شیراز کو اس سے ملانے کے لیے سپریٹنڈنٹ کے کمرے میں لایا گیا تھا اور وہ اسے دیکھ کر جتنا شاکڈ ہوا تھا وہ اسے دیکھ کر اس سے زیادہ شاکڈ ہوئی تھی وہ چند مہینے پہلے کا شیراز لگ ہی نہیں رہا تھا جسے اس نے دیکھا تھا وہ بے حد کمزور اور نقاہت زدہ لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد گہرے حلقے اور آنکھیں جیسے اندر کو دھنس گئی تھیں۔ ملگجے کپڑوں اور بے ترتیب بالوں اور بے ترتیب شیو کے ساتھ وہ زینی کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا۔
”تم نے میرا سب کچھ برباد کر دیا زینی… میرے اتنے سالوں کی محنت مٹی میں ملا دی۔” وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”تم نے بھی یہی کیا تھا شیراز تم نے بھی اسی طرح ایک پل میں میری زندگی تباہ کر دی تھی۔” اس بار زینی کے لہجے میں طنز اور تنفر نہیں تھا… تھکن تھی۔ وہ اسے اذیت دینا چاہتی تھی لیکن اب اسے اذیت میں دیکھ رہی تھی تو بے چین ہو رہی تھی۔
”میں مانتا ہوں میں نے غلطی کی… پر میں کیا کرتا… ایک سرکاری عہدہ میرے مسئلے حل نہیں کر سکتا تھا… پیسے کی ضرورت تھی مجھے… بہنیں بیاہنی تھیں مجھے ۔” وہ اسی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
”تم مجھے برا کہتی ہو… سب مجھے برا کہتے ہیں لیکن کوئی اس معاشرے کو برا کیوں نہیں کہتا جو میرے جیسے لوگوں کو پیسے کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیتا ہے… میں نے زہرہ آپا کا حال دیکھا تھا… اپنے محلے میں جہیز کی وجہ سے لڑکیوں کو گھر میں بیٹھے بوڑھا ہوتے دیکھا تھا… میں ڈر گیا تھا زینی… میں اپنی بہنوں کو ویسی زندگی گزارتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھتی جا رہی تھی۔ اس نے ساری عمر شیراز کو صرف ایک ”محبوب” سمجھا تھا اسے پتہ ہی نہیں تھا وہ ایک ”بھائی، ایک بیٹا” بھی تھا۔
”ساری عمر ایک ایک روپے کے لیے میں نے اپنے ماں باپ کو ترستے دیکھا… ایک ایک روپے کے لیے… ابو کی تنخواہ دس تاریخ کو ختم ہو جاتی تھی باقی کے 20 دن اوپر کی کمائی سے ہی گھر چلتا تھا ہمارا… اوپر کی کمائی نہ ہوتی تو فاقے ہوتے ہمارے گھر… جب بھی ابو معطل ہوتے ہمارے گھر میں سب کچھ ختم ہو جاتا تھا… پتہ نہیں کتنی جگہوں سے پیسے مانگ مانگ کر میری ماں اور باپ گھر کا خرچ چلاتے تھے… اور میں نے سارا بچپن یہی سب کچھ دیکھ کر گزارا… اور مجھے نفرت تھی ایسی زندگی سے… بجلی کا بل نہ دینے پر میٹر کٹ جاتا… پانی کا بل نہ دینے پر پانی بند ہو جاتا… پچھلی واجب الادا رقم نہ دینے پر راشن کی دکان والا ادھار دینا بند کر دیتا… یہ تھی میری اور میرے گھر کی زندگی۔”
