”پری زاد سے بھی۔”
زینی نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی۔”یہ بھی” کیا ہوتا ہے شیراز؟ … زندگی میں صرف ”یا” ہوتا ہے… یا”یہ” یا ”وہ”… ”یہ بھی” اور ”وہ بھی” نہیں ہوتا۔” اس کی آوا ز میں تلخی تھی۔
”تم بڑی مشکل باتیں کرنے لگی ہو۔” وہ بات کہہ کر ہنسا۔
”زندگی میں مشکل کام اتنے کر لیے ہیں کہ باتیں تو کچھ بھی نہیں… تم نے بتایا نہیں کہ تم کس سے ملوگے… زینب سے یا پری زاد سے؟”
شیراز کچھ دیر اسے دیکھتا الجھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”پری زاد سے۔” زینی کے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی۔
”پری زاد سے ایک رات کی ملاقات کی قیمت جانتے ہو تم؟” وہ پتہ نہیں اسے کیا جتانا چاہ رہی تھی۔
”بہت پیسہ ہے میرے پاس میں سب کچھ افورڈ کر سکتا ہوں۔” شیراز نے فخریہ لہجے میں کہا۔
”ٹھیک کہا تم نے… تمہارے پاس پیسہ ہے اب… تمہیں سب کچھ افورڈ کرنا چاہیے اب۔” وہ اس کی بات میں چھپے طنز کو نہیں سمجھا تھا۔ صرف مسکرا دیا۔
”چلیں” زینی نے ایک بار پھر کہا۔
گاڑی میں دونوں کے درمیان مکمل خاموشی رہی۔ شیراز ایک بار پھر سے ممکنہ سوال و جواب کی تیاری کرتے ہوئے وقفے وقفے سے زینی کو دیکھ رہا تھا۔ جو بے تاثر چہرے کے ساتھ ونڈ سکرین کے پار دیکھ رہی تھی۔
وہ اس کے ساتھ PC کی ڈرائیووے پر اترا تھا اور اس کے گاڑی سے نکلتے ہی شیراز نے ہر طرف کھڑے مردوں کی نظریں پری زاد پر گڑتی دیکھیں… اسے ایک عجیب سے رشک کا احساس ہوا تھا۔ وہ ایسی ہی کسی عورت کی ہمراہی چاہتا تھا جو اس کے ساتھ ہو تو دنیا کی نظریں اس کا طواف کرتی رہیں… اس کے ساتھ لابی میں داخل ہوتے ہوئے شیراز نے پہلی بار شاید لوگوں کو پری زاد کی طرف ہی نہیں اپنی طرف بھی متوجہ پایا۔
PC کی لابی کے چمکتے فلور پر پر اس خوبصورت ساڑھی میں ملبوس اٹھی ہوئی گردن اور تنے ہوئے وجود کے ساتھ وہ واقعی جیسے پری جیسی تمکنت کے ساتھ چل رہی تھی…رستے میں پڑی ہوئی ”چیزوں” پر ایک نظر بھی ڈالے بغیر یا ایک لمحہ کے لیے بھی کسی سے نظر ملائے بغیر… شیراز کو اس کے قدموں کے ساتھ قدم ملانا مشکل ہو رہا تھا… اپنی ٹائی اور کوٹ کو بار بار ٹھیک کرتا وہ بے حد نروس ہو رہا تھا۔ کیوں ہو رہا تھا یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ پری زاد کے ساتھ ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں قدم رکھتے ہی مختلف ٹیبلز پر اس نے وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ ہوتے دیکھا… شیراز کو اپنے اعصاب جسے کسی نشے کی گرفت میں محسوس ہوئے تھے۔
مینجر پری زاد کو دیکھ کر خود آگے بڑھ آیا تھا وہ خود انہیں ایک ٹیبل تک لے آیا تھا ایک ویٹر ان کے لیے Table سیٹ کرنے لگا کچھ Pleasantries کے تبادلے کے بعد مینجر واپس چلا گیا تھا…
مینو کارڈ ہاتھ میں لئے اسے کھولے بغیر زینی نے شیراز سے کہا اور اپنا کارڈ واپس ویٹر کو دے دیا۔
