من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

”پیار؟… شک کرتی ہے وہ مجھ پر۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہی کرتی ہے… اب ہو تو تم اس وقت بھی غلط جگہ پر ہی۔” زینی کا اطمینان برقرار تھا۔
”تم اسے نہیں جانتی وہ خود بہت سارے مردوں کے ساتھ انوالوڈ ہے۔” شیراز نے تیز آواز میں کہا۔
”چچ چچ۔۔۔۔” زینی نے افسوس کا اظہار کیا۔
”اور تمہارے جیسے غیرت مند مرد کے لیے تو یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے اس کی جگہ میں ہوتی تو اب تک تم میرا گلا دبا چکے ہوتے…مگر وہ ہے حرام کھانے والے ایک بڑے باپ کی بیٹی… اور میں تھی ایک ایماندار کلرک کی بیٹی جو بد قسمتی سے تمہاری کزن بھی تھی۔۔۔۔”
شیراز نے یک دم اس کا ہاتھ تھام لیا۔
”زینی میں آج بھی صرف تمہی سے محبت کرتا ہوں۔”
” تم نے پیسے کے علاوہ زندگی میں کبھی کسی سے سچی محبت نہیں کی۔” زینی نے اس سے ہاتھ چھڑا لیا… اس کے ہاتھ کا لمس اسے انگارے جیسا لگا تھا۔
”میں بہت مجبور تھا۔”
”کیا مجبوری تھی جس نے تمہیں میرے باپ سے یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ آپ کی بیٹی جہیز کے نام پر کچھ نہیں لائے گی… کم از کم عزت تو لائے۔”
شیراز چند لمحوں کے لیے ہکا بکا رہ گیا اسے توقع نہیں تھی کہ ضیاء چچا یہ سب کچھ زینی کو بتائیں گے۔
”تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے… میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں کہا۔ ” اس نے یک دم خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
”تم کہنا چاہتے ہو کہ میرے تہجد گزار باپ نے مجھ سے جھوٹ بولا… جنہوں نے ساری عمر کبھی جھوٹ نہیں بولا۔” وہ غرائی تھی۔
”نہیں… نہیں… میں چچا کو جھوٹا نہیں کہہ رہا۔” شیراز گڑبڑا گیا تھا… اعتراف اور انکار دونوں ہی مصیبت بن گئے تھے۔ اس کے لیے۔
”شاید تب غصے میں… ایسے ہی… میرے منہ سے کچھ الٹا سیدھا نکل گیا ہو۔” اس نے نظریں چرا کر اپنے اعتراف سے زینی کے دل کا خون کیا تھا۔ باپ کی زبان پر تو اسے پہلے بھی یقین تھا پھر بھی اس کی زبان سے یہ اعتراف سن کر بہت سال پہلے جیسی ہی تکلیف ہوئی تھی۔
”ایک بات بتاؤ شیراز کیا تمہیں واقعی میرے کردار پر شبہ تھا؟” زینی نے اپنا پیگ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
”میں… میں۔۔۔۔” شیراز میں میں کرنے لگا۔
”سچ بولنا… سچ پر کچھ نہیں کہوں گی تمہیں۔”زینی نے اسے ٹوکا۔




وہ بہت دیر خاموش رہا۔ زینی کا دل دھڑکتا رہا… شیراز ہاتھ میں پکڑے گلاس پر انگلیاں پھیرتا رہا پھر بہت دیر بعد زینی نے اس کی مدھم آواز سنی۔
”نہیں۔”
کسی نے زینی کو کسی پہاڑ کی چوٹی سے دھکیلا تھا۔
”نہیں؟… پھر تم نے میرے چہرے پر اتنی کالک کیوں ملی؟… میں تو سمجھتی رہی کہ اس لڑکے کو دیکھ کر تم… میں تو اتنا عرصہ۔۔۔۔” زینی اپنی بات مکمل نہیں کر پا رہی تھی۔
