من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

”آپ کونظر کیوں نہیں آتا کہ یہ سب لوگ آپ کو استعمال کر رہے ہیں۔ بس آپ کے پیسے میں دلچسپی ہے ان سب کو اور آپ کو کیا لگتا ہے۔ یہ بھائی جان، بھائی جان کی گردان آپ کی محبت میں ہوتی ہے۔”
وہ اسے وہ آئینہ دکھانے کی کوشش کر رہی تھی جس میں کرم علی پہلے ہی سب کا عکس دیکھ چکا تھا… خود زری کا بھی اس کے باوجود زری کے منہ سے یہ سب سن کر اسے تکلیف ہو رہی تھی۔ کیا اس کے سارے خونی رشتے اتنے ہی کھوکھلے اور مادہ پرست تھے کہ زری جیسی کم عمر اور جاہل لڑکی بھی ایک سال سے کم عرصے میں ان کے بارے میں یہ سب کچھ کہہ رہی تھی۔
زری اس کی خاموشی سے شیر ہو گئی اسے لگا اس کی باتوں نے کرم علی کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وہ تقریباً ایک گھنٹے تک اسی طرح نان اسٹاپ دل کا غبار نکالتی رہی اور کرم علی بے حد خاموشی سے صوفے پر بیٹھا اس کی ساری باتیں سنتا رہا۔ وہ زندگی میں بہت بار ایسے ہی مرحلوں سے گزرا تھا جب اس نے خود کو اتنا ہی بے بس محسوس کیا تھا۔
جب اس کے دل کا غبار اچھی طرح نکل گیا تھا تو وہ وہاں سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔اسے کرم علی سے صرف اتنی ہی باتیں کرنا تھیں جو وہ کر چکی تھی۔
اس رات پہلی بار کرم علی نے زری کے والدین سے اس کے رویے کی شکایت کرنے کی سوچی۔ ان کی بیٹی اگر اس کے لیے مسئلے کھڑے کر رہی تھی تو انہیں یہ پتا ہونا چاہیے تھا۔ وہ خود ہر مسئلہ حل کرتے کرتے تھک گیا تھا۔
اگلے دن اس نے آفس سے زری کے گھر فون کر کے اس کے باپ سے بات کی اور وہ ہکا بکا رہ گیا تھا۔ اس نے کرم علی پر غیر عورتوں سے تعلقات سے لے کر اسے پیٹنے اور گھر میں قید کرنے تک ہر طرح کا الزام لگایا تھا یہ سب اسے زری بتاتی رہی تھی۔ کرم علی یہ سب کچھ سن کربولنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
”میں پھر بھی چاہتا ہوں بیٹا کہ تم دونوں خوش رہو۔ بیٹی کی شادی ایک بار کر دی ہے۔ بار بار تو نہیں کر سکتا۔ تم اسے خوش رکھو گے تو وہ تمہاری خدمت کرے گی۔ میری تو ہر بیٹی کی قسمت ہی خراب ہے۔”
زری کا باپ رو پڑا اور کرم علی اپنے سارے گلے شکوے بھلا کر اسے تسلیاں دینے اور وعدے کرنے لگا تھا۔ وہ اچھی طرح اندازہ کر سکتا تھا کہ حمید الدین کے اسٹیٹس کے آدمی کے لیے بیٹیوں کو بیاہ دینا کیا معنی رکھتا تھا۔ وہ اس کی مجبوری کو سمجھ سکتا تھا۔
گھر آکر اس نے زری سے حمید الدین سے ہونے والی گفتگو کو ذکر نہیں کیا۔ وہ کل کی طرح آج بھی کوئی پینڈورا باکس نہیں کھولنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ گفتگو پہلے ہی زری تک پہنچ چکی ہو گی۔ وہ اگلے چند دن بے حد خفا پھرتی رہی اور کرم علی اسے اس دن کے جھگڑے کانتیجہ سمجھتا رہا۔ لیکن ایک ہفتے کے بعد زری نے بالآخر زبان کھول کر کرم علی کو بتا دیا کہ اسے اپنے باپ کے ذریعے کرم علی کی ساری شکایات کا پتہ چل چکا ہے۔ کرم علی نے جواباً اس سے ان الزامات کے بارے میں پوچھا جو وہ اپنے گھر والوں سے اس کے بارے میں لگاتی رہی تھی۔ زری نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اعتراف کیا کہ وہ یہ سب کچھ کہتی رہی ہے کیونکہ اسے پہلے ہی یقین تھا کہ کرم علی کبھی نہ کبھی اس کے ماں باپ سے اس کی شکایت ضرور کرے گا۔
