من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

زری اسے جاتا دیکھتی رہی پھر دروازہ بند کر کے اندرآگئی۔ وہ ہمیشہ اس کی زندگی میں فرشتہ بن کرآیا تھا اور ہر بار اس نے اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ کرم کا قرض دار پایا تھا۔
جمال کے اس کا زیور چرا کر بھاگ جانے کے بعد وہ کئی ہفتے تک اسے ڈھونڈتی رہی تھی شروع میں یہ زیور کا صدمہ اور غصہ تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ دونوں چیزیں غائب ہونے لگی تھیں وہ چاہنے لگی تھی کہ وہ واپس آجائے… وہ فوری طور پر واپس نہیں آیا اور اس کی تلاش کی بھاگ دوڑ کے سلسلے میں ہی زری وہاں بنائے گئے جمال کے کسی پاکستانی دوست سے ملنے گئی… پہلے یہ وقتی شناسائی اور ہمدردی مدد کے لیے تھی بعد میں اس کا مفہوم بدل گیا۔ زری خوبصورت ضرورت مند تھی جسے نظر انداز کرنا مشکل تھا اور اسے مدد کے نام پر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں عار محسوس نہیں ہوتی تھی… نتیجہ وہی ہوا تھا جو ہو سکتا تھا۔ ایک کے بعد دوسرا… اور اس کے کچھ عرصہ کے بعد اس نے ایک انڈین عورت کے نائٹ کلب میں بار اٹنڈنٹ کے طور پر کام شروع کر دیا اور بہت ساری واقفیتیں اس کی یہاں بننی شروع ہوئیں۔ اس کے مالی حالات بھی یک دم بہت اچھے ہو گئے تھے… ضمیر کے بوجھ اور چبھن کے باوجود اسے نہ تو اس زندگی سے گھن آتی تھی نہ ہی نفرت محسوس ہوتی تھی کیونکہ اس لائف سٹائل نے اس کے بہت سے مسئلوں کو حل کر دیا تھا۔ اور اسی دوران اس کے زیور سے ملنے والی رقم خرچ کر لینے کے بعد جمال ایک بار پھر اس کے پاس آگیا تھا۔ چند شدید لڑائی جھگڑوں کے بعد ان کی ایک بار پھر صلح ہو گئی تھی اور یہیں سے زری کی زندگی عذاب بننا شروع ہو ئی تھی… جمال اس کے ہر کام کے بارے میں جانتا تھا اور اگرچہ اسے اس پر اعتراض نہیں تھا لیکن وہ اس روپے کو اپنا حق سمجھتا تھا جو وہ اپنے جسم کی فروخت سے لے کر آتی تھی… دونوں کے درمیان مارپٹائی ہوتی پھر صلح ہوتی پھر وہی سب کچھ ہوتا… اور اس روٹین کے دوران زری کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ وہ اس سے چھین کر لے جانے والی رقم صرف شراب اور ڈرگز پر ہی نہیں کسی دوسری عورت پر بھی خرچ کر رہا تھا جسے اس نے اسی طرح کے کسی اپارٹمنٹ میں رکھا ہوا تھا… ان کے جھگڑے اب اور شدید ہونے لگے تھے اور اسی فرسٹریشن میں شراب کے ساتھ زری نے پہلی بار ڈرگز کا استعمال بھی شروع کر دیا تھا۔ وہ eating disorderکا بھی شکار ہو گئی تھی۔ اپنے ڈپریشن سے لڑنے کے لیے وہ بے تحاشا کھاتی اور اس کا جسم یک دم بے حد بے ڈول ہونا شروع ہو گیا تھا… وہ پہلے اپنے جسم کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم اپنے اوپر اور اپنے استعمال کی چیزوں پر خرچ کرتی اور کسی نہ کسی حد تک اس کا guilt کا احساس کم ہوتا رہتا لیکن اب اس کی زیادہ تر رقم جمال کے پاس چلی جاتی تھی جو رقم وہ بچا پاتی وہ اس سے بمشکل ڈرگز، شراب اور یوٹیلٹی اور گروسری کے اخراجات ادا کر پاتی۔ وہ اس اپارٹمنٹ کو بھی چھوڑ کر اس سے زیادہ بد تر اور سستی جگہ پر آگئی تھی لیکن حالات یہاں بھی زیادہ بہتر نہیں ہوئے تھے ۔ ڈرگز اور شراب نوشی بڑھ جانے کے بعد بہت جلد اسے اس نائٹ کلب سے فارغ کر دیا گیا تھا۔ اسے پہلے اگر گاہک وہاں سے مل جاتے تھے تو اب یہ کام سڑک پر کھڑے ہو کر کرنا پڑتا تھا اور اس جاب سے نکالے گئے آج تیسرا ہفتہ ہوا تھا جب کرم اسے اس سڑک پر مل گیا تھا…
وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی جب اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ جمال کس وقت دروازہ کھول کر اندر آگیا تھا۔ وہ تب چونکی جب وہ فرج کھول کر اندر سے کچھ کھانے کے لیے نکالنے لگا تھا۔ ان دونوں کے درمیان اب ایسا ہی رشتہ تھا… دونوں کے درمیان بات چیت تب ہوتی جب دونوں کو ایک دوسرے سے لڑنا ہوتا یا پھر جمال کو اس سے پیسوں کی ضرورت ہوتی… ورنہ دونوں ایک گھر میں رہ کر ایک دوسرے سے آمنا سامنا ہونے پر بھی بات نہیں کرتے تھے۔
لیکن آج زری اپنی خوشی پر قابو نہیں رکھ پائی تھی۔
”جمال کرم آیا تھا آج۔”
جمال کو کھانا گرم کرتے کرتے جیسے کرنٹ لگا۔
”تو کہاں ملی اسے؟” وہ اتنے سال کے بعد بھی اس کے لیے ”تو” ہی تھی۔




”اس نے مجھے سڑک پر دیکھا پھر میرے پاس چلا آیا۔ تمہارے آنے سے کچھ دیر پہلے ہی گیا ہے یہاں سے… کہہ رہا تھا کہ ایک دو دن میں میرے لیے کسی گھر اور نوکری کا بندوبست کر دے گا۔”
”تو تو کہہ رہی تھی اسے کینسر ہو گیا تھا… مرنے والا تھا وہ۔”
” اس کے بھائی نے کہا تھا مجھ سے مگر وہ تو ٹھیک تھا کہہ رہا تھا علاج ہو رہاہے۔ مگر اب ٹھیک ہے۔”
جمال کھانا چھوڑ کر اس کے پاس چلا آیا۔
”پیسے بھی دے کر گیا ہو گا تجھے؟” اس کے لہجے میں یک دم نرمی آگئی تھی۔ اور زری اس نرمی سے واقف تھی۔
”نہیں دیے… اور دیتا بھی تو تجھے کسی صورت نہ دیتی میں… پہلے کی طرح اب بے وقوفی نہیں کروں گی میں… ایک ڈالر تک گھر میں نہیں رکھنا اب میں نے۔” زری نے اپنے عزائم کا اظہار کیا۔
”میں تجھ سے ساری رقم نہیں مانگ رہا دو ہزار ڈالر دے دے… مجھے بڑی ضرورت ہے۔۔۔۔”
”تجھے بتایا ہے میں نے کہ وہ کچھ نہیں دے کر گیا مجھے… اور ضرورت تجھے کب نہیں ہوتی… 24 گھنٹے بھکاریوں کی طرح مانگتا رہتا ہے تو۔ اب پھر اس چڑیل کو پیسہ دینا ہو گا تو نے۔ کرم ٹھیک کہہ رہا ہے مجھے اب طلاق لے لینی چاہیے تجھ سے… اب تجھ سے طلاق لے کر میں کرم سے دوبارہ شادی کروں گی تو پھر قدر ہو گی تجھے زری کی… پھر رہنا اس چڑیل کے ساتھ تو بھوکا مرنا۔” وہ کہتے ہوئے بیڈ روم والے حصے میں چلی گئی۔ اس نے اس سے جھوٹ بولا اسے لگ رہا تھا کہ وہ اسے کرم سے جیلس کر کے اس انڈین عورت سے تعلقات ختم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے اسے اندازہ بھی نہیں تھا اس نے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ جمال اس کی بات پر یک دم بری طرح مشتعل ہو گیا تھا۔
