اس نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے یک دم، مڑ کر مسکراتے ہوئے سلطان سے پوچھا۔ وہ آٹھ سال سے اس کے ساتھ تھا۔ ان آٹھ سالوں میں اسے ایک موقع بھی یاد نہیں آیا۔ جب پری زاد نے اس سے یہ سوال کیا ہو۔ اس نے پری زاد کو کسی سے بھی یہ سوال کرتے نہیں دیکھا تھا۔ پری زاد کیسی لگتی تھی، پری زاد جانتی تھی۔
اس نے پری زاد سے پہلے انڈسٹری کی دو بڑی ہیروئنز کے ساتھ تیرہ سال کام کیا تھا۔ وہ دونوں بھی انڈسٹری کی خوبصورت ترین عورتوں میں شمار ہوتی تھیں۔ مگر وہ دن میں کئی کئی بار سلطان سے یہ سوال کرتی تھیں، اپنی مرضی کا جواب سننے کے باوجود وہ مطمئن نہیں ہوتی تھیں۔ وہ کہیں جانے کے لیے پندرہ پندرہ بار اپنی وارڈ روب سے کپڑے نکالتیں، ہر بار غیر مطمئن ہوتے ہوئے انہیں واپس رکھ دیتیں۔
دس دس جوتے پاؤں میں بدلنے کے باوجود اپنے پاؤں کو دیکھ کر خوش نہیں ہوتی تھیں۔ پندرہ پندرہ بار اپنی جیولری بدلتیں اور پچاسیوں بار اپنا میک اپ ٹھیک کرتیں پھر بھی انہیں اپنے چہرے اور جسم پر موجود دوسرے لوازمات میں کوئی نہ کوئی چیز ٹھیک نہیں لگتی، کوئی نہ کوئی چیز پریشان کرتی رہتی۔ لپ اسٹک ہونٹوں کے کسی نہ کسی گوشے پر ہلکی ہوتی رہتی۔ چہرے کے کسی نہ کسی حصے پر کمپیکٹ پاؤڈر سے پفنگ کی ضرورت پڑتی تھی۔ آنکھوں کا آئی لائنر کہیں نہ کہیں سے نامناسب لگتا ہی رہتا۔
پری زاد وارڈ روب کھول کر ہاتھ میں آنے والا پہلا لباس پہن لیتی۔ بعض دفعہ یہ کام بھی سلطان ہی انجام دیتا وہ اپنی مرضی سے اس کے لیے کپڑے نکال دیتا اور وہ دوسری نظر ڈالے بغیر اس لباس کو پہن لیتی۔ سلطان ہی اس کے لیے میچنگ جیولری اور جوتے نکالتا تھا اور پری زاد کو کبھی ان پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔
سلطان نے ایک بار یہ بات اس سے کہہ ہی دی تھی۔
”جس مرد سے شادی کا ارادہ ہو گا اس کے لیے تیار ہوتے ہوئے گھنٹے لگاؤں گی۔ درجنوں ملبوسات کو رد کر کے کسی ایک لباس کاانتخاب کروں گی۔ جوتے بدل بدل کر دیکھوں گی اور صرف وہ زیور پہنوں گی جو اس نے مجھے دیا ہو گا۔” اس نے ہنس کر کہا تھا۔
”جن کے لیے اب تیار ہوتی ہوں، یہ تو کیڑے مکوڑے ہیں۔” اس نے اسی سانس میں کہا تھا۔
”لیکن تم فکر مت کرو، پری زاد کسی سے شادی نہیں کرے گی۔”
سلطان نے اسے مذاق سمجھا تھا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا پری زاد مذاق بہت کم کیا کرتی ہے۔
آج پری زاد کو تیاری کرتے ہوئے دیکھ کر سلطان کو ایک لمحے کے لیے کچھ شک سا ہوا اس کی وہی بات یاد آئی وہ وارڈ روب کھولے کھڑی کپڑوں پر نظر ڈال رہی تھی اور کسی لباس سے مطمئن نظر نہیں آرہی تھی۔ پھر یک دم مڑ کر اس نے سلطان سے کہا۔
”آؤ سلطان! ساڑھی خریدنے چلیں۔” وہ اسے لے کر ایک بڑے ڈیزائنر کے بوتیک پر آگئی۔ وہاں ساڑھی خریدی جس کے ساتھ بیک لیس بے حد مختصر سا سرخ رنگ کا بلاؤز تھا سلطان کو حیرت ہوئی جب پری زاد نے اس ساڑھی کے ساتھ میچنگ میں ملنے والی سرخ سینڈلز کے بجائے اسی بوتیک میں پڑے ایک اور لباس کے ساتھ رکھی لمبے اسٹرپس کی سینڈل لی۔ ساڑھی نے اس کے پاؤں کو چھپا لینا تھا پھر وہ ان جوتوں کو کیوں خرید رہی تھی سلطان کی سمجھ سے باہر تھا۔
پینتیس ہزار کی ساڑھی اور پانچ ہزار کے جوتے کی ادائیگی پری زاد نے اس کریڈٹ کارڈ سے کی تھی، جس کے بلز چیمبر آف کامرس کے صدر کو بھیجنے جانے تھے۔