زری کے ساتھ سر کھپانا وقت ضائع کرنے کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ وہ ناقابل اصلاح تھی اور بدقسمتی سے اس کی بیوی بن چکی تھی۔
اور اس سے بڑی بد قسمتی یہ تھی کہ کرم علی فطرتاً نرم دل شخص تھا وہ اپنے سے وابستہ کسی بھی شخص کو تکلیف نہیں دے سکتا تھا۔ حقوق و فرائض کے بارے میں کسی اور کا حساب کتاب غلط ہو جاتا تو ہو جاتا لیکن کرم علی کا نہیں ہو سکتا تھا۔
٭٭٭




فاروق کے گھر والے واقعی شریف لوگ تھے اور لالچی بھی نہیں تھے۔ یہ ربیعہ کو شادی والے دن ہی اندازہ ہو گیا تھا… شادی اسی طرح سادگی سے ہوئی تھی جس طرح اس نے چاہی تھی اور وہ دل میں بے پناہ خدشات لے کر سسرال گئی تھی۔ ایک خالی ہاتھ گھر آنے والی بہو کو جتنے بھی خدشات ہوتے وہ کم تھے۔ لیکن اس گھر میں اس کا شاندار استقبال ہوا تھا۔ ایسا گرم جوش استقبال کہ ربیعہ کواپنی قسمت پر یقین نہیں ہوا تھا۔ سسرال میں کوئی ایسا نہیں تھا جس نے خالی ہاتھ آنے پر اسے طعنہ دیا ہو یا اسے جتایا ہو نہ ہی کسی نے زینی کے فلمی کیرئیر کے حوالے سے کوئی نامناسب بات کی تھی۔
ان میں سے جو بھی زینی کے بارے میں یا اس کے خاندان کے بارے میں بات کرتا، بڑی عزت اور چاہت سے کرتا اور ایسی ہی عزت اورچاہت ربیعہ کو فاروق سے ملی تھی۔ وہ واقعی خود اپنی قسمت پر رشک کرنے لگی تھی۔
ربیعہ نے ساری عمر کے لیے ان کی عزت اور اطاعت کرنے کی قسم کھائی تھی اور اس نے ایسا کر کے دکھایا تھا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی اس نے گھر کا کام کاج اپنے ساس سسر کے منع کرنے کے باوجود سنبھال لیا تھا۔ فاروق کے پی ایچ ڈی کے لیے باہر جانے میں ابھی چند ماہ لگنے تھے اور وہ اس وقت تک جی بھر کر اپنے سسرال والوں کی خدمت کرنا چاہتی تھی اور اس کی خدمت سب کی نظروں میں اس کا مقام اور بڑھا رہی تھی۔
اس نے اپنے میکے آنا تقریباً چھوڑ ہی دیا تھا جب آتی فاروق کے ساتھ آتی اور اسی کے ساتھ چلی جاتی اور جب کبھی اکیلی آتی تو جتنی دیر وہاں بیٹھتی، اس کی زبان پر اپنے سسرال والوں اور فاروق کی تعریفوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا تھا اور اس کی تعریفوں میں غرور کا رنگ بھی آجاتا اگر زینی وہاں موجود ہوتی… وہ جیسے اسے جتا دینا چاہتی تھی کہ اس نے اس کے سارے دعوے اور ساری فلاسفی کو زیرو کر دیا تھا۔
وہ جس چیز پر یقین رکھتی تھی، وہ سچ ثابت ہوئی تھی۔ زینی نے اس کی شادی کے بعد پہلے کی طرح کبھی اس سے بحث نہیں کی۔ وہ صرف مسکراتے ہوئے ربیعہ کی باتیں سنتی رہتی۔ ربیعہ جانتی تھی وہ مسکراہٹ نہیں شرمندگی تھی۔ وہ اب اس کے ساتھ بحث کر بھی کیسے سکتی تھی۔ اس نے کہا تھا۔ وہ اسکا احسان لیے بغیر اس گھر سے جائے گی تو وہ اس کا احسان لیے بغیر گئی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ وہ اس کے پیسے پر اپنے گھر کی بنیاد نہیں رکھے گی تو اس نے نہیں رکھی تھی۔ اسے یقین تھا، دل ہی دل میں زینی بہت نادم ہوتی ہو گی اس کی باتوں کو سن کر۔
شادی کے دوسرے ہی ماہ ربیعہ پریگننٹ ہو گئی تھی۔ وہ ان دنوں جیسے ساتویں آسمان پر تھی اور شاید ساتویں آسمان پر ہی رہتی اگر فاروق کے ساتھ پی ایچ ڈی کے لیے یوکے جانے سے پانچ دن پہلے وہ فاروق کے بریف کیس میں بیس لاکھ کا ایک چیک نہ دیکھ لیتی جس پر زینی کا نام تھا۔
