”سفیر میں اس وقت اپنے سین کی تیاری کر رہی ہوں… مجھے اپنی لائنز یاد کرنی ہیں… تم ویسے بھی اس وقت غصے میں ہو… اور جب تمہیں غصہ آجائے تو پھر تمہیں کچھ سمجھ نہیں آتا… اس لیے ہم اس معاملے پر تب بات کریں گے جب تمہارا غصہ ختم ہو جائے گا۔” وہ اس طرح بات کر رہی تھی جیسے کسی چھوٹے بچے کو بہلا رہی ہو۔
”بھاڑ میں گیا تمہارا سین… تم میرا کیرئیر تباہ کر رہی ہو اور تمہیں اپنے سین کی پڑی ہے۔” سفیر نے اس کے سامنے پڑی میز کو ٹھوکر سے دور پھینکا تھا۔ اس پر بڑی چیزیں کمرے میں بکھر گئی تھیں۔
زینی نے بے تاثر چہرے کے ساتھ فرش پر دور پڑی ٹیبل اور بکھری ہوئی چیزوں پر ایک نظر ڈالی پھر ہاتھ میں پکڑے سین کے صفحات کو لپیٹ کر سلطان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے سفیر سے کہا۔ ”میں تمہیں سچ بتاؤں سفیر… تمہارا کیرئیر پہلے ہی ختم ہو چکا ہے۔” زینی کی آواز میں جھلکنے والی ٹھنڈک نے سفیر کے وجود میں پہلی دفعہ لڑکھڑاہٹ پیدا کی… وہ اس ٹھنڈک سے نا آشنا تھا… وہ اس پری زاد کو نہیں جانتا تھا۔
”دس فلمیں فلاپ ہونے سے کسی کا کیرئیر ختم نہیں ہو تا۔” اس نے غراتے ہوئے زینی سے کہا۔
”اگر دس فلمیں ایک سال میں فلاپ ہوں تو ہو جاتا ہے… تم انڈسٹری میں اپنا وقت گزار چکے ہو۔” زینی کے انداز اور آواز میں سفاکی تھی وہی سفاکی جس کے لیے فلمی ہیروئنز جانی جاتی تھیں۔
”اس لیے تم ہر فلم میں اپنے ساتھ سفیان کو کاسٹ کرواتی پھررہی ہو۔” سفیر کو فلم انڈسٹری میں پھیلے کئی ماہ سے گردش کرنے والی وہ خبریں یاد آنے لگیں جنہیں وہ افواہیں کہہ کر جھٹلاتی رہی تھی۔
”لوگ مجھے اور سفیان کو ”ساتھ” دیکھنا چاہتے ہیں۔” زینی کے ہونٹوں پر جھلسا دینے والی مسکراہٹ تھی۔
”اور کل تک میں تمہیں فلموں میں کاسٹ کرواتاپھر رہا تھا… مجھے کسی اور ہیروئن کے ساتھ کام نہیں کرنے دیتی تھی تم… تماری وجہ سے آدھی انڈسٹری کی ایکٹریسز اور ڈائریکٹر کے ساتھ جھگڑے مول لیے میں نے۔” سفیر اب چلانے لگا تھا۔ اسے احساس ہونے لگا تھا وہ پری زاد کی وجہ سے کس طرح اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتا رہا تھا۔ وہ کتنی آسانی سے اسے بے وقوف بناتی رہی تھی۔
”تمہاری وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی۔ ”
”مجھ سے پوچھ کر نہیں دی ۔”
”میں نے تمہیں لاکھوں کے تحائف دیے اور اب تم مجھے استعمال کر کے ایک اور نئے ہیرو کے ساتھ پینگیں بڑھاتی پھر رہی ہو۔”
”تم نے میرا وقت لیا اور اس وقت کی قیمت دی… پھر احسان کس چیز کا جتا رہے ہو تم؟” وہ بے یقینی سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔
”وقت؟… تم مجھ سے محبت کا دعویٰ کرتی رہی۔” وہ ایک بار پھر چلاّیا۔
”میں نے کبھی تم سے یہ نہیں کہا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں… ایک بار بھی نہیں۔” زینی نے بے حد پر سکون لہجے میں کہا تھا۔
”تم… تم… مجھ سے کہتی تھی کہ میں تمہیں اچھا لگتا ہوں… تم میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔۔۔۔” سفیر کو یاد آگیا تھا۔ اس نے زینی کی زبان سے واقعی اپنے لیے محبت کا اعتراف کبھی نہیں سنا تھا۔
”اچھے لگنے میں اور محبت کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔” زینی کے لہجے کا اطمینان ہنوز برقرار تھا۔
”تم مجھے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینک رہی ہو۔”
”تم عورتوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟” اس نے دوبہ دو کہا تھا۔
”مجھے تم سے نفرت محسوس ہو رہی ہے۔” سفیر نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
