من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

”وہ میرے حق مہر کے پیسے ہیں کرم نے دیے تھے مجھے۔” زری نے تنک کر کہا۔
”ہاں سارا کچھ کرم نے ہی دیا ہے مجھے اور تیرے ماں باپ کو… تجھے تو بہانے بہانے سے اسے یاد کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔”
زری اس کی بات پر غصے سے سرخ ہو گئی تھی۔
”دیکھ جمال بار بار مجھے کرم کے طعنے مت دیا کر… میں تنگ آگئی ہوں تیری ایسی باتوں سے۔”
”میری باتوں سے نہیں مجھ سے تنگ آگئی ہے تو… اب کوئی تیسرا شوہر نظر آنے لگا ہو گا تجھے۔” وہ جمال کی بات پر سناٹے میں رہ گئی تھی۔
”تو نے کیا کہا مجھے؟ ”
”جو کہنا تھا کہہ دیا… تو بہری نہیں ہے۔” جمال نے غصے سے کہا اور شیلف پر پڑا گلاس زور سے فرش پر پھینک کر توڑتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ وہ ٹوٹنے والی واحد چیز نہیں تھی آنے والے ہفتوں میں جمال نے گھر کی اور بھی کئی چیزیں توڑی تھیں ہر بار اسے جب پیسوں کی ضرورت ہوتی اور زری اسے پیسے دینے میں معترض ہوتی تو جمال یہی کرتا تھا… چلاتا گالیاں دیتا اور پھر چیزیں توڑنے لگتا… زری لامحالہ اسے پیسے دینے پر مجبور ہو جاتی۔
اگر مکافات عمل نام کی کوئی شے تھی تو زری کے لیے یہ مکافات عمل دنیا میں بہت جلد شروع ہو چکا تھا۔ وہ محبت جس نے اتنے سالوں سے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی وہ یک دم جیسے کہیں غائب ہو گئی تھی۔ وہ جتنی دیر گھر پر رہتا دونوں کے درمیان کسی نہ کسی بات پر تکرار ہوتی رہتی۔ زری کے پاس موجود رقم تیزی سے کم ہو رہی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کی پریشانی اور اضطراب میں اضافہ بھی ہوتا جا رہا تھا… آمدنی کا کوئی ذریعہ اسے نظر نہیں آرہا تھا اور اخراجات کو ختم کرنے کا بھی کوئی راستہ نہیں مل رہا تھا۔ جمال اس کے لیے ایک سفید ہاتھی بن گیا تھا اور اس کے ساتھ رہتے ہوئے اسے دن میں کئی بار کرم یاد آتا ۔ اس نے اس کے ساتھ جو وقت گزارا تھا وہ واقعی جنت میں رہنے کے مترادف ہی تھا اور بعض دفعہ اسے شدید پچھتاوا بھی ہوتا لیکن صحیح معنوں میں اسے کرم پہلی بار تب یاد آیا تھا جب جمال نے پہلی بار اس پر ہاتھ اٹھایا۔ وہ پچھلے کچھ دنوں سے کسی نائٹ کلب سے شراب پی کر آرہا تھا اور اس دن بھی نشے کی حالت میں گھر واپس آنے پر ان کے درمیان جھگڑا ہوا تھا جس پر جمال نے اس کے چہرے پر تھپڑ کھینچ مارا… وہ پاکستان میں ہوتی تو ایسا کوئی تھپڑ اسے اس طرح پتھر کے بت میں تبدیل نہ کرتا کیونکہ اس طرح کی مارپیٹ اس محلے کی عورتوں اور خود اس کی ماں اور بہنوں کی زندگی کا ایک اہم جز تھی لیکن سارا مسئلہ یہ تھا کہ وہ کرم کے ساتھ رہ کر آئی تھی جس نے ہاتھ اٹھانا تو درکنار کبھی اس سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی تھی اور اب اس کے چہرے پر تھپڑ پڑا تھا تو زری کے اعصاب واقعی سن ہو گئے تھے اس رات وہ پہلی بار کرم کو یاد کر کے پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی… وہ دوگنی عمر، معمولی شکل و صورت اور برص کے داغ جن کے طعنے دے دے کر اس نے کرم کا جینا اجیرن کر دیا تھا اب وہ یک دم جیسے بے معنی ہو گئے تھے اس کے لیے… اس شخص کی ہر خامی کے باوجود وہ اس کے ساتھ سکون سے زندگی گزار رہی تھی عزت اور محبت سے رکھا ہوا تھا اس نے اسے… پھر اس اندھے کنویں کا انتخاب کیوں کیا اس نے؟