زینی کے جیسے کاٹو تولہو نہیں تھا۔ وہ زندگی میں بہت کم اس طرح گونگی ہوئی تھی۔ وہ پانچ سال چھوٹا تھا اس سے اور پچھلے چندسالوں میں اس کا کبھی اس طرح کا آمنا سامنا اس سے نہیں ہوا تھا کہ وہ اس کے منہ پر اسے یہ سب کچھ کہتا۔ آج وہ سامنا ہو گیا تھا اور کیا وقت تھا ”سامنے” کا۔
‘آپ نے ہمارا گھر، ہماری زندگی برباد کر دی۔” وہ تلخی سے کہہ رہا تھا۔
”میں تو دوبارہ آپ کی شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔ آپ سمجھ لیں کہ آپ کا کوئی بھائی ہے ہی نہیں، جیسے میں نے سمجھ لیا ہے کہ میری صرف دو بہنیں ہیں۔”
زینی نے فون بند کر دیا تھا۔ مزید سننے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔
دنیا کی کہی ہوئی بات اور اپنوں کی کہی ہوئی بات میں فر ق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی کہی ہوئی بات پہلے تکلیف دیتی ہے پھر اس کی عادت ہو جاتی ہے۔ اپنوں کی کہی ہوئی باتوں کی کبھی عادت نہیں ہوتی۔ ہر بار وہ سننے پر تکلیف پہلے سے زیادہ بڑھتی ہے۔
اس نے سلمان سے ہونے والی گفتگو کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ اسے یقین تھا۔ دوسرے پہلے ہی جانتے تھے کہ سلمان اس سے مل کر کیوں نہیں گیا۔ اس کے اندر زینی کے خلاف جونفرت اور زہر تھا۔ وہ اس نے اگر اس سے نہیں چھپایا تو کسی دوسرے سے کیا چھپایا ہو گا۔
کئی ہفتے وہ ذہنی طور پر ڈسٹرب رہی تھی۔ سلمان کی باتیں اس کے ذہن سے نکل ہی نہیں رہی تھیں اور جب بالآخر وہ اس قابل ہوئی کہ وہ ان باتوں کو ذہن سے نکال سکے تو اب ربیعہ کی باتوں کی باز گشت اسے کانٹوں پر سلانے کے لیے آگئی تھی۔
وہ دنیا کے لیے پری زاد تھی انڈسٹری کی طاقت ور ترین ہیروئن ایک دنیا جس پر مرتی تھی، جس کی کامیابی پر رشک کرتی تھی۔ جس کی ابرو کے اشاروں پر بہت سے لوگوں کی قسمتوں کافیصلہ ہوتا تھا، جو انڈسٹری میں ہر حساب صاف کرنے میں یقین رکھتی تھی اور صحیح وقت پر پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لینے میں مہارت رکھتی تھی۔
پری زاد کی لغت میں انڈسٹری کے کسی فرد کے لیے معافی کے لفظ کا اندراج نہیں تھا۔ لیکن وہ اپنی ذاتی زندگی میں زینی تھی۔ بد قسمت زینی جو اپنے بہن بھائیوں پر جان دینے میں یقین رکھتی تھی اور ان کی نفرت کواپنے لیے محبت میں بدلنے پر قادر نہیں تھی۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود وہ ان کو دنیا کی ہر تنگی، ہر تکلیف سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی، یہ اندازہ کیے بغیر کہ وہ انجانے میں ان کے رستے میں کانٹوں کا جال بچھا رہی تھی۔
٭٭٭
”میں ایک دو ماہ بزی ہوں۔ مصروفیات کم ہوتی ہیں توپھر پاکستان کا چکر لگا آتے ہیں۔”
زری کافی دنوں سے کرم علی سے پاکستان چلنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔ یہ بھوت بھی بیٹھے بٹھائے اس کے سر پر سوار ہو ا تھا ورنہ وہ جب سے یہاں آئی تھی اس نے پاکستان جانے کا نام نہیں لیا تھا لیکن اب اچانک اس نے اصرار کرنا شروع کر دیا تھا۔
