من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

”بھانت بھانت کے مردوں کے سامنے ناچنے والی اس دوٹکے کی اداکارہ کو تو میری بہو بنانا چاہتا ہے اس خاندان سے رشتہ جوڑنا چاہتا ہے اس کا؟” کرم کی ماں اب گرج رہی تھی۔
”آپ اس طرح کی باتیں مت کریں وہ فلم انڈسٹری چھوڑ چکی ہے۔” کرم نے ماں کی بات کاٹی تھی۔
”فلم انڈسٹری چھوڑ دی ہے… یہ لیں یہ اخبار پڑھیں اور پھر یہ دوسرے اخباروں کا بھی ڈھیر پڑھ لیں آپ کے لیے انٹرنیٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا ہے میں نے۔” اس کے چھوٹے بھائی آصف نے طنزیہ ہنستے ہوئے سینٹر ٹیبل پر پڑا ایک اخبار اٹھا کر اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور میز پر پڑے باقی اخبارں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واپس اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ کرم نے الجھی ہوئی نظروں کے ساتھ اس اخبار کو دیکھا اور اس کا ذہن بھک کے ساتھ اڑ گیا۔ ایک پاکستانی اخبار کے پہلے صفحے پر زینی کی ایک بے حد معیوب تصویر کے ساتھ ہیڈ لائن تھی۔
سپر سٹار پری زاد کی فلموں میں واپسی… مشہور اداکارہ پری زاد جو ایک بڑے سکینڈل کے بعد فلم انڈسٹری سے یک دم غائب ہو گئی تھیں بالآخر کینیڈا کے کروڑ پتی پروڈیوسر کرم علی سے شادی کے بعد انہیں کی فلم کے ذریعے انڈسٹری میں come back کرنے والی ہیں۔ کرم علی ایک طویل عرصے سے کینیڈا میں مقیم ہیں اور کئی سال پہلے انہوں نے پری زاد کو لے کر ایک فلم بنائی تھی جس نے کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ ہمارے رپورٹر کی اطلاع کے مطابق پری زاد پچھلے ڈھائی سال سے کرم علی کے ساتھ ہی کینیڈا کے شہر اوٹوا میں مقیم تھیں اور دونوں اب چند ہفتے تک باقاعدہ طور پر رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے والے ہیں۔ فلم انڈسٹری کے اندرونی حلقوں نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے اسے انڈسٹری کے لیے خوش کن قرار دیا ہے… ماپ نے پری زاد کی واپسی کا خیر مقدم کرتے ہوئے پری زاد کی طرف سے اس یقین دہانی کے بعد ان پر لگی پابندی ہٹا لی ہے کہ وہ ان تمام فلموں کو مکمل کروائیں گی جنہیں وہ ادھورا چھوڑ کر غائب ہو گئی تھیں… فلمساز جاوید بٹ اور رانا مصدق نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پری زاد کے پرانے سیکرٹری سلطان سے ان کی پری زاد کو ان کی آنے والی فلمز میں سائن کرنے کے لیے بات ہوئی ہے اور معاملات جلد طے ہو جائیں گے… پری زاد اگلے مہینے کی 17 تاریخ کو اوٹوا میں بہت دھوم دھام سے کرم علی کے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ رہی ہیں۔ انڈسٹری کے تمام نامور اداکاروں اور اداکاراؤں نے پری زاد کی زندگی کے اس نئے سفر پر ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔




کرم برف کی سل کی طرح سرد ہو گیا تھا۔ وہ انڈسٹری کی سب سے بہترین ایکٹریس تھی وہ مان گیا تھا… وہ ایک بار پھر بے وقوف بن گیا تھا… تو وہ سلطان کو ان کی شادی کے لیے نہیں ان معاملات کو طے کرنے کے لیے کینیڈا بلانا چاہتی تھی… کیا وہ کرم کا شکار کھیلنے جان بوجھ کر وہاں اس کے اتنے پاس آئی تھی… اس کے ڈیپارٹمنٹ سٹور میں کام کرنا کیونکہ وہ جانتی ہو گی کہ کبھی نہ کبھی اس سٹور پر اس کا سامنا کرم سے ہو سکتا تھا… وہ بدگمانی کے اندھیروں میں خود ہی روشنیاں کرتا پھر رہا تھا… ہر اس چیز پر غور کرتا جو اسے مشکوک لگ رہی تھی ہر اس چیز کو نظر انداز کرتا جو زینی کے حق میں جا رہی تھی… وہ اخبار پکڑے اس کے ذہن میں جیسے اندھیروں کے جھکڑ چل رہے تھے… دو سال لگا کربھی وہ زینی کو نہیں سمجھ سکا تھا… اور وہ تو زری کو بھی نہیں جان پایا تھا… پر آج تکلیف کچھ اور طرح کی تھی اسے لگ رہا تھا وہ مر رہا تھا… کم از کم ”وہ۔۔۔۔” وہ تو اس کے ساتھ یہ سب نہ کرتی… وہ اس سے اتنی محبت کرتا تھا اس نے یہ بھی نہیں سوچا وہاں کھڑا وہ نمک کی طرح گھلنے لگا تھا… اس تعلق کو توڑنے کے لیے اس کے بہن بھائیوں کو ہاتھ بھی نہیں ہلانا پڑا تھا… زینی کی محبت کے پیڑ کو کرم نے بدگمانی کی زمین پر کھڑا کیا تھا اعتبار کی مٹی میں نہیں… ایک جھونکا آتے ہی پیڑ زمین بوس ہو گیا تھا اپنی جڑوں سمیت باہر نکل آیا تھا… زینی نے اسکے بارے میں ٹھیک اندازہ لگایا تھا وہ بہت جلد بدگمان ہو جاتا تھا لیکن وہ یہ اندازہ نہیں لگا سکی کہ کرم ہررشتے کو شک کی چھلنی سے چھاننے کا عادی ہو چکا تھا… وہ زندگی میں اعتبار کی سیڑھیوں سے اتنی بار گر کر زخمی ہو چکا تھا کہ اب وہ جدوجہد کے باوجود پہلے پائیدان پر بھی پاؤں نہیں رکھ پاتا تھا… اسے یہ یقین ہو چکا تھا کہ اس کے پاس دولت کے علاوہ ایسی کوئی خوبی نہیں تھی جس کی وجہ سے کوئی اس کی طرف آتا۔ وہ ایک پٹاری میں دولت کے سانپ کے ساتھ بند تھا اور جب بھی اس پٹاری سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا وہ سانپ اسے ڈنک مار دیتا تھا… کرم مجبور اور بے بس تھا اور زینی کو کبھی اس بات کا احساس نہیں ہوا۔ ہو جاتا تو آج وہ وہاں نہ کھڑے ہوتے۔ وہ کیا پڑھ رہا تھا۔ زینی کو اندازہ نہیں تھا لیکن زینی کو یقین تھا اس اخبار میں ایسی کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی جس کے بارے میں وہ کرم کو پہلے ہی نہیں بتا چکی تھی… کرم سے کوئی راز نہیں رکھا تھا اس نے… پھر اخبار کا وہ ایک ٹکڑا کیا کرسکتا تھا… اور اخبار کا وہ ٹکڑا کیا کر چکا تھا اس کا احساس اسے کرم کے اخبار سے سراٹھانے پر ہوا تھا۔ زینی کو سمجھ نہیں آیا وہ یک دم اسے اس طرح کیوں دیکھنے لگا تھا… ایسی نظروں سے جو اسے مار رہی تھیں… اس کے وکیل نے مقدمہ forfeit کر دیا تھا کرم نے کچھ کہے بغیر اس اخبار کو زینی کی طرف بڑھا دیا۔ چند سکینڈز لگے تھے زینی کو وہ خبر پڑھنے میں… اس کے نزدیک ایک خبر تھی وہ… شاید سلطان نے کسی سے ذکر کیا تھا ۔ اسے منع کرنا چاہیے تھا اسے… وہ پچھتائی لیکن اب دیر ہو چکی تھی۔
”جھوٹ ہے یہ کرم… تم جانتے ہو میں فلم انڈسٹری چھوڑ چکی ہوں… میں… مجھے… مجھے تو اب فلموں میں کام نہیں کرنا۔۔۔۔” اس نے کرم کو دیکھتے ہوئے اسے بتانے کی کوشش کی تھی… کرم کی آنکھیں وہ آنکھیں نہیں تھی جن سے وہ زینی کو دیکھتا تھا۔
وہ ”پری زاد” کودیکھنے والی آنکھیں تھیں ایک لمحہ لگا تھا زینی کو ساری وضاحتیں ساری صفائیاں سارے لفظ بھولنے… بس ایک لمحہ… یہ ”کرم” کی ”نگاہ” نہیں تھی۔