آسمان سے گرنا اور آسمان سر پر گرنا کسے کہتے ہیں ربیعہ نے اس چیک کو اپنے کانپتے ہاتھوں میں لیتے ہوئے جانا۔ اس پر دو دن پہلے کی تاریخ تھی اور وہ ایک غیر ملکی بینک کا چیک تھا۔ کچھ دیر کے لیے ربیعہ نے اپنے آپ کو بہت سے فریب دینے کی کوشش کی تھی شاید اسے ضرورت پڑی ہو باہر جانے کے لیے اور اس نے پہلی بار زینی سے پیسے لیے ہوں، شاید اس نے زینی سے یہ رقم کچھ عرصہ کے لیے قرض کے طور پر لی ہو۔ شاید زینی نے یہ رقم کسی کام سے اسے دی ہو۔ مدد کے لیے نہیں کسی اور کام سے۔
پھر اس نے ہر فریب اور جواز کو ایک طرف رکھ کر فاروق کے بریف کیس کی تلاشی لی اور ہر فریب پل بھر میں ختم ہو گیا۔ اس کے بریف کیس سے دو اور ڈیپازٹ سلپس نکلی تھیں پرانی تاریخوں کی۔ ایک اس کی شادی سے ایک ہفتہ پہلے کی تھی۔ اور دوسری بیس لاکھ کی ڈپازٹ سلپ اس کی شادی والے دن کی تھی فاروق کو دوبارہ وہی اتنی رقم دے سکتا تھا جو تیسری بار بھی دے رہا تھا۔ زینی نے ثابت کر دیا تھا۔ وہ واقعی بازار میں کھڑے کسی بھی شخص کو خرید سکتی تھی اس کی اچھائی، شرافت اور نیکی کے ساتھ۔ اس نے فاروق اور اس کے گھر والوں کو ربیعہ کی خواہش پر خرید کر اسے تحفے میں دے دیا تھا۔ کب خریدا تھا؟ کیسے خریدا تھا؟ کیا قیمت طے ہوئی تھی؟ یہ سارے سوال اب بے معنی ہو کر رہ گئے تھے۔
فاروق اور اس کے سسرال والوں کے بت پل بھر میں کرچیوں میں ٹوٹ کر گرے تھے۔ وہ شریف لوگ تھے۔ اسے شبہ نہیں تھا لیکن اس شرافت میں کتنا حصہ اس کی بہن سے ملنے والے چیکس کا تھا، وہ نہیں جانتی تھی۔
وہ اس کی دل سے قدر کرتے تھے لیکن اس قدر و قیمت کا کتنا حصہ اس کی اپنی ذات اور خوبیوں کا تھا اور کتنا زینی کی طاقت کا، وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی پر بہت کچھ پل بھر میں ختم ہو گیا تھا۔ اس کی عزت نفس، خود اعتمادی، انا سب کچھ ایک پل میں مٹی کا ڈھیر ہو گیا تھا۔
اسے زینی سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ لیکن سوال اب اس نفرت کا نہیں تھا۔ سوال صرف اس بھرم کا تھا جو اس کے شوہر، سسرال والوں اور اس کے درمیان تھا۔ وہ ان چیکس کے بارے میں ان سے پوچھتی تو وہ بھرم، وہ فریب اٹھ جاتا جس نے نے ان سب کو ایک بندھن میں باندھا ہوا تھا۔
وہ فاروق کا گریبان پکڑ کر اس سے بات کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس کے شوہر کا گریبان تھا۔ زینی نے سب کچھ راز رکھا تھا۔ اس نے چیک اسی خاموشی کے ساتھ بریف کیس میں رکھتے ہوئے جیسے اس راز کو راز رہنے دیا۔
بعض دفعہ جان بوجھ کر اندھا ہو جانا بہتر ہوتا ہے۔ وہ بھی ہو گئی تھی۔ لیکن آج سے پہلے اس نے اپنے آپ کو اتنا بے مول نہیں پایا تھا۔ اسے بھی پیسے کے ترازو سے ہی تول کر اس کی قیمت لگائی گئی تھی اس کے وصف اور خوبیوں کا خریدار کوئی نہیں نکلاتھا۔
یو کے جانے سے پہلے پاکستان میں آخری چار دنوں میں اس نے اپنی سسرال میں کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اب اسے دل جیتنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کی بہن اس کے لیے ان کے دلوں کو پہلے ہی خرید چکی تھی۔ وہ اس کے تھے۔ وہ انہیں مٹھی میں رکھتی یا پیر کے نیچے سارا اختیار اس کا تھا۔
وہ آخری دن فاروق کے ساتھ اپنے گھر والوں سے ملنے آئی تھی اور زینی سے بھی ملی تھی اور اس ملاقات کے دوران زینی اسے اندر اپنے کمرے میں لے گئی تھی۔ اس نے ربیعہ کے لیے چند تحائف خریدے تھے۔ ربیعہ نے ان چیزوں کو اٹھا کر اس کے منہ پر دے مارا۔ زینی سکتے میں آگئی۔