… زری کو سمجھ نہیں آرہی تھی… خود کو لاکھ عقل مند سمجھنے کے باوجود اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جمال کو اچھی طرح جاننے کے باوجود اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا سوچ کر کیا تھا۔




جمال نے دوسرے دن اس سے معافی مانگ لی تھی۔ زری نے اسے معاف بھی کر دیا تھا اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتی تھی یہ کرم کا گھر نہیں تھا جہاں وہ ماتھے پر بل ڈالے پھرتی رہتی اور کرم اس کی خفگی دور کرنے اور دلجوئی کرنے کی کوشش کرتا۔
جمال سے شادی کے چھ ماہ بعد وہ پہلی بار پریگننٹ ہوئی اور دو ماہ کے بعد اس کا پہلا مس کیرج ہو گیا اور یہی وہ وقت تھا جب جمال نے اس کی کافی تیمار داری کی اور وقتی طور پر اس کی زبان میں جیسے شہد جیسی مٹھاس آگئی تھی… زری جسمانی اور جذباتی طور پر اس وقت بری طرح کسی سہارے کی محتاج تھی اور وقتی طور پر اسے لگا جیسے جمال واقعی بدل گیا تھا اور اسی خوش فہمی میں اس نے جمال کو بینک میں پڑی رقم کا بڑا حصہ نکال کر دے دیا کیونکہ وہ وہاں اوٹوا میں کسی پاکستانی کے ساتھ مل کر کوئی بزنس شروع کرنا چاہتا تھا۔ وہ چند بار اس پاکستانی کو لے کر گھر بھی آیا اور زری کو وہ آدمی قابل اعتبار لگا تھا۔ اگلے چند ماہ جمال بلاناغہ گھر سے کام پر جاتا رہا اور اس نے وقتاً فوقتاً گھر کے اخراجات کے لیے زری کو کچھ رقم بھی دی اور زری یہ سمجھنے لگی کہ اب اس کا کام چل نکلا ہے … اس کے سارے مسئلے ختم ہو گئے تھے۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد اس کی یہ خوش فہمی بھی دور ہو گئی تھی جب جمال نے ایک ماہ کے بعد دوبارہ گھر پر رہنا شروع کر دیا… چند ہفتے اس نے بیماری کا بہانہ بنایا… پھر چند ہفتے کچھ اور بہانے… اور پھر جب بالاآخر زری کی برداشت کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا تو اس نے بڑے اطمینان کے ساتھ اسے یہ خبر سنا دی تھی کہ اس کے پارٹنر نے اس کے ساتھ فراڈ کیا ہے اور وہ اس کی رقم لے کر غائب ہو گیا تھا… زری کو جیسے ہارٹ اٹیک ہوتے ہوتے رہ گیا تھا وہ کتنے آرام سے یہ کہہ رہا تھا کہ رقم ڈوب گئی۔
”ساری دنیا تیری ہی رقم لے کر کیوں بھاگتی ہے؟… پہلے پاکستان میں ایجنٹ نے تیرے ساتھ فراڈ کیا… اب یہاں یہ آدمی مل گیا تجھے۔” زری کو جیسے پتنگے لگ گئے تھے۔
”تو کہنا کیا چاہتی ہے؟… یہ کہ میں جھوٹ بولتا ہوں… دھوکہ دے رہا ہوں تجھے؟” جمال بھی بری طرح بگڑا تھا۔
”اور کیا کر رہا ہے تو؟… گھر میں جو رقم تھی وہ کھا گیا تو… بینک میں پڑی رقم کاروبار میں ڈبو دی تو نے… اب باقی رہ کیا گیا ہے؟… کس طرح چلے گا یہ گھر؟”
”تیرا زیور ہے نا ابھی۔” جمال نے بے حد اطمینان سے کہا۔ ”یا پھر ایسا کر جا کر کرم سے کچھ رقم لے آ۔” جمال نے بے حد ڈھٹائی سے کہا تھا اور زری کے اشتعال میں اضافہ ہو گیا تھا۔
