”کس کی؟”
”جیسے میری۔۔۔۔”
شیراز کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی… بے حد سادگی سے کہی جانے والی بات سادہ نہیں تھی… بہت کچھ تھا اس ایک جملے میں… وہ باقی کا پورا راستہ بول نہیں سکا تھا… گاڑی میں عجیب سی خاموشی چھا گئی تھی… اور اس خاموشی نے شیراز کے ذہن سے یہ سوال بھی محو کر دیا تھا کہ وہ اس کی کسی قبر کی بات کر رہی تھی… کیا وہ اسے زندہ درگور کرنے کا ارادہ رکھتی تھی؟ پر یہ کام زینی کیسے کر سکتی تھی؟ اور کس طرح کرتی؟… اس کے پاس اس کی کوئی کمزوری نہیں تھی۔
شیراز بے حد مطمئن تھا اور اسی اطمینان کے ساتھ وہ پھولوں کے ہار لے کر زینی کے ساتھ اس بیڈ روم میں آیا تھا۔ جو اس نے اس گیسٹ ہاؤس میں بک کروایا تھا۔
”شراب پیتے ہو؟” زینی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا۔
”میں۔۔۔۔” شیراز اٹکا۔ وہ اس وقت اس طرح کا سوال کیوں کر رہی تھی؟
”نہیں۔” اس نے انکار کرنا مناسب سمجھا۔
”میں پیتی ہوں… میرے لیے منگوا لو۔۔۔۔” زینی نے منی بار پر لگی ہوئی ریٹ لسٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”میں بھی پیتا ہوں… کبھی کبھار۔” شیراز نے کچھ ہکلاتے ہوئے قدرے نادم لہجے میں اعتراف کیا۔اسے کیا پتہ تھا وہ خود شراب پیتی ہو گی… وہ دونوں واقعی بہت بدل گئے تھے… کبھی زندگی میں آ نہوں نے ایسی کسی ملاقات کے دوران مشروب کے طور پر شراب کے انتخاب کا سوچا تک نہیں ہو گا… اور آج… یہ خیال دونوں کے ذہن میں بیک وقت آیا تھا۔ شیراز روم سروس کو آرڈر کرنے لگا۔ زینی صوفے پر بیٹھ کر اپنے سینڈلز اتارنے لگی۔ اس نے جوتے اتارنے کے بعد اپنے پیروں کو کچھ آرام دینے کے لیے انہیں سامنے پڑی ہوئی ٹیبل پر رکھ لیا… اگلے چند دن اس کے کیرئیر کے سب سے زیادہ tumultous دن ثابت ہونے والے تھے… وہ صبح کے اخبارات کی ہیڈ لائنز اور چینلز کی سکرول بار دیکھ رہی تھی۔
”یہ تمہارے لیے۔” شیراز نے اسے چونکایا تھا۔ وہ اپنا کوٹ اتار کر کرسی کی پشت پر لٹکانے کے بعد اب ایک ڈبیا اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔
”یہ کیا ہے۔” زینی نے ہاتھ بڑھائے بغیر کہا۔
وہ اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس نے بے حد فخریہ انداز میں کہا۔
”ڈائمنڈ رنگ۔” وہ اس کے اتنا قریب تھا کہ زینی نے اس کے پرفیوم کی مہک کو محسوس کیا… وہ ہیوگوباس نہیں تھا… کوئی اور تھا… اس نے شاید ماضی کی ہر چیز چھوڑ دی تھی۔
”پرپوز کر رہے ہو؟” زینی نے کھلی ڈبیا سے نظر آتی رنگ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کچھ کاٹتے ہوئے انداز میں اس سے کہا۔
”تحفہ ہے۔” شیراز کا اکڑا ہوا وجود یک دم کچھ ڈھیلا ہو گیا۔
”سوری ضرورت ہے نہ جگہ۔” زینی نے اپنے دونوں ہاتھ اس کو دکھاتے ہوئے کہا۔