زینی بے اختیار مسکرائی۔
”یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی… کچھ اور؟”
”میں… میں تمہیں دیکھ لوں گا پری زاد… میں تمہیں۔۔۔۔” سفیر خان جملہ مکمل نہیں کر سکا تھا وہ اب اسے گالیاں بکنے لگا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ اس پر حملہ کرتا سلطان اس پر جھپٹ پڑا تھا۔ دونوں کے درمیان ہاتھا پائی ہونے لگی تھی چند منٹوں کے اندر سیٹ پر موجود تمام افراد ڈریسنگ روم میں پہنچ گئے تھے… سفیر خان کو زبردستی وہاں سے لے جایا گیا تھا… ہر ایک کا خیال تھا کہ وہ وہاں شراب کے نشے میں آیا تھا اور جو کچھ کہہ رہا تھا نشے میں کہہ رہا تھا… اور زینی نے اس تاثر کو مضبوط کیا تھا۔ پری زادنے سفیر کے اس رویے پر احتجاجاً ان تمام فلمز میں کام کرنے سے انکار کر دیا تھا جو اس نے پچھلے کئی سالوں میں سائن کی تھیں اور جن میں سفیر ہیرو کے طور پر اس کے ساتھ تھا… وہ ایسی کسی فلم میں اب کام کرنے پر تیار نہیں تھی جس میں سفیر کسی بھی رول میں موجود ہوتا… دوسری طرف ایسا ہی اعلان سفیر نے بھی کر دیا تھا… اس نے پریس کانفرنس کر کے میڈیا کے سامنے پری زاد پر اپنے الزامات دہرائے اور ان الزامات کے ساتھ اس نے اس پر کچھ اور رکیک الزامات بھی لگائے… اس نے صرف ایک پریس کانفرنس پر اکتفا نہیں کیا۔ وہ یکے بعد دیگرے پریس کانفرنسز کا انعقاد کرتا رہا اور ایسی کچھ پریس کانفرنسز میں اس نے میڈیا کے سامنے ان ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کے نام لیے اور انہیں لانے کا وعدہ کیا جنہوں نے پری زاد کے کہنے پر اس کے سینز کاٹے تھے، اخبارات میں ان لوگوں کے نام شائع ہوتے ہی انڈسٹری میں مزید کھلبلی مچ گئی تھی ان میں ہر ڈائریکٹر اور پروڈیوسر نے اخبار والوں کو فون کر کر کے سفیر کے ان الزامات کی تردید کی تھی ان میں سے کوئی بھی سفیر کی پریس کانفرنس میں آکر اس کے ساتھ بیٹھ کر پری زاد کے بارے میں میڈیا کے سامنے کچھ کہنے پر تیار نہیں تھا… ہر ایک جانتا تھا کہ ان کی ایسی کسی حرکت کو پری زاد کس طرح لے گی… ہر ایک نے وقتی طور پر سفیر خان کو بھی Avoid کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور یہ چیز سفیر کے لیے بہت بڑا سیٹ بیک تھا… وہ انڈسٹری کے لوگوں سے ایسے رویے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اس چیز نے اس کی فرسٹریشن اور ڈپریشن میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ انڈسٹری پہلی بار جیسے ایک عورت کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھی۔ ماپ کے عہدے داران نے انڈسٹری کے ان دو Giants کے درمیان مفاہمت اور مصالحت کی کوششیں کی تھیں کیونکہ بہت سارے فلم میکرز کا پیسہ ان دونوں کے ایک ساتھ کام نہ کرنے کی وجہ سے ڈوبتا لیکن سفیر کی ہر نئی پریس کانفرنس صورت حال کو خراب کرتی رہی… وہ ان پریس کانفرنسز کا سلسلہ بند کرنے پر تیار نہیں تھا اور ماپ کے عہدے داران پری زاد پر دباؤ ڈالنے میں ناکام ہو رہے تھے کیونکہ وہ ایسی ہر کوشش کے جواب میں ان کے سامنے سفیر کی کسی نئی پریس کانفرنس کے الزامات رکھ دیتی جن کا جو اب ماپ کے عہدیداران کے پاس نہیں ہوتا تھا۔
چند ماہ اخبارات میں اس سکینڈل کی خبریں جلی سرخیوں میں شائع ہوتی رہیں پھر جوں جوں سفیر کی پریس کانفرنسز بڑھتی گئیں ان میں آنے والے جرنلٹس کی تعداد کم ہوتی گئی۔