”تو اس قدر بے شرم ہو گیا ہے کہ مجھے کرم کے پاس پیسے لانے کے لیے جانے کو کہہ رہا ہے۔” اس نے دانت پیستے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔
”تو اتنی غیرت مند تھی تو پہلے کیوں لیا کرم سے تو نے پیسہ؟… پہلے تو اور تیرے ماں باپ اسے دنوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے۔” جمال نے اسے طعنہ دیا۔ اس کا انداز بے حد سلگانے والا تھا۔
”تیرے لیے کیا جو بھی کیا… ورنہ میں تو بڑی خوش تھی اس کے ساتھ۔” زری کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ لیکن جمال ان آنسوؤں سے ذرہ برابر متاثر نہیں ہوا تھا۔
”میرے لیے؟… یہ کہہ تجھے دوسرا آدمی چاہیے تھا… تیرے جیسی عورتیں کسی ایک مرد کے ساتھ وفاداری سے کیسے رہ سکتی ہیں؟ پتہ نہیں میں گھر پر نہیں ہوتا تو یہاں کتنے آتے ہیں جن کے لیے تو ہر وقت مجھے گھر سے باہر کام پر بھیجنا چاہتی ہے… میں بھلا سمجھتا نہیں ہوں کیا؟” جمال نے بے حد زہریلے انداز میں کہا اور اس نے جیسے زری کے زخموں پر نمک پاشی کر دی تھی۔
”خبردار اگر تو نے ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نکالا تو۔” زری نے تقریباً غصے سے کانپتے ہوئے چلا کر اس سے کہا تھا۔ لیکن جمال نے اس کا جواب اس کے چہرے پر ایک زور دار تھپڑ مار کر دیا تھا۔
”تو کیا کرے گی تو؟… بتا کیا کرے گی؟… مجھے کرم سمجھ لیا ہے تونے؟ وہ پہلا دن تھا جب جمال نے صرف ایک تھپڑ پر اکتفا نہیں کیا تھا اس نے جی بھر کر زری کی پٹائی کی تھی زری کی مزاحمت نے اس کے اشتعال کو کچھ اور ہوا دے دی تھی۔ اس نے اسے پیٹتے ہوئے یہ نہیں دیکھا تھا کہ زری کو کہاں چوٹ لگ رہی ہے اور کہاں نہیں… اس کے جسم پر پڑنے والی ہر ضرب پر زری کو کرم یاد آتا رہا… وہ سب کچھ جو اس کے ساتھ کرتی رہی اسے لگ رہا تھا اسے کرم کی بد دعا لگی تھی ورنہ جمال ایسا تو نہیں تھا… ایسا ظالم تو وہ کبھی بھی نہیں تھا۔
وہ اگلے کئی دن روتی رہی اور کئی بار کرم کو فون کرنے کا سوچتی رہی لیکن ہر بار ایک عجیب سی ندامت اس کا ہاتھ روک لیتی تھی وہ اب اسے فون کر کے کیا کہتی… ساری عمر زری کو جو شرم جو ہتک جو ندامت محسوس نہیں ہوئی تھی وہ آج ہونے لگی تھی۔
وہ اب دلدل میں اتر چکی تھی پولیس کو فون کر کے جمال کو Arrest کراتی تو وہاں اکیلے کس طرح رہتی اور اگر اسے آزاد رہنے دیتی تو پھر اسے یقین تھا کہ بہت جلد اس گھر میں فاقے ہونے لگیں گے اور اس کے بعد انہیں فٹ پاتھ پر آنے میں دیر نہیں لگنی تھی۔
پاکستان جو رقم وہ ہر ماہ بھجواتی تھی وہ اب اس نے بھجوانا بند کر دی تھی اور اس بندش کی وجوہات اپنے ماں باپ کو بتانے پر وہ بری طرح ان کی لعنت ملامت کا بھی شکار ہونے لگی تھی اس کی وجہ سے ان سب کا مستقبل تباہ ہو گیا تھا… وہ ایک خوشحال زندگی گزارتے گزارے ایک بار پھر کرائسس میں آگئے تھے اور یہ صرف اور صرف زری کی وجہ سے ہوا تھا جس نے کرم علی جیسی سونے کی چڑیا کو اپنے ہاتھ سے نکل جانے دیا۔ اس لعنت و ملامت سے بچنے کے لیے زری نے پاکستان فون کرنا بھی بندکر دیا تھا۔