”ڈائمنڈ رنگ ہے۔” شیراز نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”میرے ہاتھ کی ہر رنگ میں ڈائمنڈ ہی ہیں… یہ رنگ مجھے ایک فیڈرل سیکرٹری نے دی… یہ ایک فیڈرل منسٹر نے۔” وہ بے حد اطمینان سے شیراز کے سامنے ہاتھ پھیلائے ایک ایک رنگ پر انگلی رکھے یوں بات کر رہی تھی جیسے شیراز نے ان انگوٹھیوں کے بارے میں پوچھا ہو۔
”یہ ایک عربی شیخ نے اور یہ چیمبر آف کامرس کے صدر نے… اب سمجھ نہیں آتی 18 گریڈ کے ایک معمولی آفیسر کے لیے کون سی رنگ اتار کر جگہ بناؤں۔” اس کے لہجے میں بے حد معصوم الجھن تھی شیراز کا رنگ سرخ ہونے لگا تھا۔
”پلیز۔۔۔۔” اس نے وہی کام کیا جو وہ کرنے میں مہارت رکھتا تھا… منت کرنے کا۔
زینی نے اس کے ہاتھ سے ڈبیا لے لی اور اسے بند کیا… صوفے سے اٹھی۔ کرسی پر لٹکے اس کے کوٹ کے پاس گئی اور وہ ڈبیا اس کی جیب میں ڈال دی۔
”زیورات سے بہلنے کا وقت گزر گیا ہے شیراز۔۔۔۔” وہ اب ایک ہا رنکال کر کمرے میں پھرنے لگی تھی وہ پھولوں کی پتیوں کو چلتے ہوئے نوچ رہی تھی شیراز صوفہ پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔
آخر کس طرح بہل سکتی تھی وہ… کس طرح بھول جاتی وہ سب کچھ جو ماضی تھا… وہ بور ہونے لگا تھا آخر ایسا بھی کیا کر دیا تھا… اس نے کہ وہ طنز پر طنز کر رہی تھی۔
”میں… میں کچھ اور بھی لایا ہوں۔ تمہارے لیے۔” شیراز نے یک دم کہا۔
”اب کیا ہے؟” زینی کے انداز میں کوئی ایکسائٹمنٹ نہیں تھی… تبھی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ان کا ”آرڈر” آگیا تھا۔
روم سروس والے کے کمرے سے باہر نکلتے ہی وہ ہار کے خالی دھاگے کو ایک طرف پھینکتے ہوئے دوبارہ صوفہ پر آکر بیٹھ گئی اور شراب کے پیگ تیار کرنے لگی۔ شیراز ایک بار پھر اپنے کوٹ کی جیب سے کچھ نکالنے میں مصروف تھا… جب تک وہ نکال کر لایا… زینی پیگ تیار کر چکی تھی۔
”تمہیں چوڑیاں اچھی لگتی ہیں نا…؟ ” ایک لمحے کے لیے زینی کا ہاتھ لرزا۔
”یاد ہے ایک بار تم نے اپنی سونے کی دو چوڑیاں مجھے دی تھیں… اور میں نے تمہیں کہا تھا۔ کہ میں تمہیں ان کے بدلے چھ چوڑیاں بنا کر دوں گا۔” وہ محبت سے کہہ رہا تھا۔ وہ اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلائے ہوئے تھا۔ جس پر چھ چوڑیاں رکھی تھیں۔
”وہ چھ چوڑیاں تمہیں مجھ سے شادی کے بعد اپنی پہلی تنخواہ سے میرے لیے بنانی تھیں… ” وہ ان چوڑیوں کو دیکھتے ہوئے عجیب سے انداز میں بڑبڑائی۔
”لیکن ان کی ضرورت نہیں تھی تم نے بعد میں قیمت بھیج دی ان کی۔”
”اور وہ تم نے نہیں لی۔”
”وہ بہت کم تھی۔” وہ اب اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
”یہ تو کم نہیں ہے نا؟” شیراز نے ہاتھ اس کے سامنے کر دیا۔
زینی نے چوڑیاں اٹھا کر میز پر رکھیں اور اس کے ہاتھ میں پیگ تھما دیا۔
”یہ تو اور بھی کم ہے۔”