”میری طر ف سے جہنم میں جا تو… مجھے کیا دلچسپی ہے تجھے اپنے ساتھ باندھ کر رکھنے میں… پیسے دے مجھے۔” اس نے گالیاں دیتے ہوئے زری سے کہا تھا۔ جس نے گالیوں کا جواب ویسی ہی گالیوں سے دیا تھا اور جلتی پر جیسے تیل چھڑکا تھا۔ جمال نے اسے گردن سے پکڑ لیا تھا…
”پیسے دے مجھے۔”
”اس نے کوئی پیسہ نہیں دیا مجھے۔” اس نے اس کے ہاتھوں سے اپنی گردن آزاد کرنے کی کوشش کی تھی۔
”یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ تیرے پاس آئے اور تو اس سے کچھ لیے بغیر اسے جانے دے۔” جمال یقین کرنے پر تیار نہیں تھا۔
زری نے جواباً اسے کچھ اور گالیاں دی تھیں وہ اسے گالیوں کے ساتھ پہلے پیسے بھی دیا کرتی تھی اس لیے جمال کو اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا خالی گالیاں کھاکر آرہا تھا۔ اس نے زری کی گردن پوری طاقت سے دبانا شروع کر دی اور زری نے اپنے دفاع میں اس کے چہرے کو اپنے لمبے ناخنوں سے زخمی کیا۔ وہ جمال سے اپنی گردن چھڑانے میں تو کامیاب ہو گئی تھی لیکن اس کے بعد جمال کے ہاتھ میں جو چیز لگی تھی وہ اس نے زری پر کھینچ ماری تھی کچھ چیزیں زری کو لگیں کچھ سے اس نے اپنے آپ کو بچا لیا لیکن وہ شراب کی اس خالی بوتل سے اپنے آپ کو نہیں بچا پائی تھی جو جمال نے فرش سے اٹھا کر اس کے ماتھے پر ماری تھی۔ خون کا ایک فوارا اس کے ماتھے سے نکلا اور وہ تیورا کر فرش پر اوندھے منہ گری… جمال کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک اور بوتل پوری قوت سے اس کے سر کے پچھلے حصے پر ماری تھی… بوتل چکنا چور ہو گئی تھی اور زری حلق سے آواز تک نہیں نکال سکی تھی۔ پہلی ضرب نے اس کے حواس کو ماؤف کر دیا تھا… دوسری ضرب نے اس کے جسم سے اٹھنے اور ہلنے کی سکت نکال لی تھی۔ وہ اسی طرح فرش پر اوندھے منہ پڑی رہی اس کا پورا وجود اس وقت جیسے مفلوج ہو گیا تھا… یوں جیسے اس کے پاس جسم تھا ہی نہیں… صرف سانس تھا… آنکھیں تھیں اور درد سے پھٹتا ہوا سر۔
جمال اب اس کے جسم کو ٹٹول کر اور اس کی مختصر جیکٹ کی جیبوں میں اس بات کی تسلی چاہتا تھا کہ رقم اس کے پاس نہیں تھی… اس کے سر کے پچھلے حصے اور ماتھے سے بہتے ہوئے خون میں اسے دلچسپی نہیں تھی… اس کے پاس رقم نہ ملنے پر اس نے کھڑے ہو کر گالی دیتے ہوئے ایک بار پھر پوری قوت سے اسے اپنے پاؤں کی ٹھوکر ماری تھی اس کے جسم نے اس ٹھوکر کو محسوس نہیں کیا صرف آنکھوں نے ‘محسوس” کیا…یہ زری کی زندگی کا ”حاصل اور وصول” تھا… خون