کرم علی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اسے واقعی سال ہونے والا تھا۔ وہ نہ بھی کہتی تو وہ خود اسے پاکستان لے جانا چاہتا تھا۔ لیکن اس کے اپنے کچھ ایسے کام آگئے تھے کہ وہ فوری طور پر پاکستان جانے کے لیے وقت نہیں نکال سکتا تھا اور یہی بات اس نے زری سے کہی تھی لیکن زری اس کی بات پر یک دم جیسے چپ سی ہو کر رہ گئی تھی۔
”کیا ہوا؟” کرم علی کو لگا وہ خفا ہو گئی ہے
”آپ مصروف ہیں تو آپ نہ جائیں۔ آپ ویسے بھی وہاں جا کر کیا کریں گے؟”
”سب لوگوں سے ملوں گا۔ رشتہ داروں وغیرہ سے۔ کہیں سیر و تفریح کے لیے چلے جائیں گے۔” کرم علی نے کہا
”نہیں۔ کتنی دیر رشتہ داروں سے مل سکتے ہیں یا سیرو تفریح کر سکتے ہیں۔ آپ اکیلے رہ کر تنگ آجائیں گے۔”
”اکیلا کیوں ہوں گا؟ آپ ہوں گی نا میرے ساتھ۔”
”میں آپ کے ساتھ ہوں گی یا اپنے ماں باپ کے ساتھ؟ مجھے اپنے اتنے ہزاروں کام ہوں گے۔ آپ کا دم چھلا بن کر تو نہیں رہ سکتی میں۔ آپ مجھے بجھوا دیں۔ آپ بعد میں کبھی سب سے ملنے چلے جائیں جب آپ کی امی جائیں۔”
زری نے جیسے مسئلہ ہی ختم کر دیا تھا۔
وہ اس کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔ اکیلے جانا چاہتی تھی اور نہ چاہتے ہوئے بھی کرم علی نے آمادگی ظاہر کر دی تھی۔ پاکستان میں اس کے اب کوئی نئے رشتہ دار تھے تو وہ اس کا سسرال تھا اور اگر اس کی بیوی کو ہی اس میں دلچسپی نہیں تھی کہ وہ ان سے ملتا یا ان کے ساتھ وقت گزارتا تو اس کے پاس بھی اتنا فالتو وقت نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو کسی کے سر پر زبردستی مسلط کرتا۔
اس نے اس کے پاکستان جانے کا انتظام کر دیا تھا اور زری ان دنوں اس کے لیے سراپا شہد بنی ہوئی تھی۔ کرم علی بعض دفعہ سوچتا کہ اگرواقعی وہ ایسی ہوتی تووہ اپنے آپ کو دنیا کو خوش قسمت ترین انسان سمجھتا لیکن وہ جانتا تھا۔ یہ مٹھاس اور نرمی صرف پاکستان جانے تک رہے گی۔ واپس آنے پر زری کے لہجے میں اس کے لیے کیا ہو گا۔ یہ اس وقت زری کی کوئی ضرورت طے کرے گی۔
وہ تقریبا ڈیڑھ ماہ کے لیے پاکستان گئی تھی۔ اور کرم علی نے بڑی شدت سے گھر میں اس کی کمی کو محسوس کیا تھا۔ اچھی یا بری وہ جیسی بھی تھی لیکن وہ اس گھر میں اسے کمپنی دینے والا واحد وجود تھا جس سے وہ کوئی بات کر سکتا تھا ورنہ وہ اس گھر میں واقعی سونے کے لیے آتا تھا۔ خوشگوار حیرت اسے اس بات پر ہوئی تھی کہ زری نے پاکستان پہنچنے پر تقریباً ہر روز بلاناغہ اسے فون کرنا اپنا معمول بنا لیا تھا اور ہر بارفون پر وہ کرم علی سے بڑے اچھے انداز میں عزت کے ساتھ بات کرتی۔ ابتدائی چند کالز کے بعد وہ اسے خود کال کرنا چاہتا تھا لیکن زری نے اسے منع کر دیا تھا۔
