من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

نفیسہ کواپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ فون کان سے لگائے لگائے انہوں نے دوبارہ جیسے تصدیق کرنے والے انداز میں پوچھا۔
”تم شادی کر رہی ہو؟” وہ ایک بار پھر کھلکھلا کر ہنسی تھی… نفیسہ کا دل بے اختیار خوش ہوا انہوں نے اس کی بلائیں لی تھیں… ایسی ہنسی انہوں نے زینی کے منہ سے کب سنی تھی انہیں فوراً یاد نہیں آیا… مگر وہ بہت پہلے کی بات تھی۔
”جی امی شادی کر رہی ہوں۔” نفیسہ کا دل سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دھڑکنے لگا تھا۔ زینی انہیں کرم کے بارے میں بتا رہی تھی۔ نفیسہ اس کی آواز سنتے ہوئے جیسے خوشی سے بے قابو ہو رہی تھیں…کیسی زندگی تھی جو اس کی آواز سے جھلکنے لگی تھی… کیسی کھنک تھی جو اس کے لہجے میں آگئی تھی… کیا سرشاری تھی جو اس کی باتوں سے محسوس ہو رہی تھی… نفیسہ آنکھوں میں آنسو لیے بچوں کی طرح اس کے ساتھ کئی بار اسی کی طرح کھلکھلا کر ہنسی تھیں… خوشی سے بے یقینی سے… تشکر سے… وہ آخری آزمائش ختم ہونے والی تھی جس نے ان کو اتنے عرصے سے جیسے کانٹوں پر کھڑا رکھا تھا۔
”آپ کرم سے بات کریں۔” وہ اب ان کی بات کرم سے کروا رہی تھی… اور نفیسہ کی باتیں خوشی سے بے ربط ہونے لگی تھیں… انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے کیا کہیں… کرم خود ہی انہیں اپنے بارے میں بتاتا رہا… شادی کی تاریخ اور شادی کے پروگرام کی تفصیل… وہ ان کی آمد کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
تقریباً دو گھنٹے زینی اور کرم کے ساتھ باتیں کرتے رہنے کے بعد فون بند ہوا تھا اور فون بند کرتے ہی نفیسہ نے سلمان کو اس کے آفس فون کیا… وہ اس وقت خوشی سے کچھ ایسی ہی بے حال ہو رہی تھیں… سلمان زینی کی شادی کی خبر سن کر ان کی طرح بے اختیار نہیں ہوا تھا لیکن وہ خوش تھا یہ نفیسہ فون پر بھی محسوس کر سکتی تھیں۔
٭٭٭




”سلطان میں زینی ہوں۔” سلطان کا دل جیسے خوشی سے اچھلا تھا۔
”پری جی آپ… آپ کہاں ہیں؟” اسے لگا جیسے وہ پاکستان واپس آگئی ہے۔
”پری جی نہیں ہوں میں زینب ضیاء ہوں۔۔۔۔” زینی نے اسے ٹوکا اور ”پاکستان میں نہیں یہیں ہوں۔”
”اتنے عرصہ کے بعد آپ کو سلطان کی یاد آئی۔” سلطان نے گلہ کیا۔
وہ جواباً ہنسی سلطان کو عجیب سا احساس ہوا ۔
کچھ بدلا ہوا ہے پری جی میں اس نے سوچا۔
”ہاں دیر سے یاد آئی پر دیکھو آتو گئی۔۔۔۔” وہ ہنس رہی تھی۔
”سنا ہے سونیا کو سٹار بنا دیا ہے تم نے۔” وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
”جب آپ چلی گئیں تو شوبز کے آسمان کو روشن رکھنے کے لیے کچھ تو کرنا تھا۔۔۔۔” سلطان نے پھر شکوہ کیا۔
”میں ہر روز یاد کرتا ہوں آپ کو… ہر روز۔” سلطان کی آواز بھرا گئی وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ زینی کو اس پر پیار آیا۔
”اب رونا مت شروع کر دینا۔” اس نے اسے ڈانٹا۔
”اچھا سنو کینیڈا آؤ گے؟” زینی نے اگلے ہی جملے میں کہا۔
”کیوں؟” وہ چونکا۔
”کسی کی شادی ہو رہی ہے۔”