”نہیں آج سب کچھ تمہاری مرضی سے ہو گا۔” شیراز نے بھی اپنا کارڈ نہیں کھولا۔
”کھانے کے علاوہ سب کچھ میری مرضی سے ہو گا… صرف کھانا تمہاری مرضی سے ہو گا۔” زینی نے عجیب سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”یاد ہے، یاد ہے ایک بار میں نے تم سے کہا تھا کہ میں کبھی تمہیں یہاں پر لاؤں گا اور سب سے مہنگا کھانا کھلاؤں گا۔” شیراز نے دبے دبے جوش کے ساتھ اسے کچھ یاد دلایا تھا۔ زینی کی آنکھوں میں کچھ آیا تھا… پھر چلا گیا۔
”ٹھیک ہے سب سے مہنگی ڈش… سب سے مہنگا ڈرنک۔ ” زینی نے جیسے بات ختم کرتے ہوئے ویٹر سے کہا۔ ویٹر چند منٹ ان کے پاس کھڑا آرڈر کی Details نوٹ کرتا رہا پھروہاں سے چلا گیا۔
زینی نے پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا شیراز نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا۔
”ارد گرد بیٹھے سب لوگ تمہیں دیکھ رہے ہیں۔”
زینی نے ارد گرد نظریں دوڑائے بغیر عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”کچھ دیر بعد ہر کوئی تمہیں بھی دیکھنے لگے گا۔” وہ گھونٹ گھونٹ پانی پی رہی تھی اور شیراز کو دیکھ رہی تھی۔
”دیکھیں گے تو ضرور آخر میں پری زاد کے ساتھ بیٹھا ہوں… مجھے لگ رہا ہے زینی میں جنت میں آگیا ہوں۔” شیراز اپنی خوشی کو چھپانے کی کوشش میں بے حال ہو رہا تھا۔
”جنت میں ہی ہیں… بس نکالے جانے والے ہیں۔” زینی نے ترچھی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے گلاس سے ایک گھونٹ اور لیا۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی خوبصورت باتیں کر سکتی ہو۔” شیراز ہنسا۔
”میں اور کیا کیا کر سکتی ہوں… اندازہ تو تمہیں اس کا بھی نہیں ہے۔”
”تم ٹھیک کہتی ہو… مجھے واقعی اندازہ نہیں تھا کہ تم فلموں میں چلی جاؤ گی… اتنی بڑی سٹار بن جاؤ گی۔” شیراز نے رشک آمیز لہجے میں کہا۔
”اندازہ تو مجھے بھی نہیں تھا کہ تم اتنے بڑے خاندان کے داماد بن جاؤ گے۔”
شیراز چند لمحوں کے لیے بول نہیں سکا۔
”یہ شادی میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی زینی۔” وہ اب سنجیدہ تھا۔
”اچھا؟… تو پھر طلاق دے دو شینا کو… ابھی اور اسی وقت۔” زینی نے جیسے اس کا مذاق اڑتے ہوئے کہا تھا۔
شیراز نے ایک نظر آس پاس بیٹھے لوگوں کو دیکھا یوں جسے یہ اندازہ کرنا چاہ رہا ہو کہ ان میں سے کتنے ہونے والی گفتگو کے موضوع کا اندازہ لگا سکتے تھے۔
”کاش میں یہ کر سکتا… لیکن میرے لیے اسے چھوڑنا بہت مشکل ہے۔” اس نے قدرے بے چارگی سے کہا۔
”حیرت ہے شیراز تمہارے لیے کسی کو چھوڑنا مشکل کیسے ہو گیا؟” زینی نے مصنوعی حیرت کے ساتھ کہا۔
”میں… میں تم سے بہت شرمندہ ہوں زینی۔”
”تمہیں ہونا بھی چاہیے۔” زینی نے اطمینان سے ایک گھونٹ اور بھرا۔
”تم سمجھ رہی ہو شاید میں جھوٹ بول رہا ہوں۔”