”تمہیں اور چوڑیاں چاہیں… میں تمہیں اور چوڑیاں لا دوں گا۔” شیراز نے بے ساختہ کہا۔
”پھر کیا ہو گا؟” وہ اب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہی تھی۔
”پھر… آ… پھر۔۔۔۔” وہ ہکلانے لگا۔
اسے آگے کچھ کہنے کے لیے لفظ نہیں مل رہے تھے۔ زینی نے بڑے آرام سے اس کی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور اس کی شرٹ کا اوپر کا بٹن کھول دیا… کوئی عجیب احساس ہوا تھا اسے کالر ہاتھ میں لیے وہ رک گئی… وہ اس کے ہاتھ کی بنی ہوئی شرٹ تھی کئی سال پہلے اس کے ہاتھ سے بنی ہوئی شیراز نے اس کی محویت کو نوٹس کیا۔
”تم نے پہچانا اس شرٹ کو؟… تم نے میرے لیے اسے اپنے ہاتھوں سے سیا تھا۔” شیراز نے فخریہ انداز میں کہا۔
زینی نے اس کے کالر سے ہاتھ ہٹا لیا۔
”کیوں پہن کر آئے ہو اسے؟” وہ پہلی بار تلخ ہوئی تھی۔
”تمہارا دل جیتنے کے لیے۔”
”دل کچھ معنی رکھتا ہے تمہارے لیے؟”
”دل ہی تو معنی رکھتا ہے۔” وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی اس نے ایک اور ہار لیا تھا اور اسے نوچتے ہوئے بکھیرنے لگی۔
”منگنی توڑنے کے بعد میرے ہاتھ کی سلی ایک ایک چیز لوٹا دی تم نے… پھر یہ تمہارے پاس کیسے رہ گئی؟”
”یہ تمہاری نشانی تھی۔”
”تم نے مجھے گنوا دیا۔ میری نشانی کو پاس رکھ لیا۔” وہ تلخی سے ہنسی۔
”تمہیں گنوا دیا… غلطی کی۔”
”میری نشانی پاس رکھ کر اس سے بڑی غلطی کی۔”
شیراز خاموشی سے شراب کا پیگ پیتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اس میں مجھے تمہارے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوتا ہے۔”
”لیکن میرے ہاتھوں کے لمس میں روپے جیسی حرارت نہیں تھی۔”
وہ چپ چاپ سر جھکائے شراب پیتا رہا… وہ ایک کے بعد ایک ہار نوچ نوچ کر پھینکتی رہی… کمرے کا سارا کارپٹ پھولوں کی پتیوں سے بھر گیا تھا۔ شیراز نے ایک کے بعد دوسرا پیگ بھی اپنے اندر انڈیلا۔
”میں کیا کروں کہ تمہاری ناراضگی دور ہو جائے۔” شیراز نے اس کے پاس دوبارہ صوفے پر آکر بیٹھتے ہی کہا۔ اس سے پہلے زینی کچھ کہتی شیراز کا سیل بجنے لگا۔ اس نے تیزی سے اپنی ٹراؤزر کی جیب سے سیل نکال کر اس پر نظر ڈالی وہ شینا کی کال تھی۔ یہاں کال ریسیو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ شیراز نے سیل آف کر کے فون ٹیبل پر رکھ دیا لیکن وہ کچھ پریشان ہوا تھا۔ آج تک شینا نے کبھی اس وقت اسے کال نہیں کی تھی چاہے وہ جہاں مرضی ہوتا… پھر آج؟…
”تمہاری بیوی کا فون ہو گا؟” زینی نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب اپنا گلاس پی رہی تھی۔
”بہت خوبصورت ہے تمہاری بیوی… لگتا ہے بہت محبت کرتی ہے تم سے… اس لیے فون کر رہی ہے تاکہ جان سکے کہ تم رات کے اس وقت کہاں بیٹھے ہو۔” زینی نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