پری زاد کی طرف سے کسی الزام کا جواب نہیں دیا گیا تھا… کوئی پریس کانفرنس نہیں کی گئی تھی… کوئی تصدیق یا تردید نہیں آئی تھی… وہاں مکمل خاموشی تھی اس نے کسی فلمی تقریب میں میڈیا کے لوگوں کی ہزار کوششوں کے باوجود سفیر کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا اور اس کی اس حکمت عملی نے سفیر کو اس سے زیادہ نقصان پہنچایا جتنا سفیر کے میڈیا میں آنے والے الزامات نے پری زاد کو…
فوری طور پر سفیر کو اس نقصان کا اندازہ نہیں ہوا تھا جو اسے آنے والے دنوں میں پری زاد کے ساتھ کام نہ کرنے کے فیصلے سے ہونے والا تھا… لیکن چند ماہ میں ہی اسے پتہ چلنا شروع ہو گیا تھا کہ انڈسٹری نے اس پوری جنگ میں کس فریق کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا… بہت ساری ان فلمز میں اس کو نکال دیا گیا تھا جن میں پری زاد کو بھی سائن کیا گیا تھا اور یہ سفیر کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ کیونکہ کسی فلم ڈائریکٹر نے اسے فلم میں رکھتے ہوئے پری زاد کو نہیں نکالا تھا۔ پری زاد کے ساتھ اس کی نفرت میں اضافہ ہوا تھا اور اس نفرت کے ساتھ ساتھ شراب نوشی اور ڈرگز کے استعمال میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ ایک سال میں اس کی چند دوسری ہیروئنز کے ساتھ تین مزید فلمز فلاپ ہوئیں… سفیر کے پاس فلمز کی آفر ایک دم نہ ہونے کے برابر ہو گئی تھیں۔ وہ جس معاوضے میں ہر سال اضافہ کر رہا تھا اب اچانک اس نے اس میں آدھی کمی کر دی تھی اور جن مطالبات اور نخروں کے ساتھ وہ ڈائریکٹر اور پروڈیوسرز کا جینا حرام کر دیتا تھا وہ جیسے اب قصہ پارینہ بن گئے تھے… وہ صرف ہر قیمت پر کام چاہتا تھا… ہر قیمت پر انڈسٹری میں اِن رہنا چاہتا تھا اور اب اسے پری زاد کے خلاف اس طرح کے ری ایکشن پر پچھتاوا بھی ہونا شروع ہو گیا تھا اس نے کھل کر اسے دشمن بنا کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی تھی… انڈسٹری کے چند بڑوں کے ذریعے اس نے بالواسطہ اور بلاواسطہ پری زاد سے مصالحت کی کوششیں کرنی شروع کر دیں لیکن ایسی کسی بھی کوشش کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا پری زاد اور سفیان کا پیئر اس وقت انڈسٹری کا Hottest Pair تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انڈسٹری میں ان کے درمیان افیئر کی خبریں بھی گرم تھیں ان حالات میں سفیر کے ساتھ مصالحت کرنا زینی کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ دو سال کے اندر بے تحاشا شراب نوشی کی وجہ سے سفیر کے وزن میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا۔ اس کے سر کے بال کم ہونے لگے تھے اس کے چہرے پر بڑھتی ہوئی جھریاں اس کی بڑھتی ہوئی عمر کی چغلی کھانے لگی تھیں… اس نے فلم کی آفرز بند ہونے کے بعد اوپر نیچے دو فلمز اپنے بینر کے نیچے پروڈیوس کیں دونوں کا نتیجہ وہی نکلا تھا جو اس سے پہلے دوسروں کی فلموں کا نکلتا آرہا تھا سفیر خان کی مالی حیثیت کو بھی شدید دھچکا لگا تھا اور یہ ہی حالات تھے جن میں انڈسٹری پر پندرہ سال سے زیادہ سپر سٹار کے طور پر راج کرنے والے سفیر خان نے کیریکٹر ایکٹر کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا تھا… اپنے ڈوبتے ہوئے فلمی کیرئیر کو وہ اب اس کے علاوہ کسی اور طریقے سے سہارا نہیں دے سکتا تھا۔ انڈسٹری میں یکے بعد دیگرے چار نوجوان خوبصورت ہیرو داخل ہو گئے تھے جنہوں نے اوپر نیچے ہٹ فلمز دے کر سفیر خان سمیت اپنے سے پہلے موجود ہیروز کو ملنے والے کام میں نمایاں کمی کر دی تھی اور انہوں نے کسی پرانے ہیرو کے لیے Come Back کے چانسر کو مکمل طور پر نہیں تو تقریباً ختم کر دیا تھا اور ان چاروں ہیروز کو فلم انڈسٹری میں پہلا بریک پری زاد نے ہی دلوایا تھا ان میں سے ہر ایک کی پہلی فلم پری زاد کے ساتھ تھی اور ان میں سے ہر ایک پری زاد کے گن گاتا تھا پری زاد لوگوں کو صرف تابوت تک نہیں پہنچاتی تھی وہ تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دیتی تھی فلم انڈسٹری میں اس سے زیادہ بااخلاق ایکٹریس دوسری کوئی نہیں تھی اور فلم انڈسٹری میں اس سے زیادہ خوف کوئی کسی سے نہیں کھاتا تھا۔