اب فرش پر بہتا ہوا دور تک جا رہا تھا… جمال کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ اسے کتنی شدید چوٹیں آئی تھیں ورنہ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ اس نے زری کو اس طرح مار مار کر لہو لہان کیا تھا… وہ ہر بار ٹھیک ہو جاتی تھی… کبھی نہیں مرتی تھی… پھر اب کیسے مر سکتی تھی… وہ اب گھر میں ہر اس جگہ وہ رقم ڈھونڈنے لگا تھا جو اس کے خیال میں کرم زری کو دے کر گیا تھا… پانچ دس ہزار ڈالر تو ضرور ہوں گے اسے یقین تھا… اتنا پیسہ تو کرم دیتا ہی… وہ گالیاں دیتے ہوئے ڈھونڈنے میں ناکام ہونے پر زری کو کوس رہا تھا… فرش پر گری زری پر ایک نظر بھی ڈالے بغیر۔
٭٭٭
”آج بیل کیوں نہیں بجائی؟” زینی نے قدرے حیرانی سے کچن میں کام کرتے ہوئے کرم کو دیکھا جو اپنی چابی سے دروازہ کھول کر اندر آیا تھا۔
”پتہ نہیں… خیال نہیں آیا۔” وہ الجھا ہوا صوفے پر جا کر بیٹھ گیا آج اس نے اپنا کوٹ بھی نہیں اتارا تھا۔ زینی نے قدرے حیرانی سے کچن میں کھانا پکاتے ہوئے اسے دیکھا… وہ بہت کم اتنا اپ سیٹ ہوتا تھا… آج کیا بات ہو گئی تھی۔
”کیا بات ہے کرم؟” اس نے دور سے ہی کرم سے کہا
وہ صوفے پر بیٹھا کھڑکی سے نظرآتی اس مختصر سی بیل کو گھور رہا تھا۔
”کچھ نہیں۔” اس نے زینی کی طرف متوجہ ہوئے بغیر کہا۔
وہ کچھ دیر کھڑی اسے دیکھتی رہی تھی پھر ہاتھ صاف کرتے ہوئے اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے اس بار اس سے کچھ نہیں کہا تھا کچھ دیر اسی طرح خاموش بیٹھے رہنے کے بعد کرم نے اس سے کہا۔
”میں کل رات زری سے ملا۔” زینی چونکی۔
”کہاں؟”
”یہاں سے واپسی پر ایک علاقے کے فٹ پاتھ پر کھڑی تھی وہ… hooker کے طور پر۔”
زینی بول نہیں سکی۔
وہ بے حد رنجیدہ آواز میں اسے سب کچھ بتاتا رہا۔
”اس کو طلاق لینی چاہیے جمال سے۔” کرم نے جیسے اپنی بات کے اختتام پر اپنا فیصلہ دیا۔
وہ خاموش بیٹھی اسے دیکھتی رہی… پتہ نہیں کیوں آج پہلی بار اس کے منہ سے زری کا نام سن کر اسے اچھا نہیں لگا تھا… زری سے ہمدردی محسوس کرنے کے باوجود۔
”یہ سب میرا قصور ہے… نہ میں جمال کو یہاں بلا کر اس کے ساتھ اس کی شادی کرتا نہ یہ سب ہوتا۔” کرم پچھتا رہا تھا۔
”مجھے اسے پاکستان بھیج دینا چاہیے تھا۔”
”تم وہاں اسے بھیجتے وہ وہاں جا کر بھی یہی کرتی۔”
”ہاں لیکن تب کم از کم و ہ یہ سب کچھ نہ کر رہی ہوتی میں نے اسے طلاق دے کر بہت جلد بازی کی۔” کرم کو کہتے ہوئے احساس بھی نہیں ہوا کہ وہ اس کے چہرے پر کچھ کھوجنے لگی تھی… زری کے لیے کوئی خاص جذبہ۔
”اسے جمال سے طلاق دلوائے بغیر اس کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ” وہ بڑبڑا رہا تھا ۔
اور وہ صرف سن رہی تھی… وہ زری سے ہمدری کا اظہار کرنا چاہتی تھی کرم سے… لیکن اس کو لفظ ڈھونڈنے میں عجیب دقت ہو رہی تھی۔
