”لیکن انور حبیب صاحب میں کیسے آسکتی ہوں؟… میری ٹانگ ٹوٹ گئی ہے بستر پر پڑی ہوئی ہوں میں۔” زینی نے نقاہت بھری آواز میں جھولے پر لیٹے لیٹے کہا۔ وہ ساتھ ساتھ ٹانگیں ہلا رہی تھی… جانتی تھی دوسری طرف انور حبیب کی دنیا ہل رہی تھی۔
انور حبیب نے پری زاد کے ساتھ پارٹنر شپ کے اعلان کے ساتھ ہی اس فلم کو کامیاب بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانا شروع کر دیا تھا… وہ پہلی فلم تھی جس کے وہ سکرپٹ پر بھی محنت کر رہا تھا ورنہ اس سے پہلے انور حبیب جیسا ڈائریکٹر سکرپٹ کی اہمیت سے ہی انکاری تھا وہ علی الاعلان کہتا تھا کہ ”وہ کہانی کے بغیر بھی صرف ایکٹرز کے زور پر کسی فلم کو کامیاب کر کے دکھا سکتا تھا… اور اس نے واقعی ایسا کئی بار کر کے دکھایا تھا۔۔۔۔” اس کی بے سروپا پلاٹ والی فلمز بھی صرف اس عامیانہ انداز کی وجہ سے ہٹ ہوتی رہتی تھیں۔ جس انداز سے وہ اپنی ہیروئنز کے جسم فلمز میں Expose کرتا رہا تھا۔
لیکن اپنی فلم میں وہ کسی قسم کا رسک نہیں لے رہا تھا… اور اس میں کچھ دباؤ پری زاد کا بھی تھا جو فلم میں ہر چیز اے ون چاہتی تھی… سکرپٹ، میوزک، کوریو گرافر، کیمرہ مین، ایڈیٹنگ، ساؤنڈ اور کاسٹ… اور ان تمام چیزوں نے فلم کا بجٹ بہت بڑھا دیا تھا۔ پری زاد نے ابتدائی طور پر انور حبیب کے ساتھ 25 لاکھ روپے کا جوائنٹ اکاؤنٹ کھلوایا تھا جس میں اس نے ابتدائی 25 لاکھ کے بعد دوبارہ کبھی کوئی رقم جمع نہیں کروائی… انور حبیب کے بار بار کے مطالبات کے باوجود پری زاد اسے بہانے بہانے سے ٹالتی رہی… کبھی وہ اسے یہ کہہ دیتی کہ اس نے اپنی پوری رقم سے کچھ پراپرٹی خرید لی ہے اور وہ کچھ عرصے تک اسے کچھ نہیں دے سکتی… کبھی وہ اس سے یہ کہہ دیتی کہ انور حبیب سفیر اور اس کا معاوضہ کے رقم اس کی طرف سے Investment کا حصہ سمجھ کر اسے ادا نہ کرے… وہ سفیر کو خود ہی وہ رقم دے دے گی… اور جب پورا سال وہ اسی طرح حیلوں بہانوں سے فلم کی پروڈکشن کے لیے دیے جانے والے روپے کو لٹکاتی رہی تو انور حبیب کو اس ایشو پر اس سے باقاعدہ بات کرنی پڑی وہ تب تک اس فلم میں ذاتی طور پر اتنا پیسہ اور وقت انویسٹ کر چکا تھا کہ وہ اسے صرف پری زاد کی طرف سے نہ ملنے والی رقم کی وجہ سے Delay نہیں کر سکتا تھا… پری زاد نے بالآخر انور حبیب کے لیے اس سٹیج پر مزید Finance مہیا کرنے سے معذرت کر لی… اس کا کہنا تھا کہ اس نے کچھ جگہوں پر اپنی رقم انویسٹ کی تھی جو ڈوب گئی ہے اور وہ فوری طورپر چند سالوں کے لیے اس طرح کی کوئی سرمایہ کاری نہیں کر سکتی… انور حبیب کو شدید غصہ آیا تھا لیکن وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔ اس نے مجبوراً اس فلم کو اکیلے ہی پروڈیوس کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا… تبریز پاشا کی موت کے بعد پاشا سٹوڈیو اور پاشا پروڈکشنز