سلطان نے بے اختیار چیخ ماری۔
”آپ کی؟”
زینی بے اختیار ہنسی۔ وہ اب تقریباً چلاتے ہوئے سوال پر سوال کر رہا تھا۔
”کون ہے؟ کیسا ہے؟ کیا کرتا ہے؟۔۔۔۔”
”تم جانتے ہو اسے۔”
سلطان نے ایک اور چیخ ماری۔
”کرم علی؟” زینی ہنستی گئی۔ سلطان واقعی آفت تھا ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا تھا اس نے کرم کا نام بوجھنے میں۔
”میں نہیں آؤں گا تو اورکون آئے گا آپ کی شادی میں، میں نے ہی تو کہاتھا کرم علی سے شادی کرنے کو… اللہ میرا دل چاہ رہا ہے اڑ کر پہنچ جاؤں میں آپ کے پاس۔”
”ہاں تو آجاؤ کرم سے کہا ہے میں نے تمہارے ویزے اور ٹکٹ کے لیے… اسی لیے فون کر رہی ہوں تمہیں۔” زینی نے اس سے کہا۔
وہ اپنی فیملی کے علاوہ وہ واحد شخص تھا جسے وہ اپنی شادی میں بلا رہی تھی۔
شادی کے لیے ایک ماہ بعد کی ڈیٹ طے کی تھی دونوں نے اور آج کل دونوں اس کے انتظامات میں لگے ہوئے تھے۔ کئی سالوں کے بعد سلمان نے اور ربیعہ نے اسے فون کیا تھا… ساری باتیں آنسوؤں میں ہوئی تھیں… کسی نے کسی سے کوئی گلہ نہیں کیا تھا…… پلوں کے نیچے سے اب اتنا پانی بہہ گیا تھا کہ کوئی بھی پیچھے جانا نہیں چاہتا تھا… اور اتنے سالوں میں پہلی بار سلمان نے اپنی بیوی اور بیٹے سے بھی اس کی بات کروائی تھی… اتنے سالوں بعد وہ بالآخر فیملی کے ممبر کے طور پر تسلیم کر لی گئی تھی۔ سلمان نے شادی کے لباس اور زیورات کے لیے اس کے اکاؤنٹ میں ایک بڑی رقم ٹرانسفر کروائی تھی۔ نفیسہ دو ہفتے تک اس کے پاس کینیڈا آنے والی تھیں تاکہ شادی کے انتظامات دیکھ سکیں اور اس کے باقی بہن بھائی بھی اپنا اپنا پروگرام سیٹ کرنے میں مصروف تھے ۔ نفیسہ کے آنے سے پہلے وہ وقتی طور پر کرم کے ملکیتی ایک دوسرے گھر میں شفٹ ہونے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ تاکہ اس کی فیملی ممبرز بھی کینیڈا آنے پر اکٹھے اس کے ساتھ رہ سکیں۔
وہ حسین تھی لیکن جیسی چمک کرم نے ان چند دنوں میں اس کی آنکھوں اور چہرے پر دیکھی تھی ویسی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ہر گزرتے دن کے ساتھ زینی پر نظر ٹھہرانا مشکل ہوتا جا رہا تھا اس کے لیے وہ اور کرم سارا سارا دن شاپنگ مالز میں پھرتے رہتے تھے… وہ شادی سے پہلے گھر کو نئے سرے سے renovate کر رہے تھے اور وہ سارا دن پارے کی طرح گردش میں رہتی تھی… نان سٹاپ بولتی بچوں کی طرح کھلکھلاتی ہر دوسرے منٹ اسے کرم کو ایک نئی چیز کے بارے میں بتانا یاد آجاتا تھا اس نے زینی کے کئی روپ دیکھے مگر یہ روپ اس نے نہیں دیکھا تھا اور اگر باقی روپ بھلانا مشکل تھے تو یہ روپ نظر انداز کرنا بھی ناممکن تھا وہ تقریباً ہر روز ہی اس کی فیملی کے کسی نہ کسی فرد سے بات کر رہا تھا۔ اور وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ زینی کی خوشی کا تعلق صرف اس کے ساتھ شادی سے نہیں اس کا تعلق ان ٹوٹے ہوئے رشتوں کے دوبارہ جڑنے سے بھی تھا۔
