سعید نواز نے زینی اور شیرازکے تعلق کے بارے میں پتا کروایا یا نہیں لیکن بہر حال انہوں نے دوبارہ شیراز سے اس سلسلے میں بات نہیں کی تھی اور یہ شیراز کے لیے جیسے معجزے سے کم نہیں تھا اور اس نے اس معجزے کے لیے کتنی دعائیں مانگی تھیں، یہ صرف وہی جانتا تھا۔ اگلے چھ ماہ وہ بے حد محتاط رہا تھا۔
زینی سے رابطے کا تو فی الحال سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ زینی اس کے خلاف اپنے دل میں کتنا غصہ رکھتی تھی۔ شیراز نے ان چند ”گرل فرینڈز” کے ساتھ بھی ہر طرح کا رابطہ منقطع کر دیا جن کے ساتھ وہ پچھلے کچھ عرصہ سے انوالوڈ تھا۔
شینا کی زبان پر کچھ عرصہ تک پری زاد کا ذکر اور اس کے حوالے سے طعنے رہے تھے مگر پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا پری زاد جیسے قصہ پارینہ بنتی گئی۔
شیراز اس عرصہ میں آیک فرمانبردار شوہر بن کر دکھانے کے لیے جتنی کوشش کر سکتا تھا وہ کرتا رہا تھا۔ دفتر اور گھر کے علاوہ اپنی سوشل لائف مکمل طور پر کاٹ دی تھی۔ دوبارہ سے شینا اور سعیدنواز کا اعتماد جیتنے کے لیے اسے بہت محنت کرنا پڑ رہی تھی۔ وہ انہیں یقین دلانا چاہتا تھا کہ وہ اتنا ہی بے ضرر تھا جتنا وہ سمجھتے تھے اور پری زاد والا قصہ ایک اتفاق کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔
یہاں تک کہ شیراز نے شینا کے بیٹے پر بھی اس طرح توجہ دینی شروع کر دی جیسے وہ اس کا اپنا بچہ ہو۔ اس کے دل میں ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید اس بچے پر دی جانے والی توجہ ہی کے بدلے میں شینا اسے معاف کر دے اور اس کے رویے میں کچھ بہتری آئے۔
لیکن شینا کے رویے میں بہتری کے لیے کی جانے والی ہر کوشش ڈھاک کے تین پات ثابت ہوئی۔ سہیل کے ساتھ اس کے تعلقات اسی طرح عروج پر تھے اور اب وہ کھلے عام ان کے گھر آنے لگا تھا اور شیراز نے زہر کا یہ گھونٹ بھی پی لیا تھا۔
اس نے جیسے اس بات پر سمجھوتہ کر لیا تھا کہ سہیل کو شینا کی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں ساری زندگی رہنا ہے۔ وہ بعض دفعہ شینا کی سہیل کے لیے محبت دیکھ کر حیران بھی ہوتا تھا۔ حسد کرنا تو خیر اب اس نے کب کا چھوڑ دیا تھا۔
سہیل سے شینا کا تعلق اور محبت اب سعید نواز کے علاوہ اور کسی کو اپ سیٹ نہیں کرتی تھی۔ صرف سعید نواز تھا جسے سہیل اور شینا کا یہ میل جول ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اور اگر اس کے بس میں ہوتا تو وہ سہیل کو گولی مار دیتا لیکن اس جذبے میں شیراز سے ہمدردی کا کوئی عنصر نہیں تھا بلکہ سعید نواز کو سہیل اور اس کے گھر والوں سے ذاتی مخاصمت تھی اور بیٹی ایسی تھی کہ وہ اس پر جان چھڑکتا تھا اور وہ اسی طرح سہیل پر مرتی تھی۔
باپ کی ناپسندیدگی ناراضی یا مخاصمت جیسے اس کے لیے کوئی معنی نہیں ر کھتے تھے۔
شیراز کو کبھی تو سعید نواز پر غصہ آتا، کبھی ترس اور کبھی اسے خوشی ہوتی۔ شینا وہ پہاڑ تھی جس کے سامنے سعید نواز آگیا تھا۔
شیرا ز کی باقی دونوں بہنوں کی شادی بھی اب ہو چکی تھی۔ اکبر اور نسیم اب بالکل اکیلے تھے۔ شیراز کوشش کے باوجود ان کے پاس جانے اور بیٹھنے پر بھی خود کو آمادہ نہیں کر پاتا تھا۔ اکبر اور نسیم کے پاس بات کرنے والے جو موضوعات تھے ان پر بات کرنے سے شیراز کو بری طرح غصہ آتا تھا۔