”اس وقت رشتہ توڑنے کا کوئی اور راستہ نظر نہیں آرہا تھا مجھے۔۔۔۔” شیراز نے مدھم آواز میں کہا۔
”اور تم نے میرے کردار پر کیچڑ اچھال کر وہ راستہ ڈھونڈا… ایک بار میرے سامنے آجاتے تم… مجھے کہہ دیتے زینی میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا… میں دوبارہ کبھی تمہارے پیچھے نہ آتی… اتنی خود داری تھی مجھ میں۔” وہ نہیں جانتی وہ کیوں رونے لگی تھی وہ رونے کے لیے وہاں نہیں آئی تھی۔
”سونے کی وہ چوڑیاں بنانے کے لیے میں نے چار سال ٹیوشنز کر کے ایک ایک روپیہ جمع کیا تھا اور تمہارے ایک بار کہنے پر میں وہ تمہیں دے آئی… کیونکہ تمہارا مستقبل اہم تھا میرے لیے… تمہاری خواہش یہ معنی رکھتی تھی میرے لیے… اور تم نے… تم نے خالہ کے ذریعے اپنے سسرال کی حرام کی کمائی کے چند ہزار بھیج کر سمجھا کہ تم نے ان چوڑیوں کی قیمت ادا کر دی… بس وہ چند ہزار قیمت تھی ان کی… وہ دو چوڑیاں میری زندگی کے چار سال تھے… پتہ نہیں کس کس چیز سے جی مار کر ان کے لیے پیسہ جوڑتی رہی میں… وہ تمہارے ساتھ میری ہونے والی شادی کا زیور تھا… اور تم کہتے ہو بس چند ہزار روپے کافی تھے ان کی قیمت دینے کے لیے؟”
”تم جو قیمت چاہو میں ادا کروں گا ان کے لیے… زینی جو قیمت تم چاہو میں دوں گا۔” شیراز نے بے حد بے بسی کے عالم میں کہا۔ وہ اس وقت واقعی جذباتی ہو رہا تھا۔
اس سے پہلے کہ زینی کچھ کہتی دروازے پر بلند آواز میں دستک ہوئی تھی۔
”قیمت لینے کے لیے ہی بلایا ہے تمہیں یہاں… جاؤ دروازہ کھولو۔” زینی کا لہجہ پہلی بار شیراز کو عجیب لگا تھا۔
وہ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ زینی بھی اسے دیکھ رہی تھی… دروازے کے باہر اب مسلسل دستک ہو رہی تھی۔ شیراز زینی سے کچھ کہتا کہتا پلٹ کر دروازہ کھولنے چلا گیا۔
”ایک بار ایک دروازہ مجھ پر بند ہوا تھا… میری قسمت بدل گئی… آج ایک دروازہ تم کھولو گے تمہاری قسمت بدل جائے گی۔”
اس نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھے اپنے عقب میں زینی کی آواز سنی۔ شیراز نے پلٹ کر اسے دیکھا وہ صوفے پر بیٹھی پیگ ہاتھ میں لیے پاؤں ٹیبل پر رکھے بیٹھی تھی۔ یوں جیسے کوئی پری اپنے دربار میں بیٹھی تھی… کچھ برا ہونے والا تھا یہ شیراز کی چھٹی حس نے اسے اس وقت بتا دیا تھا کیونکہ دروازہ اب بری طرح دھڑ دھڑایا جا رہا تھا اور اس نے دروازے کے باہر شور سنا تھا… کچھ بے ہنگم آوازیں تھیں جو اسے سنائی دے رہی تھیں… وہ ایک سرکاری آفیسر تھا… دروازے کے باہر جو بھی ہو گا اسے دیکھ لوں گا۔ شیراز نے جی کڑا کر کے سوچا… زینی سے فی الحال بات کا فائدہ نہیں تھا پہلے باہر والی مصیبت کو دیکھنا تھا۔