کئی سالوں بعد وہ دونوں بالآخر ”ایک گھر” بنا رہے تھے… اس شخص کے ساتھ جن سے انہیں محبت تھی… کئی سالوں کے بعد وہ تنہائی ختم ہو رہی تھی جو اتنے سالوں سے ان دونوں کو بھنور کی طرح اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی۔ وہ ٹین ایجرز کی طرح آنے والی زندگی کی ایک ایک چیز کو پلان کر رہے تھے یہ جانے بغیر کہ زندگی ان کے لیے کچھ اور پلان کر رہی تھی۔
٭٭٭
کرم اسے دیکھ کر ہل نہیں سکا وہ بلڈ ریڈ کلر کے سلک کے شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور کمر سے کچھ اوپر اس کے سیاہ سیدھے بال اس وقت لٹوں کی صورت میں جھول رہے تھے شیفون کا سرخ دوپٹہ سینے پر پھیلائے اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے دروازہ کھولا کرم کو دیکھتے ہوئے مسکرائی اور پھر اسی طرح بھاگتے ہوئے واپس چلی گئی کرم نے اسے پہلی بار حقیقی زندگی میں سرخ لباس میں دیکھا تھا اور وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا۔ کسی سنگھار کسی جیولری کے بغیر بھی اس کی سفید رنگت اس سرخ لباس میں دمک رہی تھی۔
”میں نے تم سے کہا بھی تھا کچھ دیر سے آنا لیکن تم اتنی جلدی آگئے… ابھی میں تیار بھی نہیں ہوئی۔” دروازہ بند کر کے اندر جاتے ہوئے اس نے زینی کو کہتے سنا اور چند قدم آگے جا کر اس نے لاؤنج میں بکھرے سامان کو دیکھا تھا وہ سارے اسی کے دیے گئے تحائف اور ان کی پیکنگ تھی وہ پہلی بار زینی کے اپارٹمنٹ میں اتنی بے ترتیبی دیکھ رہا تھا زینی دوبارہ واش روم کے مرر کے سامنے کھڑی ہو کر اپنے بال dryerسے خشک کر نے لگی تھی۔
”یہ سب کچھ سمیٹنے کے لیے میری مدد کی ضرورت ہے؟” کرم نے لاؤنج کی بکھری ہوئی چیزوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں… نہیں… یہ میں آکر سمیٹوں گی۔” اسی نے وہیں سے کرم کو منع کیا۔ وہ لاؤنج میں بکھری چیزوں اور ان کی پیکنگ پر نظر ڈالنے لگا۔
”تم نے میرے دئیے ہوئے ان گفٹس کو پہلے استعمال کیوں نہیں کیا؟” اسے اندازہ ہو گیا تھا وہ Untouched تھیں۔
”نہیں ایسے ہی۔۔۔۔” زینی نے بات گول مول کی تھی۔
کرم نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تصویروں کا لفافہ کچن کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے اس میں سے زینی کی تصویریں نکال کر کچن کاؤنٹر پرپھیلا دیں۔ اس نے اپنے گھر کی ایک دیوار پر لگانے کے لیے زینی کے البم سے اس کی بچپن اور نو عمری کی کچھ تصویریں نکال کر انلارج کروائی تھیں اور سٹوڈیو جاتے ہوئے اچانک دونوں کا ارادہ اکٹھے اپنے پہلے فوٹو شوٹ کا بن گیا تھا۔ وہ تصویریں اب کچن کاؤنٹر پر بکھری ہوئی تھیں کرم مسکراتے ہوئے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی ہر تصویر پہلے سے زیادہ اچھی تھی۔
”تصویریں مل گئیں؟” وہ واش روم سے بال خشک کر کے نکلی تھی اور سیدھا بڑی ایکسائیٹڈ ہو کر تصویروں کی طرف آئی کرم نے فوراً تصویریں سمیٹ دیں۔
”زینی تم پہلے تیار ہو جاؤ… یہ تصویریں واپس آکر بھی دیکھ سکتے ہیں۔”