جمال کے ساتھ اس بار اس کی صلح اس کی طرف سے کسی معذرت کے بغیر ہوئی تھی… وہ اب کینیڈا میں بھی اسی محلے کی زندگی گزارنے لگی تھی جس سے اس نے ساری عمر فرار چاہا تھا۔ جمال کی گالیاں کھانا، جمال سے پٹنا اور گھر کے اخراجات چلانے کے لیے ایک ایک پیسے کا حساب کتاب کرتے ہوئے فکر مند ہوتے رہنا… اور اس سارے عرصے کے دوران اس کے دو اور مس کیرجز ہوئے۔ اور جمال نے اسے علی اعلان بانجھ قرار دے دیا۔ وہ اب وقتاً فوقتاً کہیں نہ کہیں کام کر کے کچھ پیسے کما لیتا تھا اور آمدنی کے اس ”ذاتی” ذریعے کی دریافت کے بعد زری کے ساتھ اس کے ہتک آمیز سلوک میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا… اس کے ساتھ ساتھ گھر کے باہر اس کی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ اب وہ پہلے کی طرح ہر وقت گھر پر بیٹھے رہنے کی بجائے کئی کئی دن گھر سے غائب رہتا اور جب واپس آتا بھی تو شراب کے نشے میں دھت کپڑے تبدیل کر کے چند دن آرام کرنے اور پھر دوبارہ سے غائب ہو جانے کے لیے… کینیڈا میں وہ وہاں کی پاکستانی اور سکھ کمیونٹی میں پھرنے لگا تھا اور کمیونٹی سے زیادہ یہ کمیونٹی کی عورتیں تھیں جن میں وہ اور جو اس میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہی تھیں اور ان میں سے کسی کو بھی اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ وہ شادی شدہ تھا یہ چیز انہیں تب پریشان کرتی جب ان میں سے کوئی جمال کے ساتھ شادی کی خواہش مند ہوتی لیکن فی الحال وہ ان سب کے لیے ایک فیورٹ ٹائم پاس تھا… ایک بے حد ہینڈسم نوجوان جسے دیکھ کر کوئی بھی عورت اس پر فدا ہو سکتی تھی اور جو خدشات پہلے کبھی زری کو صرف خدشات لگتے تھے وہ اب حقیقت بن کر اس کے سامنے آنے لگے تھے… وہ کسی بھی وقت اسے چھوڑ کر جا سکتا تھا… اور زری جیسے24 گھنٹے پھانسی کے تختے پر پھندا گلے میں ڈال کر کھڑی رہتی تھی۔
اپنے پاس موجود رقم کے مکمل طور پر ختم ہونے سے پہلے زری نے کہیں چھوٹا موٹا کام ڈھونڈ لیا تھا لیکن وہ جانتی تھی اس کام سے ہونے والی آمدنی گھر چلانے کے لیے کافی نہیں تھی جو اپارٹمنٹ کرم نے انہیں لے کر دیا تھا وہ چھوڑ کر وہ ایک run-down علاقے میں ایک بے حد سستے ایک کمرے کے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے تھے اور یہاں پہنچنے کے دو ہفتے کے بعد ایک دن جمال اس کے پاس موجود وہ سارا زیور لے کر غائب ہو گیا تھا۔ جو زری بے حد دقتوں سے اس سے چھپا چھپا کر اپنے پاس رکھے ہوئے تھی۔ زندگی میں پہلی بار زری کو لگا تھا جیسے کسی نے اس کی کمر توڑ دی تھی یہ زیور اس نے اب تک بیچنے کی کوشش نہیں کی تھی تمام تر مالی پریشانیوں کے باوجود اس نے ان سب کو اسی طرح محفوظ رکھا ہوا تھا۔ اور اکثر جب وہ بہت پریشان ہوتی تو اس زیور کو نکال کر دیکھتی اور اسے عجیب سا سکون اور تسلی ہوتی… ابھی اس کا سب کچھ ختم نہیں ہوا تھا… لاکھوں کا زیور موجود تھا جسے وہ جب بھی بیچتی اچھی خاصی رقم حاصل کر لیتی اور اب جیسے کسی نے اس کی عمر بھر کی کمائی پر ڈاکہ ڈال دیا تھا۔
*****




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۸

Read Next

من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!