ابھی تک بند پڑے تھے اور اس کی وجہ سے فلم انڈسٹری میں سے بہت ساری پروڈیوسرز نکل گئے تھے ورنہ شائید انور حبیب کسی دوسرے پروڈیوسر کو اس فلم کی پروڈکشن میں حصہ دار بننے کو کہتا… اس کو سفیر خان کا خیال آیا تھا جو اس فلم میں پری زاد کے مقابل لیڈ رول کر رہا تھا… لیکن پھر اس نے سفیر سے بات کرنے کا ارادہ ترک کر دیا… سفیر کا رویہ پہلے ہی اس کے ساتھ اس فلم کے سلسلے میں ہونے والی ابتدائی چپقلش کے باعث ٹھیک نہیں تھا۔ یہ صرف پری زاد تھی جس کی وجہ سے وہ اس فلم میں کام کرنے پر تیار ہو گیا تھا ورنہ وہ تو اس فلم میں کام کرنے پر بھی آمادہ نہیں تھا۔ انور حبیب کو احساس ہو گیا تھا کہ اسے اس فلم کو اکیلے ہی بنانا تھا… لیکن ہر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی طرح اسے بھی یقین تھا کہ فلم سپرہٹ ہو گی… اپنے پاس بینک میں موجود سرمایہ وہ فلم پر پہلے ہی لگا چکا تھا… اب اس نے اپنے کچھ قریبی دوستوں اور انڈسٹری کے کچھ لوگوں سے کچھ رقم قرضے کے طور پر لے لی… لیکن فلم کی شوٹنگ سٹارٹ ہونے کے دوران ہی اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس کی فلم over budgeted ہو گی… فوری طور پر اس نے اپنے خریدے ہوئے دو پلاٹ بھی فروخت کر دیے۔
فلم کا 60 فی صد سے زیادہ کام مکمل ہو چکا تھا صرف فلم کے ایک حصے اور دو گانوں کی شوٹنگ کے لیے ایور نیو سٹوڈیوز میں پچاس لاکھ کی لاگت سے گلاس کا ایک سیٹ لگایا گیا پری زاد اور سفیر کا صرف پندہ دن کا کام باقی رہ گیا تھا۔ اور اس کے بعد انور حبیب فلم کا کیمرہ کلوز کر کے پوسٹ پروڈکشن کا کام شروع کر دیتا۔
سیٹ ابھی مکمل ہو رہا تھا جب پری زاد ایک کمرشل کی شوٹنگ کے لیے ماریشیٔں چلی گئی اور پھر اس نے وہاں سے انور حبیب کو فون کر کے کہا کہ وہ ایک ہفتہ کے لیے امریکہ جا رہی ہے اشتیاق رندھاوا کو وہاں کوئی کام تھا۔ اگر وہ اشتیاق رندھاوا کا ریفرنس نہ دیتی توشاید انور حبیب اس کے وہاں جانے پر اعتراض کرتا لیکن وہ اشتیاق رندھاوا تھا اور پھر صرف ایک ہفتے کی بات تھی… اور ابھی تو سیٹ بھی مکمل نہیں ہوا تھا… انور حبیب نے بآسانی اسے اجازت دے دی… پری زاد نے اسے یقین دلایا تھا کہ وہ مقررہ Dates پر شوٹنگ کے لیے پاکستان پہنچ جائے گی۔
اور سیٹ مکمل ہونے پر انور حبیب نے سفیر کے وہاں سولو سینز لینے کے دوران ایک بار پھر پری زاد سے اس کی دی گئی Dates سے تین دن پہلے اس کی پاکستان آمد کے بارے میں پوچھا… پری زاد نے اسے اپنی فلائٹ اور فلائٹ کے ٹائم کے بارے میں بھی بتا دیا تھا… انور حبیب مطمئن ہو گیا تھا۔
