من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

”تم اس ایکٹریس سے کیوں ملتے ہو؟”
”وہ دوست ہے میری۔”
”اس سے پہلے تو کبھی عورتوں کو دوست نہیں بنایا تم نے پھر اب کیا ضرورت آن پڑی؟”
”آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟” وہ تنگ آگیا تھا… پچھلے دو گھنٹوں سے وہ ویک اینڈ پر اپنے ہاں آئی ہوئی ماں کو زینی کے بارے میں کی جانے والی تفتیش کا جواب دے رہا تھا۔
”بڑا پچھتاؤ گے تم کرم… زری سے زیادہ بڑا دھوکہ کھاؤ گے اس بار۔” اس کی ماں نے اسے خبردار کیا وہ جیسے اس کے پورے خاندان کے خیالات کو اس تک پہنچا رہی تھی۔
”میں نے آپ سے کہا ہے… وہ دوست ہے میری اور بس۔۔۔۔” کرم نے کہا۔
”دوست سے کوئی روز روز ملتا ہے؟”
”آپ سے کس نے کہا کہ میں روز ملتا ہوں اس سے۔” وہ سنجیدہ ہو گیا۔
”آصف نے بتایا مجھے… تمہارے دفتر کے سب لوگوں کو پتہ ہے۔”
”آپ آصف سے کہیں کہ وہ اپنا کام کرے… میں کہاں جاتا ہوں یا کہاں نہیں جاتا اس کے بارے میں ریکارڈ رکھنا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔” کرم کچھ ناراض ہو گیا۔
”آصف کو میں نے کہا ہے… میں پوچھتی رہتی ہوں اس سے… اس لیے بتاتا ہے وہ۔۔۔۔” کرم کی ماں نے فوراً آصف کا دفاع کیا۔
”اتنے جان دینے والے بہن بھائی ہیں اور تم ان کو چھوڑ کر ان غیر عورتوں کے پیچھے خوار ہو رہے ہو… اپنے بہن بھائیوں کے بچوں کو اپنے بچے سمجھو… ہم سب ہیں تمہارا اپنا خون… شادی کر لی اس کا نتیجہ بھی دیکھ لیا… بس تمہاری قسمت ہی خراب نکلی ورنہ ہم نے تو اپنی طرف سے بڑی اچھی جگہ رشتہ کیا تھا تمہارا… لیکن بیٹا اب تمہاری قسمت میں اچھی بیوی نہیں تھی… تو کوئی کیا کرے پھر ایسی ویسی لڑکی سے شادی کرو گے تو پھر یہی کچھ ہو گا… آج کل کی لڑکیاں ایسی ہی لالچی اور مطلب پرست ہیں… پھر اب تمہاری عمر بھی زیادہ ہو گئی ہے… ورنہ میں تو پہلی شادی کے ختم ہوتے ہی تمہاری دوسری شادی کروا دیتی… ان چکروں سے نکل آؤ اب… تمہارے بہن بھائی کہہ رہے ہیں کہ تم ان میں سے جن کا بچہ لینا چاہو وہ دے دیتے ہیں… میں بھی مستقل یہاں آجاتی ہوں تمہارے پاس… اپنے بہن بھائی کی کسی اولاد کو گود لو گے تو بڑھاپے میں سہارا بنے گی تمہارا… اپنا خون تو اپنا ہی ہوتا ہے… تمہارے بہن بھائی تو اپنی اولاد کو لکھ کر تمہیں دینے کو تیار ہیں… کہتے ہیں… بھائی جان نے اتنا کچھ کیا ہے ہمارے لیے … انہیں تو انکار کر ہی نہیں سکتے ہم۔” وہ چپ چاپ بیٹھا ماں کا چہرہ دیکھتا ان سب باتوں کو سنتا رہا… ان میں سے کتنی باتیں ہمدردی سے کہی گئی تھیں اور کتنی باتوں کے پیچھے کوئی او رمقصد تھا… وہ بے وقوف سے بے وقوف شخص بھی سن کر جان لیتا اور کرم بہر حال بے وقوف نہیں تھا… ماں سادہ تھی… وہ اپنی طرف سے کرم کی بھلائی سوچ رہی تھی… اور واقعی دل سے سمجھتی تھی کہ اس کے بہن بھائی ایسا ہی چاہتے تھے… وہ ماں کا یہ زعم اور خوش فہمی ختم نہیں کرنا چاہتا تھا وہ ان کی باتوں میں جھلکتا کھوٹ انہیں دکھانا نہیں چاہتا تھا۔




”میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں ہے… اور نہ ہی کسی کی اولاد کو میں کسی سے الگ کرنا چاہتا ہوں… میں جانتا ہوں میری قسمت خراب ہے… اس لیے میری شادی نہیں نبھ سکی… گھر کا سکون واقعی میری قسمت میں نہیں… آپ پریشان نہ ہوں… میں دوبارہ شادی جیسی حماقت نہیں کروں گا۔” اس نے ماں کو تسلی دینے کی کوشش کی۔
