من و سلویٰ — قسط نمبر ۱۰ (آخری قسط)

”فلم انڈسٹری کیوں چھوڑ دی؟” کرم نے کئی مہینوں کے بعد اس سے وہ سوال کیا تھا جو اسے پہلے دن سے پریشان کر رہا تھا… اور اس بار اسے خاموشی نہیں ملی تھی… جواب ملا تھا… مبہم سہی مگر جواب تھا۔
”بس چھوڑ دی… زندگی میں جو مقصد تھا وہ ختم ہو گیا اور جب وہ ختم ہوا تو پتہ چلا کہ وہ تو کوئی مقصد ہی نہیں تھا۔” وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی… کیا کیا تھا جو یاد نہیں آگیا تھا۔ کرم بہت غور سے اس کا چہرہ دیکھتا رہا… میک اپ سے مبرّا اس چہرے کو پڑھنا بڑا آسان تھا… رنج، دکھ، خوشی، تکلیف سب کچھ دیوار پر لکھی ہوئی تحریر کی طرح ہوا تھا۔
”کیا مقصد تھا؟” اس نے پوچھا وہ بہت دیر سرجھکائے اسی طرح دونوں ہتھیلیوں کو دیکھتی رہی۔
”بتانا نہیں چاہتی؟” کرم نے بالآخر کہا۔
”بتا نہیں سکتی۔” اس نے بالآخر سر اٹھایا۔
کرم کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
”شیراز کون تھا؟”
زینی کو کرنٹ لگا۔ کرم اسے کیسے جانتا تھا۔
”تمہارا آخری سکینڈل اسی کے ساتھ بنا تھا نا… نیوز پیپرز میں تمہارے بیان آتے رہے کہ وہ کبھی تمہارا منگیتر تھا… اور شاید کزن بھی؟… کون تھا وہ؟”
”ایک فریب اور دھوکہ جو میں کئی سال اپنے آپ کو دیتی رہی۔” وہ صوفے سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس چلی گئی۔ 23منزل کی اس کھڑکی سے کبھی کبھار کچھ نظر ”نہیں” آتا تھا… اور وہ اسی لیے وہاں آکر کھڑی ہو جاتی تھی۔ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے وہ مدھم آواز میں کرم کو سب کچھ بتاتی گئی… سب کچھ… زینب سے پری زاد بننے تک کی کہانی… کرم بڑی خاموشی سے کوئی مداخلت کیے بغیر سنتا رہا تھا۔ کوئی جیسے اس کے سامنے اس کی کہانی کہہ رہا تھا۔
”تم بہت عجیب ہو زینی۔” اس نے سب کچھ سننے کے بعد کہا۔
زینی نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
”عجیب نہ ہوتی تو اس حال کو پہنچتی میں؟”
کرم کو اس پر بے تحاشا ترس آیا۔
”تم نے خود پر بڑا ظلم کیا۔” وہ اٹھ کر اس کے پاس کھڑکی میں آگیا وہ ایک بار پھر باہر دیکھ رہی تھی۔
”پتہ نہیں اپنے آپ پر زیادہ ظلم کیا یااپنے باپ پر… یااپنے گھر والوں پر۔۔۔۔” اس نے اتنے مہینوں میں پہلی بار اس کی آنکھیں بھیگتے دیکھی تھیں۔
”میری ضد ان سب کی زندگیوں کو کھا گئی… غربت تھی… کچھ بھی نہیں تھا… پر بڑا سکون تھا ہمارے گھر میں… بڑی برکت تھی ہمارے رزق میں۔۔۔۔” وہ کھڑکی سے باہر جیسے کسی خلا میں دیکھ رہی تھی۔ماضی کبھی کبھار خلا بن جاتا ہے۔
”ہم سب بڑے خوش تھے اپنے گھر میں… اپنی زندگیوں میں… ساری دنیا میں پھری ہوں میں… مہنگے سے مہنگا کھانا کھایا ہے میں نے… لیکن اپنے باپ کے گھر سوکھی روٹی اور پیاز کے لقمے کا ذائقہ نہیں بھول سکی میں… ویسا کھانا کہیں نہیں کھایا میں نے اس لقمے کی یاد ہر کھانے کو بے مزہ کر دیتی ہے میرے لیے۔” اس کی آنکھوں میں پانی تھا کہ امڈتا ہی آرہا تھا۔