لیکن اگلے دن صبح اخبار میں اس نے پری زاد کی امریکہ میں ٹانگ ٹوٹنے کی خبر سنی تھی… انور حبیب کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے تھے… پری زاد کی ٹانگ ٹوٹنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ اگلے چند مہینے بستر پر پڑی رہتی… اور پچاس لاکھ کا وہ سیٹ ایک بار توڑنے کے بعد انور حبیب کو دوبارہ لگانا پڑتا… اگر وہ سیٹ چند ماہ لگا رہنے دیتا تو اس پر روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ خرچہ آتا اور یہ انور حبیب کے لیے اس سے بھی زیادہ مہنگا پڑ جاتا… پری زاد مقررہ تاریخ پر پاکستان نہیں آئی تھی اور انور حبیب تین چار دن تک لاکھ کوشش کے باوجود اس سے یا سلطان سے رابطہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی تھیں۔ پری زاد اور سلطان دونوں کے سیل فون بند تھے اس سے پہلے کہ اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو جاتا چوتھے دن پری زاد نے اسے فون کیا تھا… اور انور حبیب اس کی آواز سنتے ہی اس پر برس پڑا تھا… یہ ایک اور غلطی تھی جو اس نے کی تھی… اور پہلی غلطی کی طرح اسے اس کا بھی اندازہ نہیں ہوا تھا۔
”اب ٹوٹی ہوئی ٹانگ کے ساتھ آپ کی فلم میں ناچنے تو نہیں آسکتی میں؟” پری زاد نے سرد مہری کے ساتھ کہا۔
”تم جھوٹ بول رہی ہو دھوکہ دے رہی ہو مجھے… اس منسٹر کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے مجھے ڈبو رہی ہو… میں جانتا ہوں تمہاری ٹانگ کو کچھ نہیں ہوا۔” انور حبیب چلاّنے لگا تھا وہ اس وقت بالکل آؤٹ آف کنٹرول ہو گیا تھا۔
”آپ کیا چاہتے ہیں… اپنی ٹوٹی ہوئی ٹانگ کی تصویریں بھیجوں یا ایکسرے؟… تاکہ آپ کو یقین آسکے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی… یا پھر آپ یہاں امریکہ آکر دیکھ لیں مجھے کہ میں کس حال میں ہوں۔” انور حبیب سے یہ بات کہتے ہوئے زینی اچھی طرح جانتی تھی کہ اس کے پاس امریکہ کا ویزا نہیں ہے… اور امریکہ کا ویزا اپلائی کرنے اور ملنے میں اسے اتنا وقت لگتا کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ انور حبیب اس تجویز پر عمل کرتا… وہ پچاس لاکھ کے لگے ہوئے سیٹ کو جس پر ہر روز اس کا لاکھ روپیہ خرچ ہو رہا تھا چھوڑ کر صرف اس کے سچ اور جھوٹ کو جانچنے امریکہ کبھی نہ آتا اور آبھی جاتا تو پری زاد کے پاس اس کے لیے بھی پلاننگ تھی۔
”ڈاکٹر کیا کہتے ہیں؟… کب تک ٹھیک ہو گی اور چل پھر سکو گی تم؟” انور حبیب نے بالآخر اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے پوچھا۔
”تقریباً ایک ماہ تک چل سکوں گی… لیکن ڈانس کرنے کے لیے تو تین چار ماہ چاہیے ہوں گے مجھے… اور میں نے سلطان سے کہا ہے کہ سارے پروڈیوسرز کو بتا دے کہ میں اگلے تین ماہ تک امریکہ میں ہی آرام کروں گی۔” انور حبیب نے اس سے مزید کوئی بات کیے بغیر فون بند کر دیا۔