اور اب وہ اسی ساڑھی میں ملبوس وہی جوتے پہنے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ڈی بیئرز کے وہ ڈائمنڈ اسٹڈز اور نیکلیس پہن رہی تھی۔ جو اسے پچھلے ہفتے رحیم یار خان میں متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے ایک فرد نے اپنے محل میں تین روزہ قیام کے بعد روانہ ہوتے وقت دیے تھے۔
اپنے Streaked بالوں کو سرکی پشت پر ایک بہت سادہ لیکن بہت خوبصورت تراشیدہ انداز کے جوڑے میں لپیٹے پانچ فٹ سات انچ کی وہ قیامت کسی اور کے لیے قیامت اٹھانے کی تیاری کر رہی تھی۔
سلطان نے اس کے ”میں کیسی لگ رہی ہوں؟” کا جواب نہیں دیا تھا۔ پری زاد نے جواب کا انتظار نہیں کیا تھا۔ وہ اسی طرح پلٹ کر پھر آئینے میں خود کو دیکھتے ہوئے نیکلیس پہننے لگی تھی۔ وہ واضح طور پر سلطان کی درخواست کا مذاق اڑا رہی تھی۔
نیکلیس کو گرد کی پشت کی طرف لے جاتے ہوئے اس نے منہ سے ایک لفظ نکالنے بغیر نیکلیس کے دونوں حصوں کو ہاتھوں سے پکڑے دائیں ہاتھ کی انگلی کو دو تین بار گردن کی پشت پر ہلکے سے مارا۔ یہ سلطان کے لیے مدد کا اشارہ تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر پری زاد کے ہاتھوں سے نیکلس پکڑتے ہوئے اسے اس کی راج ہنس جیسی گردن کی پشت پر بند کر دیا۔ اس کے اتنے قریب کھڑے سلطان نے اس کے جسم سے اٹھتی ایسٹے لارڈر کی مہک کو محسوس کیا۔ چھ انچ اونچی ہیل پہنے وہ اس وقت اس سے آدھ فٹ اونچی تھی۔ سلطان کو اسے گردن اوپر کر کے دیکھنا پڑ رہا تھا۔ وہ بیک لیس اور سلیو لیس بلاؤز میں سے نظر آتے اس کے بے داغ دودھیا جسم کو دیکھ رہا تھا۔ اس کو اگر چھونے کو دل چاہتا تھا تو یہ باعث حیرت نہیں تھا۔ فلم انڈسٹری میں نو سال سے راج کرنے اور دن رات کام کرنے کے باوجود پری زاد آج بھی ہوش ربا تھی۔ وہ اس حسن کے ساتھ انڈسٹری میں اگلے دس سال بھی اسی طرح راج کر سکتی تھی۔ اسے دور دور تک خطرہ نہیں تھا۔ وہ خطرے کو خطرہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دیا کرتی تھی۔
سلطان کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں دبا لیا، وہ اس کے آٹھ سال کی محنت کو مٹی میں ملانے جا رہی تھی۔
”میں یہ سب نہیں ہونے دوں گا۔” سلطان نے بے ساختہ اس کے عقب میں کھڑے ہو کر کہا۔ اپنے جسم پر ہیوگوباس کا اسپرے کرتے پری زاد کا ہاتھ ایک لمحہ کے لیے رکا پھر ڈریسنگ ٹیبل پر بوتل رکھتے ہوئے وہ پلٹ کر سلطان کے مقابل آگئی۔
”تم نہیں کرو گے تو کوئی اور کرے گا۔ پری زاد کو جو کروانا ہے وہ کروا لے گی۔”
اس کا لہجہ سرد او رچٹخا دینے والا تھا۔ سلطان کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے وہ اس کے سامنے سے ہٹ کر بیڈ کی طرف آئی اور وہاں پڑا چھوٹا سا پرس اٹھا لیا۔ سلطان کی طرف دیکھے بغیر وہ بیڈ روم کے بند دروازے کی طرف جانے لگی۔ سلطان لپک کر اس کے سامنے آیا۔ اس نے پری زاد کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔ ایک آخری کوشش۔
”مت کریں پری جی! مت کریں، میں آپ کو تباہ ہونے نہیں دوں گا۔” اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔
”تمہیں لگتا ہے میں تباہ ہونے جا رہی ہوں؟ غلط فہمی ہے تمہاری۔ اس وقت آٹھ بج رہے ہیں۔ میں رات کے دو بجے اسی بیڈ روم میں یہیں تمہارے ساتھ بیٹھ کر چائے پیوں گی۔ اگر تم، ایسا کرو گے جیسا میں کہہ رہی ہوں تو اور اگر تم یہ نہیں کرو گے تو جب میں رات کو دو بجے یہاں آؤں تو مجھے تمہاری شکل نظر نہیں آنا چاہیے۔ نہ آج نہ دوبارہ کبھی۔”
