”زری آئی تھی کل۔” کرم چائے کا گھونٹ نہیں بھر سکا اتنے عرصہ بعد زری کا وہاں آنا کیا معنی رکھتا تھا؟ وہ کسی بزنس وینچر کے لیے چند ہفتوں کے لیے امریکہ گیا تھا اور اب صبح اس کی ماں اسے بتا رہی تھی۔
”کب؟” ”کیا کہہ رہا ہے… تمہیں تو کہنا چاہیے”کس لیے؟” کرم کی ماں کو اس کا سوال بری طرح کھلا تھا۔ ”تمہارے امریکہ جانے کے دو دن بعد آئی تھی… کہہ رہی تھی کرم سے ملنا ہے… میں نے بھی اچھی بے عزتی کی اس کی… روتی ہوئی گئی وہ یہاں سے… آگئی ہو گی پھر پیسے لینے کے لیے میرا بیٹا جیسے نوٹوں کی مشین بن گیا ہے اس کے لیے جب دل چاہے گی نوٹ نکال لے گی… میں نے کہہ دیا اس سے کہ دوبارہ کبھی ادھر کا رخ نہ کرے… اس کی وجہ سے میرے بیٹے کو کینسر ہو گیا وہ کتنی بھولی بن کر آگئی… کرم ہوں گے مجھے ان سے ملنا ہے۔” کرم کی ماں اب زری کی نقل اتار رہی تھی۔ کرم ناشتہ کرنا بھول گیا تھا۔ اس کی چھٹی حس نے جیسے اسے بتا دیا تھا کہ زری مشکل میں تھی… وہ اس کی بیوی نہیں رہی تھی اس کے باوجود کرم کو اس کی بے بسی یا بے عزتی کے احساس سے کوئی خوشی نہیں پہنچی تھی۔ اس کی ماں مسلسل بول رہی تھی اور وہ صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اسے کس مسئلے نے اس کے پاس آنے پر مجبور کیا ہو گا۔
آفس جاتے ہی اس نے سیکرٹری کو اس اپارٹمنٹ کے مالک سے رابطے کی ہدایت کی تھی جو اپارٹمنٹ اس نے زری کو کرائے پر لے کر دیا تھا… آدھ گھنٹہ میں اُسے پتہ چل گیا تھا کہ وہ اپارٹمنٹ اسی سال چھوڑ دیا گیا تھا جب وہ لیا گیا تھا… جمال اور زری نے اس اپارٹمنٹ کو ایک سال مکمل ہونے کے بعد دوبارہ کرائے پر نہیں لیا تھا اور وہاں سے چلے گئے تھے اب وہ وہاں سے کہاں گئے تھے یہ جاننے کا کرم کے پاس کوئی طریقہ نہیں تھا۔ جمال نے اس فیکٹری میں پیکنگ کا کام نہیں کیا تھا یہ وہ پہلے سے ہی جانتا تھا لیکن پھر اس نے کہاں کام تلاش کیا اسے اس کے بارے میں بھی پتہ نہیں تھا۔ اس کے پاس زری کا کوئی کانٹیکٹ نمبر بھی نہیں تھا جس کے ذریعے وہ اسے ٹریس آؤٹ کرنے کی کوشش کرتا… واحد کام جو وہ کر سکتا تھا وہ اس اپارٹمنٹ کے آس پاس کے اپارٹمنس سے زری اور جمال کے موجودہ پتہ کا پتہ چلانے کی کوشش تھی لیکن وہ یہ کرنا نہیں چاہتا تھا… کوئی نہ کوئی چیز اس فیصلے میں آڑے آرہی تھی۔
اس نے وقتی طور پر زری کو نہ ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا تھا اسے یقین تھا کہ اگر اسے واقعی اس کی ضرورت ہوتی تو وہ دوبارہ اس کے گھر یا آفس ضرو رآئے گی اور اس نے اس کے بارے میں اپنی سیکرٹری کو ہدایات دی تھیں۔ اس دن کام کرتے ہوئے زری بار بار اس کے ذہن میں آتی رہی اور اس کے بارے میں سوچتے ہوئے ہی اسے اس کا بینک اکاؤنٹ چیک کرنے کا خیال آیا تھا اس کا اکاؤنٹ اس نے اپنے بینک میں ہی کھلوایا تھا اور زری نے اپنے حق مہر کی رقم اس میں جمع کروائی تھی… کرم اس رقم کے علاوہ بھی کئی بار وقتاً فوقتاً اس کے اکاؤنٹ میں مزید رقم جمع کرواتا رہا تھا لیکن یہ جاننے کی کوشش کیے بغیر کہ اس کے اکاؤنٹ میں اب بیلنس کتنا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ زری کے اکاؤنٹ میں اتنی رقم ضرور تھی کہ اگر وہ بڑے اخراجات نہ کرتی تو اس کے چند سال بے حد آرام سے گزر سکتے تھے۔