وہ خالی آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی وہ اسے یوں بتا رہا تھا جیسے وہ اس محلے میں صرف اس کے گھر کی کہانی تھی کسی دوسرے کی نہیں… وہ اس سے کہنا چاہتی تھی کہ اس کا باپ بھی ویسی ہی زندگی جی رہا تھا اور اس کی تنخواہ بھی مہینے کی دس کو ختم ہو جاتی تھی لیکن پھر وہ ایک سائیکل لیے پتہ نہیں کہاں کہاں دوسرے تیسرے کام کرتا رہتا تھا… کبھی کبھی تو وہ رات کو گیارہ بجے بھی گھر آتا… چند گھنٹے سو کر وہ اسے پھر تہجد کے لیے جاگتا پاتی… اور صبح ایک بار پھر دفتر… اس کا دل چاہ رہا تھا وہ شیراز کو بتاتی کہ اس کے ماں باپ کو بھی بعض اوقات کسی سے قرض لینا پڑ جاتا تھا لیکن ہر بار اس کا باپ پائی پائی بچا کر بھی مقررہ وعدے پر وہ رقم ادا کر دیتا تھا… ہاں اس کا باپ کبھی معطل نہیں ہوا اور اس نے اپنے گھر میں کبھی فاقے نہیں دیکھے لیکن بہت بار روٹی کو صرف اچار یا چٹنی کے ساتھ کھایا… اور صرف اس نے نہیں اس کے سارے گھر والوں نے بھی اس کے باپ کی بھی اتنی ہی بیٹیاں تھیں جتنی شیراز کے باپ کی… اور ایک بیٹی بیاہ کر وہ ”ذلت” نام کی اس شے کو بھی چکھنے لگا تھا جس سے اپنی نیکی اور شرافت کی وجہ سے وہ ہمیشہ نامانوس رہا تھا… اس کے باوجود اس کے باپ نے بیٹیوں کی شادی کو حرام رزق کے دروازے کھولنے کی بنیاد نہیں بنایا… کیونکہ اس نے اللہ پر توکل کیا تھا اس نے اپنے مقدر کو دوسروں کا مقدر بدل کر لکھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
”ٹھیک ہے میں نے غلطی کی… غلطی نہیں گناہ کیا… جو بھی تمہارے ساتھ کیا… لیکن میں نے اپنے دل سے تمہیں کبھی نہیں نکالا… میرے دل میں ہمیشہ تم ہی رہی زینی۔” وہ اب اس سے کہہ رہا تھا۔
”دل میں رکھے جانے والے شخص کے منہ پر کوئی کالک نہیں لگاتا… تم نے مجھے کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔” زینی نے رنجیدہ آواز میں کہا۔
”تم نے بھی میرے ساتھ یہی کیا تم نے بھی مجھے کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا… حساب برابر کر دیا تم نے نوکری چلی گئی… جو گھر جائیداد بنائی تھی وہ ضبط ہو گئی… شینا نے بھی divorce لے لی… اب جیل بھی ہو جائے گی… ایک بہن گھر آبیٹھی ہے… دوسری دونوں بھی آجائیں گی… میرے بوڑھے ماں باپ اس عمر میں کتنے صدمے اٹھائیں گے۔” وہ ایک بار پھر رو رہا تھا… بلک بلک کر… اور پتہ نہیں کیوں… زینی کو ترس آرہا تھا… اس لیے آرہا تھا کہ اس شخص سے اس نے عشق کیا تھا… خالی محبت ہوتی تو وہ کہاں یوں اپنے آپ کو سولی پر چڑھا لیتی… اور اب وہ اس کے سامنے بیٹھ کر رو رہاتھا تو زینی کا پورا وجود اس کے ساتھ پانی بن کر بہنے لگا تھا۔
”تم کیا چاہتے ہو مجھ سے؟” اس نے بے بسی سے کہا۔
”زینی میری مدد کرو مجھے اس جہنم سے نکال دو۔۔۔۔”
”میں کیا کر سکتی ہوں… ایک معمولی ایکٹریس ہوں میں… میں کیا کر سکتی ہوں۔” زینی نے اس سے کہا۔
”تمہارے Contacts ہیں اتنے بڑے بڑے افسروں اور منسٹرز کے ساتھ پھرتی ہو تم… تم کسی افسر کو ایک بار بھی اشارہ کرو گی تو میں باہر آجاؤں گا… میرے خلاف مقدمات ختم ہو جائیں گے۔” وہ اب رو نہیں رہا تھا اپنے آنسو پونچھ رہا تھا اور شاید اسے امید ہو گئی تھی کہ زینی اس کے لیے کچھ کرے گی۔
”اور جس افسر سے میں تمہیں چھڑوانے کے لیے کہوں گی وہ مجھ سے کیا کہے گا تم جانتے ہو؟” پتہ نہیں کیوں زینی کو اس کی زبان سے اپنے Contacts کا سن کر اچھا نہیں لگا تھا۔