”ہاں لیکن میں۔۔۔۔” اس نے احتجاج کرنا چاہا پھر یک دم ارادہ ترک کرتے ہوئے سینٹر ٹیبل کی طرف چلی گئی۔ اور سینٹر ٹیبل پر پڑی سرخ کیوٹکس کی ایک شیشی اٹھا کر اپنے پاؤں کے ناخنوں پر بڑی احتیاط سے کیوٹکس لگانے لگی۔ سرخ نیل پالش اس کے بے حد دودھیا نازک پیروں پر بہت جچ رہی تھی۔ کرم صوفہ پر بیٹھا بڑی محویت سے اس کے پیروں کو دیکھتا رہا۔ وہ نیل پالش لگاتے ہوئے اس سے باتیں کر رہی تھی۔ اور کرم کی نظروں سے بے خبر تھی۔
”تمہارے پاؤں بہت خوبصورت ہیں۔” کرم نے کچھ دیر کے بعدبے اختیار کہا۔ وہ اسی طرح نیل پالش لگاتے لگاتے ہنسی۔
”صرف پاؤں؟” وہ اسے چھیڑ رہی تھی۔
کرم مسکرادیا۔
وہ اب ہاتھوں کے ناخنوں پر نیل پالش لگا رہی تھی۔
پتہ نہیں کیا بات تھی مگر آج وہ اسے ضرورت سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی کرم کا دل اس کے وجود سے نظریں ہٹانے کو نہیں چاہ رہا تھا… کون تھا جو زینی کو آج دیکھتا اور اس کے عشق میں گرفتار نہ ہو جاتا۔
اس کے سیل فون پر نفیسہ کی کال آرہی تھی۔ زینی نے چند منٹ ان سے مختصر بات کی انہیں کرم کے گھر جانے کے بارے میں بتایا اور پھر جلدی جلدی کال ختم کر دی۔ کرم اب جا کر کھڑکی میں کھڑا اس بیل کو دیکھنے لگا تھا بیل پر صرف چند زرد ہوتے ہوئے پتے رہ گئے تھے… چند دنوں میں وہ بھی چلے جاتے۔ کرم مسکرا دیا اب انہیں اس بیل کے بڑھتے ہوئے پتوں کی ضرورت نہیں تھی۔
زینی اب واش روم کے مرر کے سامنے اپنے ہونٹوں پر سرخ لپ اسٹک لگانے کے بعد وہ ایک بار پھر سٹنگ ایریا میں آگئی۔ صوفہ پر بیٹھ کر اس نے جوتے پہنے اور پھر اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
”اور کتنی دیر لگے گی زینی؟” کرم ہلکا سا جھنجلایا۔
”بس منک کوٹ پہننا ہے مجھے… اور سیل فون لینا ہے اور کچھ۔۔۔۔” وہ یاد کرنے لگی کرم نے منک کوٹ اٹھا کر اسے پہنانا شروع کر دیا۔ وہ منک کوٹ پہننے کے بعد پلٹ کر کرم کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
”میں کیسی لگ رہی ہو؟”
”ہمیشہ سے زیادہ خوبصورت۔”
زینی بے اختیار مسکرائی۔ سیل کوٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے اس نے کچن کے ایک دروازے سے کچھ سکے بھی کوٹ کی جیب میں ڈال لیے اور اپارٹمنٹ کے بیرونی دروازے کی چابی کو بھی۔
کرم تب تک دروازے کے پاس پہنچ چکا تھا۔
٭٭٭
”وہ جانتے ہیں کہ تم آج مجھے ان کے پاس لا رہے ہو؟” گاڑی میں بیٹھتے ہوئے زینی نے کرم سے پوچھا۔
”میں نے آج صبح بتایا ہے انہیں۔” وہ گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے بولا۔
”پہلے کیوں نہیں؟” وہ سنجیدہ ہو گئی۔
”بس ایسے ہی۔” کرم نے کہا۔
”پتہ تو چل گیا ہو گا انہیں اب تک۔ آصف وغیرہ میری سرگرمیوں سے اتنا بے خبر نہیں رہتے۔” کرم مسکرایا۔
”اور یہاں تو میری pA میری شادی کے انتظامات کر رہی ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آفس میں گردش کرنے والی یہ خبر ان تک نہ پہنچ چکی ہو۔”
”میں نے سوچا شاید تم ان کے انوائیٹ کرنے پر مجھے ان کے پاس لے جا رہے ہو۔” زینی نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ وہ کچھ بجھ گئی تھی۔ وہ کرم کی ماں اور بھائی سے ایک بار سامنا کر چکی تھی اور ان کا رویہ کتنا سرد ہو سکتا تھا اسے اندازہ تھا۔