اس نے دروازہ کھول دیا اور اس کی قسمت نے دروازہ بند کر لیا… ایک ہجوم کمرے کے اندر آگیا تھا… پریس فوٹو گرافرز، رپورٹرز، کیمرہ مین… اور پولیس کے لوگ… کمرہ فلیش لائٹس کے جھماکوں سے چکاچوند ہو رہا تھا… شیراز کو بات کرنے کا موقع نہیں ملا… وہ حواس باختہ ہو چکا تھا… چند لمحوں میں کسی نے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دی تھیں اور اب کچھ لوگ زینی کو اریسٹ کر رہے تھے… شیراز کو غش آنے لگا… وہ اتنے لوگوں کو bribe کیسے کر سکتا تھا؟… رشوت دے کر اس خبر اور ٹی وی چینلز اور نیوز پیپرز میں اپنی تصویر کی اشاعت کیسے رکوا سکتا تھا…؟… اسے لگا تھا کسی نے اسے پھانسی کے تختے پر پہنچا دیا تھا… کسی نے؟… کس نے؟… اس نے زینی کو ایک بار پلٹ کر دیکھنے کی کوشش کی وہ نہیں دیکھ سکا… ان دونوں کے بیچ لوگ تھے… دنیا تھی… ان دونوں کے بیچ ہمیشہ دنیا آجاتی تھی۔
کوئی اسے دھکے دیتے ہوئے باہر نکال رہا تھا… اور باہر نکلتے ہی گیسٹ ہاؤس کی اینٹریس پر اس نے شینا اور سعید نواز کو دیکھ لیا تھا۔ اس کا دل چاہا تھا وہ کینچوا بن کر ان سے لپٹ جائے… معافی ایک بار معافی… صرف ایک بار… وہ بلند آواز میں پکار پکار کر کہنا چاہتا تھا لیکن نہیں کہہ سکا۔ ان دونوں کی آنکھوں میں اس وقت جیسے انگارے دہک رہے تھے… شیراز جانتا تھا اسے اب سعید نواز کے خاندان سے نکالا جا چکا تھا… ورنہ وہ ہتھکڑی اس کے ہاتھوں میں اور وہ ذلت اس کے چہرے پر کبھی نہ ہوتی… وہ واقعی قیامت کا دن تھا… کون کہتا ہے قیامت صرف قیامت والے دن آتی ہے۔
٭٭٭
وہ رات کے دو بجے اپنے بیڈ روم میں صوفے پر بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ اس کے گھر کے تمام فون آف تھے۔ اس کے قدموں میں بیٹھا سلطان آنسو بہا رہا تھا۔ یہ وہی تھا جس نے زینی کے کہنے پر یہ سب کچھ کروایا تھا… شینا کو اطلاع… پریس کو اطلاع… پولیس کو اطلاع… اور سلطان نہ ہوتا تو ایک ایسے بڑے گیسٹ ہاؤس پر پولیس کا ریڈ کیسے ہو سکتا تھا… جرنلٹس اندر کیسے پہنچ سکتے تھے…؟… وہاں ہر دوسرے کمرے میں کسی نہ کسی کا شوہر کسی نہ کسی کے ساتھ موجود تھا… پھر پری زاد اور شیراز کا ساتھ ہونا… لیکن یہ شینا تھی جس نے سلطان کا کام بے حد آسان کر دیا تھا اور یہ چیز زینی اچھی طرح جانتی تھی… شینا نے سلطان کی انفارمیشن پر کوئی ایکشن لینے سے پہلے شیراز کو ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ نہیں کر سکی تھی۔
شیراز نے اپنے لیے گڑھا خود کھودا تھا… وہ خود Clues چھوڑتا گیا تھا… اس کی گاڑی غائب تھی… گیسٹ ہاؤس میں اس نے مسٹر اور مسز شیراز کے نام سے کمرہ بک کروایا… نہ صرف یہ بلکہ اپنی شناختی کارڈ کی کاپی بھی وہاں دی… باقی کا سٹیج اس بیڈ روم میں زینی نے سیٹ کر دیا تھا… شراب، پھول اور رات کا وہ پہر… وہ اس کمرے میں بیٹھے قوالیاں بھی سن رہے ہوتے تو ان حالات میں پکڑے جاتے… اور وہ بہر حال قوالیاں نہیں سن رہے تھے۔
وہاں پکڑے جانے کے آدھ گھنٹہ میں پولیس سٹیشن پہنچنے سے پہلے ہی پری زاد کو اشتیاق رندھاوا کی مداخلت پر رہا کر دیا گیا تھا… پولیس سٹیشن صرف شیراز پہنچا تھا اور بے حال پہنچا تھا… اور زینی وہ اس وقت ایک بار پھر اطمینان سے اپنے بیڈ روم میں بیٹھی اپنے دعوے کے مطابق چائے پی رہی تھی۔
