من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

کرم نے جھک کر چاولوں کی مہک کو محسوس کیا۔
”خوشبو بھی بہت اچھی ہے۔”
”زندگی بڑی قیمتی شے ہے۔”
”اور اگر خوشبو اتنی اچھی ہے تو ذائقہ کیسا ہو گا۔” کرم نے پہلا چمچ منہ میں ڈالا۔
”کرم بات کو مت ٹالیں۔” وہ پہلی بار خفا ہوئی۔
”کون سی بات؟” وہ رک گیا۔
”میں آپ سے کہہ رہی ہوں کہ زندگی بڑی قیمتی شے ہوتی ہے۔” اس نے اپنے لفظوں پر زور دے کر کہا۔
”اچھا۔” وہ تلخی سے ہنسا۔
”مجھے تواتنے سال پتہ ہی نہیں چلا کہ زندگی قیمتی ہوتی ہے۔”
”آپ جیسے لوگ ناشکرے اس لیے ہوتے ہیں کہ ان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔” زینی کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کا جملہ کرم کو اتنا مشتعل کر دے گا۔
کرم نے چمچ ہاتھ سے رکھ دیا۔
”سب کچھ؟… سب کچھ کیا؟”
”محبت، عزت، دولت، خونی رشتے، دوست… سب… کیا نہیں ہے آپ کے پاس؟”
”ہاں کیوں نہیں… سب کچھ تو ہے میرے پاس… دنیا کی ہر بڑی کرنسی میں بنک اکاؤنٹ… جس سے میں دنیا کے کسی ایک شہر میں کسی ایک عورت کی سچی محبت نہیں خرید سکتا۔” وہ بے حد تلخ ہو رہا تھا۔
”میں۔۔۔۔” زینی نے کچھ کہنا چاہا لیکن وہ اب کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔
”خونی رشتے جو گدھوں کی طرح میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ میری جائیداد کے ٹکڑے کر سکیں۔”
”آپ”
”دوست؟… جو کرم علی کو بیئرر بانڈ سمجھتے ہیں… عزت؟… جو میرے کمرے سے باہر نکلتے ہی میری عیب جوئی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔”
”کرم آپ کھانا کھائیں۔” زینی نے بات بدلنا چاہی لیکن اب دیرہو چکی تھی۔
”مجھے بھوک نہیں ہے۔”
”میں نے یہ کھانا آپ کے لیے بنایا ہے۔”
زینی نے اسے جتایا اور یہ ایک اور بڑی غلطی تھی وہ یک دم کرسی دھکیلتا ہوا اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
”میرے لیے کھانا بنایا؟ بہت بڑا احسان کیا مجھ پر لیکن یہ احسان مجھے مت جتائیں… میں آپ کے کھانے کا محتاج نہیں ہوں… اور نہ ہی مجھے ہمدردی کا فریب دینے کی ضرورت ہے… یہ ڈائیلاگز اور ایکٹنگ آپ اپنی فلم کے کسی ہیرو کے لیے رکھیں۔ میرے لیے نہیں۔” وہ سن ہو گئی کرم اپنا کوٹ اٹھا کر رکے بغیر دروازہ کھول کر چلا گیا تھا… وہ اپنی کرسی سے ہل تک نہیں سکی… اتنے مہینوں میں پہلی بار اس نے کسی سے اپنے لیے ہتک آمیز جملہ سناتھا… وہ واقعی احمق تھی… کیا سوچ کر کرم علی سے بات کر رہی تھی… کیا سوچ کر اسے گھر پر بلا لیا تھا اس نے… کیا یہ سب کچھ سننے کے لیے؟… اور وہ کیا سمجھ رہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہمدردی کا ڈرامہ کر رہی ہے تاکہ اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکے… وہ بہت دیر تک سن اعصاب کے ساتھ وہیں بیٹھی رہی تھی۔
٭٭٭