”میں خود ہی فون کر لیا کروں گی آپ کو… گھر پر تو آج کل ویسے بھی ہوتی نہیں ہوں میں۔ ابھی ہم سیر کے لیے مری آئے ہوئے ہیں سب گھر والے پھر بعد میں ایک دو اور شہروں میں بھی جاؤں گی۔ ابو کہہ رہے تھے، سارے رشتہ داروں سے مل جاؤں۔ سب پوچھتے ہیں، اس لیے آپ سے کہہ رہی ہوں کہ میں خود فون کر لیا کروں گی آپ کو۔ جب بھی مجھے فرصت ملے گی۔”
کرم علی کو اس کی بات نامناسب لگی تھی۔
ڈیڑھ ماہ تک زری نے جس باقاعدگی کے ساتھ کرم علی کو فون کیا تھا، اس نے کرم علی کو حیران کرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار حیرت سے بھی دو چار کیا تھا۔ یقینا وہ پاکستان جا کر اسے مس کر رہی تھی اور اس کا اظہار بھی کر رہی تھی۔
ڈیڑھ ماہ بعد اس کے واپس آنے سے پہلے کرم علی کو امید تھی کہ زری کے رویے میں بہت تبدیلی آچکی ہوں گی لیکن اس کے پاکستان سے واپس آنے کے بعد کرم علی کو شاک لگا تھا۔
زری کا رویہ بے حد عجیب و غریب ہو گیا تھا۔ وہ پاکستان سے واپسی کے اگلے کئی ہفتے گم صم رہی تھی۔ کرم علی کے ساتھ اس کا رویہ بھی درشت تھا۔ کرم علی نے کئی بار اسے اکیلے میں بیٹھ کر روتے بھی دیکھا۔ وہ یقینا اپنے گھر والوں سے مل کر آنے کے بعد انہیں بری طرح مس کر رہی تھی۔ کرم علی نے یہی سوچا تھا۔ اس نے زری کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اسے ہر تین ماہ بعد دو ہفتوں کے لیے پاکستان بھیجوا دیاکرے گا اور زری یک دم پر سکون اور مطمئن نظر آنے لگی تھی۔ پاکستان کی جانے والی فون کالز میں یک دم اضافہ ہو گیا تھا۔ پہلے زری کارڈ استعمال کیا کرتی تھی لیکن اب اس نے گھر کے نمبر سے کالز کرنا شروع کر دی تھیں۔ کرم علی کا فون کا بل پہلے سے دس گنا زیادہ آنے لگا تھا لیکن کرم علی نے اس کی پروا نہیں کی۔ چند ہزار ڈالرز خرچ کرنے سے وہ اس کی خوشی اور گھر کا سکون خرید سکتا تھا تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں تھا۔
زری اس کے تین ماہ کے بعد پاکستان بھیجنے کے وعدے کے بعد سے یک دم بہت بہتر ہو گئی تھی۔ اس نے پہلے کی طرح کرم علی کے ساتھ بحث کرنا اور الجھنا چھوڑ دیا تھا اور وہ حتی المقدور کرم علی کا خیال بھی رکھنے لگی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے کرم علی کی فیملی کے ساتھ بھی اپنا رویہ بہت بہتر کر لیا تھا۔ وہ ان کے گھر آنے پر پہلے کی طرح اپنے کمرے میں بند نہیں ہوتی تھی بلکہ اکثر ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی۔
کرم علی ان دنوں اس سے اتنا خوش تھا کہ وہ تین ماہ کے بجائے اسے دو ماہ بعد ہی پاکستان بھجوانے کا سوچنے لگا تھا اور بھجوا بھی دیتا۔ اگر اس سے پہلے زری اس کے سر پر ایک قیامت نہ توڑ دیتی ۔
اس عید کے موقع پر زری کے والد سے بات کرتے ہوئے اسے زری کے ایک ماہ تک پھر دو ہفتے کے لیے پاکستان آنے کی اطلاع دی۔ حمید الدین بہت خوش ہوا۔