وہ اس بات پر صدمے سے بے حال ہوتے کہ ان کے بیٹے کی ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ ہی مستقبل میں کسی اولاد کا امکان نظرآتا ہے۔ اپنی اگلی نسل انہیں دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہی تھی اور صرف یہی سوچ کہ ان کی نسل ان کے بیٹے کے ساتھ ہی ختم ہونے والی ہے۔ اکبر اور نسیم کو بے حال نہ کرتی تو اور کیا کرتی۔
وقتاً فوقتاً وہ اب شیراز کو خفیہ طور پردوسری شادی کا مشورہ بھی دینے لگے تھے۔ یہ صرف شیراز جانتا تھا کہ وہ اسے دوسری شادی کا نہیں،خود کشی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ سعید نواز یا شینا سے دوسری شادی کا چھپا رہنا ناممکن تھا اور اس کے بعد پتا چلنے پر وہ اس کا جو حشر کرتے وہ شیراز کو ایسے کسی ارادے سے باز رکھنے کے لیے کافی تھا۔
جبکہ اکبر اور نسیم کا اصرار تھا کہ وہ دوسری شادی کر کے اپنی دوسری بیوی کو ان کے پاس رکھے۔ انہیں یقین تھا کہ شینا یا اس کے باپ کو اس کی شادی کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ انہیں آب اپنے بڑھاپے اور تنہائی کا خیال بھی پریشان کرتا تھا۔
بعض دفعہ شیراز واقعی دوسری شادی کے بارے میں سوچنے لگتا تھا۔ کچھ دیر کے لیے وہ واقعی فرض کر لیتا تھا کہ شینا اور سعید نواز کو اس کی شادی کے بارے میں پتا نہیں چلے گا۔ وہ اپنی بیوی کو یہاں اپنے ماں باپ کے پاس رکھے گا اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہو گی۔ اور پھر اسے خیال آتا۔ لیکن اگر ہو گئی تو؟ اور اس تو کے بعد نظر آنے والی تصویر اتنی ہولناک تھی کہ اس کے سارے ارادے لمحہ بھر میں غائب ہوجاتے۔
وہ ایک دلدل میں پھنس چکا تھا جس میں وہ ہاتھ پاؤں مار سکتا تھا لیکن باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ کسی لڑکی کے ساتھ کوئی افیر چلانا اور کچھ وقت گزارنا دوسری بات تھی لیکن کسی کو مستقل طور پر اپنی زندگی میں شامل کرنا ایسا قدم تھا جو وہ اٹھانے کے قابل نہیں تھا اسے اپنے آس پاس ملنے جلنے والے افراد میں اب بہت سارے ایسے مرد نظر آنے لگے تھے جو اس جیسی ہی دوہری تہری زندگیاں گزار رہے تھے۔ بہت سارے ایسے مرد جنہوں نے کامیابی کے زینے چڑھنے کے لیے امیر سسرال کا سہارا لیا تھا۔اور ان میں سے بظاہر کوئی ناخوش نظر نہیں آتا تھا ہر ایک کامیاب زندگی گزارتا نظر آرہا تھا۔ ہر ایک کی زندگی میں وہ معجزے ہو چکے تھے جس کے لیے انہوں نے کامیابی کی یہ سیڑھی ڈھونڈی تھی۔ لیکن ہر ایک کی زندگیوں میں کہیں نہ کہیں وہ شگاف بھی نظر آتے تھے جو صرف شیراز یا شیراز جیسے دوسرے لوگ ہی دیکھ سکتے تھے۔ جو ویسی زندگیاں گزار رہے تھے اور جو ان ماسک کو پہچان سکتے تھے جو وہ سب پہن کر ایک دوسرے کے سامنے آتے تھے۔
٭٭٭
”کرم علی کو فون کرنا چاہیے آپ کو۔” سلطان نے اس سے کہا۔ وہ دو دن پہلے کرم علی کی فلم کی شوٹنگ کے لیے اوٹوا آئی تھی اور یہاں آتے ہی سلطان نے اسے بار بار کرم علی سے رابطے کے لیے کہنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اسے رابطے کا نہ بھی کہتا تب بھی زینی کو اوٹوا میں اس کے ساتھ گزرے ہوئے وہ دو ہفتے بری طرح یادآنے لگے تھے اور اس کے ساتھ ہی کرم علی بھی۔