بینک سے اسے اب اس کے بیلنس کے بارے میں تو پتہ نہیں چل سکتا تھا لیکن کرم کو یقین تھا کہ ان کے پاس زری کا کوئی موجودہ پتہ یا کانٹیکٹ نمبر ضرور ہو گا۔ وہ یہ دونوں چیزیں بھی اسے نہیں دینے والے تھے لیکن کرم چاہتا تھا کہ وہ اپنا کانٹیکٹ نمبر ان کے ذریعے زری تک ضرور پہنچاتا تاکہ وہ اس سے رابطہ کرنا چاہتی تو کر لیتی۔
لیکن بینک مینجر سے بات کرنے پر اسے شاک لگا تھا زری کا وہ اکاؤنٹ بھی اسی سال بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔ جس سال ڈائیورس ہونے کے بعد جمال کے ساتھ شادی کی گئی تھی۔ کرم کو کچھ دیر کے لیے یقین نہیں آیا۔ زری نے اتنی بڑی رقم کا کیا کیا تھا؟
کرم کو اب شبہ نہیں رہا تھا کہ وہ شدید قسم کے فنانشل کرائسس کا شکار تھی اور شاید اسی لیے اس کے پاس آئی تھی۔
اگلے چند دن وہ زری کے بارے میں تشویش کا شکار رہا۔ چند بار اسے خیال آیا کہ وہ پاکستان فون کر کے اس کے گھر سے اس کے بارے میں بات کرے لیکن ایک بار پھر وہ اپنے اس ارادے سے باز رہا تھا … وہ Humble تھا… شریف تھا نیک تھا، مخلص تھا، اعلیٰ ظرف تھا… لیکن تھا ایک ”مشرقی مرد” جس کی انا اس کے لیے بہت ساری خندقیں کھود دیتی ہے۔
اگلے چند دنوں میں وہ زری کو بھول گیا تھا… اس کے ساتھ اس کا کوئی ایسا جذباتی تعلق نہیں تھا جو سالوں چلتا… وہ اسے اس آسانی سے نہ بھولتا تو اور کیا کرتا…
”کب ہو رہا ہے تمہارا آپریشن؟” اس دن وہ رات کو سونے سے پہلے ماں کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا… اس کے بہن بھائی پورا دن وہاں گزارنے کے بعد چند گھنٹے پہلے ہی واپس گئے تھے اور کرم بے حد خوشگوار موڈ میں تھا۔
”دو تاریخ کو۔” ”اللہ کرے آپریشن کامیاب ہو جائے” اس کی ماں نے دونوں ہاتھ اٹھا کردعا کی۔
”ڈاکٹر کہہ رہا تھا معمولی آپریشن ہے… پریشانی کی کوئی بات نہیں آپ بس دعا کریں۔” کرم نے ماں کو تسلی دی۔
”یہ کوئی کہنے کی بات ہے… میں نے تو جب سے تمہاری بیماری کا سنا ہے… دن رات تمہارے لیے دعا کر رہی ہوں۔ میری تو راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔” اس کی ماں کی آواز بھرا گئی۔
”بیٹھے بٹھائے کیسی مصیبت میرے بچے پرآگئی۔” اس کی ماں نے دوپٹے کے ساتھ اپنے آنسو پونچھے۔
”آپ اتنا مت سوچیں ۔”
”کیسے نہ سوچوں؟… ماں ہوں میں تمہاری… اولاد کو تکلیف ہو تو مجھے کیسے تکلیف نہیں ہو گی۔”
”میں جانتا ہوں۔” کرم نے سرجھکا کر کہا۔
”اور میں کیا تمہارے سارے بہن بھائی پریشان ہیں تمہاری وجہ سے… دعائیں کر رہے ہیں وظیفے کر رہے ہیں۔ منتیں مانی ہوئی ہیں سب نے۔” اس کی ماں نے قدرے جوش سے کہا۔ کرم تشکر کے احساس سے مغلوب ہو کر کچھ دیر کے لیے کچھ بول نہیں سکا۔
”جان دیتے ہیں سب تجھ پر کرم… بڑا اتفاق ہے میری اولاد میں… اللہ یہ اتفاق ہمیشہ برقرار رکھے۔” اس کی ماں نے ایک بار پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی تھی۔