”جب شادی ہو جائے گی تو انوائیٹ بھی کرنے لگیں گے تمہیں Don’t worry… ویسے بھی ہم تو انہیں شادی پر انوائیٹ کرنے کے لیے جا رہے ہیں۔”
زینی خاموش ہو گئی۔ اس کے ذہن میں اس وقت کسی قسم کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ وہ کرم کے ساتھ جا رہی تھی اور وہ اسے پسند کرتے نہ کرتے شادی ان دنوں کی ہو جانی تھی۔
کرم کا اندازہ غلط نہیں تھا اس کے گھر والوں کو اس کی اس متوقع شادی کے بارے میں دو دن پہلے پتہ چل چکا تھا۔ اور اس کی فیملی میں افراتفری مچ گئی تھی۔ ایک وہ شادی کر رہا تھا دوسرا جس سے کر رہا تھا وہ ایکٹریس تھی… اور وہ بھی وہ جس کے قصے ہر ایک کی زبان پر تھے… اور تیسرا کرم آج تک اس کے ساتھ ایسے کسی تعلق کو جھٹلاتا رہا تھا… پھر اب وہ یک دم کیسے ان سب کو بتانے کی زحمت کیے بغیر شادی کی تیاریاں کرنا شروع ہوگیا تھا… ان کے نزدیک یہ سب کچھ راز میں رکھنا کرم کا گناہ عظیم تھا۔ اور اب اس نے کتنے معمول کے انداز میں ماں کو فون کر کے بتایا تھا کہ وہ زینی کے ساتھ ان کے پاس آرہا تھا۔ انہیں اپنی شادی کے لیے انوائیٹ کرنے… کرم کو حیرت ہوئی تھی جب ہمیشہ کی طرح اس کی ماں نے اسے کسی طرح کی ناراضگی کا اظہار کیے بغیر اسے کہا تھا کہ وہ پہلے زینی کے بغیر ان کے پاس آئے۔ کرم رضا مند نہیں ہوا اسے اندازہ تھا کہ اکیلے بلائے جانے کا کیا مطلب تھا… وہ اس کے انکار پر جزبز ہوئی تھیں لیکن کرم نے مصروفیت کا بہانہ کیا تھا… وہ شادی سے پہلے اکیلا ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا اور اگر اسے اندازہ ہو جاتا کہ اسکی یہ حکمت عملی اس کے لیے کتنی قاتل ثابت ہونے والی تھی تو کرم یقینا زینی کو وہاں ساتھ لے جانے سے پہلے ایک بار زینی سے شادی کے ایشو پر ماں اور بہن بھائیوں سے بات ضرور کر لیتا۔
وہ کرم کے ساتھ گاڑی سے اترتے وقت بے حد نروس ہو رہی تھی ان دونوں کو اندازہ نہیں تھا کہ انہیں گھر کے شیشوں سے بیل دینے سے پہلے ہی دیکھا جا چکا تھا۔
بیل بجانے پر دروازہ آصف نے کھولا تھا۔ اس کے چہرے پر کوئی خیر مقدمی تاثرات نہیں تھے۔ ایک سرسری نظر زینی پر ڈال کر سلام دعا کے تبادلے کے بعد وہ دروازے سے ہٹ گیا تھا۔ کرم کو برا لگا اس نے اسے رسماً بھی زینی سے متعارف کروانے کا موقع نہیں دیا۔
”امی لاؤنج میں ہیں۔” آصف نے دروازہ بند کرتے ہوئے کرم کو مطلع کیا۔ کرم جانتا تھا لاؤنج میں صرف امی نہیں تھی باہر ڈرائیووے اور سڑک پر کھڑی گاڑیوں کو دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اوٹوا میں موجود اس کے تمام بہن بھائی اس وقت آصف کے گھر موجود تھے۔
وہ کرم کے پیچھے چلتی ہوئی لاؤنج میں داخل ہوئی اور کرم کے پہلے سے بتا دینے کے باوجود بری طرح کنفیوز ہوئی وہاں مختلف صوفوں پر کرم کے بہن بھائی، بھابھیاں اور بہنوئی بھی اس کی ماں کے ساتھ موجود تھے سامنے کھڑکی کے شیشوں سے گھر کے عقبی حصے میں کھیلنے والے فیملی کے بچے بھی نظر آرہے تھے۔