”نہیں میں جانتی ہوں تم نے زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا۔”
شیراز جانتا تھا یہ تعریف نہیں تھی۔
”چلو ماضی کو بھول جاتے ہیں زینی۔”
”میں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہوں… تم اپنے مستقبل کو بھول جاؤ…صرف حال میں جیتے ہیں… صرف آج میں… کھاناآگیا۔” اس کا اطمینان شیراز کو الجھا رہا تھا… وہ طوفان سے پہلے کے آثار تھے جن پر شیراز غور نہیں کر رہا تھا۔
شیراز نے کھانا کھایا تھا… زینی نے کھانا ”چکھا” تھا وہ اس کے کھانے سے فارغ ہونے کے انتظار میں بیٹھی مشروب کے سپ لیتی رہی… شیراز مسلسل باتیں کر رہا تھا… اور زینی صرف چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی وہ کیا کہہ رہا تھا وہ سن نہیں رہی تھی صرف اسے بولتے ہوئے دیکھ رہی تھی… ایک وہ وقت تھا جب وہ اس کے ایک ایک لفظ کو جیسے حدیث سمجھ کر سنتی تھی… ایک یہ وقت تھا جب اس کی زبان سے نکلنے والے لفظوں پر اعتبار تو ایک طرف وہ سننے کی کوشش تک کی زحمت نہیں کر رہی تھی۔ وقت وقت کی بات تھی۔
کھانے کا بل شیراز نے دیا… اور جیسے بے حد فخریہ انداز میں دیا تھا۔ یوں جیسے وہ یہ بتانا، چاہ رہا ہو کہ اس کا سٹیٹس تبدیل ہو چکا تھا اب ایسی جگہوں پر کھانوں کے بل ادا کرنا اس کے لیے معمولی بات تھی… وہ صرف یہ نہیں جانتا تھا کہ زینی جن مردوں کے ساتھ وہاں آتی تھی ان میں سے ہر ایک کے لیے ایسی جگہوں پر آکر بل دینا معمول کی بات تھی اور ان میں سے شاید کسی نے بل کے بارے میں اس طرح سوچا بھی نہیں ہو جس طرح شیراز سوچ کر مغرور ہو رہا تھا… لاکھ بھیس بدلے لاکھ ملمع چڑھائے آدمی وہی رہتا ہے جو وہ ہوتا ہے… جیسی غربت ان دونوں نے ساتھ دیکھی تھی ساتھ بھگتی تھی کیسے ممکن تھا کہ وہ اب ایک دوسرے کا ذہن کھلی کتاب کی طرح نہ پڑھ لیتے… کیسے ممکن تھا۔ زینی نہ جان جاتی کہ وہ کس وقت کس چیز کے بارے میں کیا سوچ رہا تھا… کیسے ممکن تھا کہ شیراز یہ نہ جان جاتا کہ وہ اس کا ذہن پڑھ رہی تھی۔
گیسٹ ہاؤس کی طرف جاتے ہوئے ایک سگنل پر شیراز نے اسے دو گجرے لے کر دیے۔ زینی نے ڈنڈے پر لٹکے موتیوں کے تمام ہاروں کی فرمائش کی۔ شیراز خوشی سے جیسے پاگل ہو گیا تھا۔ زینی نے بالآخر اس سے کوئی فرمائش کی تھی… معمولی مگر بالآخر وہ اس سے کچھ مانگ رہی تھی۔
”اتنے ہاروں کا کرو گی کیا؟” ہار پچھلی سیٹ پر رکھتے ہوئے شیراز کو خیال آیا تھا۔
”کسی کی قبر پر چڑھاؤں گی۔” زینی کے لہجے میں بلا کا اطمینان تھا۔
”میری قبر تو نہیں ہے؟” شیراز نے ہنستے ہوئے معنی خیز انداز میں کہا۔
زینی نے بے حد سنجیدگی سے اس کے چہرے کو دیکھا پھر مسکرائی۔
”تمہاری ہی ہے۔”
شیراز نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔
”پہلے تو کبھی میری موت کی بات نہیں کرتی تھی اب کتنے آرام سے کر رہی ہو۔”
”قبر صرف مرنے والے کی تھوڑی ہوتی ہے۔”
”اچھا… پھر؟”
”زندہ درگور ہونے والے کی بھی ہوتی ہے۔”