اس سے غلطی ہو گئی تھی… اس کا احساس کرم کو اپنے گھر پہنچتے ہی ہو گیا تھا… وہ کس بات پر اس طرح اتنا برہم ہو گیا تھا اسے اب سمجھ نہیں آرہا تھا… جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا اس میں زینی کا کیا قصور تھا… اسے ندامت ہونے لگی تھی اور اسی احساس کے تحت اس نے زینی کو فون کیا… فون کی گھنٹی کچھ دیر بجتی رہی پھر اس نے فون آف کر دیا تھا۔ وہ یقینا اس وقت اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس نے وقفے وقفے سے کئی بار اس کا نمبر ٹرائی کیا اس کا فون مسلسل آف رہا تھا… کرم کو شدید پچھتاوا ہوا تھا۔
اگلے دن وہ اس کے گھر چلا گیا کئی بار بیل دینے کے باوجود دروازہ نہیں کھولا گیا تھا۔ وہ یقینا شدیدغصے میں تھی۔ وہ اگلے کئی دن اس کے اپارٹمنٹ جاتا رہا اس کو فون کرتا رہا اسے وہ نہیں ملی تھی… وہ جھنجلانے لگا تھا آخر ایسا بھی کیا کہہ دیا تھا اس نے کہ وہ اس کے ساتھ اس طرح کر رہی تھی وہ اسے بار بار messageبھیج رہا تھا جو اتنے ہی بے سود ثابت ہو رہے تھے۔
ایک ہفتہ مسلسل اس کے لیے خوار ہونے کے بعد اس نے اگلا پورا ہفتہ اس سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا وہ ایک ہفتہ اس سے رابطہ نہیں کرتا تو کیا ہوتا… ایک ہفتہ بالکل آرام سے گزر گیا تھا اسے واقعی کچھ نہیں ہوا تھا… کوئی افاقہ کوئی بہتری… کچھ نہیں… آٹھویں دن وہ ایک بار پھر اس کے اپارٹمنٹ کے باہر کھڑا تھا۔ اس بار اس نے بیل سے انگلی نہیں ہٹائی تھی… تقریباً پانچ منٹ تک بیل ہوتی رہی اور جب کرم کو خدشہ ہونے لگا کہ بیل خراب ہو جائے گی تو دروازہ کھل گیا وہ کوٹ پہنے ہوئی تھی یقینا باہر نکل رہی تھی۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ لیکن غصہ نہیں تھا۔ وہ غصہ جو کرم expect کر رہا تھا۔ کرم کو اندر بلانے کی بجائے اس نے باہر نکل کر دروازہ بند کر دیا اور چلنے لگی کرم بے حدخاموشی سے اس کے ساتھ چلنے لگا۔
”I am sorry.” کرم نے لفٹ میں اس سے کہا۔
”کوئی بات نہیں۔” اس کے لہجے میں بھی کسی ناراضگی کا شائبہ نہیں تھا۔ کرم کو تکلیف ہوئی اسے ناراض ہونا چاہیے تھا۔
”غلطی میری ہی تھی۔” وہ کہہ رہی تھی۔
”نہیں میں نے زیادتی کی۔” کرم نے کہا زینی خاموش رہی… وہ دونوں اسی خاموشی میں چلتے ہوئے باہر آگئے تھے۔
”آپ کہاں جا رہی ہیں؟” ”گروسری کرنے کے لیے۔”
”کہاں؟” ”دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر مارکیٹ ایریا ہے۔”
”میرے پاس گاڑی ہے۔” کرم نے آفر کی۔
”تو آپ جائیں۔”
کرم نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”میں آپ کے لیے کہہ رہا تھا۔”
”میں ایسے ہی جاتی ہوں۔”
کرم خاموشی سے اس کے ساتھ چلتا رہا۔
”میری غلطی اتنی بڑی تو نہیں تھی کہ آپ اتنا ناراض ہو ئیں۔”
”آپ سے کس نے کہا کہ میں ناراض ہوں؟… میں ناراض نہیں ہوں… میں نے خواہ مخواہ کا مشورہ دیا تھا آپ کو… آپ نے اچھا کیا مجھے بتا دیا… یہ آپ کی زندگی ہے آپ اسے جو چاہے کریں… جیسے بہتر سمجھیں کریں… آپ کی زندگی میرا مسئلہ تو نہیں ہے۔” اس کے لہجے میں ہلکی سی ناراضگی بھی نہیں تھی اور یہ چیز کرم کو بری طرح ہرٹ کر رہی تھی۔ اس نے اپنی صفائی میں کچھ نہیں کہا۔