کمرے میں اچانک شور ہونے لگا تھا وہاں بیٹھا ہر شخص اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا… لوہا گرم تھا ہر ایک اس پر چوٹ لگا رہا تھا کرم سب کچھ سن رہا تھا وہ کچھ بھی نہیں سن رہی تھی۔ وہاں سب کے ہاتھوں میں پتھر تھے اور وہ اس پر سنگباری کر رہے تھے صرف ایک ہاتھ خالی تھا اور وہ اسی سے لہو لہان ہو رہی تھی وہ اسے ”جانتا” تھا یا کم از کم اسے یہ خوش فہمی تھی کہ وہ اسے ”جانتا” تھا پھر شبہ آخر ان دونوں کے تعلق میں شبے کی گنجائش کہاں سے نکال لی تھی؟… کیا اس لیے کہ وہ اس سے تحفے لینے لگی تھی؟… کیا اس لیے کہ وہ اس کی کی ہوئی عنایات پر معترض نہیں رہی تھی؟… یا پھر صرف اس لیے کہ وہ اس سے شادی پر تیار ہو گئی تھی؟
زینی نے ایک بار پھر چند لمحوں کے لیے آنکھیں جھپک کر کرم کی آنکھوں کو دیکھا وہاں اب بھی وہی کچھ تھا جو پہلے تھا… وہ اس کا واہمہ نہیں تھا۔
زینی کی آنکھوں کے سامنے پچھلے سارے مہینے کسی فلم کی طرح چلنے لگے تھے… کرم کے ساتھ گزرا ہوا ایک ایک لمحہ… اس کے ساتھ لگائے ہوئے قہقہے… اس کے سامنے بہائے ہوئے آنسو… سب جیسے دھواں بن کر اڑنے لگا تھا… دنیا کی کسی لغت میں وہ لفظ نہیں تھے جن سے وہ کرم کو یہ یقین دلا سکتی کہ وہ اس کی دولت کی ہوس میں اس کے ساتھ نہیں آئی تھی… وہ صرف کرم کا اپنا وجود تھا جس نے اسے کھینچا تھا۔ کوئی اس کے اور کرم کے بیچ اینٹیں چننے لگا تھا… کرم کا وجود اس کی نظروں کے سامنے دھیرے دھیرے غائب ہونے لگا تھا۔ شیراز وہ آدمی نہیں تھا جس سے وہ محبت کرتی… کرم بھی وہ آدمی نہیں تھا جس پر وہ اعتبار کرتی… زینی آج بھی جیسے اپنے باپ کے آنگن میں خالی ہاتھ کھڑی تھی۔ کرم اب گردن گردن تک اس دیوار کے پیچھے چھپ گیا تھا اور اب… اب چہرہ… چہرہ غائب ہو رہا تھا… اور اب آنکھیں اور اب بال… اور اب سب کچھ… وہاں اب کوئی نہیں تھا دنیا خالی ہو گئی تھی۔
Check mate… (شاہ مات) زندگی میں زینب ضیاء سے بڑھ کر کسی کو شاہ ماتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہو گا۔
سر جھکا کر زینی نے اپنے ہاتھوں کے ناخنوں پر لگی سرخ نیل پالش کو دیکھا… منک کوٹ سے جھانکتے اس سرخ سلک کے لباس کو… منک کوٹ کو… پیروں میں پہنے ہوئے اس خوبصورت سرخ جوتے کو… اس نے واقعی اس مرد کے لیے سجنے سنورنے میں بہت وقت لگایا تھا جس سے اسے عشق کا ”فریب” ہوا تھا… اس نے سراٹھا کر آخری بار پانی سے بھری آنکھوں کے ساتھ اس ”دیوار” کو دیکھا… پھر وہ پلٹ گئی… اب تو پلٹ ہی جانا چاہیے تھا اسے… دروازے سے باہر نکلنے تک وہ کسی آواز کی منتظر رہی جو اس کے قدموں کی زنجیر بن جاتی کسی ہاتھ کی منتظر رہی جو اس کا ہاتھ پکڑ لیتا… انتظار واقعی موت تھا۔
وہ دروازے سے باہر نکل آئی سامنے کرم کی گاڑی کھڑی تھی جس پر وہ کچھ دیر پہلے وہاں آئے تھے… اس نے پلٹ کر ایک بار پھر کرم کے گھر کے بند دروازے کو دیکھا… شاید وہ آئے… اس کے پیچھے ایک بار… اسی طرح… جیسے وہ ہمیشہ آتا تھا… دروازہ نہیں کھلا… زینی جانتی تھی بند دروازے کبھی نہیں کھلتے… اس نے زندگی میں بہت سے بند دروازے دیکھے تھے۔ اس نے ان میں سے کسی کو بھی کھلتے نہیں دیکھا تھا۔