”مہنگے سے مہنگا لباس پہنا میں نے لیکن جو خوشی اپنے باپ کے لائے ہوئے چند سو کے معمولی سے جوڑے کو پہن کر ملتی تھی ویسی خوشی دوبارہ نہیں ملی… اپنے باپ کے دو کمرے کے گھر جیسی عزت اور تحفظ کسی کے ”محل” میں نہیں ملا مجھے… ہر گاڑی میں بیٹھی ہوں میں لیکن اپنے باپ کی سائیکل کو نہیں بھول سکی میں۔۔۔۔” وہ آنسو نہیں تھے وہ نہ ختم ہونے والا پچھتاوا تھا۔ جس کے ساتھ وہ جی رہی تھی۔
”لوگ کہتے ہیں نا اولاد آزمائش ہوتی ہے… میں اپنے باپ کی آزمائش تھی… بہت بڑی آزمائش… شیراز نے ہمارے گھر کو نہیں تو ڑا… یہ میں تھی جس نے سب کچھ برباد کیا… میں یوں ضد میں پاگل نہ ہوتی تو… پتہ نہیں کیا ہوا تھا مجھے… پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا مجھے… بس صبر نہیں ہوا مجھ سے… صبر کبھی بھی نہیں کر سکی میں۔۔۔۔” آنسو اب اس کے گالوں پر پانی کے دھاروں کی طرح بہہ رہے تھے۔
”عبادت بڑی کی میں نے… نماز، روزہ، صدقہ، خیرات سب… شکر بھی بہت کیا میں نے… پر صبر کرنا مجھے کبھی نہیں آیا… میرا باپ بہت بار کہتا تھا مجھ سے… آسائش میں شکر کرنا چاہیے آزمائش میں صبر کرنا چاہیے۔میں سوچتی رہتی تھی اتنی آزمائشیں توپہلے ہی ہیں… زہرہ آپا کے مسئلے، غربت… صبر تو پہلے ہی کر رہے تھے ہم سب… پر وہ میری آزمائش نہیں تھی… وہ زہرہ آپا کی آزمائش تھی… ابو کی آزمائش تھی… میری آزمائش تو وہی ایک آئی تھی جس پر میں صبر نہیں کر سکی۔”
اس نے سر جھکایا ہوا تھا… شکست خوردہ انداز میں… آنکھوں سے بہنے والا پانی اب اس کی ٹھوڑی سے ٹپک رہا تھا۔
”ابو کی بات سننی چاہیے تھی مجھے… ماننی چاہیے تھی۔” اس کی آواز میں پچھتاوے سے زیادہ اذیت تھی… اذیت سے زیادہ پچھتاوا تھا۔
”جانتے ہو ڈیفنس میں میرے پراپرٹی ڈیلر کے ذریعے میرا گھر کس نے خریدا ہے؟… ابو کے اسی دوست کے بیٹے نے جو ابو کے ڈیپارٹمنٹ میں کلرک تھا اور ابو جس کے ساتھ میری شادی کرناچاہتے تھے… اس نے انہی دنوں نوکری چھوڑ کر کوئی کاروبار کر لیا تھا… بہت پیسہ ہے اب اس کے پاس بھی… انہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ میرا گھر خرید رہے ہیں… پتہ چلا تووہ لوگ ملنے آئے… میرے ابو کی بہت عزت کرتے ہیں… وہ لوگ… آج بھی… میں ان کے گھر کی بہو ہوتی تو وہ مجھے بھی اتنی ہی عزت دیتے… دس سال لگتے لیکن یہ ساری آسائشیں جائز طریقے سے میرا مقدر بنتیں… یوں سب کچھ گنوا کر خالی ہاتھ نہ کھڑی ہوتی میں… لیکن مجھے بڑی جلدی تھی… انسانوں کو بڑی جلدی ہوتی ہے۔”
کرم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
”سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا… تم نے سب کچھ چھوڑ دیا ہے… وہ سب کچھ جو غلط تھا جو تمہارے ابو نہیں چاہتے تھے کہ تم کرو… تم پھر پہلے کی طرح ہو چکی ہو… حلال رزق کھانے والی… برائی سے بچنے والی… عبادت کرنے والی۔” وہ اسکی بات پر روتے روتے ہنسی۔
کرم کی طرف مڑتے ہوئے اس نے اپنے کندھے سے کرم کا ہاتھ ہٹا دیا۔ وہ اب اس کے مقابل تھی۔
”یہ ایسے نہیں ہوتاجیسے تم کہہ رہے ہو… کچھ بھی پہلے جیسا کبھی نہیں ہوتا… کبھی بھی نہیں… انسان جب ہمیشہ سے گناہ گار ہو اور توبہ کرنا چاہے تو نیکی کھینچ لیتی ہے اسے اپنی طرف… بڑے آرام سے توبہ قبول ہو جاتی ہے اس کی… پھر ”درجہ” ملتا ہے اسے کوئی… دعا میں اثر آجاتا ہے اس کے… لیکن انسان اگر اچھائی سے برائی کی طرف چلا جائے اور پھر توبہ کرنا چاہے تو بڑا وقت لگتا ہے واپس آنے میں… توبہ قبول تو ہو جاتی ہے پر ”درجہ” کوئی نہیں ملتا… دعا بس دعا ہی رہتی ہے قبول ہو نہ ہو… اثر نہیں رہتا اس میں۔” وہ بے حد عجیب سے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
”سارا سفر شروع کرنا پڑتا ہے… زیرو سے۔”
”کس نے کہا تم سے یہ سب کچھ؟” کرم حیران تھا۔
”ابو کہتے تھے… تب مجھے سمجھ نہیں آتی تھی… میں تمہیں ابو کی تصویر دکھاؤں؟”
کرم نے سر ہلا دیا ۔ وہ اپنی آنکھیں رگڑتی ہوئی اندر چلی گئی۔ کرم کو وہ اس وقت اسے ایک ننھی بچی لگی تھی جو ہر ایک کو اپنے ماں باپ کی تصویر دکھا کر خوش ہوتی اسے کئی سال پہلے دبئی کے اس ہوٹل کی وہ رات یاد آئی تھی جب اس نے زینی کو پہلی بار دیکھا تھا… اپنے جس جنون اور وحشت کی داستان وہ اسے آج سنا رہی تھی وہ مدتوں پہلے اسے دیکھ چکا تھا… تب سمجھ نہیں سکا تھا… آج سمجھ رہا تھا… وہ بیڈ روم سے نکل آئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فریمڈ تصویر تھی اور ایک چھوٹی البم۔
فریمڈ تصویر ایک ادھیڑ عمر آدمی کی تھی… خوش شکل باریش مرد کی… جس کے چہرے میں زینی کی مشابہت دیکھنا بے حد آسان تھا… اس نے زینی سے اس کے باپ کے بارے میں اتنا سب کچھ نہ بھی سنا ہوتا تب بھی اس آدمی کے چہرے پر ایک نظر ڈال کر اس کی آنکھوں میں جھلکتی اچھائی اور سچائی کو دیکھنا مشکل نہیں تھا۔
وہ اب متورم آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ اسے بڑے اشتیاق سے اپنے بہن بھائیوں اور ماں کی تصویر دکھا رہی تھی… اس کی اور ان کی بچپن کی تصویریں… ہر تصویر میں وہ اسے اپنے باپ کے ساتھ ہی نظر آئی تھی… انگلی پکڑے ہوئے، گود میں بیٹھی ہوئی… ٹانگوں سے لپٹی ہوئی گود میں اٹھائی ہوئی۔