”مجھے اس کی مدد کرنی ہے ۔” کرم نے کہا۔
”ہاں تمہیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔” زینی نے بے حد بے ربطگی سے کہا۔
”مجھے جانا ہے اب۔” کرم نے یک دم گھڑی دیکھی ۔
”کہاں؟” وہ چونکی وہ اتنی جلدی نہیں جاتا تھا۔
”مجھے زری کے پاس جانا ہے… اس کے لیے ایک اپارٹمنٹ کا بندوبست کیا ہے میں نے۔”
”اور کھانا؟”
”نہیں وہ میں نہیں کھاؤں گا۔” وہ کہتے ہوئے چلا گیا۔
اتنے عرصے میں پہلی بار ہوا تھا کہ وہ اس طرح اس کے پاس آکر کچھ کھائے پیئے بغیر گیا تھا اور اس کے جانے کے بعد زینی کی بھوک بھی مر گئی تھی وہ اس سے شادی نہیں کرناچاہتی تھی اس کو شادی کا مشورہ دیتی رہتی تھی اس کے باوجود ایک دوسری عورت جو اس کی سابقہ بیوی تھی کے لیے اس کی بے قراری دیکھ کر وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔ کہیں نہ کہیں کوئی جذبہ تو ہو گا کرم کے دل میں زری کے لیے کہ وہ اتنے عرصہ بعد زری سے اتنا بڑا دھوکہ کھانے کے باوجود اس کی مدد کے لیے یوں بھاگ رہا تھا… اور جمال سے طلاق کیا وہ اس لیے دلوا رہا تھا کہ دوبارہ اس کے ساتھ شادی… زینی اس سے بری طرح بدگمان ہونے لگی تھی… وہ اس وقت کرم کو ”اچھی فطرت” رکھنے والا انسان نہیں صرف وہ مرد سمجھ کر دیکھ رہی تھی۔ جو اسے ”اچھا” لگتا تھا… وہ بے چینی سے اپنے اپارٹمنٹ میں پھرتی رہی… بیٹھے بٹھائے کرم کی زندگی میں بالآخر ایک دوسری عورت آگئی تھی اور زینی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
کرم کے وہاں سے جانے کے کئی گھنٹے بعد تک وہ کرم کی کسی کال message کاانتظار کرتی رہی جو وہ ہمیشہ گھر پہنچنے کے بعد اسے کرتا تھا کوئی message کوئی کال نہیں آئی۔ زینی پوری رات بری طرح روتی رہی… کرم نے ایک بار پھر جیسے اسے اپنی زندگی سے نکال دیا تھا وہ اگلے دن کام پر نہیں گئی… وہ تقریباً سارا دن کھائے پیئے بغیر کھڑکی کی بیل کے پاس کھڑی اس کے گرتے ہوئے پتے دیکھتی رہی… جن گرتے ہوئے پتوں کو کچھ دن پہلے وہ آئندہ ایک آدھ ہفتے میں شروع ہونے والی برفباری کا اثر سمجھ رہی تھی آج وہ ان گرتے پتوں کو کچھ اور مفہوم پہنا کر رو رہی تھی۔
اس دن چار بجے تک کرم کی کوئی کال کوئی message نہیں آیا اور چار بجے بالآخر اسے کرم کا messageآیا تھا۔”I am very upset. Someone murdered Zari last nite.”
زینی کے ہاتھ یک دم کپکپانے لگے تھے۔ اس نے یہ کبھی نہیں چاہا تھا… پوری رات ایک بار بھی ایسی کوئی خواہش اس نے نہیں کی تھی پھر… اس نے کپکپاتے ہاتھوں کے ساتھ کرم کو فون کیا۔ ہیلو کہنے کے بعد وونوں چپ ہو گئے تھے۔
”تم کہاں ہو اس وقت؟” زینی نے اس سے کہا۔
”میں گھر پر ہوں۔”
”میں آجاؤں؟”
”تمہیں پوچھنے کی ضرورت ہے؟”
زینی نے فون بند کر دیا۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!