”کیا کہے گا؟” شیراز نے کہا۔
”وہ کہے گا میں اس کے ساتھ رات گزاروں۔”
”تو گزار لینا تم پہلے ہی ان مردوں کے ساتھ پھرتی ہو ایک بار میرے لیے کسی مرد کے ساتھ۔۔۔۔” زینی کی آنکھوں اور چہرے پر کوئی ایسی چیز آئی تھی جس نے شیراز کو اپنی بات مکمل نہیں کرنے دی۔ وہ چپ ہو کر التجائیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
زینی بے بس و بے حرکت دم سادھے آنکھیں جھپکائے بغیر اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی… گلی میں ایک لڑکے کا خط پکڑنے پر وہ اسے سنگسار کرنے پر تیار ہو گیا تھا اور آج اتنی آسانی سے وہ اسے اپنے لیے کسی دوسرے مرد کے پاس بھیج رہا تھا… اتنی آسانی سے؟… اور وہ اپنی زبان سے یہ بھی کہہ رہا تھا کہ اس کے دل میں آج بھی صرف وہ بستی ہے پھر اسے اپنی زبان پر زینی کے لیے یہ ”مطالبہ” لاتے ہوئے کوئی شرم، کوئی ندامت محسوس نہیں ہوئی تھی… اور وہ… وہ اس مرد کے پیچھے برباد ہو گئی… صرف اس ایک خوش فہمی میں کہ وہ اس سے محبت کرتا تھا… کئی بار اپنی زبان سے اقرار کر چکا تھا… اس پر جان دیتا تھا۔جان دیتا تھا؟… یا جان لے رہا تھا؟… زینی نے آنکھیں بند کیے اپنی بھینچی ہوئی مٹھیاں کھولنے کی کوشش کی… اس کا پورا وجود جیسے برف کی ایک بہت بڑی سل میں تبدیل ہو چکا تھا… وہ شیراز اکبر اپنے لیے اور پیسے کے لیے کس حد تک جا سکتا تھا۔ زینی نے یہ دنوں چیزیں دیکھ لی تھیں لیکن غلط وقت پر دیکھی تھیں اور اسے غلط وقت پر سمجھ آئی تھی… کسی دوسرے مرد کے پاس چلی جاؤ… وہ کیا سمجھ رہا تھا اسے؟… زینی؟ پری زاد؟ یا کوئی طوائف؟… نہیں وہ زینی سمجھ کر اس سے یہ باتیں نہیں کر رہا تھا… میں ”زینی” رہتی تو شیراز مجھ سے ایسی بات کبھی نہ کرتا… وہ تو یہ سب کچھ پری زاد سے کہہ رہا تھا… جس کو وہ طوائف سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا… وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے جیسے پہیلیاں سلجھانے بیٹھی تھی…
وہ اس کی بیوی بن جاتی اور زندگی میں شیراز کو کبھی اپنا آپ بچانے کے لیے اس کو قربان کرنا پڑتا تو وہ اتنی ہی آسانی کے ساتھ کرتا… کسی سیکنڈThought کسی دقّت کے بغیر… شیراز نے رزق حرام پر پروش پائی تھی اور حرام رزق کا عشق اس کے خون میں شامل تھا… وہ کچھ بھی کر لیتا وہ روپے کی ہوس کو اپنے Genes سے الگ نہیں کر سکتا تھا… لیکن وہ… اس کی پرورش تو اس کے باپ نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے کی تھی… پھر وہ کیوں اس کے تعاقب میں چلی آئی… اسے کس فریب نے یوں اندھا اور بہرا کر دیا تھا… کیا یہ مرد اس قابل تھا کہ اس کے لیے وہ سب کچھ گنوا کر یوں تہی دامن ہو کر بیٹھ جاتی۔
وہ کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب اور کیا سننا تھا اسے شیراز سے؟… اور رہ ہی کیا گیا تھا۔
”پھر تم نے کیا سوچا زینی؟ ” شیراز نے اسے اٹھتے دیکھ کر بے تابی سے کہا۔
”میں نے…؟… میں نے کیا سوچنا ہے؟… کچھ بھی نہیں سوچا۔۔۔۔” وہ روتے ہوئے ہنسی۔