”میں آج آخری بارتمہاری شکل دیکھ رہی ہوں۔ تم بھی دیکھ لو۔ دوبارہ تمہارا اور میرا کبھی سامنا نہیں ہو گا۔ تم نے مجھے برباد کر دیا زینی۔”
وہ اب رو رہی تھی۔ اتنے دنوں سے اندر پکنے والا لاوا بہہ نکلا تھا۔ زینی کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی تھی کہ اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ اسے ربیعہ سے ایسے ہی رد عمل کی توقع تھی اگر وہ یہ سب کچھ جان جاتی تو۔
”میں نے یہ سب کچھ تمہارے لیے کیا… تمہاری خوشی کے لیے!” اس نے بے قرار ہو کر کہا۔
”تم محبت کرتی تھی فاروق سے۔ شادی کرنا چاہتی تھی۔” اس نے جیسے ربیعہ کو یاددلانے کی کوشش کی۔
”ہاں۔ محبت کرتی تھی فاروق سے۔ شادی کرنا چاہتی تھی۔ لیکن … لیکن تمہارے خریدے ہوئے Parasite سے نہیں میں ایک ایسا شوہر چاہتی تھی جو مجھ سے میری وجہ سے محبت کرے۔ تم نے مجھے۔۔۔۔” وہ روتے ہوئے مکمل نہیں کر سکی۔
”فاروق برا آدمی نہیں ہے۔ وہ بہت اچھا انسان ہے۔ پیسے سے وقتی طور پر اس کی اور اس کے گھر والوں کی کچھ ضرورتیں ضرور پوری کی ہیں میں نے، لیکن وہ اچھے لوگ ہیں ربیعہ! برے ہوتے تو؟”
ربیعہ نے جیسے بے حد غصے میں اس کی بات کاٹی۔” ہاں اچھا آدمی ہے وہ لیکن تم نے اس اچھے آدمی کے دل میں لالچ کا بیج بودیا ہے۔ اب یہ بیج پھل دار درخت بنے گا اور میں ساری عمر اس درخت کا پھل کھاؤں گی۔ تم نے پتہ ہے کیا کیا ہے زینی! تم نے میرے شوہر پر میرا سارا مان، سارا فخر، سارا غرور مٹی میں ملا کر رکھ دیا ہے۔ میں ساری عمر اس کے لہجے میں چھلکتی محبت اور نرمی میں تمہارے پیسے کی بو سونگھتی پھروں گی۔ اس لمحے میں بھی جب وہ واقعی دل سے مجبور ہو کر مجھ سے میرے لیے کسی سچے جذبے کا اظہار کر رہا ہو گا اور میں اپنے باپ جیسے کسی دراز قامت مرد کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی تھی جس کی جیب میں سکے بے شک کم ہوں مگر اس کی خود داری آسمان سے باتیں کرتی ہو۔ تم نے مجھے ایک بونے کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا جس کی جیبوں میں تمہارے بھرے ہوئے سکوں کے بوجھ نے اس کومیرے سامنے سیدھا کھڑے ہونے کے قابل نہیں چھوڑا۔ تم نے محبت خریدی ہے میرے لیے؟ تم نے محبت نام کی شے میری زندگی میں غائب کر دی ہے۔”
وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ زینی تڑختے وجود کے ساتھ کمرے میں رہی۔ چند ماہ میں یہ دوسری بار ہو رہا تھا کہ وہ اپنے خونی رشتوں کے ہاتھوں اس طرح دھتکاری گئی تھی۔
پہلی بار تب جب سلمان اس سے ملے بغیر امریکہ چلا گیا تھا۔ حالانکہ وہ اسے رخصت کرنے کے لیے اپنی ایک شوٹنگ چھوڑ کر گھر آئی تھی۔ وہ تب تک اپنے چند دوستوں سے ملنے نکل گیا تھا اور پھر وہیں سے ایر پورٹ چلا گیا۔ زینی نے اسے فون کیا اور اس سے نہ ملنے پر ناراضی کا اظہار کیا۔
”آپ سے ملنا ضروری نہیں تھا۔ اس لیے نہیں ملا میں” اس نے سرد لہجے میں زینی پر بھی اتنی ہی برف ڈال دی تھی۔
”جن سے ضروری تھا، ان سے مل آیا ہوں۔” وہ باقی بہنوں کی بات کر رہا تھا۔ زینی کو لگا وہ اس کے وجود پر آرا چلا رہا تھا۔ وہ اسکا ماں جایا تھا، اس کا اکلوتا بھائی تھا۔
”آپ کی وجہ سے تو ملک بدر ہو رہا ہوں میں۔ ذلت کا یہ انبار آپ میرے سر پر نہ لادتیں تو آج مجھے اس طرح اس عمر میں امی کو چھوڑ کر نہ جانا پڑتا۔”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!