”بس مجھے رہ رہ کر ایک بات کا خیال آتا ہے۔ ” اس کی ماں نے کہا۔
کرم چونک گیا۔
”کس بات کا؟” ”زندگی اور موت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا بیٹا… اللہ تمہیں لمبی عمر دے… میری عمر بھی لگا دے… لیکن میں کہہ رہی تھی کہ تم اپنی وصیت لکھوا دیتے تو اچھا تھا… آپریشن چھوٹا سہی… پر ہے تو آپریشن ہی۔” کسی نے خنجر لے کر پوری قوت سے کرم کے عین دل میں گھونپ دیا تھا… سانس لینے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
”تمہارے بہن بھائی بھی کئی دنوں سے مجھے یہی کہہ رہے ہیں کہ بھائی جان سے کہیں وہ اپنے کاروبار اور جائیداد کے بارے میں وصیت لکھ دیں۔ تمہیں پتہ ہے بعد میں ایسی باتوں پر کتنے جھگڑے ہوتے ہیں تم اپنی زندگی میں ہی سب کو بتا دو گے کس کو کیا ملے گا تو پھر بعد میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔” اس کی ماں سادہ لہجے میں کرم کا چہرہ دیکھے بغیر کہتی جا رہی تھی… خاموشی سی خاموشی تھی جو کرم کے اندر اور باہر چھائی تھی… تاریکی سی تاریکی تھی جو ہر طرف پھیل گئی تھی… صرف وہی ایک لمحہ تھا جب کرم نے دل سے اللہ سے واقعی موت مانگی تھی… موت آسان تھی۔ وہ سب بہت اذیت ناک تھا جو وہ سن رہا تھا… ماں نے اسے کچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ وہاں بیٹھے چند لمحوں کے لیے اس نے خود کو ہر فریب دینے کی کوشش بھی کی کہ وہ ایک ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا… بے حد ڈراؤنا خواب جو صرف چند منٹوں کے بعد ٹوٹ جانا تھا… لیکن خواب میں کوئی آنکھیں اور کان کیسے کھلے رکھ سکتا تھا یہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
”آصف تو ویسے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے بھائی جان نے پہلے ہی وصیت لکھوا لی ہو۔ وہ بڑے عقل مند آدمی ہیں… ہماری طرح تھوڑے ہیں۔” اس کی ماں بولتی جا رہی تھی۔ کرم کا پورا وجود ادھڑنا شروع ہو چکا تھا۔ سلائیوں سے اترے کسی نامکمل سویٹر کی طرح جس کی اون کے سرے کو کوئی پکڑے کہیں کھینچتا جا رہا تھا… وہ سب ماں نہ کہتی تو گھاؤ اتنا گہرا نہ لگتا پر وہ سب ماں کہہ رہی تھی اور برداشت نہیں ہو پا رہا تھا… کرم بس ماں کا چہرہ دیکھتا جا رہا تھا… بس دیکھتا جا رہا تھا… کون کہتا تھا کہ ماں کبھی اولاد کی موت کی بات نہیں کرتی… اس کی ماں تو کر رہی تھی… کسی دقّت کے بغیر بے حد آسانی سے…
”پھر میں کیا کہوں تمہارے بہن بھائیوں سے؟” وہ اب اپنی بات ختم کرتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔
”لکھوا دوں گا… آپ آرام کریں۔” یہ دو جملے بولنے کے لیے کرم کو گردن تک دلدل میں پھنسے آدمی کی طرح کوشش کرنی پڑی تھی۔
”جیتے رہو۔ ”اس کی ماں نے ہمیشہ کی طرح دعا دیتے ہوئے اس کا چہرہ پکڑ کر اس کا ماتھا چوما… پہلی بار کرم کو وہ بوسہ ٹھنڈا لگا تھا… یا پھر وہ اس کا دل تھا جس نے کسی بھی لمس کو جذبات اور احساسات میں Convert کرنا چھوڑ دیا تھا۔