اب اسے فیصلہ کرنا تھا کہ اسے تین ماہ تک پری زاد کا انتظار کر کے اور تقریباً ڈیڑھ کروڑ کا نقصان برداشت کر کے فلم کو مکمل کروا کے ریلیز کرنا تھا… یا پھر اس سے کافی کم نقصان برداشت کرتے ہوئے فلم کی ہیروئن کو تبدیل کرنا تھا… اگلے دو دن میں اسے فلم انڈسٹری کی جس ہیروئن کی فوراً Dates مل گئی تھیں وہ پری زاد کے بعد دوسرے نمبر پر آتی تھی۔ انور حبیب نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا… فلم میں پری زاد نہ سہی رخسار تو آگئی تھی… اور اسے امید تھی کہ رخسار بھی اس کی فلم کو پری زاد جیسی کامیابی نہ سہی لیکن بہر حال کامیابی دلا سکتی تھی۔
اور اس ساری پیش رفت سے پری زاد با خبر تھی… اسے سفیر نے اس تبدیلی کے بارے میں بتایا تھا۔ وہ پری زاد کے بارے میں انتہائی فکر مند تھا اور امریکہ آنا چاہتا تھا لیکن زینی نے اسے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ وہ اشتیاق رندھاوا کے اپارٹمنٹ میں رہ رہی ہے… اور اشتیاق کبھی پسند نہیں کرے گا کہ اس کی جگہ پر اس سے کوئی اور ملنے آئے… سفیر نے مجبوراً اس کی بات مان لی تھی لیکن پری زاد نے انور حبیب کے رویے کے بارے میں اس طرح بات کی کہ سفیر نے اس سے کہہ دیا کہ اگر وہ فلم میں کام نہیں کر رہی تو پھر وہ بھی نہیں کرے گا… اسے اب تقریباً پوری فلم کو دوبارہ شوٹ کروانا تھا… ان سینز کو بھی جو اس نے پہلے پری زاد کے ساتھ کیے تھے اور پہلے تو ابھی تک اسے معاوضے کے طور پر کچھ بھی نہیں دیا گیا تھا… وہ صرف پری زاد کی وجہ سے معاوضے کی بات بھی نہیں کر رہا تھا… لیکن اب پری زاد نے اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ نہیں جانتی انور حبیب اسے کچھ دینے کا ارادہ بھی رکھتا ہے یا نہیں اس لیے اسے سوچ سمجھ کر دوبارہ اس فلم کو شوٹ کروانا چاہیے… نہ صرف یہ بلکہ پری زاد نے رخسار کے ساتھ اس کے کام کرنے کے حوالے سے بھی اپنی ناپسندیدگی اس تک پہنچا دی تھی… اور سفیر خان کے لیے یہ دونوں وجوہات بہت کافی تھیں۔
رخسار کو کاسٹ کرنے کے دو دن بعد انور حبیب کو سفیر نے انفارم کر دیا تھا کہ وہ رخسار کے ساتھ اس کی فلم میں کام نہیں کر سکتا… انور حبیب کو جیسے ہارٹ اٹیک ہو تے ہوتے رہ گیا تھا… پہلے اگر آسمان اس کے سر پر گرا تھا تو اب زمین اس کے پیروں کے نیچے سے نکل گئی تھی… اس نے سفیر کے صرف پاؤں نہیں پکڑے تھے باقی جتنی منتیں وہ سفیر کی کر سکتا تھا اس نے کی تھیں… لیکن سفیر ٹس سے مس نہیں ہوا تھا… انور حبیب سے اپنا حساب برابر کرنے کا یہ نادر موقع سفیر کیسے جانے دیتا۔
انور حبیب کو مجبوراً ایک دوسرے ہیرو کو رخسار کے ساتھ کاسٹ کرنا پڑا تھا… پندرہ دن میں انور حبیب نے شوٹنگ کا سپیل ختم کر کے سیٹ کو ہٹا دیا… دو دن بعد اسے پری زاد کے پاکستان آنے کی اطلاع مل گئی تھی وہ جتنی گالیاں اسے دے سکتا تھا اس نے دیں… لیکن پوری فلم انڈسٹری پھولوں کے گلدسوں کے ساتھ پری زاد کی رہائش گاہ پر جا کر اس کی صحت یابی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتی رہی۔
