں صوفے پر چلتے ہیں۔” کرم علی نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اس سے کہا۔ زری بیڈ پر اٹھ کر بیٹھ گئی۔ کرم علی کے لہجے میں ایسا کچھ تھا جس نے اسے چونکا دیا تھا۔
”کیا باتیں کرنی ہیں آپ کو؟” وہ کچھ پریشان ہو کر کرم علی کے پاس آئی۔ اس نے اپنے بیڈ سے صوفے تک آنے کے وقت میں پورے دن کی سرگرمیوں اور باتوں کو اپنے ذہن میں دہرایا تھا۔ کہیں کچھ ایسا نظر نہیں آیا جس لیے کرم علی اسے یوں رات کوبٹھا کر بات کرتا۔
”بیٹھو۔” کرم علی نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ زری کچھ الجھی ہوئی اس کے پاس بیٹھ گئی۔
”پاکستان اپنے گھر والوں کے پاس کس تاریخ کو گئی تھیں تم۔”
زری کے پیروں کے نیچے سے محاورتاً نہیں ، حقیقتاً زمین نکل گئی تھی۔ یہ آخری بات تھی جو کرم علی آج کی رات اس سے پوچھ سکتا تھا۔
اس کے ہاتھ پاؤں کپکپانے لگے۔ کرم علی ایک ٹک اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہا تھا۔ نظریں چرانے کا مطلب ہوتا وہ جھوٹی تھی اور زری نے ساری زندگی ایسی سچویشنز میں جھوٹ ہی بولا تھا۔
”میں آپ کی بات نہیں سمجھی۔” زری کی آواز میں بھی کپکپاہٹ تھی۔
”وہ میں سمجھتا دیتا ہوں۔ تم یہاں سے 24 اپریل کو پاکستان گئیں لیکن تمہارے والد صاحب نے تمہیں 21 مئی کو ایر پورٹ پر ریسیو کیا۔ تم نے مجھے کہا کہ تم بھور بن گھر والوں کے ساتھ گئی تھیں۔ تمہارے والد صاحب نے کہا کہ وہ تمہارے ساتھ کہیں نہیں گئے۔ تم نے کہا تم اپنے رشتہ داروں سے ملنے کراچی اور اسلام آباد گئیں۔ تمہارے والد نے کہا کہ ان دونوں شہروں میں ان کا کوئی رشتہ دار نہیں ہے۔ اب بات سمجھ میں آگئی کہ میں کیا پوچھ رہا ہوں یا کچھ وضاحت کی ضرورت ہے؟”
وہ دم سادھے کرم علی کو دیکھتی رہی۔ شادی کے بعد پہلی بار آج کرم علی نے زری کی آنکھوں اورچہرے پر خوف دیکھا تھا۔ اسے اس پر ترس آیا۔ زری جھوٹ گھڑنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ اس کا بھانڈا چورا ہے میں پھوٹا تھا اور اب وہ ۔۔۔۔”
اس نے فی الفو رجھوٹ گھڑ لیا۔
”میں… میں اپنی کچھ دوستوں کے ساتھ بھور بن گئی تھی۔ آپ سے جھوٹ اس لیے بولا کیونکہ آپ کبھی اجازت نہ دیتے۔”
زری نے بے حد معصوم چہرے کے ساتھ آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور جھوٹ بولتی کرم علی نے کہا۔
”جمال کون ہے؟” اس نے جتنے جھوٹ گھڑے تھے، پل بھر میں غائب ہو گئے تھے۔ چار ہفتے غائب رہنے کا اسے اس کے باپ سے پتہ چل گیا تھا مگر جمال کا پتہ کس سے چلا۔ اسے تو اس کا باپ بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ اس بار جھوٹ بول کر نہیں نکل سکتی تھی لیکن اس نے پھر بھی کوشش کی۔
”کون جمال؟” اس نے اپنے حلق سے تھوک نگلتے ہوئے کہا۔
”بات کروا دوں اس سے تا کہ تم پہچان لو یا پھر تمہارے گھر والوں سے پوچھ لوں کہ جمال کون ہے؟”
کرم علی اس وقت کسی لحاظ کے موڈ میں نہیں تھا اور زری کی جان پر بنی ہوئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر کچھ کہنا چاہا۔ کرم علی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔
”میں جانتا ہوں تم بہت اچھا جھوٹ بولتی ہو لیکن مجھ سے اس وقت صرف سچ بولنا۔ سچ بولنے کا تمہیں جتنا نقصان ہو گا، جھوٹ کا اس سے زیادہ ہو گا اس لیے اس وقت کوئی جھوٹ نہیں۔”