وہ بے حد پر سکون انداز میں ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ پری زاد نے اسے دھمکایا پھر بڑے پیار سے اپنا بازو چھڑاتے ہوئے سلطان کا گال تھپتھپایا، وہ دنیا میں کسی مرد کسی عورت پر اعتماد نہیں کرتی تھی۔ صرف سلطان پرکرتی تھی کیونکہ اس کا تعلق ان دونوں اصناف سے نہیں تھا۔
دروازہ کھول کر قیامت کمرے سے چلی گئی اس نے مڑ کر ایک بار بھی سلطان سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ اس نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ وہ جانتی تھی وہ کیا کرے گا۔ سلطان بھیگی ہوئی آنکھوں اور گالوں کے ساتھ بند دروازے کو دیکھتا رہا۔ چند منٹوں بعد اس نے کسی گاڑی کے اسٹارٹ ہو کر جانے کی آواز سنی۔ وہ تھکے تھکے قدموں کے ساتھ بیڈ کے پاس آیا۔ سائیڈ ٹیبل سے موبائل فون اٹھا کر وہ اس نمبر پر کال کرنے لگا۔ آج کی رات پاکستان فلم انڈسٹری پر بہت بھاری پڑنے والی تھی۔
٭٭٭
شیراز اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا لوگ اسے پری زاد کہتے تھے تو ٹھیک ہی کہتے تھے… اور کیا کہتے؟… وہ بلا شبہ کسی مرد کے ہوش اڑا سکتی تھی… اور وہ بھی مرد تھا… وہ کتنے سالوں بعد یوں ایک دوسرے کے بالمقابل آئے تھے… اس طرح آمنے سامنے کھڑے تھے۔
شیراز کو کیا کہنا تھا وہ سب کچھ بھول گیا تھا… وہ کسی بھی مرد کو کچھ کہنے کے قابل کہاں چھوڑتی تھی اور یہ تو پھر شیراز تھا۔
”چلیں؟” زینی نے اس کے سکتے کو توڑا… یہ وہ آدمی تھا کہ اسے لگتا تھا کبھی اکیلے میں اس کے سامنے آگیا تو وہ مر جائے گی… کھڑی بھی کیسے رہ پائے گی اس کے سامنے… پر وہ کھڑی تھی اور بڑے آرام سے کھڑی تھی… صرف دل تھا جسے سنبھالنے میں کچھ دقت ہو رہی تھی اسے حیرت ہو رہی تھی… یہ دل کو کیا ہو گیا تھا… اتنے سالوں بعد… اتنا سب کچھ سہنے کے بعد بھی بچوں کی طرح کیوں ہمکنے لگا تھا؟… کیوں مچل رہا تھا؟
”اوہ ہاں… تم نے بڑی دیر کر دی۔” شیراز نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹاتے ہوئے گھڑی کو دیکھا… وہ تقریباً دس منٹ کے بعد آئی تھی۔
”ہاں… اب تم سے ملنے کی جلدی نہیں رہی۔”
”میں تو بہت جلد آگیا تھا… وقت سے بھی پہلے۔” شیراز نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
”زندگی میں پہلی بار مجھ سے ملنے کے لیے وقت سے پہلے آئے ہو… ورنہ یہ کام ہمیشہ میں کرتی تھی۔”
”یہ میں پھول لایا ہوں تمہارے لیے۔” شیراز نے ایک بارپھر اس کا معنی خیز جملہ نظر انداز کیا اور ٹیبل پر پڑا بکے اٹھا کر اس کے آگے کیا۔
”پھولوں سے بہلنا چھوڑ دیا ہے میں نے۔” زینی نے ایک نظر ان پھولوں پر ڈال کر کہا۔
”لیکن تمہیں تو پھول بہت پسند ہوتے تھے کبھی۔” شیراز نے جیسے اسے یاد دلایا۔
”حیرت ہے تمہیں یاد ہے۔” زینی کے لہجے میں حیرت نہیں طنز تھا۔
”مجھے سب کچھ یاد ہے” شیراز نے اپنے لہجے کو خوشگوار بنانے کی کوشش کی۔
”مجھے بھی۔” زینی نے بے ساختہ کہا۔
شیراز ایک لمحے کے لیے کچھ بول نہیں سکا۔
”مجھے بڑی خوشی ہو گی اگر تم یہ لے لو گی۔” شیراز کا لہجہ اب تقریباً التجائیہ ہو گیا تھا۔
زینی نے ایک نظر اس پر ڈالتے ہوئے پھول اس کے ہاتھ سے لیے اور پھر بے حد لاپروائی سے انہیں میز پر پھینک دیا۔
شیراز کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔
”تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔” اس نے اس پر تعریف کا حربہ استعمال کیا۔
”اتنی خوبصورت ہوتی تو تمہاری بیوی ہوتی۔” زینی نے اس کے حربے کو کند کرتے ہوئے کہا۔
”زینب میں۔۔۔۔”
”میں پری زاد ہوں۔” اس نے شیراز کی بات کاٹ دی۔
”میں زینب سے ملنے آیا ہوں۔”
”پری زاد سے نہیں؟” زینی نے جیسے اس کا مذاق اڑایا تھا۔