وہ چپ چاپ اٹھ کر کمرے سے باہر آگیا۔ رات ایک بار پھر بہت لمبی ہو گئی تھی… گھر ایک بار پھر بہت خالی لگنے لگا تھا… تنہائی ایک بار پھر اسے وحشت زدہ کرنے لگی تھی… تو کرم علی کون تھا؟… اس کی زندگی کیا تھی؟… اس کا ہونا نہ ہونا کیامعنی رکھتا تھا… بہت سارے سوال تھے جو اس کوچکرا رہے تھے اسے اس وقت شوکت زمان بری طرح یاد آیا تھا… وہ آج صحیح معنوں میں شوکت زماں کی اذیت محسوس کر سکتا تھا اس کی زندگی کے ساتھ relate کر سکتا تھا۔ دنیا کی ‘محبت” جیتنے اور اپنے رشتوں کی محبت ”پانے” کے لیے کی جانے والی کوشش میں بس ایک فرق ہوتا ہے… دنیا کی محبت جیتنے میں ناکام رہنے کا غم انسان کو گھن کی طرح نہیں کھاتا… اپنوں کی بے اعتنائی دیمک کی طرح چاٹنے لگتی ہے… دنیا کی محبت سو بار ”خالص” ہونے کے پیمانے پر تولنے کے بعد بھی اپنی شرطوں پر قبول کرتا ہے… اپنوں کی ”جھوٹی محبت” کے لیے بھی وہ جھولیاں پھیلائے رہتا ہے… خونی رشتے وہ وٹامنز ہوتے ہیں جن کے بغیر انسان اپنی جوانی گزار سکتا ہے بڑھاپا نہیں… اور کرم وہ 40 سال میں بھی اسی طرح خالی ہاتھ تھا جس طرح اپنے 20 سال میں یا جس طرح اپنے 60 سال میں ہوتا… شوکت زمان جیسی زندگی تو وہ نہیں گزارنا چاہتا تھا… اسے ایڈز تھا وہ اس لیے ایڑیاں رگڑنے پر مجبور اور موت مانگنے پر مجبور ہو گیا تھا… اور کرم وہ کیوں موت مانگ رہا تھا۔
”میں نہ آپ کو زہر لا کر دے سکتا ہوں نہ تکیے سے آپ کا سانس بند کر سکتا ہوں نہ ہی آپ کا گلا دبا سکتا ہوں۔ یہ گناہ ہے میں نہیں کر سکتا۔ ”اس نے اس رات شوکت سے کہا تھا۔
”لیکن دیکھ کرم میں تجھے اس کے بدلے میں اپنی پوری جائیداد دے رہا ہوں تیری زندگی بدل جائے گی… زندگی میں ایسا موقع پھر کہاں ملے گا تجھے؟” شوکت زماں ایک بار پھر گڑگڑا رہا تھا۔
”میں آپ سے زیادہ بزدل آدمی ہوں شوکت صاحب… آپ کی خدمت کر سکتا ہوں اگلے دس سال بھی آپ اس بستر پر پڑے رہے تو آپ کی غلاموں کی طرح خدمت کروں گا… لیکن جان نہیں لے سکتا آپ کی… آپ کے کہنے پر بھی نہیں… ساری رات سوچا ہے میں نے اس بارے میں… لیکن اتنا بڑا گناہ نہیں کر سکتا… اور وہ بھی صرف پیسے کے لیے۔” کرم نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا تھا۔
”تو پھر تو کسی اور آدمی سے بات کر… اس سے کہہ وہ یہ کام کر دے۔” شوکت زماں نے کہا تھا۔
”وہ بھی گناہ ہو گا وہ بھی میرے ہی حساب میں لکھا جائے گا… مجھے معاف کر دیں لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔” کرم نے بے چارگی سے شوکت زماں سے کہا۔
”تو بڑا ظالم آدمی ہے کرم… تجھے انسانوں پر ترس نہیں آتا… میں نے کتنے احسان کیے تجھ پر… اور اب تیرے سامنے ایڑیاں رگڑ رہا ہوں اور تو میرے لیے ایک چھوٹا سا کام نہیں کر سکتا۔” شوکت زماں اسے ایک بار پھر گالیاں دے رہا تھا۔
کرم چپ چاپ سنتا رہا پھر اٹھ کر باہر آگیا۔ اس نے زندگی میں پیسے کی خواہش ضرور کی تھی لیکن اس کے لیے کبھی کوئی حرام کام نہیں کیا تھا۔ وہ اب کیسے کر سکتا تھا۔