کرم کے سلام کا جواب دیا گیا تھا زینی نے اپنے سلام کرنے پر کسی کو منہ کھولتے نہیں دیکھا۔ ان سب کی نظریں اس وقت ان پر گڑی ہوئی تھیں اور ان کے چہرے بالکل سرد اور بے تاثر تھے۔ ٹانگوں پر ٹانگیں رکھ کر بیٹھے ہوئے ان تمام افراد میں سے کسی نے بھی زینی یا کرم کے استقبال کے لیے اٹھنے کی کوشش نہیں کی تھی… وہ ”میدان جنگ” میں آیا تھا اپنے خونی رشتوں کے پاس ان میں سے کسی کے گھر نہیں آیا تھا یہ کرم کو احساس ہو گیا تھا۔ وہ سب وہاں ایک آخری کوشش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ وہ زینی سے شادی کر لیتا تو ان میں سے ہر ایک کی سلطنت کا سورج غروب ہو جاتا۔
”بھائی جان۔” اس عمر میں اتنے ”خود غرض” کیسے ہو گئے تھے؟… ایک عورت نے ان کی آنکھوں پر محبت کی پٹی کیسے باندھ دی تھی؟… وہ اپنے اتنے ”مخلص جان چھڑکنے” والے بہن بھائیوں کو let down کیسے کر سکتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک برہم تھا ہر ایک مشتعل تھا… وہ وہاں ون پوائنٹ ایجنڈا کے ساتھ آئے تھے۔ کرم کی زندگی سے زینی کو ہٹانا۔
”یہ زینب ضیاء ہیں اور اور زینب یہ میری امی اور فیملی۔” کرم نے بالآخر برف توڑنے کی کوشش کی۔
زینی کی سمجھ میں نہیں آیا وہ جواباً کیا کہے۔ زندگی میں آج تک کسی نے اس کے تعارف کے اور اس طرح کا ٹھنڈا ری ایکشن نہیں دکھایا تھا۔ ان میں سے کسی نے کرم یا زینی کو بیٹھنے کے لیے نہیں کہا ۔ وہاں صرف ایک سنگل خالی صوفہ تھا اور وہ یقینا زینی کے لیے نہیں تھا۔ کرم کو توہین کا احساس ہونے لگا تھا… انہیں رسماً ہی سہی لیکن زینی کو بیٹھنے کو کہنا چاہیے تھا… کم از کم اس کی ماں کو… جو ایک تسبیح پر کچھ پڑھنے میں مصروف تھیں انہوں نے دو دن پہلے ہی اس شادی کی اطلاع ملنے پر اس رشتہ کو ختم کروانے کے لیے ایک نیا وظیفہ شروع کیا تھا۔
”آپ پلیزبیٹھ جائیں۔” کرم نے ڈھیٹ بن کر زینی سے کہا۔ وہ کمرے کا اکلوتا خالی صوفہ اسے آفر کر رہا تھا۔ وہ اس صوفے پر جا کر بیٹھنے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی اس صوفے کے دائیں بائیں دو صوفوں پر کرم کے بھائی اور بہنوئی بیٹھے ہوئے تھے۔
”نہیں میں یہیں ٹھیک ہوں۔” زینی نے مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ لاؤنج کے دروازے کے بالکل سامنے کھڑی تھی۔ کرم نے اس سے اصرار نہیں کیا لیکن وہ خود بھی اس صوفہ پر جا کر نہیں بیٹھا۔
”میں زینب سے شادی کر رہا ہوں… اور آپ لوگوں کو انوائیٹ کرنے آیا ہوں۔” کرم نے اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے کہا۔ اس کا دل تو اس وقت یہ چاہ رہا تھا کہ وہ ان لوگوں سے بات کیے بغیر زینی کو لے کر وہاں سے پلٹ جائے۔
”زینب سے یا پری زاد سے؟” گفتگو بالآخر شروع ہو گئی تھی۔ اور ہمیشہ کی طرح آغاز اس کی ماں نے کیا تھا۔
زینی کو اپنے ماتھے پر پسینہ آتا محسوس ہوا۔ عدالت لگ گئی تھی۔ مگر اسے یقین تھا اس کے وکیل کی موجودگی میں اسے منہ کھولنے تک کی ضرورت نہیں تھی ایسا ہی اندھا اعتماد تھا اسے ”اپنے وکیل پر”۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!