”نہیں قسمت تو خراب نہیں ہے تمہاری… اللہ نے کتنا پیسہ دیا ہے تمہیں” ماں نے فوراً جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”اتنی دولت کہاں ہے کسی دوسرے کے پاس… اللہ نے ہر بہن بھائی سے بڑھ کر نوازا ہے تمہیں۔”
اس کا دل چاہا وہ ان سے کہے وہ اس کی زندگی کو اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ بدل دیں… اس کا پیسہ انہیں دے دیں اور ان کی زندگی اسے دے دیں۔
بے حد بوجھل دل کے ساتھ وہ اپنی ماں کے پاس سے اٹھ کر آیا تھا۔ بات چیت کے لیے ان کے پاس واحد موضوع اس کی دولت ہی ہوتی تھی اور بعض دفعہ تو کرم کو لگتا اس دولت کا ذکر سنتے سنتے اس کا نروس بریک ڈاؤن ہو جائے گا۔
اپنے بیڈ روم میں آکر وہ بہت دیر تک اسی طرح بیٹھا رہا… اپنی ماں کی زینی کے بارے میں کہی جانے والی باتیں بار بار اس کے ذہن میں گونجتی رہیں۔
٭٭٭
زینی نے بستر سے اٹھتے ہوئے گھڑی دیکھی پھرسیل فون اٹھا کر اسے دیکھا… حیرت کا ایک جھٹکا لگا تھا اسے… اس میں کرم کا کوئی message نہیں تھا… کئی مہینوں میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ صبح سو کر اٹھنے پر اسے کرم کا message نہ ملا ہو… وہ آدھ گھنٹہ جس میں وہ کام پر جانے کے لیے تیار ہوتی تھی اس کے لیے مزید تشویش کا باعث بنے تھے کیونکہ اس پورے وقت میں کرم کی کوئی کال کوئی SMS اسے نہیں ملا تھا… گھر سے نکلتے ہوئے اس نے بالآخر کرم کو message کیا۔ بس سٹاپ تک جاتے جاتے بھی کوئی جواب نہیں آیا… اس نے بس پر بیٹھ کر کرم کو قدرے تشویش کے عالم میں کال کی… اس کا سیل فون بند تھا… اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں تھا۔ پورا دن وہ وقفے وقفے سے کرم کو کال اور messageکرتی رہی اس کا سیل فون اسی طرح آف ملا اسے… واپس گھر آنے تک وہ بے حد پریشان ہو چکی تھی… ایک پورا دن اس سے رابطہ نہیں ہوا تھا… یہ کیسے ممکن تھا کہ کرم اسے کسی وجہ سے اگنور کرتا… وہ ناراض بھی ہوتا تب بھی اس کے message اور کالز کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
رات کے وقت اس نے بالآخر کرم کے گھر فون کیا… یہ کرم کے بیڈ روم کا نمبر تھا اگر وہ وہاں تھا تو اسے کال ریسیو کرنی چاہیے تھی… کال ریسیو نہیں کی گئی وہاں آنسر فون لگا ہوا تھا… زینی نے اس کے لیے message چھوڑ کر فون بند کر دیا۔
صبح اٹھ کر اس نے ایک بار پھر اپنا فون چیک کیا اور اس بار وہ فرسٹریٹ ہوئی تھی… کرم کا کوئی message اس بار بھی نہیں تھا۔ اس پورے ہفتے میں کرم کو ہر روز صرف اپنے آفس ہی جانا تھا… گھر یا آفس… پھر وہ کہاں غائب ہو گیا تھا۔
زینی نے دس بجے کے قریب اس کے آفس کی سیکرٹری کو فون کیا۔
”وہ دو ہفتے کے لیے کہیں گئے ہیں۔” وہ اس کی سیکرٹری کے جواب پر ہکا بکا رہ گئی تھی۔اس کی سیکرٹری اس سے واقف تھی
”کہاں؟”
”یہ تو نہیں بتایا… بس کل صبح انہوں نے کال کر کے مجھے بتایا کہ دو ہفتے کے لیے وہ شہر سے باہر جا رہے ہیں میں ان کی ساری میٹنگز کینسل کر دوں۔”
”کس شہر میں گئے ہیں؟”
”یہ بھی نہیں پتہ۔”
”کوئی فون نمبر؟”