شوکت زماں کی آواز وہ باہر تک بھی سن سکتا تھا… وہ نقاہت بھری آواز میں اسے وہاں سے نکل جانے کے لیے کہہ رہا تھا… اور یہ وہ لمحہ تھا جب کرم علی نے واقعی وہاں سے چلے جانے کا سوچا تھا۔ اگلے چند دن وہ شدید کش مکش میں رہا تھا وہ شکوت زماں کوچھوڑ کر چلا جاتا تو پھر اس کا کیا ہوتا… اسے یقینا ہاسپٹل منتقل کرنا پڑتا لیکن وہاں شوکت زماں کے پاس چند لمحوں کے لیے بھی اس کی عیادت کے لیے جانے والا کوئی نہ ہوتا… لیکن وہ اس کے پاس رہتا تو اسے خدشہ تھا کہ وہ کسی کمزور لمحے کی گرفت میں آکر شوکت زماں کی بات ماننے پر مجبور نہ ہو جائے… وہ پہلے ہی شوکت زماں کی دولت کے بارے میں بہت کچھ سوچنے لگا تھا اور اسے ایک دوسرے شخص کی دولت کے بارے میں سوچنے کا خیال پریشان کرنے لگا تھا… شوکت زماں کی دولت جیسے اس کے دل کو اپنی طرف کھینچنے لگی تھی۔
جس صبح وہ اپنا سامان پیک کر کے گھر چھوڑنے کی اطلاع دینے شوکت زماں کے پاس آیا اس نے اسے اپنے بستر میں مردہ پایا… کرم کو شدید رنج ہوا تھا… وہ چند لمحے وہ تھے جب اسے لگا تھا اس کے پاس دولت مند ہونے کا سنہری موقع تھا پھر اس نے اس کی بات کیوں نہ مانی… لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا… ہاتھ سے سب کچھ اب نکل چکا تھا… کرم علی یہ نہیں جانتا تھا کہ شوکت زماں اپنی وصیت بہت پہلے لکھوا چکا تھا اور اپنی وصیت میں اپنے دونوں بیٹوں کے لیے کچھ مخصوص رقم چھوڑنے کے سوا اس نے اپنی ساری جائیداد کرم علی کے نام کی تھی… لیکن یہ جائیداد کرم کو تب ملتی اگر شوکت زماں قدرتی موت مرتا… شوکت زماں مرنے سے پہلے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیل رہا تھا یہ کرم کو کبھی سمجھ میں نہیں آیا… آج آگیا تھا… وہ ساری عمر شوکت زماں کواپنا محسن سمجھ کر اس کا احسان مند رہا… وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس ”محسن” نے دولت کی شکل میں آپنا وہ عذاب اس سزا کے طور پر مسلط کر دیا تھا جو وہ ساری عمر خود اٹھائے پھرا… کرم سمجھتا رہا اس نے اسے آزمائش میں پورا اترنے پر انعام کے طور پر جائیداد اس کے نام کی تھی… مگر شوکت زمان نے فطری موت ہونے کی صورت میں کرم کی مدد نہ ملنے کے امکان کو سامنے رکھتے ہوئے اس کو وہ سب سونپ دیا تھا… وہ کرم کو اتنا مالا مال کر دینا چاہتا تھا کہ اس کے خونی رشتے اسے گِدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھانے لگیں کرم کی جیبوں کے علاوہ ان کا دھیان کہیں اور جائے ہی نہ… وہ اسے دولت نہ دیتا تو محنت مزدوری کر کے پیسہ اکٹھا کرنے والے کرم کو شاید خونی رشتوں کی وہ قدر اور محبت مل جاتی جو اسے اب نصیب نہیں تھی… شوکت زماں اس سے ہمدردی اورمحبت کرنے والوں کو رشک اور حسد کرنے والے جمگھٹے میں تبدیل کرنا چاہتا تھا اور شوکت زماں نے ایسا کر دکھایا تھا۔
اپنے بیڈ روم میں اس رات بیٹھ کر کرم نے اتنے سالوں میں پہلی بار سوچا کہ اسے شوکت زماں کا وہ سارا پیسہ تب نہیں لینا چاہیے تھا … وہ اس کا پیسہ نہیں تھا… اس نے اسے نہیں کمایا تھا… وہ ایک آدمی کا چھوڑا ہوا ترکہ تھا جو اس کی اولاد کے پاس جانا چاہیے تھا چاہے اس آدمی نے اسے اولاد کے لیے چھوڑا تھا یا نہیں… وہ دولت کرم علی کے لیے ”کرم” نہیں تھی۔
٭٭٭