مارکیٹ ایریا آگیا وہ ایک ڈیپارٹمنٹ سٹور میں چلی گئی۔ اسے لمبی چوڑی گروسری نہیں کرنی تھی… سیریل، سیڈڈ بریڈ، دودھ کی بوتل، انڈے، liquid soap، ٹی بیگز کا ڈبہ اور چند اسی طرح کی دوسری چیزیں اس نے اٹھائیں اور till پر آگئی۔ کرم خاموشی سے اس کے ساتھ چلتا رہا تھا۔ Tillپر پہلی بار ہنستے ہوئے اس نے والٹ نکال کر ادائیگی کی کوشش کی اور یہ پہلا موقع تھا جب اس نے زینی کو بری طرح خفا ہوتے پایا تھا۔
”آپ مجھے کیا سمجھ کر یہ بل دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟” کرم کریڈٹ کارڈ ہاتھ میںلیے ہکا بکا رہ گیا تھا۔ وہ کیا سمجھ رہی تھی؟… وہ اب till پر بل کی ادائیگی کر رہی تھی۔ کرم اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا سامان لینا چاہتا تھا… لیکن اس کو ہمت نہیں ہوئی تھی۔
وہ دونوں ایک بارپھر اسی طرح خاموشی کے ساتھ چلتے ہوئے باہر آگئے اور فٹ پاتھ پر ساتھ ساتھ کچھ دیر چلنے کے بعد زینی سے مزید برداشت نہیں ہو سکا۔
”آپ کو پتہ ہے ہم یوں بغیر وجہ کے ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہوئے کتنے احمق لگ رہے ہیں۔”
”آپ مجھے بتا رہی ہیں یا میری رائے لینا چاہتی ہیں۔”
زینی نے ایک لمحے کے لیے رک کر اسے دیکھا۔ وہ سنجیدہ تھا۔ وہ ایک بار پھر چلنے لگی۔کرم بھی اس کے ساتھ چلنے لگا ۔ وہ اس بارکسی دوسری سڑک سے بلڈنگ کی طرف جا رہی تھی اور یہی وہ راستہ تھا جس پر موجود فٹ پاتھ پر کرم نے وہ پانچ فقیر دیکھے تھے۔ جنہیں بعد میں وہ باقاعدگی سے دیکھنے لگا تھا… ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے زینی کو ہر فقیر کو جیب سے کوئی نہ کوئی سکہ نکال کر دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ ان سے باقاعدہ ہیلو ہائے کر رہی تھی اور وہ اسے دیکھ کر یوں مسکرا رہے تھے جیسے اسے پہچانتے تھے۔ وہ اس راستے سے پانچ منٹ میں واپس اس کی بلڈنگ میں پہنچ گئے تھے… وہ یقینا جان بوجھ کر اسے اس لمبے راستے سے لے کر گئی تھی۔
”ان بھکاریوں کو خیرات دے رہی ہیں تو مجھے معافی دے دیں۔” اس نے آخری فقیر کے گزر جانے کے بعد اس سے کہا۔
”آپ بھکاری نہیں ہیں۔” زینی نے ایک نظر اسے دیکھا۔
”آپ بھکاری سمجھ لیں۔”
”لیکن میں تو آپ سے ناراض نہیں ہوں… آپ نے وہی کیا جو ایک ایکٹریس کو کوئی کہہ سکتا ہے۔” اس کے لہجے میں کرم کو پہلی بار ہلکا سا رنج نظر آیا۔
”میں نے آپ کو کبھی ایک ایکٹریس نہیں سمجھا۔” وہ خاموشی سے چلتی رہی۔
”آپ کا چہرہ میرے لیے کانچ کی طرح چبھنے والی کسی یاد کا چہرہ ہے۔”
زینی نے چونک کر اسے دیکھا۔
”میں سمجھی نہیں۔”
”آپ کی شکل عارفہ سے بہت ملتی ہے… پہلی دفعہ آپ کو اس فیشن شو میں دیکھ کر عارفہ ہی سمجھا تھا میں… اور عارفہ جیسا نظر آنے پر ہی میں۔۔۔۔” کرم نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے کہا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!