”یہ بھائی ہے میرا اکلوتا… سلمان… اور اس کی بیوی سدرہ… یہ اس کا بیٹا دانش۔۔۔۔” وہ اسے باری باری ہر ایک تصویر دکھاتے ہوئے ان کو متعارف کروا رہی تھی… ان تصویروں کو دیکھتے ہوئے کرم ایک عجیب سے خالی پن کا شکار ہونے لگا تھا… ایک عجیب سے احساس کمتری نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا… آخر اس کے پاس کون سے ایسے رشتے تھے جنہیں وہ اتنی محبت کے ساتھ اسے یا کسی کو دکھا سکتا… زینی کے پاس ان رشتوں کے حوالے سے یادیں تھیں اس کے پاس کیا تھا۔
”کیا سوچ رہے ہو؟” وہ کوئی تصویر دیکھتے دیکھتے رک گیا تھا زینی نے اسے ٹوکا۔ وہ چونک گیا۔
”کچھ نہیں” کرم نے البم بند کر دی۔
”تم بہت خوش قسمت ہو کم از کم تمہارے کسی خونی رشتے نے تمہیں exploit نہیں کیا۔”
وہ کرم کا چہرہ دیکھنے لگی ۔
”اتنا شک کیوں کرتے ہو تم اپنے بہن بھائیوں پر؟” اس نے بے حد سنجیدگی سے کرم سے پوچھا۔
”شک؟” وہ تلخی سے ہنسا۔
”کاش مجھے شک ہوتا… یقین نہ ہوتا… تمہیں پتہ ہے میرا کینسر بہت ابتدائی سٹیج پر diagnose ہوا تھا… لیکن میرے بہن بھائیوں نے میری ماں سے یہ کہا کہ آپریشن سے پہلے مجھے وصیت لکھ دینی چاہیے… کیونکہ زندگی اور موت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا… کل کو ایسا نہ ہو کہ میری جائیداد کی وجہ سے ان کے درمیان جھگڑے ہونے لگیں… اور تم مجھ سے یہ کہہ رہی ہو کہ میں شک کیوں کرتا ہوں۔” اس نے سر جھٹکا۔
”میں نے واقعی وصیت لکھ دی لیکن وصیت میں سب کچھ ان کے نام لکھنے کی بجائے میں نے اس کا تین چوتھائی حصہ مختلف charities کے نام کر دیا… تمہیں اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ کتنا ہنگامہ کیا ان سب نے اس پر… ابھی بھی انہیں اپنے حصے میں جو ملے گا وہ کروڑوں میں ہو گا اس کے باوجود وہ خوش نہیں ہیں مجھ سے… کوئی ایک بھی نہیں مجھے یقین ہے میرے مرنے کے بعد یہ لوگ میری جائیداد charities سے بچانے کے لیے کورٹ میں جا کر ایک آخری کوشش ضرور کریں گے۔”
وہ بہت دیر چپ بیٹھی رہی پھر اس نے کہا۔ ”بعض دفعہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔”
”ہاں… بعض دفعہ ہو جاتی ہے… لیکن ہر بار نہیں… انہیں میری ذات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے صرف اس دولت میں دلچسپی ہے جو میرے پاس ہے انہیں کرم علی صرف تب یاد آتا ہے جب انہیں کوئی ضرورت یاد آتی ہے۔”
”تم اتنے دولت مند ہو کرم… کیا فرق پڑتاہے ان کے چھوٹے موٹے مطالبے پورے کر دینے سے۔” زینی نے کہا کرم نے اپنے کوٹ کی جیب پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”فرق یہاں نہیں پڑتا۔۔۔۔” اس نے اب اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھ دیا۔
”یہاں پڑتا ہے۔” اس کی آنکھوں میں رنج تھا۔




Loading

Read Previous

من و سلویٰ — قسط نمبر ۹

Read Next

لباس — حریم الیاس

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!