کیوں یاد آرہا تھا یہ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
”کیوں فون کرنا چاہیے مجھے؟” زینی نے بے حد سنجیدگی سے پوچھا۔
”آپ کواچھا لگا تھا وہ پری جی۔” سلطان نے اس کے کسی زخم کو چھیڑا تھا۔
”اس سے کیا ہوتا ہے؟” زینی نے مدھم آواز میں کہا۔
”کچھ نہیں ہوتا کیا؟” سلطان نے بے حد چبھتے ہوئے اندازمیں پوچھا۔ وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”نہیں کچھ نہیں ہوتا۔”
”چلیں میں پراچہ صاحب سے کہوں گا وہی ملاقات کا انتظام کروا دیں۔ کھانا وانا تو کریں گے کرم علی صاحب… ہر پروڈیوسر کرتا ہے۔” سلطان نے جیسے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”خبر دار تم نے پراچہ سے اس سلسلے میں کوئی بات کی میں نے کہا نا مجھے کرم علی سے نہیں ملنا، نہ ہی بات کرنی ہے۔” زینی نے بے حد سنجیدگی سے کہا اسے سلطان کی بات سے زیادہ اس کے انداز پر غصہ آیا تھا۔ سلطان اس وقت اسے غصے میں دیکھ کر خاموش ہو گیا۔
اسے منع کرنے کے باوجود زینی کو جیسے کوئی موہوم سی امید تھی کہ وہ اتنے ہفتے کے قیام میں کبھی نہ کبھی اس سے رابطے کی کوشش کرے گا۔ وہ لاشعوری طور پر منتظر تھی کہ وہ کسی نہ کسی دن سیٹ پر شوٹنگ دیکھنے سہی آئے گا تو… کرم علی نہیں آیا تھا۔
”آپ کو پتہ ہے کرم علی کی شادی ہو گئی ہے۔”دو ہفتے کے بعد ایک دن سلطان نے منہ لٹکا کر زینی کو بتایا۔ وہ اس وقت سین کے دوران آنکھوں کے میک اپ کی ری ٹچنگ کر رہی تھی چند لمحوں کے لیے زینی کو ہاتھ میں پکڑے آئی شیڈز کے کلرز کو پہچاننا اور یہ طے کرنا مشکل ہو گیا تھا کہ وہ کون سا کلر استعمال کر رہی تھی۔ اس کا کوئی تعلق تھا کہ وہ چند لمحوں کے لیے اس طرح سکتے میں آئی تھی۔
”اچھا ہوا، تمہیں کس نے بتایا؟”
چند لمحوں کے بعد جیسے اس نے اس شاک سے خود کو آزاد کرتے ہوئے کہا۔ وہ ایک بار پھر آئی شیڈز پر نظریں جمائے ہوئے ان کو پہچاننے کی کوشش میں مصروف تھی۔
”کیااچھا ہوا پری جی؟ مجھے توذرا خوشی نہیں ہوئی اس کی شادی کا سن کر۔” سلطان نے منہ بسورتے ہوئے کہا تھا۔
”تمہاری خوشی یا نا خوشی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سلطان… کرم علی خوش ہے اپنی شادی سے۔ یہ کافی ہے۔”
اس نے بالآخر شیڈز پہچاننے شروع کر دیے تھے لیکن آوازکی لرزش پر قابو پانے میں اسے ابھی بھی دقت ہو رہی تھی۔
”آپ بھی صحیح کہتی ہیں پری جی۔” سلطان نے گہرا سانس لیا۔
”پراچھا آدمی تھا اگر آپ۔۔۔۔” سلطان نے بات ادھوری چھوڑ دی زینی نے سر اٹھا کر سامنے کوریوگرافر کو ایکٹرز کو ڈانس کی ریہرسل کرواتے ہوئے دیکھا آج اسے ایک ڈانس کی شوٹنگ کروانی تھی۔ زینی کا دل یک دم اچاٹ ہو گیا تھا۔
”سلطان اگر میں آج شوٹنگ نہ کرواؤں تو؟ پیک اپ ہو سکتا ہے کیا؟”
زینی نے سامنے لوگوں کو سین کی تیاری کرتے ہوئے سلطان سے کہا۔
سلطان نے چونک کر اس کاچہرہ دیکھا اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے سیٹ پر اسے کرم علی کی شادی کے بارے میں بتا کر غلطی کی تھی لیکن غلطی ہو چکی تھی۔
٭٭٭