”لیکن بیٹا! دو ہفتے کے بجائے اس بار مہینے کے لیے اسے بھیج دو۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر زری اتنی جلد آرہی ہے تو پھر گلشن کی شادی طے کر دیتے ہیں۔ پچھلی بار بھی صرف دو ہفتے کے لیے آئی۔ ہم لوگ چاہتے ہوئے بھی گلشن کی شادی نہیں کر سکے۔ انتظامات مکمل نہیں تھے۔ خود زری بھی کہہ رہی تھی کہ اگلی بار زیادہ وقت کے لیے آئے گی۔”
کرم علی کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوئی ہے۔
”انکل! دو نہیں، زری چھ ہفتے پاکستان رہ کر آئی ہے۔ آپ ان دنوں شادی طے کر دیتے تو میں بھی شرکت کے لیے آجاتا۔”
دوسری طرف حمید الدین بہت دیر تک کچھ نہیں بولا۔
”چھ ہفتے کہاں بیٹا! دو ہفتے کے لیے آ ئی تھی۔21 کو آئی اور 6 کو چلی گئی۔” حمید کو لگا جیسے کرم علی کو غلطی ہوئی تھی کرم علی کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔
”کس مہینے کی 21 کو؟” اس نے بمشکل خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
”مئی کی 21 کو آئی اور جون کی 6 کو واپس گئی۔”
کرم علی کا چہرہ سفید ہو گیا۔ ”وہ اوٹووا سے 24 کو گئی تھی، 24 اپریل کو۔”
”آپ لوگ مری وغیرہ گئے تھے اس کے ساتھ؟” اس نے اپنی آواز کی کپکپاہٹ پر قابو پانے کی کوشش کی۔ کسی نے جیسے اس کی پشت میں خنجر گھونپ دیا تھا۔
”نہیں بیٹا! کہاں۔ دو ہفتے میں بمشکل وہ بازار جا جا کر اپنی شاپنگ ہی مکمل کرتی رہی۔ وہ تو سارے رشتہ داروں سے بھی نہیں ملی”
حمید الدین بے حد سادہ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”آپ لوگ کراچی یا اسلام آباد کسی رشتہ دار سے ملنے نہیں گئے؟”
”کراچی یا اسلام آباد میں کون ہے ہمارا؟”
حمید الدین سوچ میں پڑ گیا تھا۔ کرم علی نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ واقعی عقل کا اندھا تھا۔ اس سے بڑھ کر بے وقوف اس وقت اس کرہ ارض پر کوئی دوسرا نہیں تھا۔
”آپ کی بیٹی یہاں سے 24 اپریل کو پاکستان گئی ہے۔ آپ کہتے ہیں وہ 21 مئی کو وہاں آئی ہے۔ چار ہفتے وہ کہاں رہی ہے، یہ آپ کو پتا ہونا چاہیے کیونکہ میں نے اسے آپ کے پاس بھیجاتھا۔ وہ کہتی ہے وہ آپ لوگوں کے ساتھ بھور بن پھرتی رہی۔ آپ کہتے ہیں آپ لوگ کہیں نہیں گئے۔ وہ کہتی ہے، وہ کراچی اور اسلام آباد اپنے رشتہ داروں سے ملنے گئی۔ آپ کہتے ہیں وہاں آپ کے کوئی رشتہ دار نہیں۔ اب اس نے یہ چار ہفتے کہاں گزارے ہیں، یہ میں آپ کو اس سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔”
کرم علی نے تلخی سے فون بند کر دیا۔ وہ جانتا تھا، حمید الدین کے گھر میں اس وقت ہنگامہ برپا ہو گیا ہو گا۔
وہ عید کا دن تھا اور کرم علی کی پوری فیملی ڈنر کے لیے وہاں اس کے گھر پر تھی۔ یہ اچھا تھا کہ وہ اپنے بیڈ روم سے فون پر اپنے سسرال میں بات کر رہا تھا۔
اگر اس وقت لاؤنج میں بیٹھا ہوتا تو…؟ اس کا جسم پوری طرح سرد پڑ گیا تھا۔