زری بہت دیر چپ بیٹھی جیسے حساب کتاب کرتی رہی۔ ہر تخمینے، ہر اندازے نے اس سے یہی کہا تھا کہ اسے اس وقت سچ ہی بولنا چاہیے۔
”میں جمال سے شادی کرنا چاہتی تھی، میرے ماں باپ نے زبردستی آپ سے کرا دی۔” اس نے سر جھکا کر کہا۔
”کتنی بار تم سے پوچھا تھا میں نے کہ یہ شادی تمہاری مرضی سے ہوئی ہے یانہیں اور ہر بار تم نے یہی کہا کہ یہ شادی تمہاری مرضی سے ہوئی ہے۔” کرم علی جیسے پھٹ پڑا تھا۔
”تو اور کیا کہتی میں، اس وقت شادی ہو چکی تھی میری۔ آپ کو بتا دیتی کہ زبردستی ہوئی ہے تو آپ کیا کرتے۔”
”میں تمہیں چھوڑ دیتا۔ یہاں کبھی نہ لے کر آتا۔”
”آپ چھوڑ دیتے تو ابا مجھے جان سے مار دیتا۔”
”اس لیے تم نے بہتر سمجھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر میری آنکھوں میں دھول جھونکتی رہو۔ میرے پیسے پر ایک دوسرے آدمی کے ساتھ عیاشی کرتی رہو۔” اس نے تلخی سے کہا۔
”دوسرا آدمی آپ ہیں میرے لیے۔” زری نے یک دم اس کی بات کاٹ دی۔ ”جمال نہیں۔”
”اور اپنے ہاتھ میں ہوتا تو اسی سے کرتی۔”
”اپنے ہاتھ کی بات مت کرو، تم نے ماں باپ کے مجبور کرنے پر مجھ سے شادی نہیں کی۔ میرا پیسہ دیکھ کر مجھ سے شادی کی۔ سودا کیا تم نے۔”
” آپ نے بھی تو یہی کیا تھا۔ آپ نے بھی میری خوبصورتی، میری جوانی دیکھ کر شادی کی تھی۔ آپ نے کیوں نہیں اپنی عمر کی اپنی شکل و صورت والی عورت سے شادی کی۔ آپ نے کیوں احساس نہیں کیا کہ آپ کے ساتھ میں سجتی ہوں یا نہیں۔”
کرم علی کچھ بول نہیں سکا۔ زری بے حد تلخی سے بول رہی تھی۔
”مرد کو شادی کرتے ہوئے اپنی عمر اور اپنی شکل نظر کیوں نہیں آتی۔ اس لیے نا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی جیب میں پیسے ہیں۔ سودا تو پھر وہ پہلے ہی خود کر دیتا ہے۔ عورت کی عمر اور خوبصورتی کا اپنے پیسے سے… پھر سودے میں گھاٹا ہوتا ہے تو روتا کیوں ہے؟”
وہ اس وقت کم عقل جاہل زری نہیں لگ رہی تھی جسے وہ جانتا تھا۔ ”اگر تم اسے سودا سمجھتی ہو تو تمہیں یہ بھی پتا ہونا چاہیے کہ سودا کرنے کے بعداس میں دھوکا نہیں ہوتا۔”
”وہ تب ہوتا ہے جب سودا اپنی مرضی سے ہو۔ چار آیتیں سن کر کاغذ پر کیے جانے والے تین دستخط مجھے آپ کی وفادار نہیں بنا سکتے۔ اگر میرا دل نہیں چاہتا تو۔۔۔۔”
”بہت ساری عورتیں کسی اور کوپسند کرتے کرتے کسی اور کی بیوی بن جاتی ہیں۔ وہ وفاداری کرتی ہیں زری! ان کا دل چاہے نہ چاہے، یہ خاندان کی بات ہوتی ہے۔”
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے خاندان کا طعنہ دینے پر مجبور ہو گیا تھا۔
”آپ سمجھتے ہیں، میں نے آپ سے وفاداری کی کوشش نہیں کی؟ میں نے جمال کو اپنے دل سے نکال کر آپ کا گھر بسانے کی کوشش نہیں کی؟” وہ اب آنسوؤں کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
”بہت بار کی لیکن مجھے برص زدہ لوگ اچھے نہیں لگتے۔ کبھی اچھے نہیں لگے۔ آپ کو اندازہ نہیں ہے ہر بار آپ کا برص زدہ جسم دیکھ کر مجھے اتنی کراہیت آتی ہے کہ میرے دل سے آپ کے لیے ہر وہ جذبہ نکل جاتا ہے جسے میں نے سر توڑ کوشش کر کے پیدا کیا ہوتا ہے۔ مجھے ہر روز اپنے آپ سے یہ جنگ لڑنی پڑتی تھی کہ آپ میرے شوہر ہیں اور مجھے آپ سے محبت کی کوشش کرنی چاہیے۔