پری زاد نے مزید ایک ہفتہ بعد چھوٹی موٹی شوٹنگز میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ وہ ابھی Dance شوٹ نہیں کروا رہی تھی… اور اس چیز نے فلم انڈسٹری میں اس کی ٹانگ کے ٹوٹنے کے حوالے سے بہت شبہات کو جنم دیا تھا… لیکن کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں رہا… اگر پری زاد کہہ رہی تھی کہ اس کی ٹانگ ٹوٹی تھی تو انڈسٹری کو کہنا پڑ رہا تھا کہ واقعی ٹوٹی ہو گی۔
انور حبیب اور اس کے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی… اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ پری زاد نے جان بوجھ کر اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی اور انور حبیب اب اس بات پر بھی پچھتا رہا تھا کہ اس نے پری زاد کے جھانسے میں آکر اس فلم کا آغاز ہی کیوں کیا… جس پر اب اسے اپنا گھر بھی گروی رکھنا پڑا تھا۔
چھ ماہ کے بعد انور حبیب کی فلم ریلیز ہو کر باکس آفس پر بری طرح فلاپ ہوئی تھی… اور تب تک انور حبیب کا بال بال قرضے میں بندھ چکا تھا… اپنے قرضے ادا کرنے کے لیے انور حبیب نے فوری طور پر اس سال بہت کم معاوضے پر ایسی فلمز بھی سائن کر لیں جن پر پہلے وہ بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا… اور یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی… اور انور حبیب یہ جانتا تھا۔
اس سال انور حبیب کی آنے والی تمام فلمز فلاپ ہوئی تھیں… کم بجٹ اور بی گریڈ کا سٹ کے ساتھ کسی فلم کو کامیاب کروانے کے لیے جس Skill اور Craft کے ساتھ ساتھ Creativity کی ضرورت تھی وہ انور حبیب کے پاس نہیں تھی… اس کی فلمز باکس آفس پر ایک کے بعد ایک پٹ رہی تھی اور ہر بننے والی فلم انور حبیب کے دام کم کر رہی تھی… فلم انڈسٹری کا پہلا لکھ پتی ڈائریکٹر اب گھر کی دال روٹی چلانے کے لیے مختلف پروڈیوسرز کے پاس جا کر کام کے لیے منت سماجت کرنے لگا تھا… پری زاد نے Publicaly کبھی انور حبیب کے ساتھ اب کام کرنے سے انکار نہیں کیا تھا لیکن وہ ہر اس فلم کو کچھ اور Reasons کی وجہ سے رد کر دیتی تھی جس کا پروڈیوسر انور حبیب سے ڈائریکٹ کروا رہا ہوتا تھا اور یہی کام سفیر خان بھی کر رہا تھا لیکن وہ یہ کام Openly ہر ایک کو بتا کر کر رہا تھا کہ وہ انور حبیب کے ساتھ کام نہیں کرناچاہتا تھا… انور حبیب کو بہت جلد فلم انڈسٹری سے فارغ ہو کر چھوٹی سکرین کا رخ کرنا پڑا تھا… اس سے کم از کم اس کے گھر کے مالی حالات کچھ بہتر ہو گئے تھے… لیکن وہ اب بھی ہر روز ایک ہی خواب دیکھتا تھا… ایک سپر ہٹ فلم کے بعد ایک بار پھر سے فلم انڈسٹری کے سب سے کامیاب ڈائریکٹر کہلوانے کا خواب… لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جب تک پری زاد اور سفیر کی فلمز ہٹ ہو رہی تھیں وہ فلم انڈسٹری میں داخل نہیں ہو سکتا تھا اور ان کی فلمز کب تک ہٹ ہونے والی تھیں… وہ یہ نہیں جانتا تھا۔
٭٭٭