وہ ڈرائیووے پر نکل آئی۔ وہ کیٹ واک پر سات سات انچ اونچی ہیل پہن کر چلتی رہی تھی… ایک بار لڑکھڑائے یا گرے بغیر… آج پہلی بار وہ ڈرائیووے کے کنکریٹ پر چار انچ اونچی ہیل کے ساتھ لڑکھڑا رہی تھی۔
33 سال کی عمر میں زینی نے پہلی بار اپنے وجود کو تھکن سے چٹختے پایا… وہ آج بھی اپنے باپ کی سب سے بے وقوف اولاد تھی… وہ آج بھی محبت کا فریب کھا بیٹھی تھی… اگلے پچھلے سارے کھرنڈ جیسے کسی نے کھرچنے شروع کر دیے تھے… جسم کے… روح کے… سارے… زینب لہو لہان ہو رہی تھی… تکلیف اب رک جانی چاہیے تھی… سفر اب ختم ہو جانا چاہیے تھا… آخر زینب ضیاء کو زندگی میں اب اور کیا دیکھنا تھا… تذلیل، توہین، رسوائی، بدنامی ہر طوق تو اس کے گلے میں پڑ چکا تھا پھر اب کیا تھا؟ کیوں خواب بننا بند نہیں کرتی وہ؟
آج بہت عرصے کے بعد اتنی اونچی ہیل پہنی تھی… وہ واقعی چلنا بھول گئی تھی۔
کرم علی ٹھیک کہتا تھا وہ منک کوٹ واقعی بہت گرم تھا وہ اسے سردی سے بچانے کی کوشش کر رہا تھا… سامنے کے سارے کھلے بٹنوں کے باوجود۔
”آپ نے کوئی بددعا دی ہو گی مجھے ابو۔” وہ دور نظر آنے والی سڑک دیکھ کربڑبڑائی۔ ”ورنہ زینی کو ایسی ذلت تو کبھی نہ ملتی… زینی کا مقدر اتنا سیاہ توکبھی نہ ہوتا… مجھے یقین ہے کوئی نہ کوئی بد دعا کی ہے آپ نے میرے لیے… اور ٹھیک کیا۔ زینی نے بہت تنگ کیا آپ کو… بہت دل دکھایا آپ کا… پھر زینی کو سکون کیوں ملے۔۔۔۔” وہ بڑبڑا رہی تھی۔ وہ چلتے ہوئے لڑکھڑا رہی تھی لیکن چل رہی تھی۔
اس نے ایک بار پھر پیچھے مڑ کردیکھا… پیچھے کوئی نہیں تھا۔ وہ مین روڈ پر آگئی تھی… اسے واپس جانا تھا… وہ بس سٹاپ پر رک گئی… وہاں اس کے سوا کوئی نہیں تھا۔
٭٭٭
اسے ہوش دروازہ بند ہونے پر آیا تھا اس کے چلے جانے پر آیا تھا۔
”دیکھا جھوٹ کھلا تو کس طرح بھاگ گئی۔ ” کرم نے اپنی ماں کو کہتے سنا وہ اخبار دیکھ رہا تھا۔ جو وہاں پڑا ہوا تھا جہاں وہ چند منٹ پہلے کھڑی تھی۔ فرش پر پڑے اخبار میں اس کی وہی معیوب تصویر جیسے اس کا منہ چڑا رہی تھی ۔ وہ اس طرح کیوں گئی تھی؟…کوئی وضاحت یا صفائی تو دینی چاہیے تھی اسے وہ بے چین ہونے لگا تھا۔
”بیٹھ جاؤ بیٹا… کیوں کھڑے ہو؟” اس کی ماں نے کہا تھا اور اس کے بہن بھائی اپنی جگہ سے اٹھ اٹھ کر اسے جگہ دینے لگے تھے۔ ”بھائی جان” ”لوٹ” آئے تھے۔ معجزہ ہو گیا تھا… اور کسی خاص محنت کے بغیر… ماں کو واقعی اس وقت فوری طور پر کرم پر فخر محسوس ہوا تھا وہ واقعی اس کی سعادت مند اولاد تھا۔ کرم نے اس کی طرف اب قدم نہیں بڑھائے… وہ وہاں تھی تو اسے ”خون’ کھینچ رہا تھا وہ چلی گئی تھی تو اب ”محبت” کھینچنے لگی تھی۔ وہ اسے اس لیے وہاں نہیں لایا تھا کہ وہ سب اس کے بارے میں یہ سب کچھ کہتے اس کی تذلیل کرتے… اس کی تذلیل ہوئی تھی اسے اب احساس ہوا تھا… وہ سب وہی لوگ تھے جن کو وہ اتنے سال آزما چکا تھا وہ کسی آزمائش میں پورے نہیں اترے تھے۔ جھوٹے تھے۔ خود غرض تھے۔ مادہ پرست تھے پھر بھی یہ کیوں تھا کہ وہ جب بھی زبان کھولتے وہ کیا اس لیے ان پر اعتبار کرتا کیونکہ وہ اس کے خونی رشتے تھے؟… یا پھر اس لیے کیونکہ وہ ایک کمزور مرد بن چکا تھا۔ جو ضرورت سے زیادہ سوچتا تھا… ضرورت سے زیادہ شک کرتا تھا… کوئی بھی فیصلہ کرنے میں ہمیشہ تاخیر کرتا تھا۔