”نہیں… وہ کہہ کر گئے تھے کہ وہ اپنا سیل فون آف کر کے جائیں گے… وہ دو ہفتے تک وہ کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں چاہتے۔” سیکرٹری نے اسے تفصیل سے بتایا تھا۔
زینی کو یقین نہیں آ رہا تھا یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اسے بتائے بغیر کہیں چلا جاتا… رابطہ رکھنا تو ایک طرف وہ اطلاع دینا تک گوارا نہ کرتا۔
”اس کی طبیعت توٹھیک تھی؟” اسے عجیب سی تشویش ہوئی۔
”ہاں وہ بالکل ٹھیک ہے اب آخری چیک اپ کی رپورٹس ٹھیک آئی تھیں۔” سیکرٹری نے اسے اطلاع دی۔
زینی نے فون بند کر دیا۔ کرم کا یہ رویہ اس کی سمجھ سے باہر تھا… دو ہفتے کے لیے یوں بغیر اطلاع دیے کہیں جانے کی کیا تک بنتی تھی… اورآخر وہ جا کیسے سکتا تھا… اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
وہ دو ہفتے اس نے بے حد پریشانی میں گزارے تھے کوئی ایک دن ایسا نہیں تھا جب اس کو کرم کا خیال نہ آتا رہا ہو۔ دو ہفتے ختم ہوتے ہی اس نے کرم کے فون پر کال کی تھی یہ سوچتے ہوئے کہ وہ واپس آچکا ہو گا… سیل فون ہنوز آف تھا… زینی نے اس کی سیکرٹری کو فون کیا۔
”وہ تو دو تین دن بعد ہی واپس آگئے تھے۔ آپ کا ان سے رابطہ نہیں ہوا کیا؟ ابھی ایک میٹنگ میں ہیں جیسے ہی میٹنگ ختم ہوتی ہے میں آپ سے بات کرواتی ہوں ان کی۔”
زینی نے کچھ کہے بغیر فون رکھ دیا… وہ جیسے فریز ہو گئی تھی… وہ واپس آگیا تھا اور اس نے اتنے دنوں میں اس سے ایک بار بھی رابطہ کی کوشش نہیں کی وہ اسے اگنور کر رہا تھا اس سے رابطہ ختم کرنا چاہتا تھا… اور زینی کو یہ سمجھنے کے لیے کسی عقل داڑھ کی ضرورت نہیں تھی۔ اس کے اس رویے سے اسے بے حد ہتک کا احساس ہوا تھا۔ وہ خود اس کی طرف آیا تھا اور اب خود ہی پیچھے ہٹ گیا تھا… پہلے کی وجہ وہ جانتی تھی لیکن دوسرے کی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔
سیکرٹری کے کہنے کے باوجود کرم کا اس دن اسے کوئی فون نہیں آیا۔ چند دن وہ بری طرح اپ سیٹ رہی… وہ صرف دوست تھا تو پھر اس طرح… اس کے اعصاب پر کیوں سوار ہو گیا تھا… وہ بار بار اس کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتی… بار بار ناکام رہتی۔ اس کے وجود پر چھائی جو خاموشی کرم نے توڑی تھی وہ پھر واپس آگئی تھی… کرم سے اس طرح کٹ کر رہنا بے حد مشکل تھا۔ زینی نے اعتراف کیا تھا… لاکھ کوشش کے باوجود ہزار مزاحمت کے باوجود وہ اس کی کمپنی کی عادی ہو چکی تھی… کہیں نہ کہیں اس کے اندر زینی کو وہ ساتھی نظر آیا تھا جیسا ساتھی وہ کبھی شیراز کو سمجھتی تھی… کہیں نہ کہیں کچھ تھا کرم میں جو اس کے دل کو اس کی طرف کھینچتا تھا… وہ اس کو محبت ماننے پر تیار نہیں تھی پر وہ اسے دوستی کی حدود کے اندر رکھنے میں بھی ناکام ہو رہی تھی۔
وہ ویک اینڈ پر اکثر اس پارک میں جاتے تھے۔ اس ویک اینڈ پر بھی وہ وہاں چلی گئی تھی۔ پارک کی جھیل کے قریبی بینچ پر بیٹھ کر وہ اکثر اس جھیل کو دیکھا کرتے تھے… بے مقصد باتیں کرتے ہوئے… کئی بار وہ اپنا لنچ بھی وہیں کیا کرتے تھے… بینچ خالی تھا… وہ اس کے ایک سرے پر آکر بیٹھ گئی… دوسرے سرے پر کرم بیٹھتا تھا… بیچ کا فاصلہ جیسے ان کی زندگی کا فاصلہ ہوتا تھا… وہ جھیل کے پانی کو چپ چاپ بیٹھی دیکھتی رہی جس پر کبھی کبھار کوئی پرندہ نیچی پرواز کرتے ہوئے گزرتا دور تک جاتا پھر اونچی پرواز کرتے ہوئے فضا میں غائب ہو جاتا… بینچ کے دوسرے سرے پر کوئی آکر بیٹھا تھا… زینی نے گردن موڑ کر دیکھا وہ کرم تھا… چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد زینی نے دوبارہ جھیل کو دیکھنا شروع کر دیا… پانی اب صرف جھیل میں نہیں تھا… اس کی آنکھوں میں بھی تھا… بہت دیر تک وہ اجنبیوں کی طرح بالکل چپ چاپ بیٹھے جھیل کو دیکھتے رہے۔ پھر کرم نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔ وہ ابھی بھی گردن سیدھی کیے ہوئے ایک ٹک جھیل کو دیکھ رہی تھی… اتنے ہفتوں کے بعد اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اسے عجیب سی تکلیف ہوئی… تکلیف یا شرمندگی وہ فوری طور پر بوجھ نہیں سکا… چند لمحے لفظ ڈھونڈتے رہنے کے بعد اس نے کہا۔
”کیسی ہو؟”
وہ خاموش بیٹھی جھیل کو دیکھتی رہی۔ ہوا اس کے شانوں پر بکھرے بالوں کو آہستہ آہستہ اڑا رہی تھی… اس کاچہرہ چند لمحوں کے لیے جیسے کرم کی نظروں سے اوجھل ہوا… کرم کا دل چاہا وہ اس کے چہرے کو چھپاتے بالوں کی ان لٹوں کو ہاتھ سے ہٹا دے۔
”ناراض ہو؟”
خاموشی… کرم نے سر جھکا لیا۔ اس کے انداز میں شکست خوردگی تھی۔ چند لمحے اسی طرح بیٹھے رہنے کے بعد اس نے ایک بار پھر گردن موڑ کر زینی کو دیکھا۔ وہ گلے میں لپٹے سکارف کو نکال کر بالوں کو سمیٹ رہی تھی۔ اس کا چہرہ پھر نظر آنے لگا تھا اور چہرہ نظر آنے کے ساتھ کرم نے اس کے گالوں پر پھسلتے آنسو بھی دیکھ لیے تھے۔ گود میں پڑے کوٹ کو اٹھاتے ہوئے وہ کرم کی طرف دیکھے بغیر بینچ سے اٹھنے والی تھی جب کرم نے بہت آہستگی کے ساتھ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔
”زینی۔” اس نے اسی نرمی کے ساتھ اپنے ہاتھ پر دھرا کرم کا ہاتھ ہٹا دیا۔
”میں کھلونا نہیں ہوں کرم جس کو تم اپنی تفریح اور ضرورت کے مطابق جب چاہو استعمال کرو… جب جی چاہے اٹھا کر پھینک دو۔” اس نے اپنے گالوں سے آنسو صاف کرتے کرتے کرم سے کہا۔ پہلی بار دونوں کی نظریں ملی تھیں۔
”I am sorry” اس نے کرم کی بات کاٹ دی۔
”میں جانتی ہوں تمہارے دل میں میری کوئی عزت نہیں ہے۔
کیونکہ میں ایک بری لڑکی ہوں… میری زبان سے اپنے لیے کچھ عزت اوراحترام کا مطالبہ شاید تمہیں مذاق لگے۔” کرم نے اس کی بات کاٹنا چاہی لیکن وہ خاموش نہیں ہوئی۔
”عورت کی تم عزت نہیں کرتے یہ میں جانتی ہوں… اور میرے جیسی بری عورت کی تو کبھی بھی نہیں… لیکن انسان کے طور پر تو میں تھوڑی عزت کی مستحق ہوں یا نہیں۔”
وہ بول نہیں سکا۔
”مجھ سے جان چھڑانے کے لیے تمہیں مجھ سے چھپنے کی ضرورت نہیں ہے… جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں ہے… بس ایک دفعہ کہہ دیتے میں تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہتا… میں تمہیں کبھی شکل نہ دکھاتی… ایک messageکر دیتے کہ میں تمہیں messageیا کال نہ کروں… کرم میں تمہیں کبھی… کبھی دوبارہ messageیا کال نہ کرتی… لیکن یوں چھپنے کی کیا ضرورت ہے تمہیں؟… اور اب ایک بار پھر تمہیں اپنا کتھارسس کرنے کے لیے کوئی سننے والا چاہیے تو تم پھرمیرے پاس آگئے ہو… اپنی تنہائی اور محرومیوں کی داستان سنانے۔ یہ بتانے کہ تم کس طرح اپنی دولت کے ساتھ تنہا جی رہے ہو۔”




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!