چار سال کے بعد پری زاد نے بالآخر سفیر خان کے ساتھ فلم میں کام نہ کرنے کا اعلان واپس لے لیا تھا۔ انڈسٹری میں آنے والے ایک نئے ڈائریکٹر نے پری زاد اور سفیر کو اپنی فلم میں کاسٹ کر لیا تھا… انڈسٹری میں اس خبر پرکوئی زیادہ بڑا رد عمل نہیں آیا تھا… فلم میں سفیر خان پری زاد کے باپ کا کردار ادا کر رہا تھا اور انٹرول سے پہلے فلم سے اس کی Exit ہو جاتی۔
سیٹ پر پہلے دن سفیر خان اپنے بالوں میں سفیدی لگائے دوسروں کی طرح پری زاد کے انتظار میں بیٹھا تھا جو ابھی تک شوٹنگ کے لیے نہیں پہنچی تھی۔ ایک لمبے عرصے کے بعد اس کا اور پری زاد کا یہ پہلا آمنا سامنا ہونے والا تھا اور سفیر نہیں جانتا تھا کہ پری زاد کیسے ری ایکٹ کرنے والی تھی… اس کے لیے انتظار کرتے ہوئے کچھ دیر کے لیے وہ پچھتایا بھی شاید اس نے پری زاد کے ساتھ باپ کے رول میں یہ فلم سائن کر کے غلطی کی تھی… لیکن وہ کئی سال بعد آنے والے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا… کیریکٹر ایکٹر کے طور پر ہی سہی لیکن پری زاد کو اگر اس کی فلم کی کاسٹ میں موجودگی پر اعتراض نہ ہوتا تو سفیر کو سال میں کئی اور فلمیں مل سکتی تھیں… ان میں پری زاد کے ساتھ سیکنڈ Lead والی فلمز بھی ہوتیں جو عام طور پر Hit ہوتی تھیں اور ایک Hit فلم میں ایک چھوٹا رول بھی ایک فلاپ فلم کی Lead سے بہتر تھا۔
وہ آدھ گھنٹہ کی تاخیر سے سیٹ پر آئی تھی اور اس کے سیٹ پر آتے ہی سیٹ پر بھاگ دوڑ شروع ہو گئی تھی… سفیر خان اس بھاگ دوڑ سے ناآشنا نہیں تھا۔ انڈسٹری میں کئی سال تک سیٹ پر اس کے اسی طرح نخرے اٹھائے جاتے تھے… حسرت، رشک اور حسد کے علاوہ اس وقت سفیر کی آنکھوں میں پری زاد کے لیے کچھ نہیں تھا… وہ گھٹنے تو خیر بہت پہلے ہی اس کے سامنے ٹیک چکا تھا۔ پری زاد کے گرد جمگھٹا اب کم ہو گیا تھا وہ سلطان کے ساتھ اپنی لائنز یاد کر رہی تھی اور جوس کے گلاس سے جوس پی رہی تھی جب سفیر نے دوسرے ایکٹرز کی طرح خود آگے بڑھ کر اس وقت انڈسٹری کی واحد ”سپر سٹار” کو ”سلام” کرنے کا ارادہ کیا۔ پری زاد کے گلاس میں چند گھونٹ باقی تھے۔ جب سفیر خان جھکے کندھوں کے ساتھ اس کے سامنے آیا اور اس نے اسے سلام کیا۔ زینی نے سلام کا جواب دیتے ہوئے سر سے پاؤں تک اس پر ایک نظر ڈالی تھی۔
”کیسے ہیں سفیر صاحب آپ؟” زینی نے اس سے پوچھا تھا… انداز میں کہیں کسی پرانی آشنائی کی کوئی جھلک نہیں تھی۔
”میں ٹھیک ہوں… میڈم” سفیر نے مدھم آواز میں نظریں چراتے ہوئے کہا۔ آخری لفظ زبان سے ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا۔ وہ اسے نام سے پکارتا تھا اور ابھی بہت کچھ کہنا تھا لیکن انڈسٹری اب پری زاد کو میڈم کہتی تھی اسے پری زاد کہہ کر پکارنے والے بہت کم رہ گئے تھے۔
”آئیں سین کرتے ہیں” پری زاد کو سین تیار ہونے کی اطلاع دی گئی تھی۔ اس نے سفیر سے کہا اس کا پہلا سین اپنے”باپ” ہی کے ساتھ تھا۔ سفیر چپ چاپ اس کے کھڑے ہونے پر اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ فلم انڈسٹری کا بھیڑیا تھا جسے ایک 28 سالہ لڑکی نے ”میمنے” میں تبدیل کر دیا تھا۔
*****