”پریشان مت ہو بیٹا… سب کچھ بالکل ٹھیک۔۔۔۔” اس کی ماں نے اسے گلے لگانے کی کوشش کی کرم نے ان کے ہاتھ دور ہٹا دیے۔ آج پہلی بار اسے اپنی ماں کے لمس سے وحشت ہو رہی تھی… اس کی آغوش میں گھٹن محسوس ہو رہی تھی کرم کی ماں نے حیرت سے اسے دیکھا تھا… وہ ماں کے ہاتھ کیسے جھٹک سکتا تھا… کرم علی تو ان کی سب سے سعادت مند اولاد تھا۔
”یہ سب کچھ کر کے تسلی ہو گئی آپ کی؟… سکون مل گیا؟… میں زندگی میں جو نیا رشتہ بنانا چاہوں گا آپ سب مل کر اسے اسی طرح توڑ دیں گے؟… مجھے صرف اکیلا دیکھنا چاہتے ہیں آپ… صرف اکیلا۔۔۔۔”
”ہم نے جو کچھ کیا تمہاری بہتری کے لیے کیا… ارے وہ تمہاری ساری دولت لے جاتی… تم جانتے نہیں ہو ایسی عورتوں۔۔۔۔”
کرم نے پوری قوت سے چلاتے ہوئے ماں کی بات کاٹی… ”بس یہی پریشانی ہے آپ سب کو کہ وہ میری دولت لے جائے گی… اور وہ لے گئی تو آپ… آپ سب کیا کریں گے؟”
سب کو سانپ سونگھ گیا تھا زندگی میں پہلی دفعہ ان میں سے کسی نے کرم کو یوں چلاتے ہوئے سنا تھا۔
”کرم میرے بچے میں۔۔۔۔” اس کی ماں حواس باختہ ہو گئی۔
”کرم یا کرم کی خوشی یا زندگی میں تو کسی کو دلچسپی نہیں ہے… کتنی دولت لے لیتی وہ مجھ سے؟… اس سے زیادہ جتنی میں اتنے سالوں سے آنکھیں بند کیے آپ سب پر لٹا رہا ہوں۔”
”بیٹا خونی رشتہ ہے ہمارا تم سے… یہ سب بہن بھائی ہیں تمہارے۔۔۔۔” اس کی ماں نے آگ پر پانی ڈالنے کی کوشش کی۔
”خونی رشتہ ہے اسی لیے تو اپنے آپ کو استعمال ہونے دیا میں نے۔”
”استعمال؟ ہم لوگوں نے آپ کو استعمال کیا؟” آصف نے پہلی بار زبان کھولی۔
”ہاں تم سب نے مجھے زندگی میں سیڑھیاں چڑھنے کے لیے پائیدان بنایا اور ساری عمر پائیدان ہی سمجھا۔۔۔۔”
”آپ ہم پر الزام نہ لگائیں بھائی جان۔” یہ اس کی چھوٹی بہن تھی۔
”تو احسان کرنے کے بعد اب احسان جتانے بیٹھ گیا ہے۔” کرم کی ماں اب کچھ خفا ہونا شروع ہو گئی تھی… ابتدائی حواس باختگی غائب ہو گئی تھی۔
”احسان نہیں جتا رہا صرف یہ بتا رہا ہوں کہ احسان کرنا صرف میرا فرض نہیں ہے… آپ سب کا بھی فرض ہے۔”
”آپ کے جتنا پیسہ میرے پاس ہوتا تو میں اپنے بہن بھائیوں کو اس سے کہیں زیادہ دیتا جو آپ نے ہمیں دیا۔۔۔۔” یہ آصف تھا۔
”بس یہی چیز ہے نا تم سب کے دلوں میں… کہ مجھے تم لوگوں کو اور زیادہ دینا چاہیے… زیادہ کی کوئی حد ہے تم سب کے نزدیک؟” وہ زہریلے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”کاغذ پر لکھ کر دے دو مجھے کہ تم لوگوں کو کتنے کروڑ چاہیے… کتنا پیسہ دوں میں تم لوگوں کو کہ تمہارے جسم میں میرے لیے بہنے والا پانی خون بن جائے۔”
اس نے وہاں سے پلٹنا چاہا اس کی ماں نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
”اس کے پیچھے مت جا کرم۔” انہوں نے اسے روکنا چاہا تھا۔
اس نے بازو سے ماں کا ہاتھ ہٹا دیا۔
”وہ میری زندگی ہے زندگی کے پیچھے کون نہیں جاتا… میں نے اپنی ساری زندگی صرف آپ کے کہنے پر ان سب کے لیے ضائع کر دی… وہ میری واحد خوشی تھی… میں بڑے مان سے اسے آپ کے پاس لایا تھا… یہ سب نہ سہی اسے قبول کر کے آپ ہی میرا مان رکھ لیتیں۔”