”تمہیں صرف اپنے آپ سے او رپیسے سے محبت ہے… سچا عشق… بس… تمہیں تو کسی زینی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔”
”میں تمہیں کیسے سمجھاؤں زینی؟” وہ گڑگڑانے لگا۔
”مت سمجھاؤ… مجھے سب کچھ سمجھ میں آگیا ہے… سارے پردے اٹھ گئے ہیں۔” وہ پلٹنے لگی شیراز اس کے قدموں میں بیٹھ گیا…
”ضیاء چچا کی خاطر مجھے یہاں سے رہا کروا دو زینی… ضیا چچا کی خاطر۔” وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا… زینی نے آنکھیں بند کر لیں وہ اب گرنے لگا تھا تو گرتا ہی جا رہا تھا۔ اس کی پستی کی کوئی انتہا تھی کیا؟… وہ اپنی زندگی کی خاطر ایک عورت کے قدموں میں بیٹھ سکتا تھا… اسی چچا کا واسطہ دے کر اسے بلیک میل کر سکتا تھا… جسے اس نے جیتے جی درگور کر دیا تھا۔ اور وہ اس مرد کو پتہ نہیں کیا سمجھتی تھی… پتہ نہیں کون سا خدا بنا لیا تھا اس نے اسے… اور وہ، وہ تو انسان کہلانے کے لائق بھی نہیں تھا۔
وہ پری زاد ہوتی تو اسے ٹھوکر مار کر آجاتی لیکن وہ پری زاد نہیں تھی… وہ اس وقت صرف زینب ضیا بن گئی تھی… ضیا صاحب کی بیٹی… کسی نے زندگی میں پہلی بار اسے اس کے باپ کا واسطہ دے کر کچھ مانگا تھا وہ کیسے اسے نہ دیتی۔
وہ واپسی پر گاڑی میں بیٹھی روتی آئی تھی… پری زاد کی طرح نہیں… زینی کی طرح… زینب ضیاء کی طرح… اس نے بہت دفعہ اپنی زندگی کے پرخچے اڑتے دیکھے تھے… اور ہر بار تکلیف پہلے سے سوا تھی۔ لیکن اگر وہ شخص جھوٹا نکل آئے جس کی محبت کی خاطر آپ نے اپنے آپ کو خوار کر دیا ہو پھر احساس زیاں نہیں ہوتا پھر کچھ اور ہی ہوتا ہے… شیراز کی زبان سے نکلے ہوئے کانچ کا انبار تھا جو اس کے چاروں طرف تھا… اور وہ جہاں سے بھی گزرتی پیروں کو زخمی ہونا ہی تھا۔
اس رات اتنے سالوں کے بعد پہلی بار روتی رہی… لیکن شراب اور سگریٹ پیئے بغیر… وہ کیا تھی… وہ کیا ہو گئی تھی۔
دنیا کے بازار میں شیراز نے اپنا ضمیر بیچا تھا… اس نے اپنا سب سے مہنگا اثاثہ سب سے ”سستا” سمجھ کردیا تھا… اسے ”ضمیر” کے بدلے ”لاکھوں” ملے… یہ دام شیراز کواچھا سودا لگا… دنیا کے بازار میں زینی نے اپنی ”حیا” رکھ دی تھی… اس نے اپنے سب سے ”قیمتی” اثاثے کو ”قیمتی” سمجھ کر ہی دیا تھا… اسے ”حیا” کے بدلے ”کروڑوں” ملے… جو بھی دام ملے وہ زینی کو ہمیشہ گھاٹے کا سودا ہی لگا۔
آنسو اب کیا تھمتے… پچھتاوا اب کیا جاتا… اس رات وہ ساری نصیحتیں اسے یاد آتی رہیں جو سب اسے کرتے رہے تھے اور جنہیں سننے پر وہ تیار نہیں تھی۔
”وہ ”حرام رزق” کو ”من و سلویٰ” سمجھ کر کھا رہا ہے اسے جانے دو زینی… اس کے مقدر میں حرام کھانا ہے… ”من و سلویٰ” نہیں ہے اس کی قسمت میں۔” اس کے باپ نے اس سے کہا تھا… اس کے باپ کو کیا پتہ تھا کہ ”من و سلویٰ” تو زینی کے مقدر میں بھی نہیں تھا… شیراز اپنی وجوہات کی وجہ سے پیسے کے پیچھے گیا تھا… وہ اپنی وجوہات کی وجہ سے…
”جو چیز اللہ نہ دے زینی اسے انسانوں سے نہیں مانگنا چاہیے… ورنہ انسان بڑا خوار ہوتا ہے۔” ماں باپ کی باتیں اتنی دیر سے سمجھ میں کیوں آتی ہیں۔
*****