”اتنی عزت دی تھی اللہ نے سب مٹی میں ملا دی… پہلے بھی سب کچھ اس کی وجہ سے گنوایا… اب بھی سب کچھ اس کے لیے پھونک ڈالا… زندگی سے کچھ سیکھا نہیں آپ نے پری جی۔” سلطان نے اس سے کہا۔
”عزت؟… کیسی عزت؟ ” وہ بے اختیار ہنسی۔
”یہ جو ٹکے ٹکے کے مرد تالیاں اور سٹیاں بجاتے ہیں میرے لیے؟… یہ عزت ہے؟”
”صبح جب اخباروں میں تصویریں چھپیں گی تو دیکھیے گا کیا ہوتا ہے… دوسری ساری ہیروئنیں شادیانے بجائیں گی۔۔۔۔” سلطان نے اس کی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
”بجانے دو۔۔۔۔”
”بڑی خوشی ہوئی ہے آپ کو یہ سب کچھ کر کے؟ بڑا سکون مل گیا؟” سلطان نے جھنجلا کر کہا۔
زینی نے چائے کا کپ رکھ دیا۔ وہ بہت دیر چپ بیٹھی رہی۔
”ہاں… چند لمحے اس وقت خوشی ملی تھی جب میں نے اس ہجوم کو دیکھ کر اس کے چہرے پر خوف دیکھا… پر سکون… سکون تو کبھی نہیں ملا… اور خوشی اب تو خوشی بھی نہیں ہے۔” اس نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”سب کچھ جیسے چل رہا تھا چلنے دیتیں پری جی… میں اب صبح پریس والوں کو کیا کہوں گا؟” سلطان کو ایک نئی فکر ہونے لگی۔
”میں کہہ آئی ہوں مجھے جو بھی کہنا تھا۔۔۔۔”
”کیا کہا آپ نے؟” وہ چونک پڑا۔
”یہی کہ شیراز مجھے پرپوز کرنے وہاں آیا تھا… اور وہ میرا کزن ہے… اور ہم بہت پہلے انگیجڈ تھے پھر منگنی ٹوٹ گئی لیکن اب وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوبارہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔”
”یہ باتیں ہیں کوئی کرنے والی… اشتیاق رندھاوا سے بات کریں۔ انہوں نے کہا تھا مجھ سے۔” سلطان کو یک دم یاد آیا۔
”کر چکی ہوں ابھی گھر آتے ہوئے گاڑی میں فون آیا تھا ان کا۔”
”ناراض ہوں گے وہ تو… پہلے ہی ناراض تھے کہہ رہے تھے کہ میں نے چھاپہ پڑنے سے پہلے کیوں نہیں بتایا… تاکہ ایسی کوئی صورت حال پیش ہی نہ آتی۔ اب میں ان سے کیا کہتا کہ پری جی خود چھاپہ ڈلوانا چاہتی تھیں۔”
”ہاں ناراض تھا… شیراز کو ناپسند کرتا ہے اس لیے… لیکن خوش بھی تھا… کہہ رہا تھا کہ اب وہ دیکھے گا شیراز جیل سے کیسے باہر آتا ہے۔” زینی کی ہنسی کھوکھلی تھی۔
”بڑا ہی غلط کیا پری جی آپ نے… بڑا ہی غلط… پر آپ کسی کی سنتی تھوڑی ہیں۔” سلطان کہتے ہوئے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا… زینی چپ چاپ بیٹھی رہی۔
اکیلی ہوئی تھی تو شیراز کے ساتھ اکیلے میں کی جانے والی ساری باتیں یاد آنے لگی تھیں… وہ اسے وہیں دیکھنا چاہتی تھی جہاں وہ آج رات پہنچ گیا تھا لیکن پتہ نہیں کیوں وہ اتنی خوش نہیں تھی جتنا اسے خوش ہونا چاہیے تھا… اس نے اسے اس سے بڑھ کر ذلت دی تھی جتنی ذلت اس نے زینی کو دی تھی… پھر بھی اطمینان، سکون، خوشی نام کی کوئی شے وہ اس وقت اپنے اندر نہیں پا رہی تھی۔ تو کیا اس نے کہیں کچھ غلط کر دیا تھا؟
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!