زندگی میں پہلی بار کرم کی ماں بول نہیں سکی تھی زندگی میں پہلی بار اس نے ان کے سامنے کھڑے ہو کر ایک گلہ کیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار وہ ضمیر کی چبھن کا شکار ہوئی تھیں۔
”کرم تو لے آ اسے… تیری خوشی اور پسند ہے تو بس ٹھیک ہے… مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے… میں اسے اپنے سینے سے لگا کر رکھوں گی۔۔۔۔” اس کی ماں رونے لگی تھی۔
”آپ کیا کہہ رہی ہیں امی۔۔۔۔” آصف گڑبڑا گیا تھا۔
زندگی میں پہلی بار ماں نے کھڑے کھڑے پلٹا کھایا تھا۔
”بس چپ ہو جاؤ سارے… کوئی کچھ نہیں بولے گا اس بارے میں… تو جا کرم اگر وہ باہر کھڑی ہے تو لے آ اسے۔” وہ بہت بے یقینی سے ماں کو دیکھتا رہا عجیب سے اطمینان اور بے یقینی کے ساتھ… کیا واقعی وہ اس کی پسند کو قبول کر لینے والے تھے؟
٭٭٭
بس آگئی تھی۔ زینی کے کانوں میں گونجنے والی آوازیں ایک لمحہ کے لیے جیسے بند ہوئیں… اس نے سینما میں مرد تماشائیوں کے منہ سے اپنے لیے اس سے کہیں غلیظ اور رکیک باتیں سنی تھیں جتنی اس نے کرم کے گھر والوں کی زبان سے سنی تھیں لیکن ان لفظوں کے نشتر نے کبھی اسے اس طرح نہیں کاٹا تھا جس طرح کرم کے گھر والوں کی باتوں نے کاٹا تھا… کیونکہ وہ سب کچھ کرم کے سامنے کہا گیا تھا اور وہ خاموش رہا تھا… تماشائی بن گیا تھا… اس نے زینی کی ”عزت” کو اپنی ”عزت” کیوں نہیں سمجھا؟… کیا اس لیے کہ کہیں نہ کہیں اس کے دل میں بھی اس کے لیے یہی سب کچھ تھا جو وہ اس کے خاندان کی زبان سے سن رہی تھی آوازیں پھر آنے لگیں… وہ بس پر چڑھ گئی۔ پھر اسے یاد آیا اس کے ہاتھ میں پرس نہیں تھا… وہ کچھ دیر ڈرائیور کا چہرہ دیکھتی رہی پھر اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ سکے نکالے تھے جو اسے ان بھکاریوں کو دینے تھے۔ اس نے ڈرائیور کے سامنے وہ سکے ڈال دیے اور آگے بڑھ گئی۔ ڈرائیور نے اسے آوازیں دینے کی متوجہ کرنے اور ٹکٹ اور باقی رقم دینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ تب تک بس کے پچھلے حصے میں پہنچ چکی تھی۔ بس بالآخر چل پڑی ایک سیٹ پر بیٹھ کر وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی… بس سے باہر اس کی نظروں کے سامنے اس کی زندگی کی فلم چلنے لگی تھی۔ ضیائ، نفیسہ، سلمان، ربیعہ، زہرہ ، شیراز سب اس کی نظروں کے سامنے آنے لگے تھے… کرم کہیں غائب ہو گیا تھا۔
٭٭٭
کرم نے باہر نکلتے ہی اسے دور تک ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی شاید کہیں کھڑی ہو… وہ کہیں نہیں تھی… وہ تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف آیا اور اس نے گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی گاڑی سٹارٹ نہیں ہوئی… اسے کیا ہوا تھا؟ وہ پانچ منٹ تک گاڑی سٹارٹ کرتا رہا وہ بری طرح جھنجلا رہا تھا… اس سے پہلے کبھی اس گاڑی کو کچھ نہیں ہوا تھا اور اب یہ خراب اس وقت ہوئی تھی جب اسے اس کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ہونٹ کاٹتے ہوئے وہ گاڑی سے نکل آیا… مین روڈ قریب تھی وہ جانتا تھا چند منٹ چلنے کے بعد اسے بس مل جاتی اور یہ بھی ممکن تھا زینی ہی مل جاتی۔
وہ ایک بار پھر اس خبر کے بارے میں سوچنے لگا اور اسے ندامت ہو رہی تھی ایک خبر پڑھ کر وہ یک دم اس طرح ری ایکٹ کیوں کرنے لگا تھا… آخر زینی اس سے جھوٹ کیوں بولتی اسے دھوکہ کیوں دیتی… اور پھر اس کی ساری فیملی جو اس شادی کے لیے آرہے تھے ان سے ایک ہفتے کے دوران ہونے والی بات چیت سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ کیسے لوگ تھے… پھر یہ کیوں ہوا کہ ایک خبر پڑھ کر اسے زینی کے بارے میں… بس سٹاپ آگیا تھا اوروہاں چند لوگ کھڑے تھے مگر زینی نہیں تھی وہ کچھ مایوس ہوا اسے دور سے مطلوبہ بس نظر آتی دکھائی دے رہی تھی وہ تقریباً بھاگتے ہوئے بس سٹاپ پر پہنچا وہ اس بس کو مس نہیں کرنا چاہتا تھا چند منٹوں میں بس وہاں تھی وہ بس پر چڑھ گیا۔
٭٭٭
زینی بس سے اتر گئی۔ ڈرائیور نے ایک بار پھر اس کے عقب میں آوازیں دیتے ہوئے اسے روکنے اور اس کی بقیہ رقم دینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس بار بھی ناکام رہا۔ اسے یقین تھا اس ایشین عورت کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ اس کی خوبصورتی سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔
یہ وہی سڑک تھی جس پر وہ دونوں تقریباً ہر دوسرے چوتھے دن کافی پینے کے لیے پیدل جایا کرتے تھے اور آتے جاتے ان پانچوں فقیروں سے ان کی ملاقات ہوتی تھی۔زینی فٹ پاتھ پر چلنے لگی۔ فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس پر کھانسی کا پہلا دورہ پڑا۔ آج پہلی برفباری ہوئی تھی… ہلکی سی… لیکن ہمیشہ کی طرح اس کا جسم موسم میں ہونے والی اس تبدیلی کو محسوس کر رہا تھا… ایک لمحے کے لیے وہ بری طرح کھانستے کھانستے رکی سرد ہوا کے تھپیڑے اس کے چہرے اور ہاتھوں کو سن کر رہے تھے… اس کے حواس پہلے ہی سن ہو چکے تھے وہ چند لمحے فٹ پاتھ پر رکی رہی… وہ کہاں جا رہی تھی؟… گھر؟… کون سا گھر؟… کرم کا چہرہ ایک لمحے کے لیے صرف ایک لمحے کے لیے اس کے سامنے آیا… پھر اس نے اس کو جھٹک دیا۔
وہ ایک بار پھر فٹ پاتھ پرچلنے لگی۔ اس کا پورا وجود بے حد بوجھل اور زیادہ لڑکھڑاہٹ تھی… اس نے بس میں بیٹھے اپنی زندگی کو وائنڈ اپ کر لیا تھا… اپنی زندگی کی پوری فلم کو… ایک عجیب سی بے حسی تھی جو اس کے پورے وجود پر چھا رہی تھی۔ وہ جیسے اس وقت اپنے جسم سے خود الگ ہو گئی تھی…
”آپ کی بیٹی جہیز کے نام پر کچھ نہیں لائے گی کم از کم عزت تو لے کر آئے۔” وہ آواز نہیں پہچان سکی… کسی نے اس کے باپ سے یہ کہا تھا مگر کس نے… اور کب… و ہ الجھی فٹ پاتھ پر چلتی رہی۔
”اس انڈسٹری میں ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے پری زاد… کوئی چیز مفت نہیں ملتی… تم اس انڈسٹری میں رہنا چاہتی ہو تو اس ڈبے کو اٹھا لو ورنہ اس کمرے کا دروازہ وہ ہے… تم باہر چلی جاؤ مگر یہ یاد رکھو… یہ انڈسٹری سے باہر جانے کا راستہ ہے۔” پری زاد کون تھی؟ اسے فوری طورپر کچھ یاد نہیں آیا… کیسا کمرہ؟… کیسا دروازہ؟… پھر اس نے اپنے جسم پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا… اسے سب کچھ یاد آگیا… اس کے جسم پر ”بچھو” رینگنے لگے تھے۔ وہ وحشت کے عالم میں فٹ پاتھ پر کھڑی اپنے جسم اور کپڑوں کو جھاڑنے لگی… اس کے جسم پر ہاتھ ہی ہاتھ تھے… وہ پاگلوں کی طرح اپنے آپ کو جھاڑ رہی تھی… آس پاس سے گزرنے والے لوگ قدرے حیرانی سے اسے دیکھ رہے تھے مگر ان میں سے کسی کے پاس بھی رکنے کے لیے وقت نہیں تھا۔
”آپ دعا کریں میں جلدی مر جاؤں ورنہ بڑا مسئلہ ہو گا آپ کے لیے۔۔۔۔” وہ یک دم رک گئی۔ اس کا سانس بے ترتیب ہو رہا تھا… ماتھے پر پسینہ آرہا تھا اتنے سرد موسم میں بھی… وہ ایک زومبی کی طرح چلنے لگی… پہلا فقیر آگیا تھا… وہ ہمیشہ اسے کچھ نہ کچھ دیتی تھی اس نے بے اختیار منک کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اس میں کوئی سکے نہیں تھے اس کے ہاتھ میں سیل فون آیا تھا اور چابی… اس نے سیل فون نکال کر اس بوڑھے کے سامنے کر دیا چابی اس کی مٹھی میں دبی رہی وہ گھر بناتے بناتے اسے حیرانی سے دیکھنے لگا زینی نے فون گرا دیا… اسے جانا تھا… دیر ہو رہی تھی… وہ آگے بڑھ گئی اس نے ایک بار پھر اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا تھا… دوسرا فقیر پاس آرہا تھا… کوٹ کی جیب میں صرف چابی تھی… لیکن اسے اسے کچھ دینا تھا… کیا؟… کیا؟… اسے اپنی کلائی پر باندھی گھڑی یادآئی اس نے گھڑی اتار لی… اسے اب ”وقت” کو گن کر کیا کرنا تھا۔ اس بار اس نے گھڑی نہیں بڑھائی… اسے گرا دیا۔
اور اگلا بھکاری… وہ… وہ اس کے لیے کیا ہے میرے پاس… کیا ہے؟… کچھ نہیں؟… منک کوٹ اس نے اسے اتارنا شروع کر دیا… سردی گرمی اب اس پر کیا اثر کرتی… اس نے کوٹ بھی اسی انداز میں اتار کر پھینک دیا… ہوا نے اس کے دوپٹے اور سلک کے کپڑوں کو بری طرح اڑانا شروع کر دیا… وہ چلتی رہی اب اسے اگلے فقیر کو کچھ دینا تھا… اس نے اس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے وجود پر ایک نظر ڈالی… پاؤں میں پہنے ہوئے سرخ جوتے … اس نے فقیر کے سامنے وہ جوتے اتار دیے فٹ پاتھ برف کی سل بنا ہوا تھا… وہ بھی برف کی سل تھی… اسے اب کون سی گندگی سے پیروں کوبچانا تھا… اور وہ بھکاری عورت… اس کے پاس اس کے لیے کیا بچا تھا… وہ اپنا لباس اتار کر اسے دے دیتی اگر اسے اپنے ہاتھ میں پہنی انگوٹھی نظر نہ آجاتی… اور صرف انگوٹھی نظر نہیں آئی تھی… اس پر کندہ لفظ بھی نظر آئے تھے Till death do us part (جب تک موت ہمیں جدا نہ کر دے) وہ انگوٹھی اتارتے اتارتے رک گئی… ”کوئی” اسے یاد آیا تھا… جیسے سب کچھ یاد آنے لگا تھا… اس کے حواس لوٹنے لگے تھے… اس کا جسم سردی سے کپکپانے لگا… پاؤں ٹھنڈے لگ رہے تھے… اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب آیا تھا… پھر اس نے سردی سے نیلے پڑتے ہاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتار کر اس عورت کے سامنے پھینک دی…
”کوئی غلط کام مت کرنا زینی۔” اس نے آواز سنی اسے کرنٹ لگا وہ اس کے باپ کی آواز تھی… اس نے پلٹ کر دیکھا… وہ فٹ پاتھ کے سرے پر کھڑے تھے… وہ ساکت ہو گئی تھی… وہ اتنے سال بعد پہلی بار انہیں سامنے دیکھ رہی تھی… وہ ان کی شکل دیکھنے کے لیے ترس گئی تھی… اس نے یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ وہ اتنے سال اس سے کیوں چھپ گئے تھے… ننگے پاؤں روتے ہوئے وہ بے اختیار باپ کی طرف بھاگی تھی… ضیاء نے چلنا شرع کر دیا تھا وہ کھڑے نہیں رہے تھے الٹے قدموں چل رہے تھے۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!